Auliya abe rawaan ki tarah hain

Alehsan Media
0
اولیا؛ آبِ رواں کی طرح ہیں
ایک مرتبہ حضور داعی اسلام مدظلہ العالی کی بارگاہ میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی،آپ شیطانی وسوسوںپر گفتگو فرمارہے تھے،دورانِ کلام آپ کاارشاد ہوا:شیطان؛اولیاء اللہ کوبھی بہکانے کی کوشش کرتاہے لیکن چوںکہ وہ آبِ رواں کی طرح ہوتے ہیں،جو خود بھی پاک ہوتا ہے اوردوسروں کو بھی پاک کرنے والا ہوتا ہے،اس لیے اس کے بہکانےکے باوجود اُن کاباطن پراگندہ نہیں ہوتا۔اِن اولیاء اللہ کے لیے شیطان کی کوشش ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بےوقوف نہر یادریامیں پیشاب کرکے یہ سوچے کہ میں نے نہریادریاکو ناپاک کردیا۔جس طرح نہریادریامیں کسی شخص کے پیشاب کرنے سے اس کی طہارت میں کوئی فرق نہیں پڑتا،اسی طرح شیطان کے بہکانےسے مخلصین بندوں کا قلب پراگندہ نہیں ہوتا۔
اولیا؛آبِ رواں کی طرح ہیں،اس کا ایک معنی یہ ہے کہ جس طرح نجس پانی کواگر آبِ رواں میں ڈال دیاجائے تو اُس میں ملنے کے بعداُس کے اندربھی پاک کرنے کی صلاحیت پیداہوجاتی ہے ، اسی طرح وہ حضرات جن کا رنگ یعنی حسنِ عمل، مزہ یعنی حسنِ خلق اوربو یعنی حسنِ عقیدہ میں سے کوئی ایک بدل گیاہو، اگروہ اولیاءاللہ کی بافیض صحبت اختیارکرلیں تو اُن کی برکت سے اُن کے اندرپایاجانے والاعیب دور ہوجائے گابلکہ آہستہ آہستہ وہ بھی دوسروںکو پاک کرنے والےہوجائیںگے اوراُن سے دین سیکھنا اوراُن کی صحبت میں بیٹھنادرست ہوجائے گا۔
اولیا؛آبِ رواںکی طرح ہیں،اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ مشائخ جو صاحبِ ارشادہوتے ہیں،اگرچہ وہ ہمیشہ مخلوق کے درمیان رہتے ہیں،اُن سےنہ جانے کیسے کیسے گنہ گار ملتے ہیں،لیکن وہ سب کو گلے لگاتے ہیں اوراُن کو گناہوںسے پاک کرتے ہیں،ان سب کے باوجود اُن کا باطن پراگندہ نہیںہوتااورمخلوق کی قلبی نجاستوںکااثر اُن پر نہیں ہوتا،جب کہ عام لوگ اگر ایسے لوگوں کے ساتھ رہیںتواُن کا قلب گندہ ہوجاتا ہے اورمولیٰ سے تعلق پر اس کا گہرااثرمرتب ہوتاہے،اسی لیے جس کے نفس کاتزکیہ نہ ہواہو،اس کے لیے عام لوگوں کے ساتھ میل جول ممنوع ہے اورجن کا تزکیہ ہوچکااورخود صاحبِ ارشادبھی ہوگئے ہوں،اُن کے لیے لوگوںکے درمیان رہناضروری ہے تاکہ وہ ان کا تزکیہ کرسکیں۔
خضرِراہ، اگست ۲۰۱۴ء

Post a Comment

0Comments

اپنی رائے پیش کریں

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !