Aam: Qudrat Ka Anmol Tohfa

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Aug-2015➤ D.r. Irfan Najaf Alimi                                                    Download_Pdf 


آم:قدرت کا انمول تحفہ

آم خوش رنگ، لذیز اور رسیلا پھل ہے جو فرحت بخش ہونے کے علاوہ قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔
اس شیریں پھل میں قدرت نے بے شمار خوبیاں پوشیدہ رکھی ہیں ۔ اس پھل کی قدر و قیمت اور مقبولیت کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ آج بھی سلاطین زمانہ اپنے دوستانہ مراسم کی بقا اوراستحکام کے لیے دیگر ممالک کے سربراہان کو جوتحفہ بھیجتے ہیں وہ آم ہی ہے۔
چند سال قبل ہمارے ملک کے سابق وزیر اعظم نے بھی پڑوسی ملک پاکستان کے اپنے ہم منصب کو بطور تحفہ آم ہی بھجوایا تھا۔
اس پھل کے ذائقے نے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کو اس قدر متأثر کیا کہ انھیں کہناپڑا ’’ آم میٹھے ہو ں اور بہت سارے ہوں۔‘‘
صوفی شاعرامیر خسرو نے بھی اس پھل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے کلام میں اس کی حلاوت اور شیرینی کا ذکر فرمایا ۔
مغل حکمرانوں کو تویہ پھل اس قدر بھایا کہ اپنے دور اقتدار میں جابجا آم کے باغات لگوائے ۔
کہا جاتا ہے کہ بہار کے ضلع دربھنگہ میں ایک بڑا باغ لگوایا تھاجس میں آموں کے ایک لاکھ درخت تھے ،اُسے’’ ایک لکھا باغ‘‘ کہا جاتا تھا۔اس باغ کی نگرانی اور درختوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین اور ماہرباغبان مقرر تھے جو آم کی مختلف اقسام کی کاشت کر کے بادشاہ وقت کوپیش کرتے۔
اسی طرح ہزاری باغ میں آموں کے باغات لگوائے تھے۔ مغل حکمراں اکبرکو بذات خود آم بےحد مرغوب تھا۔ شہنشاہ جہاںگیر تو آم کی لذت سے اِس قدر متأثر تھا کہ وہ اپنی سوانح عمری’’ تزک جہانگیری‘‘ میں آم کی لذت و شیرینی کا تذکرہ کیے بغیرنہ رہ سکا۔
مشہور عرب سیاح ابن بطوطہ اور آئین اکبری کے مصنف ابوا لفضل نے بھی اس پھل کے ذائقے کی بے حد تعریف کی ہے۔
برادران وطن کی مذہی کتابوں میں بھی اس پھل کا تذکرہ موجود ہے ۔سنسکرت کے معروف شاعر و ادیب کالی داس نے اپنی مشہور کتاب ’’ میگھ دوت‘‘ اور’’ شکنتلا‘‘ میں بھی آم کے باغات کا تذکرہ کیا ہے۔
 کہا جاتا ہے کہ گوتم بدھ جب امرپالی کی کٹیاپر پہنچےتوان کو سب سے پہلے آم ہی پیش کیا گیا تھا۔
سکندر غالباً پہلا غیر ملکی شخض تھاجس نے آم کو دیکھا تھا اور وطن عزیز پر حملے کے دوران آموں کے کنج میں فروکش ہوا تھا اور آموں کی لذت کا اسیربھی ۔ غرض کہ آم وہ واحد پھل ہے جس نے غربا و امرا دونوں طبقے کو متأثر کیا اورسبھی اس پھل کی مسحورکن خوشبو، دلنواز رنگت اور بے پناہ لذت سے متأثر ہوے بغیر نہ رہ سکے۔
برصغیر کو اس پھل کا آبائی وطن کہا جاتا ہے ۔ فرانسیسی مورخ ڈی کنڈو کے مطابق اس پھل کی کاشت کا سلسلہ بر صغیر میں ۴ ؍ہزار سال قبل شروع ہوامگر ہندئوں کی متبرک کتاب ’’رگ وید‘‘ میں اس کا تذکرہ موجود نہیں، البتہ! بعد کے عہد کے شاعروال میکی اور کالی داس نے اپنی کتاب’’ رامائن‘‘ اور ’’شکنتلا‘‘ میں آم کا تذکرہ ضرور کیا ہے۔
تاریخی قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آم کا وجود ۲؍ ہزار سال قبل مسیح ہے۔ آم کی متعدد اقسام ہیں ،تاہم بناوٹ، حجم اور ذائقے کے اعتبار سے اس کی دوقسمیں عام ہیں:

۱۔ تخمی
 ۲۔ قلمی ۔

 تخمی آم وہ کہلا تا ہے جس کی گٹھلی بیج کی طرح زمین میں بوئی جاتی ہے اور قلمی آم کی قلم لگائی جاتی ہے۔ تخمی آم کو دیسی بھی کہا جاتا ہے۔ تخمی آم کا پیڑ جسامت میں بڑا اور پھل بھی خوب دیتا ہے ۔ قلمی آم کا پیڑ تخمی کے مقابلے چھوٹا اورکم پھل دیتاہے۔ تخمی آم کا گود ا پتلا اور ذائقہ قدرے ترش ہوتا ہے۔ اسے چو س کر کھایا جاتا ہے اور قلمی آم کاٹ کر کھایا جاتا ہے ۔ قلمی آم کا گودا گاڑھا ہوتا ہے ۔ پکا ہوا رسیلا شیریں آم گرم خشک اور کیری سر دوخشک مزاج رکھتی ہے۔
آم غذائیت سے بھرپور پھل ہے۔ اس کی رنگت سے آنکھوں کو تقویت ملتی ہے، خوشبو سے مسام جاں معطر ہوتی ہے، دماغ کو ترو تازگی ملتی ہے اور ذائقے سے لذت کام و دہن کی تسکین ہوتی ہے۔ آم میں حیاتین الف، ب اور ج پائے جاتےہیں۔ اس کے علاوہ کیلشیم ، چکنائی، فولاد، معدنی نمکیات، پروٹین، کاربو ہائیڈریٹ کی بھی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ آم گوشت بنانے والے شکری نشاشتے دار روغنی اجزا سے مالامال ہونے کے علاوہ فاسفورس ، کیری ٹین ، پوٹاشیم اور گلوکوز اپنے اندر سموے ہوے ہے۔آم صالح خون پیدا کرتا ہے۔ معدہ اور آنتوں کو تقویت دیتا ہے۔ گردہ اور مثانے کے فعل کو بہتر کرتا ہے، قبض سے نجات دلاتا ہے۔ بھوک میں اضافہ کرتا ہے ،دل کی دھڑکن کو معمول پر رکھتا ہے۔ بے خوابی کی شکایت کو دور کرتا ہے۔ قوت باہ کے لیے مفید اور پرانے اسہال و بواسیر میں نفع بخش ہے۔ یرقان میں مفید او رمؤثر ہے ۔اس کے استعمال سے رنگت میں نکھار آتا ہے۔ پیشاب آور ہونے کے سبب جسم کے فاسد مادوں کا اخراج کرتا ہے۔ دل، دماغ ، جگر، پٹھوں، ہڈیوں اور پھیپھڑوں کو طاقت دیتا ہے۔ اس میں نشاشتے دار اجزا کی موجودگی جسم کو موٹا اور وزن میں اضافہ کرتی ہے۔ آنتوں کے امراض میں نفع بخش ہے۔آم بلغم کو پتلا کرکے آسانی سے خارج کر نے میں معاون ہے ،اس لیے کھانسی اور دمہ کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔ بچوں کے لیے تویہ پھل کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ یہ بچوں کے نشو ونما میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے اور کمزور ولاغر بچوں کے لیے بہترین ٹانک ۔ تخمی آم کا رس پتلا ہونے کے سبب قلمی آم کے مقابلے زود ہضم ہے۔ قبض کشا ہونے کی وجہ سے اس کے کھانے سے اجابت صاف ہوتی ہے۔ آم کھانے سے اگر پیٹ میں نفخ پیدا ہو تو چند جامن کھالینے سے اصلاح ہو جاتی ہے۔ ماہرین نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ یہ پھل کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف زبردست قوت مدافعت پیدا کرتا ہے، کیوںکہ آم میں’ ’ فینولر‘‘ موجود ہوتے ہیںجن کی موجودگی کینسرسے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق آم میں موجود حیاتین الف جلد کو داغ دھبوں سے نجات دلاتا ہے اور بیٹا کیروٹین کی موجودگی کی وجہ سے بینائی تیز ہوتی ہے۔ اس کا مستقل استعمال جلد کو صاف اور چمکداربنانے کے علاوہ جھریوں سے بھی نجات دلاتا ہے۔کچا آم (کیری) بھی اپنے اندر بے شمار غذائی وطبی فوائد رکھتا ہے اور مختلف امراض میں نافع ہے۔ اس کے استعمال سے بھوک میں اضافہ ہوتا ہے، صفرا کو کم کرتا ہے، اسکروی مرض کو دور کرتا ہے۔ کیری پر نمک لگا کر کھانے سے پیاس کی شدت کم ہوتی ہے۔ لولگ جانے پر کچے آم کا رس پینابے حد فائد ہ مند ہوتا ہے۔ کچے آم میں حیاتین ج کی موجودگی خون کی نالیوں کو لچکدار بناتی ہے ۔ کچا آم غذا میں موجود فولاد کو جسم میں جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جریان خون کو روکتا ہے اور آنتوں کے زخم کو مندمل کرنے میں بطور اینٹی سیپٹک کام کرتا ہے۔ رتوندھی میں ا س کا استعمال فائدہ مند ہے،کیوںکہ یہ مرض حیاتین الف کی کمی سے لاحق ہوتا ہے اور کچے آم میں حیاتین الف کی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔ کچا آم گرمی کے دنوں میں لو کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ کچا آم جگر کو بھی صحت مند بناتا ہے۔ کچے آم کو آگ پر بھون کر اس کا گودا شکراور پانی ملاکرشربت تیار کیا جاتا ہے جس کے استعمال سے لولگنے پر راحت ملتی ہے۔ اس کے گودے کو خشک کر کے آمچور بنایا جاتا ہے۔
صرف آم کا پھل ہی ہماری صحت کے لیے فائدے مند نہیں ہیں بلکہ اس کے درخت کے مختلف اجزابھی ہمارے لیے کارآمد ہیں۔ آم کے درخت کی لکڑی سے جہاں مختلف سامان بنائے جاتے ہیں وہیںاس کی چھال بھی ہمارے لیے فائد ے مند ہے، کیوںکہ اس کی چھال میں ایسا مادہ پایا جاتا ہے جو چمڑے کی دباغت میں استعمال کیا جاتا ہے،نیز اس کی چھال سے سوت اور ریشم بھی نکالے جاتے ہیں۔ اس کے درخت کے پتے، پھول ، گوند اور تخم بھی دواکے طورپر مستعمل ہیں۔
آم کے درخت کے پتے جو خشک ہو کراز خود گر جائیں اس کا سفوفً ذیابیطس کے مریضوں کے لیے فائدے مند ہوتا ہے۔ پتوں کے جو شاندے سے غرارہ کرنے پرگلے کی خراش سے راحت ملتی ہے۔ اس کی شاخوں سے مسواک کرنے سے منھ کی بدبو ختم ہو جاتی ہے ۔دانت خوبصورت اور چمکدار ہوتے ہیں۔ آم کے درخت میں نکلنے والے پھول بھی سیلان رحم اور جریان میں مفید ہے۔ کچے آم کا اچار بنایا جاتا ہے جو بہت ہی ذائقے دار ہوتا ہے۔ اسی کی میٹھی چٹنی بھی بنائی جاتی ہے جو کافی دنوں تک خراب نہیں ہوتی ۔ کچا آم ، پودینہ اور نمک ملا کر چٹنی بنائی جاتی ہے جس کا اپناالگ ذائقہ ہوتا ہے۔ آم کی جیلی بھی بنائی جاتی ہے جس کو بچے، جوان اور بوڑھے سبھی شوق سے کھاتے ہیں۔ آم ، دودھ شکر اور برف ملاکر ملک شیک بنایا جاتا ہے جس کے پینے سے فرحت و تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ آم کے پرانے اچار کا تیل گنج پرلگانے سے افاقہ ہوتا ہے۔ آم سے ہی اماوٹ بنایا جاتا ہے جو عموماً خواتین کو مرغوب ہوتا ہے۔آم کی گٹھلی کی گری قابض ہوتی ہے۔ اس میں گیلک ایسڈ و افرمقدار میں ہوتا ہے ،اس لیے پرانے پیچش، اسہال، سیلان رحم ، بواسیر و غیرہ میں نفع بخش ہے۔ حاملہ خواتین میں اسہال روکنے کے لیے اسے تل کر دیا جاتاہے۔ نکسیر میں گری کارس ناک میں ٹپکانے سے فائدہ ہوتا ہے۔
آم ایک ایسا پھل ہے جس کے کھانے کے کچھ آداب ہیں، مثلاً جب تک بارش نہ ہو جائے آم کھانا مناسب نہیں۔ آم جب کھانا ہو تو چند گھنٹے قبل اسے پانی میں بھگو دیں۔ خالی پیٹ آم کھانے سے پرہیز کریں۔ آم کھانے کے بعد ایک گلاس دودھ پینے سے نہ صرف خون کی کمی دور ہوتی ہے بلکہ قوت باہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ نحیف ولا غر انسانوں کے لیے آم بہترین ٹانک ہے۔ آم کے فوائد کو دیکھتے ہوئے ہی یہ کہا جاتا ہے کہ’’ آم کے آم گٹھلیوں کے بھی دام‘‘

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں