خانقاہ عالیہ رشیدیہ،جون پور-تاریخ اورکارنامے


آج سے تقریباًسات سوسال پہلے سلطان فخرالدین محمد تغلق عرف جوناشاہ نے دریاے گومتی کے کنارے ہموار زمین پر ایک شہر قائم کرنے کا ارادہ کیاتھامگر ارادہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا کہ ۲۰؍ سال تک ہندوستان کی بادشاہت کی ذمہ داری اداکرکے ۷۵۲ھ میں وہ اس دنیاسے رخصت ہو گیا- اس کے بعد اس کا چچازاد بھائی سلطان فیروز شاہ تخت نشیں ہوا اور ۷۷۲ھ میں جب وہ ملک بنگال کی بغاوت وسرکشی کو مٹاکر واپسی میں قصبہ مظفرآباد متصل جون پور خیمہ زن ہواتو بادشاہ کی نگاہ جانب مغرب لب دریاے گومتی ایک ہموار زمین پرپڑی، چاہاکہ یہاں شہر آباد کرے، اسی شب بادشاہ نے ملک جوناکو خواب میں دیکھا کہ وہ خواہش ظاہر کرتاہے کہ یہ شہر میرے نام سے موسوم ہو-صبح کو سوار ہوکر موقع کے معائنے کے بعد ایک بلند مقام تجویز کرکے قلعہ بنانے اور اس کے اطراف میں شہر جون پور بسانے کاحکم دیا- سخن وران شاہی نے شہر جون پور کے لفظ سے تاریخ بنانکالی- اس میں بادشاہ نے ہر فن کے اہل کمال کو نزدیک ودور سے بلاکر آبادکرایاتھا، اسی وجہ سے ایک زمانے میں یہ شہر سلاطین شرقیہ کا دارالسلطنت بن گیا جن کی وجہ سے اس شہر کی دن دونی رات چوگنی ترقی ہوتی گئی- علماے عظام اور صوفیۂ کرام کثرت سے یہاں پیداہوئے، جن کے ذکر سے تاریخ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں -سردست اس وقت اسی قدیم تاریخی شہر کے ایک قدیم روحانی مرکز، خانقاہ رشیدیہ کی تاریخ اور اس کی دعوتی وعلمی خدمات پر روشنی ڈالی جارہی ہے -
 بانی سلسلہ شیخ محمد رشید کا خاندانی پس منظر 
آپ کے آباواجداد میں ایک سے بڑھ کر ایک اولو العزم اولیاوعلماگزرے ہیں -آپ کے اجداد میں بارہویں پشت میں شیخ یخشیٰ رومی کا نام آتاہے، جنہوں نے اس خاندان میں ولایت کا جھنڈاگاڑا،جن کے بعد اس خاندان میں برابر اہل علم وعرفان پیداہوتے رہے -حضرت شیخ یخشیٰ رومی کے اجداد عرب سے آکر ملک روم میں کلد نامی مقام کو جاے سکونت بنایا- اسی وجہ سے آپ رومی کہے جاتے ہیں- روم میں تین پشت گزرنے کے بعد چوتھی پشت میں شیخ یخشیٰ رومی نے روم سے دہلی کا سفر کیا- اس وقت دہلی میں سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاکا سورج نصف النہار پر تھا-آپ سلطان المشائخ کے مرید ہوئے اور بارہ بنکی میں امیٹھی پرگنہ میں قیام پذیر ہوئے- سلطان المشائخ کے وصال کے بعدروحانی نعمتیں آپ نے شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی سے حاصل کیں-شیخ یخشیٰ رومی کے بعد دسویں پشت میں شیخ عبد الحمید نامی ایک بزرگ ہوئے جو حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کے مرید، خلیفہ(۱) اور بانی خانقاہ رشیدیہ، شیخ محمد رشید کے حقیقی داداتھے- آپ کے دولڑکے ہوئے؛ مصطفی اور عثمان- ان دونوں بزرگوں کی آخری آرام گاہ پورنیہ بہار میں ہے - شیخ عثمان کی اولاد امیٹھی میں بسی ہوئی ہے اور شیخ مصطفی نے شیخ محمد رشید جیسا متبحر عالم اور عارف باللہ فرزند پایاجس نے اپنے علم وعرفان سے ایک جہاں کوروشن کردیا-
(سمات الاخیار، ص:۳۲تا۳۴ملخصاً)
 بانی سلسلۂ رشیدیہ کا نسبی شجرہ
شیخ محمد رشیدبن شیخ مصطفی جمال الحق بن شیخ عبد الحمیدبن شیخ راجوبن شیخ سعدی بن شیخ عارف بن شیخ عبدالواسع بن شیخ منجھلے بن شیخ بڑے بن شیخ عبدالملک بن شیخ مٹھن بن شیخ نصیر الدین بن حضرت مخدوم شیخ یخشیٰ رومی بن سلطان تول بن شیخ حسام الدین بن شیخ سلطان نظام الدین بن سلطان شہاب الدین بن شیخ عبدالمنان بن شیخ عبدالسبوح بن حضرت شیخ سری سقطی بن حضرت شیخ مفلس سقطی بن شیخ ابان بن امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم-
(سمات الاخیار،ص:۶۱)
ولادت ، تعلیم وتربیت اور اجازت وخلافت
 بانی سلسلۂ رشیدیہ شیخ محمد رشید (۲)نے اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگ زیب عالم گیر چار بادشاہوں کا دور دیکھا- آپ کی پیدائش عہد اکبری میں ۱۰۰۰ھ میں ہوئی اور جب آپ چودہ سال کے ہوئے تو جہاں گیر تخت نشین ہوا اور جب آپ کی عمر ۲۷؍سال کو پہنچی تو شاہ جہاں نے تخت شاہی کو سنبھالا اور جب ۶۸؍سا ل آپ کی عمر کا گزرگیا تو اورنگ زیب عالم گیر بادشاہ ہوا-اس کی تخت نشینی کے پندرہویں یا سولہویں سال آپ نے ۸۳؍سال کی عمر پاکر ۱۰۸۳ھ میں اس دار فانی کو خیر باد کہہ دیا- (سمات الاخیار، ص: ۴۳ ملخصاً)
آپ ذی قعدہ ۱۰۰۰ھ میں ضلع جون پور کے برونہ موضع میں پیداہوئے اور وہیں نشوو نما پائی- جون پور کے ایک بزرگ شیخ عبد العزیز جون پوری ثم دہلوی نے فرمایا تھا کہ میرے بعد ایک فقیر پیدا ہوگا جس کا نام محمد رشید ہوگا- ان کے علاوہ ایک اور بزرگ شیخ عبد الجلیل لکھنوی جو آپ کے بچپن میں برونہ میں تشریف لاتے تھے، آپ کو دیکھ کر فرمایا تھاکہ یہ لڑکا عالم، عامل اور عارف کامل ہوگا-(سمات الاخیار، ص: ۶۲ ملخصاً) 
 شیخ محمد رشید کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، متوسطات کی تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم بھی آپ نے اپنے حقیقی ماموں مولانا شمس الدین اوراستاذ العلماشیخ محمد افضل جون پوری سے حاصل کی- علم حدیث حاصل کرنے کی غرض سے آپ نے دہلی کا سفر کیا- شیخ عبد الحق محدث دہلوی سے علم حدیث حاصل کرناچاہتے تھے مگر شیخ نے پیرانہ سالی کی وجہ سے فرمایاکہ تم میری موجودگی میں میرے لڑکے سے علم حدیث حاصل کرو ،اس طرح شیخ محمد رشید نے شیخ نورالحق ابن شیخ عبد الحق محدث دہلوی سے علم حدیث اور اس کی سندیں حاصل کیں -(سمات الاخیار، صـ: ۶۳؍۶۴ ملخصاً)
 شیخ محمد رشید کی عمر جب نوسال کی ہوئی تو آپ اپنے والد گرامی شیخ مصطفی جمال الحق سے سلسلۂ چشتیہ میں مرید ہوئے اور کلاہ ارادت وخرقہ خلافت آپ کو آپ کے والد نے پہنادیا- اگرچہ کم سنی کی وجہ سے والد کی حیات میں طریقۂ صوفیہ کی تحصیل کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے لیکن خرقہ نے دل میں ایک جذبہ تو پیداکرہی دیاتھا-اس کے بعد ایک مدت تک تحصیل علوم میں مصروف رہے اور فراغت کے بعد درس وتدریس کی طرف مائل ہوگئے مگر تصوف کا ذوق ضرور تھا اورکسی مرشد کامل کی تلاش بھی تھی- اسی زمانے میں حضرت قدوۃ السالکین مخدوم شیخ طیب بنارسی جون پور میں تشریف لاتے تھے -آپ نے حضرت مخدوم سے ملاقات کی مگر اس مرتبہ دل مائل نہیں ہوا- کچھ دنوں کے بعدایک تقریب میں آپ منڈواڈیہ بنارس تشریف لے گئے اور حضرت مخدوم سے ملے- بمقتضاے کل امرمرھون باوقاتھا اس باردل میں ایک محبت پیداہوگئی اور کچھ دنوں مخدوم کی خدمت میں رہ گئے اوراتنے دنوں میں سلوک کا ذوق وشوق ایساپیداہواکہ آپ نے درس و تدریس کا مشغلہ ترک کرکے خدمت میں رہناچاہا-حضرت مخدوم نے اس بات کو پسندنہ کرکے فرمایا کہ تم وظیفۂ صبح کے بدلے طلبہ کوسبق پڑھایاکروکہ یہ بھی عبادت ہے - اس کے بعد آپ کو جون پور رخصت کردیا-
 حضرت شیخ محمد رشید تعمیل ارشاد میں برابرمصروف رہے- رفتہ رفتہ مخدوم کی محبت وعقیدت بڑھتی گئی- اس درمیان اکثرآپ منڈواڈیہ جایاکرتے تھے اوردس پانچ دن رہ کرچلے آیاکرتے تھے- ایک مرتبہ آپ رمضان شریف میں وہاں گئے اورمخدوم کے حکم سے عشرۂ آخرمیں اعتکاف کیا- اس اعتکاف میں بہت سے عجائب وغرائب آپ پر منکشف ہوئے- عین عید کے دن ایک مجمع عام میں مخدوم نے حضرات چشت کی طرف سے اپناپیراہن پہنایااورسلسلۂ چشتیہ کے اذکار اور تلقین کی اجازت دی اورجون پور رخصت فرمایا- آپ کی طبیعت، عالی اورہمت بلند واقع ہوئی تھی -نعمتوں اور فیوض کی طلب میں آپ حریص تھے مگرساتھ ہی دوسروں کو فیوض پہنچانے میں بھی سخی تھے -جس بزرگ کانام سنتے اس کے پاس جاتے- اگر اس میں اپنے سے زائد کچھ پاتے تو حاصل کرتے اور کم پاتے تو عطاکرتے- باوجودیکہ حضرت مخدوم نے آپ کو مستغنی بنا دیا تھا، مگر آپ کی بلند ہمت نے اتنے ہی پر قانع رہنے نہ دیا-آپ کبھی کبھی منڈواڈیہ پہنچتے تھے اور دوسرے سلسلوں کے اشغال حاصل کرتے تھے حتی کہ سلسلۂ قادریہ وسہروردیہ وغیرہ کی اجازت و خلافت بھی حضرت مخدوم ہی سے حاصل کیا- (سمات الاخیار،ص: ۶۶؍۶۷؍۶۸؍۶۹ ملخصاً)
  اسی طرح میر سید شمس الدین کا لپی بخاری جون پور آیاکرتے تھے- ایک روز شیخ محمد رشید جب درس وتدریس میں مشغول تھے، میر صاحب آپ کے قریب تشریف لائے اور متوجہ کرتے ہوئے فرمایاکہ خداتعالیٰ نے مجھ کو روحانی نعمت تمہارے حوالے کرنے کو بھیجاہے ،لو خدانے مفت دیا ہے اور آپ نے سلسلۂ قادریہ کی خلافت عطافرمائی -حضر ت شیخ محمد رشید کو جب اشغال قلندریہ کے اخذ کا شوق ہواتوآپ شیخ عبد القدوس قلندر جون پوری کی خدمت میں جانے لگے اور ایک سال کامل حاضری دی- اس مدت میں نہ کبھی شیخ نے پوچھاکہ کیوں آتے ہو،نہ آپ نے ظاہر کیا کہ اس لیے آتاہوں- سال بھرکے بعد ایک مرتبہ شیخ نے فرمایاکہ اچھاآدھی رات کے بعد آیاکرو- آپ بہت خوب کہہ کر واپس آئے اور یہ نہ کہاکہ آدھی رات سے پہلے ہی پل کا پھاٹک بند ہو جاتا ہے - اولاً تیرنے کافن سیکھا اور شب کو تیرکر اس پار جاتے ،اور علم قلندریہ سیکھتے- چند روز میں آپ نے فراغت واجازت حاصل کی- بعدہٗ سلسلۂ مداریہ وفردوسیہ بھی آپ سے حاصل کیا- اس کے بعد شیخ عبد القدوس قلندر کے پاس جب کوئی طالب آتاتو یہی فرماتے کہ اب میں ضعیف ہوا،میاں محمد رشید ذکر خوب کرتے ہیں، ان کے پاس جاؤ- ( سمات الاخیا ر،ص:۷۱؍۷۳ ملخصاً)
 شیخ محمد رشید کو جب یہ شوق پیداہواکہ وہ سلسلۂ چشتیہ وقادریہ حضرت شاہ حسام الحق مانک پوری کے خاندان سے بھی حاصل کرلیں تو آپ تین بزرگوں کے ساتھ مانک پور حضرت راجی سید احمد مجتبیٰ کے پاس حاضر ہوئے- اندر سے کھانا آیاجس میں شیر برنج بھی تھا- شیخ محمد رشیدنے تو ہر قسم کے کھانے کھائے اور ایک نے کچھ نہ کھایا-حضرت راجی نے جب یہ سناتو فرمایاکہ جس نے سب کچھ کھایااس نے دین ودنیاسب کچھ پایاجس نے شیر برنج کھایاوہ فقط عقبیٰ لے گیا،جس نے کچھ نہیں کھایا کچھ نہیں پایا-مختصر یہ کہ حضرت راجی بکمال عنایت وشفقت پیش آئے اور چند روز رکھ کر اپنے سلسلے کی اجازت وخلافت عطافرمائی -(سمات الاخیار ص ۷۵تا۷۷ملخصاً)
خانقاہ رشیدیہ جو ن پور کاقیام
 حضرت راجی سید احمد مجتبیٰ سے روحانی نعمتوں کو حاصل کرنے کے بعد مانک پور سے جب واپس ہوئے تو جون پور میں حضرت راجی کے حکم کے مطابق ایک خانقاہ قائم کی اور پھر رشد وہدایت کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ چل پڑا،جو آج تک جاری ہے- یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس خانقاہ کے قیام کی تاریخ کیا تھی ،مگر اندازہ لگایاجاتاہے کہ اس وقت حضرت محمد رشید بانی خانقاہ کی عمر تقریباً۴۰؍سال کی تھی ،گویا۱۰۴۰ھ کے آس پاس ہی اس خانقاہ کا قیام عمل میں آیا- اس طرح یہ معلوم ہوتا ہے کہ خانقاہ رشیدیہ تقریباًچارسوسال قدیم خانقاہ ہے جہاں سے آج بھی علم وعرفان، رشد وہدایت اور خدمت خلق کا کام اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ جاری وساری ہے اور موجودہ صاحب سجادہ حضرت مفتی عبید الرحمٰن رشیدی کی لائق تعریف قیادت میں یہ خانقاہ اور اس سے متعلق چند دیگر خانقاہیں آ ج بھی کامیابی کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف رواں دواں ہیں- صاحب سمات الاخیار تحریر فرماتے ہیں: اس کا پتہ نہیں چلتاکہ خانقاہ رشیدیہ کی بنیاد کس سال پڑی مگر میراخیال یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ آپ کے عمر کی چالیسویں سال میں خانقاہ تعمیر ہوئی ہوگی اور یہ شاہ جہاں کا زمانہ تھا جیسا کہ اوپر مذکور ہوچکاہے- اگر یہ مان لیاجائے تو تادم تحریراس کو بنے ہوئے تین سوبرس ہوتے ہیں- بہرحال حضرت شیخ محمد رشید قدس سرہ نے حضرت راجی سید مجتبیٰ سجادہ نشین خانقاہ مخدوم شیخ حسام الحق مانک پور کے حکم سے اور تمام قبائل آپ کے موضع برونہ سے چلے آئے- آپ نے خانقاہ اور مسجد تعمیر فرمائی ،کنواں کھدوایا،مسجد پہلے مسطح تھی بعد کو گنبدی بنی اور خانقاہ پہلے پوش نہ تھی اس پر چھپر پڑاتھا،چنانچہ اس نقل سے ظاہر ہے کہ حضرت قطب الاقطاب خانقاہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور پانی برس رہاتھاچھپرٹپکاتو کسی نے عرض کیا کہ چھپرخوب نہیں بناجس سے پانی رکتا،آپ نے فرمایا کہ چھپر پانی کو روکنے کے لیے نہیں بناہے بلکہ دھوپ کو روکنے کے لیے ،کیوں کہ بارش کازمانہ صرف چار مہینہ ہے، اس میں بھی اول آخر میں پانی کم برستاہے- کچھ دن، رات پانی نہیں برستا اگر حساب کیاجائے تو بارش کازمانہ کل پندرہ سولہ روزہی ہوگاپس عاقل کا کام نہیں کہ اتنے دن کے لیے گھر بنائے ،ہاں آفتاب ہمیشہ رہتاہے، گھر اس کے لیے ہونا چاہیے-
 (سمات الاخیار، ص: ۴۳ ؍۴۴ )
بانی سلسلۂ رشیدیہ کی سیرت
 شیخ محمد رشید آپ ایک متبحر عالم، عارف باللہ اور زبردست صاحب تصرف بزرگ تھے- آپ سے مدعاے دل ظاہر کرنے کی ضرورت نہ تھی- اٹھتے بیٹھتے اللہ کالفظ زبان پر جاری رکھتے- قناعت اور استغناآپ کے مزاج میں ہی داخل تھا-سلاطین اور امراکے دروازے پر جانا پسند نہ تھا- جس کام کو شروع کرتے اس کو پوراکرتے- کل کا لفظ بغیر ان شاء اللہ نہ فرماتے- تہذیب و ادب کا لحاظ رکھتے- ہرکام میں بزرگوں کی پیروی کرتے- مریدوں کو نماز اور عبادت کی تعلیم دیتے اور اس کی پابندی کا حکم فرماتے- بیمار ہوتے تو بہت کم دوالیتے اور فرماتے کہ دوا میں توکل اچھی چیز ہے اور دواکرنے کا حکم بھی ہے- سماع سے آپ کو انکارنہ تھا-آپ کسی کی غیبت نہیں سنتے تھے -اگر کوئی ناواقف غیبت کربیٹھتاتو آپ بیزار ہوتے اور اس کی کسی اچھی بات سے تاویل فرماتے- مثلا ایک مرتبہ حاجی جلال الدین نے سادات خان حاکم شہر کی شکایت کی، آپ نے فرمایاکہ میرے سامنے کوئی کسی کی بدی ظاہر کرتاہے تو مجھے اس کے جواب میں مشکل در پیش آتی ہے ،کیوں کہ خدانے بدی اور گمان بدسے منع فرمایاہے اور اس کے رسول نے حسن ظن کا حکم دیاہے- لامحالہ مجھے توجیہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے- مثلااگرکسی کو رمضان میں سر بازار کھاتے ہوئے دیکھوں تو گمان کروں گاکہ مسافر یابیمارہے کہ بھوک کے غلبے سے الگ لے جاکر کھانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے - اگر کسی کو ننگے بد ن اس طور سے نماز پڑھتا ہوا دیکھوں کہ عورت غلیظہ چھپا ہوا ہو، تو سمجھوں گا کہ مالکی المذہب ہے -اگر کسی کو دیکھوں کہ وضو کے بعد بلاتجدید وضو نماز پڑھ رہا ہے توخیال کروں گا کہ شافعی المذہب ہے- اگر کسی کوجانوں کہ اس نے شراب پی ہے، کہوں گا توبہ کرلی ہوگی- ایک مرتبہ کسی نے کہاکہ حاکم شہر ظالم اور رافضی ہے مگر نماز عید اس نے جماعت سے پڑھی تھی آپ نے فرمایا کہ جب تم نے نماز جماعت سے پڑھتے ہوئے دیکھاپھر کیوں اس کے حق میں براگمان کیا،انسان کونیکی پرنظر کرنی چاہیے نہ کہ بدی پر -(سمات الاخیار ،ص:۸۲؍۳ ۸ ملخصاً)
 اقوال زریں 
مورخین نے آپ کی سیرت پر بہت کچھ لکھاہے اور آپ کے اقوال وعادات اور اطوار کو تفصیل سے تحریر کیاہے- یہاںسب کی گنجائش تو نہیں ،ذیل میں آپ کے چند اقوال قلم بند کیے جاتے ہیں :
(۱)سالک کو چاہیے کہ وہ صف نعال میں بیٹھے تاکہ اپنے کو پستی میں دیکھ کر بلندی کی طرف ترقی کرے اور شیخ کو چاہیے کہ صدرمیں بیٹھے تاکہ نعال نشینوں کی طرف متوجہ ہواور ان کی تعلیم اور ترقی کی کوشش کرے-
 (۲)طلب کامل وہی ہے جو اپنی زبان سے کہنے کی نوبت نہ آئے اور شیخ خود اس کی عرضی کی طرف توجہ کرے -
(۳)اہل دنیا چاہتے ہیں کہ فقراکوایک دو ملاقات میں پہچان لیں ،یہ کیوں کر ہوسکتاہے کہ فقیر کو غیر فقیر پہچان لے -
(۴)کل سر جاوزالاثنین شاع اس حدیث میں اثنین سے مراد دوآدمی نہیں ہیں بلکہ دولب ہیں- معنی یہ ہوئے کہ بھید جب دولب سے گزرجاتاہے تو پھیل جاتاہے-
 (سمات الاخبار، ص:۸۸تا۹۰ ملخصاً)
 نکاح واولاد
۱۰۳۲ھ میں حضرت حاجی ارزانی فاروقی کی نیک بخت صاحب زادی سے آپ کا نکاح ہوا- اس وقت آپ کی عمر ۳۲؍سال تھی ،جن سے چار فرزند ہوئے ؛(۱)شیخ محمد حمید(۲)شیخ محمد ارشد (۳)شیخ غلام معین الدین (۴)شیخ غلام قطب الدین- ان میں سے ہر ایک علوم ظاہر وباطن سے بہرہ مند تھے -ان میں سے حضرت شیخ محمد ارشد ملقب بہ بدرالحق، جن کوہر امر میں ترجیح حاصل تھی، اکابر سلسلہ کے اتفاق سے والد کے بعدسجادہ نشیں ہوئے -(سمات الاخیار،ص:۹۳ ملخصاً)
وصال پُر ملال
آپ کو ماہ شعبان کے آخر سے بخار آناشروع ہوا اور روزبروز مرض بڑھتاگیا، طاقت گھٹتی گئی- اس کے باوجود معمولات میں کوئی فرق نہ آیا-نماز باجماعت اداکرتے-رمضان کی آٹھویں تاریخ کو ظہر کے وقت آپ نے وضوکیا، تخت پر جماعت کے ساتھ نماز اداکی ،عصر کے وقت اتنی قوت نہ رہی کہ تخت پرجاتے، ناچار تیمم کرکے پلنگ پر نماز پڑھی ،مغرب وعشابھی اسی پلنگ پر ادا کی، رات کو حالت متغیر ہوتی رہی، کرب زائد تھامگر آدھی رات کے بعد آپ نے تیمم کا ظرف طلب کیا، تیمم فرمایا، تہجد اور ذکر واذکار کیا، فجر کی نماز اداکی پھر پلنگ پر لیٹ گئے، جب لوگوں نے دیکھا تو اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے- یہ جمعہ کا دن، رمضان کی نویں تاریخ، ۱۰۸۳ھ کا سال تھا- خاص باغ میں جو اس وقت درگاہ کااحاطہ ہے، مدفون ہوئے- شیخ محمد ماہ نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور شیخ محمد ارشد و ملاّملتانی کے ساتھ قبرمیں بھی اترے -پہلے بیرکے تختے دیے گئے پھر وصیت کے مطابق ان پتھروں کاتختہ دیاگیاجن پر آپ کے طلبہ وتلامذہ کی جوتیاں اترتی تھیں -
(سمات الاخیار، ص:۹۹؍۱۰۰ ملخصاً)
 آپ کے خلفاایک نظرمیں
سمات الاخیارکے مصنف تحریر کرتے ہیں کہ یوں تو آپ کے خلفاکثرت سے ہیں مگر ۳۴؍ آدمی ایسے کامل اور جید خلیفہ تھے کہ اگر ہر ایک کا تفصیلی ذکر لکھوں تو اچھی خاصی ایک دوسری کتاب ہوجائے -طوالت کے خیال سے محض ان کی فہرست دیتاہوں :
(۱)حضرت شیخ عبد المجید قدس سرہٗ
(۲)حضرت ملاعبدالشکور منیری قدس سرہٗ
(۳)حضرت شیخ مبارک محی الدین قدس سرہٗ-
(۴)مولانانورالدین مداری جون پوری قدس سرہٗ
(۵)حضرت شیخ آیت اللہ قدس سرہٗ 
(۶)حضرت نصرت جمال ملتانی جامع گنج رشیدی قدس سرہٗ
(۷)حضرت شیخ محب اللہ قدس سرہٗ
(۸)حضرت شیخ عبد اللہ مٹھن پوری قدس سرہٗ
(۹)شیخ ہارون رشیدقدس سرہٗ ساکن پور دیوہ 
(۱۰) میر محمد صادق قدس سرہٗ جون پوری 
(۱۱)سید محی الدین قدس سرہٗ محمدآبادی 
(۱۲)حاجی شیخ جلال الدین قدس سرہٗ جون پوری 
(۱۳)ملامحمد نعیم قدس سرہٗ ساکن مدوسرائے 
(۱۴)شیخ عبد الحی قدس سرہٗ ساکن فتح پورہسوہ 
(۱۵)شیخ مرتضیٰ پسرِ شیخ عبد المجیدقدس سرھما 
(۱۶)میر سید نورقدس سرہٗ پٹنوی 
(۱۷)شیخ عبد اللہ قدس سرہٗ بنگالی 
(۱۸)شیخ عبدالواحد مشتاق قدس سرہٗ فتح پوری 
(۱۹)شیخ حبیب اللہ قدس سرہٗ بہاری 
(۲۰)میر سید سیف الدین قدس سرہٗ مدن پوری 
(۲۱)شیخ ضیاء الدین قدس سرہٗ خویشگی
(۲۲)میر سید نورقدس سرہٗ ساکن شہر پورنیہ 
(۲۳)میر محمد غوث قدس سرہٗ ساکن موضع مندول 
(۲۴)قاضی محمد مودود قدس سرہٗ جون پوری پسرِقاضی محمد حسین قاضی شہر 
(۲۵)حضرت راجی صدرالدین قدس سرہٗ خویش 
(۲۶)حضر ت راجی خضر قدس سرہٗ مانک پوری 
(۲۷)شیخ غلام محی الدین متوکل قدس سرہٗ جون پوری 
 (۲۸)شیخ محمد نصیب منیری قدس سرہٗ
(۲۹)میر سید محمد اسماعیل قدس سرہٗ سیوانی 
(۳۰)حضرت سید محمد ارشد رشید قدس سرہ ٗ 
یہ سب بزرگ اہل کمال ،عارف کامل اور ذاکر وشاغل تھے-
(سما ت الاخیار ،ص:۱۰۱تا۱۰۴)
ان کے علاوہ تین اور اولو العزم خلفا یہ ہیں:
(۳۱) حضرت میر سید قیام الدین قدس سرہ گورکھ پوری
(۳۲) حضرت میر سید محمد جعفر قدس سرہ پٹنوی
(۳۳) حضرت شیخ یٰسین قدس سرہ جھونسوی
ان میں سے بعض کا اجمالی تذکرہ آئندہ صفحات میں قلم بند کیا جائے گا-
 بانی سلسلہ رشیدیہ کی دعوتی خدمات 
سلسلہ رشیدیہ کو جاری ہوئے تقریباًچار سوسال کا طویل عرصہ گزرگیا،مگر آج بھی اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے - مخلوق خداکی خدمت اور رشدوہدایت کاکام بحسن وخوبی انجام پارہاہے -اس سلسلے کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں سجادگی میراثی نہیں ہے- پورے سلسلے میں جو اولوالعزم علماومشائخ اور صالحین ہوں گے وہ اتفاق رائے سے سلسلے کے کسی فرد کو جو اجازت اور خلافت یافتہ ہوگااس کو سجادگی کے لیے منتخب کرتے ہیں -یہ طریقہ منہاج نبوت و خلفاے راشدین کے طریقے کے مطابق ہے -دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ جو اس سلسلہ کا سجادہ ہوگااس کے ذمے اس سلسلے کی فقط ایک خانقاہ کی ذمہ داری نہ ہوگی بلکہ اس کی چند خانقاہوں کی مکمل ذمہ داری اداکرنااس کا دینی اورروحانی فریضہ قرارپاتاہے- بڑی خوبی کی بات یہ ہے کہ اگرکوئی سجادہ خانقاہی فرائض اور دینی اور روحانی ذمہ داریوں اور خدمت خلق سے لاتعلقی کا ثبوت دیتاہے، تو اس سلسلے کے اصحاب حل وعقدنے جس طرح ان کو منتخب کیا تھااسی طرح ان کو معزول بھی کر سکتے ہیں اور کسی دوسرے کو اس عہدے کے لیے منتخب کرنے کاحق بھی رکھتے ہیں-آ ج جب کہ ہم زمانۂ نبوت سے چودہ سوسال دور ہوچکے ہیں، یہ خانقاہ اپنی مثال آپ ہے -دوسری تمام خانقاہوں کو اس سے سبق لیناچاہیے -
 بانی سلسلہ شیخ محمد رشید قدس سرہ نے آج سے چار سوسال پہلے اللہ ورسول ﷺ کی رضاکے مطابق دعوت وتبلیغ اور علم وعرفان کا جو نظام قائم کیاتھاوہ آج بھی قائم ہے اور آپ کے خلفااور سلسلے کے افراد اپنے اسلاف کے طریقے کے مطابق دعوت وتبلیغ، رشد وہدایت کا فریضہ انجام دینے میں مصروف ہیں -بانی سلسلہ نے جو دعوتی نظام برپاکیاتھاوہ اپنی پوری تابانی کے ساتھ آج بھی جاری ہے اور اس سلسلے کی مختلف خانقاہیں خدمت خلق میں آج بھی مصروف ہیں- ان خانقاہوں کے ذریعے مخلوق خداکی علمی اور روحانی سیرابی کاسامان آج بھی فراہم کیاجارہاہے- بانی سلسلہ کے خلفااور پھر ان کے خلفاکا جوایک لمباسلسلہ چلااور چل رہاہے ،ان تمام کا سہرابانی سلسلہ شیخ محمد رشید قدس سرہ کے سرجاتاہے -
 بانی سلسلہ رشیدیہ کی علمی خدمات
آپ کی ذات علمی دنیامیں نہ کل محتاج تعارف تھی اور نہ آج ہے- آپ اپنے دورکے بڑے بڑے عالموں اور محققین پر سبقت لے گئے- آپ کے ہم عصر علماومشائخ نے جہاں آپ کی روحانی حیثیت کو تسلیم کیاوہیں آپ کی علمی قدروقیمت کو بھی سراہاہے -(۳)آپ کے اساتذہ نے بھی آپ پر فخر کیاہے -صاحب شمس بازغہ ملامحمود جون پوری جیسے عالم آپ کے ہم سبق ساتھی تھے- ملا موہن بہاری آپ کے مداحوں میں شامل ہیں- آپ اپنے اساتذہ کا حد سے زیادہ احترام کرتے تھے ،بلکہ ان کے گھر کے درودیوار کا احترام بھی ضروری خیال کرتے تھے -آپ ہمیشہ طالبان علوم نبویہ کو درس دیاکرتے تھے اوران کی قدرکیاکرتے تھے ،حتی کہ آپ نے وصال کے وقت وصیت کی تھی کہ جس پتھر پہ طلبہ کی جوتیاں اترتی ہیں میری قبر میں اسی کا تختہ دیاجائے- 
(سمات الاخبار، ص:۶۵ملخصاً)
 ایک روز آپ حسب معمول استاذ العلماشیخ محمد افضل کی خدمت میں تشریف لے گئے، وہ علم مناظرہ کی کتاب شریفیہ کسی کو پڑھارہے تھے، آپ کی طرف دیکھ کر فرمایاکہ متن خوب ہے اگر کوئی اس کی شرح لکھے تواچھی ہوگی- دوسرے ہفتے میں جب آپ ملنے گئے تو شریفیہ کی شرح رشیدیہ لکھ کر لیے گئے- استاذ العلمانے دیکھ کر بہت پسندفرمایا- یہ شرح ایسی جامع ومانع اور سلیس واقع ہوئی ہے کہ فن مناظرہ میں رشیدیہ کے سوااورکچھ پڑھنے کی حاجت نہیں ہوتی -(سمات الاخبار، ص:۶۵)
 جس طرح آپ کی تصانیف کی کثرت ہے، اس سے کئی گنازیادہ آپ کے جید تلامذہ کی تعداد ہے -آپ کے تلامذہ میں سے اکثرنے آپ ہی سے طریقت میں بھی اجازت وخلافت حاصل کی یاکم ازکم آپ کے مرید ہوئے -
 تصانیف
صاحب سمات الاخیارلکھتے ہیں کہ آپ کی تصانیف بہت ہیں، چند کتابیں جو خانقاہ میں موجود ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں:
(۱)رشیدیہ:یہ شریفیہ کی شرح ہے ،فن مناظرہ کی مشہور کتاب ہے ،یہ کتاب چھپ گئی ہے اور درس میں داخل ہے -
(۲)تذکرۃ النحو:نحوکے مسائل میں چند ورقوں کا رسالہ ہے جس کو آپ نے اپنے صاحب زادے حضرت شیخ محمد ارشد کے کے لیے لکھاتھا-اس کی ابتدامیں اعلم ارشدک اللہ تعالیٰلکھاہے- اب خلاصۃ النحو کے سے نام مشہور ہے اور نحومیر کے آخرمیں طبع ہے -
(۳)زاد السالکین:یہ رسالہ تصوف سے متعلق ہے، جس کو آپ نے اپنے پہلے مرید حضرت شیخ عبد المجید کے لیے تحریر فرمایاہے -
(۴)مقصودالطالبین:یہ کتاب بھی تصوف میں ہے -اس میں معارف اور حقائق کی باتیں مرقوم ہیں- حضرت نصرت جمال ملتانی کے لیے لکھی گئی تھی-
(۵)ترجمہ معینیہ:یہ رسالہ تذکرۃالنحو کی شرح ہے- حضرت شیخ غلام معین الدین کے پڑھنے کے لیے تحریر فرمایاتھا-
(۶)بدایۃ النحو: یہ بھی نحو کا رسالہ ہے، جس کو اپنے بیٹے شیخ محمد حمید کے لیے لکھاتھا-
(۷) مکتوبات :یہ ان خطوط کا مجموعہ ہے جو اکثر خلفا کے نام بطور جواب کے لکھے تھے -
(۸) دیوان شمسی :آپ کے فارسی وہندی اشعار کا مجموعہ ہے- آپ شمسی کا تخلص فرماتے تھے- صاحب خزینۃالاصفیاکی تحریر سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے شیخ اکبرکی تصنیف اسرار المخلوقات پر ایک بسیط شرح لکھی ہے -رشیدیہ اور تذکرۃ النحوکے سواسب رسالے قلمی ہیں، اب تک چھپے نہیں -
سلسلۂ رشیدیہ کے سجادگان ایک نظرمیں
(۱)شیخ محمد ارشد جون پوری 
(۲)شیخ قمرالحق غلام رشید 
(۳)حضرت حیدربخش امام الدین 
(۴)حضرت شاہ امیرالدین 
(۵)حضرت شاہ غلام معین الدین 
(۶)حضرت شاہ سراج الدین 
(۷)حضرت محمد عبد العلیم آسی غازی پوری 
(۸)حضرت شاہ شاہدعلی شبز پوش 
(۹) حضرت شاہ مصطفی علی سبز پوش 
(۱۰)حضرت شاہ مفتی عبیدالرحمٰن رشیدی 
سلسلۂ رشیدیہ کی سجادگی کے تحت آباد خانقاہیں 
(۱)خانقاہ رشیدیہ، جون پور 
(۲)خانقاہ عالیہ طیبیہ ،منڈواڈیہہ،بنارس 
(۳)خانقاہ عالیہ مصطفائیہ، چمنی بازار،پورنیہ،بہار
(۴)خانقاہ عالیہ حیدریہ معینیہ ،سیوان، بہار
(۵)خانقاہ عالیہ علیمیہ، غازی پور
سلسلہ رشیدیہ کے چند ممتاز علماومشائخ 
شیخ محمدرشید قدس سرہٗ جہاں علمی اعتبار سے مرجع خلائق تھے وہیں دوسری طرف طریقت، حقیقت اور معرفت کے لحاظ سے اپنے دورکے شیخ المشائخ تھے- بے شمار لوگوں نے آپ سے اپنی علمی اور روحانی تشنگی دور کی- تلامذہ اور خلفاکی ایک بڑی جماعت آپ نے تیار کی- ۳۴؍خلفاکا ذکر کتابوں میں ملتاہے- ان کے علاوہ بھی آپ کے خلفاتھے جن کا ذکر نہیں ملتا-ذیل میں اس سلسلے کے بعض اولو العزم خلفااور مشائخ کا اجمالاًذکرکیاجاتاہے -
(۱)میر سید قیام الدین گورکھ پوری قدس سرہٗ (م:۸صفر۱۱۲۸ھ) آپ کا اصلی وطن سگڑی اعظم گڑھ تھا- بعد میں آپ نے گورکھ پو ر کو شرف بخشا-شیخ محمد رشید قدس سرہٗ سے آپ کو ارادت و خلافت دونوں حاصل تھی- آپ بڑے زاہد، صائم الدہر، قائم اللیل درویش تھے- آپ کے بارے میں آپ کے مرشد گرامی نے فرمایا:’’تم اور سید محمد جعفر کل اس فقیر کی نجات کے سبب ہو گے-‘‘ آپ کے خاندان میں سجادگی کا سلسلہ اب تک جاری ہے- شاہ شاہد علی سبز پوش قدس سرہٗ کے آپ مورث اعلیٰ ہیں -
(۲)حضرت شیخ محمد ارشد قدس سرہٗ (پ:۱۰۴۱ھ )آپ کا نام محمد ارشد، کنیت ابو الکشف اور لقب بدرالحق تھا- آپ قطب الاقطاب شیخ محمد رشید بانی سلسلۂ رشیدیہ کے منجھلے صاحب زادے اور سلسلۂ رشیدیہ کے پہلے سجادہ تھے- آپ نے علوم شرعیہ متداولہ شیخ عبدالشکور منیری، مولانا الہداد جون پوری، ملانورالدین مداری جون پوری اور اپنے حقیقی چچا شیخ محمد ولید اور استاذ العلماشیخ محمد افضل جون پوری سے حاصل کی جب کہ کتب تصوف کاعلم اپنے والد گرامی سے حاصل کیا- ۲۱سال کی عمر میں ظاہری اور باطنی علوم سے آراستہ ہوچکے، پھر طالبان علوم نبویہ کی خدمت میں مصروف ہوگئے - ۲۲؍سال کی عمر میں اپنے والد کے دست مبارک پر سلسلۂ چشتیہ احمدیہ میں بیعت ہوئے اور انہی سے اجازت وخلافت بھی حاصل کی- آپ اپنے والد ہی کی طرح جواں مرد اور باہمت تھے- خاندانی نعمتوں کے حصول کے بعد مزید کو شش جاری رہی- شیخ عبد اللطیف مٹھن پوری جو سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہٗ کی اولاد سے تھے اور سلسلۂ جنیدیہ اورسلسلۂ چشتیہ اشرفیہ میں صاحب اجازت وخلافت تھے ،آپ شیخ محمد ارشد کے خسر ہوئے- شادی کے بعد ان دونوں سلسلوں کی اجازت وخلافت بھی آپ نے حاصل کی -حضرت قطب الاقطاب کے آپ قابل فخر فرزند اور جانشین تھے- ایک دفعہ پٹنہ میں کسی بزرگ نے حضرت قطب الاقطاب سے پوچھا کہ دوست جب دوست کے پاس جاتاہے توکچھ ہدیہ لے کر جاتاہے- آپ جب خداکے سامنے جائیں گے اگر خدا نے پوچھاکہ میرے واسطے کیاہدیہ لائے ہو؟ تو کیا جواب دیں گے ؟اس پر آپ آب دیدہ ہوئے اور فرمایا ’’دست محمد ارشد گرفتہ پیش خواہم کردکہ ہمیں راہدیہ آوردہ ام-‘‘ 
(سمات الاخیار، ص:۱۱۸؍۱۱۹)
شیخ محمد ارشد بدرالحق ایک بار دہلی کے سفر پرتھے، لکھنؤکے قریب سے گزررہے تھے تو حضرت شاہ عبدالرزاق بانسوی نے حاضرین سے فرمایاکہ اس نواح میں ایک عاشق اللہ پہنچاہے اور حضرت بدرالحق نے بھی اپنے ساتھیوں سے شاہ صاحب کے حق میں فرمایاکہ ان قصبات میں خداکے دوست کی بوآرہی ہے - (سمات الاخیار،ص:۱۲۴؍بحوالہ بحر زخار)
آپ کی طبیعت میں موزونیت تھی- شاعری کا ذوق رکھتے تھے- آپ کے چند کلام بھی ملتے ہیں- ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ شاعری میں بھی کمال رکھتے تھے- شاعری میں اپنا تخلص والہ کرتے تھے- یہ اشعار آپ کی قادرالکلامی کی شہادت ہیں:
رخ او بے نقاب باید دید
روز را آفتاب باید دید
لب لعل تو با پیالہ  مدام
مست را با شراب باید دید
والہا غیر او مبیں ہر گز
آب را با حباب باید دید
 (سمات الاخیار،ص:۱۲۸؍۱۲۹)
اولاد
شیخ محمد ارشد کی دو شادیاں ہوئیں- پہلی شادی ۱۰۶۲ھ میں شیخ مبارک محی الدین ابن نور اللہ انصاری ہروی کی صاحب زادی سے ہوئی- ان سے دو لڑکے ہوئے؛ ایک شیخ نور اللہ اور دوسرے شیخ ثناء اللہ- دوسری شادی شیخ عبد اللطیف مٹھن پوری کی صاحب زادی سے ہوئی- ان سے بھی دو لڑکے ہوئے- ایک شیخ محب اللہ اور دوسرے شیخ محمد-(سمات الاخیار،ص:۱۳۰؍ملخصاً)
خلفا و مریدین
سمات الاخیار کے مصنف نے تحریر کیا ہے کہ ۲۹۷۱؍ افراد نے مختلف سلسلوں میں آپ سے بیعت کی اور تیس نفوس قدسیہ نے آپ سے روحانی سلسلوں کی اجازت و خلافت حاصل کی- ذیل میں بعض ممتاز خلفا کا مختصراً ذکر کیا جا رہا ہے-
(۱) میر سید محمد باقر پٹنوی(پ:۱۷؍ ربیع الآخر۱۰۷۲ھ، م: ۷جمادی الاخریٰ۱۱۱۸ھ)
آپ میر سید جعفر پٹنوی کے بڑے صاحب زادے ہیں- اپنے والد ہی سے علوم ظاہری کی تکمیل کی اور ان ہی کے دست حق پرست پر بیعت بھی ہوئے- بعد میں حضرت محمد ارشد کی بارگاہ میں سلوک کی تکمیل کی اور تمام عمر درس و تدریس، ہدایت خلق اور ارشاد فقرا میں مشغول رہے- آپ اپنے شیخ اجازت و خلافت سے بے حد محبت کرتے تھے- ان کے انتقال کے چند ہی سال بعد آپ کا بھی انتقال ہو گیااور پٹنہ محلہ شریعت آباد میں اپنے والد کے روضے میں مدفون ہوئے-
 (سمات الاخیار،ص:۱۳۸؍۱۳۹ملخصا)
(۲) حضرت میر سید محمد اسلم پٹنوی (م: ۲۱؍ شوال ۱۱۳۸ھ) 
آپ کا لقب عبد القدوس تھا- میر سید محمد جعفر کے منجھلے بیٹے تھے - علوم متداولہ کے علاوہ اجازت و خلافت بھی اپنے والد ہی سے حاصل کی اور پھر شیخ محمد ارشد بدر الحق سے مزید نعمتیں میسر آئیں- آپ نے اپنی ساری عمر مخلوق خدا کی رشد و ہدایت اور طالبان علوم نبویہ کے درس و تدریس میں صرف کر دی- رسالہ عمدۃ النجاۃ فی حل الزلات آپ نے تحریر فرمایا-
 (سمات الاخیار،ص:۱۳۹تا۱۴۱ملخصاً)
(۳) حضرت میر سید سعد اللہ (م: ۱۲؍ رجب المرجب۱۱۱۷ھ)
آپ بہار ضلع سارنگ کے رہنے والے اور بانی سلسلۂ رشیدیہ شیخ محمد رشید کے مرید اور خادم خاص تھے- شیخ محمد ارشد سے اجازت و خلافت حاصل تھی- آپ کا مزار پسونڈ میں ہے-
 (سمات الاخیار،ص:۱۴۱تا۱۴۳؍ملخصاً)
مختصر یہ ہے کہ شیخ محمد ارشد بدر الحق نے اپنے والد سے جن نعمتوں کو پایا تھا ان میں اضافہ بھی کیا اور دعوت و ارشاد کا جو سلسلہ قائم ہوا تھا اس کو مزید وسیع پیمانے پر جاری رکھتے ہوئے خدمت خلق اور تزکیۂ نفوس کی غرض سے مریدین اور خلفا کی ایک بڑی جماعت تیار کی-
(۴) حضرت سید محمدجعفر پٹنوی قدس سرہٗ(م: ۳؍ رمضان ۱۱۰۵ھ)
آپ کانام محمد جعفر اور لقب بحرالحقائق نجم الحق تھا-سلسلۂ نسب حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتاہے- آپ جب آٹھ برس کے تھے تو آ پ کے والد سید ابوالحسن نے وفات پائی- دادانے پرورش کی اور سلسلۂ چشتیہ میں مرید کرکے خرقہ ٔ خلافت دے کر اپنا جانشین بنایا- جب سن شعور کو پہنچے تو تحصیل علوم کے لیے جون پور آئے اور حضرت قطب الاقطاب(شیخ محمد رشید) کے مدرسہ میں مقیم ہوئے- تکملۂ علوم کے بعد چوںکہ پہلی بیعت صغر سنی کی وجہ سے ٹھیک یاد نہ تھی ،حضرت سے سلسلۂ قادریہ میں مرید بھی ہوگئے اور چند دن خدمت میں رہ کرمرتبۂ کمالات کو پہنچے-اس کے علاوہ دیگرسلاسل مثلاًچشتیہ، سہروردیہ ،فردوسیہ ومداریہ کی بھی خلافت واجازت حاصل کی اور بحکم شیخ پٹنہ میں قیام کیا-ایک مدت تک مجرد رہے اورایک مسجد میں بسر کی- جب آپ کی عمرزیادہ گزرگئی تو آپ کی والدہ کی تحریک سے حضرت قطب الاقطاب نے آپ کو سنت نبوی کے اتباع پرمجبور کیااورخود ہی میرسید نورالدین نبیرۂ حضرت سید فضل اللہ عرف سید گوشائیں دامادِ حضرت قطب بینادل قلندرکی صاحب زادی سے نسبت مقررکرکے شادی کرادی- پھروہ مادرزاد ولی پیداہوئے- آپ عالم، عامل اورعارف کامل تھے- طریقۂ نبوی ہر امرمیں ملحوظ رہتا-
کسی نے آپ سے پوچھاتھاکہ آپ کے پیر سماع سنتے ہیں ،آپ کیوں نہیں سنتے ؟جواب دیا کہ پیر نے رخصت کے وقت فرمایاتھاکہ حضرت امام اعظم کی فقہ پرعمل کرنا،میں پیر کی اطاعت کو سعادت دارین جانتاہوں- آپ کاقول مشہور ہے :’’ میں نے رشید (خدا)کو رشید کے سبب سے پہچانا-اگررشید نہ ہوتے تو میں خداکونہ پہچانتا-‘‘آپ کامرتبہ اسی سے روشن ہے کہ ایک بار حضرت قطب الاقطاب نے فرمایاتھاکہ ’’قیامت کے دن مریدوں کوپیروں سے شفاعت کی امید ہوگی اورمجھ کو اپنے مرید میر سید جعفر پٹنوی اورمیرسید قیام الدین گورکھپوری سے- ‘‘
آپ نے کل تبرکات وخرقۂ خلافت اپنے بیٹوں میر محمد باقر ومیر محمد اسلم میں تقسیم کردیا- صرف ایک رومال رکھ لیااور وصیت کی کہ کفناتے وقت اس رومال کو میرے سرپر باندھ دینا،چنانچہ ایساہی ہوا-آپ نے رمضان المبارک ۱۱۰۵ھ کی تیسری تاریخ کوپنج شنبہ کے روز وصال فرمایااور شریعت آباد بیرون شہر پٹنہ میں مدفون ہوئے- آپ کے گزراوقات کے لیے ایک مرید نے ایک موضع دیناچاہاتھا،مگر قبول نہ فرمایا- اس کے اصرار پر آپ نے چند بیگہہ زمین لے لی اور اس کا نام شریعت آباد رکھا- (سمات الاخیار،ص:۱۰۷تا۱۰۹)
(۵)حضرت شیخ یٰسین جھونسوی قدس سرہٗ(تاریخ وصال معلوم نہیں، مزار جھونسی میں ہے-)
آپ شیخ احمد ابن شیخ محمد ابن شیخ عبد الرحیم ابن بندگی شیخ اوجھڑصدیقی جون پوری کے بیٹے تھے -چوںکہ آپ سعید ازلی تھے اس وجہ سے آپ کو بچپن ہی سے حضرت مخدوم طیب بنارسی کی صحبت نصیب ہوئی- حضر ت مخدوم نے آپ کی پرورش اورتعلیم مربیانہ فرمائی- گیارہویں برس سلسلۂ چشتیہ میں مریدکرکے اپناخلیفہ بنایا- شہاب الدین دولت آبادی ثم جون پوری کا رسالہ نحو ارشادپڑھایا،پھر جون پور بھیجا-استاذالعلماشیخ افضل الہٰ آبادی اور حضرت قطب الاقطاب شیخ محمد رشیدسے کتابیں پڑھیں- سات برس تک جون پورمیں رہے- درمیان میں وقتافوقتاًحضرت مخدوم کی زیارت کوجاکر فیض یاب بھی ہوآتے تھے- بیسویں برس جمیع سلاسل کے خرقے اور خلافتیں حضرت مخدوم نے عطاکیے- حضرت مخدوم کے بعد جو کسر رہ گئی تھی حضرت دیوان جی شیخ محمد رشیدنے پوری کردی اورخلافت واجازت بخشی- ان باتوں کے با وجود حضرت دیوان جی اپنے مرشد کے سجادہ نشین ہونے کی وجہ سے آپ کی بڑی تعظیم کرتے تھے، یہاں تک کہ جب وہ قدم بوس ہوناچاہتے تھے تو آپ بھی اپناہاتھ ان کے پاؤ ں تک ضرور پہنچاتے تھے- آپ پرکشف کی حالت بہت طاری رہاکرتی تھی- آپ نے تصوف کے بہت سے مشکل مسائل بذریعۂ تحریر پوچھے ہیں اور حضرت دیوان جی نے ان کے جواب میں مکتوب لکھے ہیں- اپنے پیرانِ سلاسل کے حالات میں مناقب العارفین آپ کی عظیم تصنیف ہے-
آپ کاسال وصال معلوم نہیں آپ کا مزار قصبہ جھونسی،الٰہ آباد میں شیخ نصیرالدین اسدالعلماکے روضے کے اندرہے- (سمات الاخیار،ص:۱۱۱؍۱۱۲)
(۶) شیخ غلام رشید(پ: ۸ ربیع الاول۱۰۹۶ھ،م: ۵ صفر۱۱۶۷ھ)
آپ کا نام غلام رشید، کنیت ابو الفیاض اور لقب قمر الحق ہے- آپ شیخ محب اللہ کے لڑکے اور شیخ محمد ارشد کے پوتے وجانشین اور سلسلۂ رشیدیہ کے دوسرے سجادہ نشیںتھے- آپ چودہ دن کے تھے کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور ایک سال چار ماہ کے ہوئے کہ والد کا سایہ بھی اٹھ گیا- آپ کے دادا شیخ محمد ارشد نے آپ کی پرورش کی اور کامل و مکمل بنا دیا- علوم ظاہرہ متداولہ آپ نے مختلف علماے وقت سے حاصل کیا اور اس کی بھی تکمیل اپنے دادا شیخ محمد ارشد ہی سے کی اور دعوت و تبلیغ، درس و تدریس میں اپنی عمر عزیز صرف کر دی- شیخ حیدر بخش آپ کے نواسے تھے، جن کی تعلیم کے لیے آپ نے رسالہ ’’درایۃ النحو‘‘ کی نہایت بسیط شرح لکھی تھی- آپ متبحر عالم اور کامل درویش ہونے کے ساتھ زود گو شاعر بھی تھے- آپ کا فارسی کلام بھی ملتا ہے-
پٹنہ کے سفر میں جب آپ خانقاہ جعفریہ میں مقیم تھے تو آپ سے ملاقات کی غرض سے خانقاہ مجیبیہ کے بانی حضرت مجیب اللہ پھلواروی تشریف لائے اور اپنی خانقاہ میں حاضری کی دعوت دی- آپ تشریف لے گئے- پٹنہ سے پورنیہ گئے اور پھر طبیعت خراب ہوئی- اسی سفر میں آپ کا انتقال بھی ہو گیا- آپ کی وصیت کے مطابق خانقاہ رشیدیہ جون پور میں دفن کیا گیا- کثرت سے آپ کی کرامتوں کا ذکر ملتا ہے- (سمات الاخیار،ص:۱۴۴تا۱۶۲؍ملخصاً)
خلق خدا نے کثرت سے آپ کے دست مبارک پر توبہ کیا- مخلوق خدا کی اصلاح، تزکیۂ قلوب اور تصفیہ نفوس کے لیے آپ نے چالیس سے زائد نفوس قدسیہ کو اپنی روحانی نعمتوں کی اجازت و خلافت سے سرفراز فرماکر رشد و ہدایت کا بہتر انتظام فرما دیا-
 (سمات الاخیار، ص:۱۶۳ ملخصاً)
(۷)شاہ حیدر بخش (وصال: ۲۵؍ شوال ۱۲۲۴ھ)
آپ کا نام حیدر بخش اور لقب نور الحق اور قطب الدین ہے- آپ محبوب الحق شاہ فصیح الدین کے لڑکے اور حضرت قمر الحق غلام رشید کے نواسے وجانشیں اور سلسلۂ رشیدیہ کے تیسرے سجادہ تھے- آپ کا نسبی سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے- آپ پانچ بھائی تھے- ۱۱۶۳ھ میں آپ اپنے نانا کے دست مبارک پر سلسلۂ چشتیہ احمدیہ میں مرید ہوئے- آپ کی تعلیم و تلقین اور تکمیل نانا کے ہاتھوں ہو چکی تھی- نانا کے بعد بھی آپ نے اپنے والد سے مزید فیض حاصل کیا- آپ کی دو شادیاں ہوئیں- پہلی سے نجیب الدین اور دوسری سے شاہ امیر الدین پیدا ہوئے- 
آپ کو شعر وسخن کا بھی ذوق تھا- اردو زبان میں آپ کے چند اشعار ملتے ہیں- 
آپ سیوان بہار کا اکثر سفر کرتے اور مہینوں قیام فرماتے- بہمن برہ نامی گاؤں میں آپ نے خانقاہ اور مسجد بنوائی تھی- ساٹھ سال سے زائد عمر پا کر۲۲۵؍ شوال ۱۲۲۴ھ کوسیوان ہی میں آپ  وصال فرما گئے اور یہیں مدفون بھی ہوئے- اس مقام کو تکیۂ حیدری کہا جاتا ہے-
 (سمات الاخیار،ص:۱۷۸ تا ۱۸۲ملخصاً ) 
آپ کے بعد آپ کے صاحب زادے شاہ امیر الدین سجادہ ہوئے اور سلسلۂ رشیدیہ کے دعوتی و علمی اور رفاہی کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیا- شاہ امیر الدین کے علاوہ آپ کے ۱۲؍ خلفا کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے- ان ۱۲؍ کے علاوہ بھی خلفا کے بارے میں بتایا جاتا ہے- 
(۸) شیخ قیام الحق شاہ امیر الدین (وصال: ۹؍ محرم الحرام ۱۲۲۵ھ)
آپ کا نام امیر الدین اور لقب قیام الحق ہے- آپ شاہ حیدر بخش کے چھوٹے لڑکے و جانشین اور سلسلۂ رشیدیہ کے چوتھے سجادہ نشیںتھے- آپ اپنے والد سے سلسلۂ چشتیہ احمدیہ میں مرید ہوئے اور تمام سلاسل کی اجازت و خلافت اور خاندانی فیوض و برکات سے شرف یاب ہوئے- 
آپ میں متانت، وقار، توکل اور قناعت بے حد تھی- دنیا کی باتوں سے زبان کو بچانے کے لیے بہت کم بولتے تھے اور بلا ضرورت کبھی زبان نہیں کھولتے تھے- اگر کبھی تکلیف تکلم گوارا فرماتے تو پیران سلاسل کا ذکر زبان پر لاتے- اپنے خاندانی بزرگوں کی طرح برابر درس و تدریس اور بندگان خدا کی ہدایت و تعلیم میں اپنے اوقات صرف کیے- 
آپ کی تین شادیاں ہوئیں- پہلی شادی سے کوئی اولاد نہ تھی- دوسری سے شاہ ولی بخش اور دو بیٹیاں ہوئیں-تیسری بیوی سے شاہ معین الدین قطب الہند اور ایک صاحب زادی پیدا ہوئی-  
(سمات الاخیار،ص:۱۸۷؍۱۸۸؍ ملخصاً )
کثرت سے آپ کی کرامات کا تذکرہ ملتا ہے - آپ کے مریدین و متوسلین دور دور تک پھیلے ہوئے تھے- سمات الاخیار کے مصنف تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شاہ عبد الغفور ابو العلائی یوسف پوری جو اپنے وقت کے ایک جلیل القدر بزرگ تھے، جنہوں نے ہند سے عرب تک کی سیاحت اور تمام متبرک مقامات کی زیارت کی تھی، عرب میں ایک بزرگ سے ملے جو نہایت مشغولی اور استغراقی حالت میں تھے- آپ کو حیرت ہوئی کہ ایسے بزرگ اس زمانے میں بھی موجود ہیں- پوچھا آپ کس کے مرید ہیں؟ جواب دیا کہ اپنے باپ کے مرید ہیں- پھر پوچھا کہ ان کے شیخ کون ہیں؟ جواب دیا کہ حضرت شاہ امیرالدین جون پوری جو ملک ہندوستان کے رہنے والے تھے-(سمات الاخیار،ص:۱۹۰)۹ محرم الحرام۱۲۲۵ھ کو آپ کا وصال ہوا اور رشید آباد میں مدفون ہوئے-
آپ کے مریدین اور خلفا کی تعداد بہت زیادہ تھی- آپ کے بعض خلفا کا تذکرہ بھی ملتا ہے- ان میں سے چند کے اسما یہ ہیں:(۱)شاہ غلام معین الدین، آپ حضرت کے صاحب زادے تھے اور جانشین بھی ہوئے- (۲)شیخ قنبر حسین سکندر پوری، آپ شاہ معین الدین کے ہم عمر اور شاہ قیام الحق کے مرید و خلیفہ ہونے کے ساتھ سکندر پور کے رئیس اور شاہ عبد العلیم آسی غازی پوری کے والد تھے- ۱۰؍ محرم الحرام ۱۲۸۰ھ کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے- شاہ رشید الحق میر سید حسین علی جعفری (پ: ۱۲۲۶ھ، م: ۱۶؍ رجب ۱۳۰۳ھ)آپ مولوی سید جعفر علی کے بیٹے اور اپنے حقیقی چچا فیاض الحق سید سجاد علی کے مرید و خلیفہ اور سجادہ نشین تھے- شاہ قیام الحق سے بھی مختلف سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل تھی۔ ان کے علاوہ قطب الہند شاہ غلام معین الدین سے بھی اجازت و خلافت رکھتے تھے-سمات الاخیار کے مصنف نے ان تین کے علاوہ آپ کے چار اور خلفا کا بھی ذکر کیا ہے-
(۹) شاہ غلام معین الدین امیری (وصال: ۱۶؍ ذی الحجہ ۱۳۰۷ھ)
آپ کا نام غلام معین الدین، کنیت ابو الخیر اور لقب قطب الہند تھا- آپ حضرت قیام الحق کے چھوٹے لڑکے، مرید و خلیفہ، جانشین اور سلسلہ رشیدیہ کے پانچویں سجادہ تھے- اپنے والد سے مختلف سلاسل کی اجازت وخلافت کے علاوہ شیخ بدر الدین بدر عالم زاہدی سے سلسلۂ زاہدیہ کی بطریق اویسیہ اجازت و خلافت رکھتے تھے-
آپ نے حرمین شریفین کی زیارت کے لیے مکہ شریف کا سفر کیا تو حاجی امداد اللہ مہاجر مکی چشتی صابری نے آپ سے ملاقات کی اور جو کچھ مطلوب و مقدر تھا لے گئے- دوسرے دن جب دوبارہ تشریف لائے تو اپنا ایک رسالہ مع اجازت نامہ کے دے گئے- 
صاحب سمات الاخیار تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شاہ عبد الغفور ابو العلائی یوسف پوری جو بڑے سیاح اور بڑے مشائخ کی صحبت اٹھائے ہوئے درویش تھے، ان کا بیان ہے کہ ہند سے عرب تک میں نے اس جامعیت کا شیخ کہیں نہیں پایا- کسی نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ شاہ معین الدین اور مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادی میں کیا نسبت ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ مولانا کی مثال اس شخص کی ہے جس نے بذات خاص ایک دولت پیدا کی ہو اور شاہ صاحب کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے خود بنفس نفیس بھی دولت پیدا کی ہو اور اس کو اپنے باپ دادا کئی پشتوں کی دولت بھی ہاتھ لگی ہو- ۱۶؍ ذی الحجہ ۱۳۰۷ھ کا دن قیامت ڈھانے والا تھا- اس شام کو مغرب کی فرض اور سنت نماز کے درمیان طالب مطلوب سے ، عاشق معشوق سے جا ملا-
 (سمات الاخیار، ص: ۲۰۰؍ ۲۰۳؍ ۲۰۶؍ ۲۳۳ ملخصاً)
تعمیری اور دعوتی خدمات: آپ کو اپنے مشائخ سے جو روحانی نعمتیں میسر آئی تھیں اس کی حفاظت کے ساتھ توسیع تو کی ہی ساتھ ہی خانقاہ رشیدیہ اور اس کے تحت قائم دیگر خانقاہوں میں وسیع پیمانے پر تعمیری و توسیعی کام بھی کرایا- خانقاہ رشیدیہ کے تقریباً تمام مشائخ ہی باضابطہ عالم و فاضل ہونے کے ساتھ شاعر، مدرس اور مصنف بھی تھے- شاہ معین الدین قطب الہند بھی باضابطہ عالم تھے، شعری ذوق بھی رکھتے تھے، آپ کے کچھ اشعار بھی ملتے ہیں، مگر آپ نے زیادہ توجہ افراد سازی اور خانقاہ کی توسیع و تعمیر پر صرف کی- مریدین و متوسلین کی تربیت و تزکیہ کے ساتھ آپ نے کچھ ایسے افراد تیار کیے جو بعد کی نسلوں کے لیے عظیم مربی واور مرشد ثابت ہوئے- حضرت آسی غازی پوری اور شاہد حسین راج گیری، محمد سجاد جعفری بہاری، واجد علی شاہ سبز پوش گورکھ پوری جیسے اشخاص آپ کے خلفا میں پیدا ہوئے- سمات الاخیار کے مصنف نے آپ کے دس خلفا کا مختصراً تذکرہ کیا ہے-
(۱۰) شاہ سراج الدین (پ: ۱۲۹۱ھ، م: ۷ ذیقعدہ۱۳۱۴ھ)
آپ کا نام سراج الدین عرف محمد حسین ہے آپ قاضی باسط علی کے ،جو قیام الحق کے نواسے تھے، حقیقی پوتے اور حکیم مولوی قاضی محمد ناصر کے بیٹے اور قصبہ نظام آباد، اعظم گڑھ کے رہنے والے تھے- شاہ سراج الدین قطب الہند شاہ غلام معین الدین کے مرید و خلیفہ اور جانشین اور متولی اوقاف اور سلسلہ رشیدیہ کے چھٹے سجادہ بھی ہوئے- ۱۳۱۴ھ میں آپ نے اس دنیا کو خیرباد کہا اور خانقاہ رشیدیہ جون پور میں مدفون ہوئے- آپ کا مزار اس سلسلے کے تمام سجادہ نشینوں کی طرح خام ہے- 
(سمات الاخیار،ص:۲۳۹ تا ۲۴۵ ملخصاً)
(۱۱) مولانا محمد عبد العلیم آسی غازی پوری (پ:۱۹؍شعبان ۱۲۵۱ھ،م:۲؍ جمادی الاولیٰ۱۳۳۵ھ)
آپ کا نام محمد عبد العلیم اور تخلص آسی ہے- آپ اچھے شاعر، متبحر عالم اور زبر دست صاحب استغراق صوفی، سلسلۂ رشیدیہ کے ساتویں صاحب سجادہ تھے -دنیا آپ کو بحیثیت صوفی شاعر کے آسی غازی پوری سے جانتی ہے- آپ ۱۹؍ شعبان ۱۲۵۱ھ سکندر پور میں پیدا ہوئے- تاریخی نام خلیل اشرف رکھا گیا- بچپن ہی میں آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا- آپ کے نانا مفتی احسان علی قاضی پوری، شاہ آباد نے آپ کی پرورش کی اور ابتدائی تعلیم سے بذات خود آراستہ کیا، پھر آپ اپنے والد کے پیر خانہ خانقاہ رشیدیہ میں حاضر ہوئے اور صاحب سجادہ شاہ غلام معین الدین سے بقیہ تعلیم حاصل کی- مولانا عبد الحلیم فرنگی محلی آپ کے اساتذہ میں آتے ہیں-آپ کے اساتذہ کو بھی آپ کی ذکاوت پر ناز اور شاگردی پر فخر تھا-
حضرت آسی غازی پوری سلسلۂ قادریہ احمدیہ میں شاہ غلام معین الدین سے مرید ہوئے اور ایک مدت تک آپ ہی کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے- سفر میں بھی آپ ساتھ رہتے- بالآخر مختلف اشغال واذکار کی تعلیم کے ساتھ تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے نوازے گئے- 
آپ اپنے وقت کے طبیب حاذق بھی تھے حالاںکہ فن طبابت میں کوئی استاد نہ رکھتے تھے- سمات الاخیار کے مصنف تحریر کرتے ہیں کہ شاہ سراج الدین کی جانشینی سات ہی برس میں ختم ہو گئی اور ضرورت نے یہ سہرا آپ کے سر باندھا- سجادہ نشینی کے بعد جون پور میں مستقل قیام فرمایا- خانقاہ کے مشاغل اور اہل طلب کی کثرت کی وجہ سے رفتہ رفتہ طبابت چھوٹ گئی-
 (سمات الاخیار،ص:۲۵۴؍۲۵۵)
دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں کہ جب تک سجادہ نشینی کی خدمت آپ کے متعلق نہیں ہوئی تھی تب تک باوجود تکمیل مراتب ظاہری و باطنی و تحصیل اجازت و خلافت کبھی کسی کو مرید نہیں کیااور اپنے آپ کو طبابت کے بھیس میں ایسا چھپا رکھا کہ بجز اہل نظر کوئی پہچان نہ سکااور آپ کی درویشی کی طرف کسی کا وہم و گمان بھی نہ جا سکا- (سمات الاخیار،ص:۲۵۳)
آپ کی طبیعت میں قدرت اور ضبط کا اتنا مادہ تھا کہ مجال نہ تھی کہ کسی حالت میں کوئی راز کھل جائے- اواخر عمر میں چشتیت غالب آگئی تھی- بلا مزامیر کے سماع سنتے تھے-اس کی صورت یہ تھی کہ قاضی عبد البصیرمعصوم پوری اور حافظ فرید الدین احمد غازی پوری آپ کی غزلیں شب کو سوتے وقت خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے- ہاں منڈوا ڈیہہ کے عرس میں گاگر اٹھتے وقت جو باقاعدہ قوالی ہوتی ہے اس میں آپ شریک ہوتے تھے- وجد کی حالت میں صرف آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں اور بس- آپ کی شادی ہوئی اولاد بھی ہوئے مگر نسبی سلسلہ قائم نہ رہا-  
(سمات الاخیار،ص: ۲۵۶؍۲۷۴؍۲۷۵ ملخصاً)
آپ نے اپنی زندگی ہی میں اپنی جانشینی کے سلسلے میں غور و فکر کیا اور سلسلے کے اصحاب حل و عقد سے مشورہ اور روحانی اشارات کے بعد شاہ سید شاہد علی سبز پوش کو اپنا جانشین بنا دیا- اس واقعے کو سمات الاخیار کے مصنف نے تحریر کیا ہے کہ جانشینی کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ تھا جو اکثر مریدین یا احباب کبھی کبھی آپ سے پوچھ بیٹھتے تھے کہ آپ نے کس کو تجویز فرمایا ہے، اس لیے کہ آپ کے بعد اول تو انتخاب میں دقت پڑے گی دوسرے انتخاب صحیح ناممکن بھی ہے-اس وقت آپ یہی فرماتے تھے کہ میںنے شاہ سراج الدین اور مفتی غلام قادر دو لڑکوں کو منتخب کیا تھا لیکن خدا کی مشیت اور تھی اب میں اپنی رائے سے کچھ نہ کروں گا- اگر چہ آپ اسی جواب سے دوسروں کو ساکت و صامت فرما دیتے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ خود بھی اس سوال کی اہمیت خوب سمجھتے تھے- جب وقت آیا تو آپ نے حضرت قطب الاقطاب ابو البرکات شمس الحق شیخ محمد رشید مصطفی قدس سرہ کے خلیفۂ اجل و اکمل حضرت میر سید قیام الدین گورکھ پوری رحمۃ اللہ علیہ کی نسل سے جناب سید شاہد علی صاحب کا انتخاب فرمایا اور اپنی صحبت کیمیا خاص میں رکھنے لگے-
۱۳۲۹ھ میں آپ کا لقب شہود الحق اور نام رشید الدین ارشاد ہوا اور یہ بھی فرمایا کہ یہ نام و لقب پیروں نے میرے دل میں ڈالا ہے- اس کے بعد آپ نے خلافت نامہ بھی زیب رقم فرمایا-
(سمات الاخیار،ص:۲۷۶؍۲۷۷)
حضرت آسی غازی پوری کا آخری دور استغراقی دور تھا۔ تقریباً پندرہ سولہ سالوں تک حالت استغراق میں رہے اور ۱۳۳۵ھ میں وصال ہوگیا-سمات الاخیار کے مصنف تحریر کرتے ہیںوصال کے قریب زمانے میں آپ کی ہیبت بہت بڑھ گئی تھی- خلوت و جلوت میں ساتھ رہنے والے اور ہر وقت بات کرنے والے مقربین کو بھی لب کھولنے کی جرأت نہ ہوتی تھی- مریدانِ خوش اعتقاد روزانہ بعد نماز مغرب حاضر ہوتے مگر سلام کرنے یا قدم بوس ہونے کی جرأت نہ ہوتی- آہستہ پلنگ کی پٹی چوم کر تخت پر بیٹھ جاتے- کبھی آپ آہٹ پاکر اگر پوچھ لیتے کہ کون؟ تو بتا کر سلام عرض کرتے اور اگر اس سے زیادہ متوجہ پاتے تو جرأت کر کے قدم بوس بھی ہو لیتے، ورنہ  پٹی چوم کر واپس آجاتے- وصال کے وقت تک بجز افراط استغراق و غلبۂ محویت کوئی مرض نہ تھا-
 (سمات الاخیار،ص:۲۷۹)
وقت وصال جانب قبلہ اس شوق سے ملاحظہ فرما رہے تھے کہ دیکھنے والے بھی اس کا امتیاز اچھی طرح کر سکے کہ ایک عاشق اپنے معشوق کو اشتیاق آمیز نگاہوں سے دیکھ رہا ہے- آخر وہ قیامت خیز تاریخ ماہ جمادی الاولیٰ۱۳۳۵ھ کی دوسری پہنچ گئی اور وہ محشر انگیز روز اتوار آہی گیا جس میں اپنے وابستگان دامن ارادت کی چشم ظاہر سے آپ نے ہمیشہ کے لیے پردہ فرما لیا- یعنی وہ مستغرق دریاے شہود، غواص محیط وحدۃ الوجود، فانی فی اللہ، باقی باللہ، قطب المشائخ و العالمین، شیخ الاسلام و المسلمین حضرت مولانا شاہ محمد عبد العلیم رشیدی قدس سرہ پچاسی برس کی عمر میں اول وقت ظہر ایک بج کر بیس منٹ پر واصل بحق ہوئے-
آج آسی نے کر لیا پردہ
ہم غریبوں سے وہ کریم چھپا
آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشین حضرت سید شاہ شاہد علی سبز پوش نے جن رسومات کی ادائیگی کی اس کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیںجناب سید صاحب نے جون پور کی خانقاہ میں حسب معمول خاندان رشیدی سوم، دسواں، بیسواں، چالیسواں وغیرہ کیا جس طرح حضرت نے اپنے پیر و مرشد کا سوم وغیرہ بمہن برہ سے آکر خانقاہ جون پور میں فرمایا تھا- ہر سال حسب آداب خاندان رشیدی غازی پور میں عرس کرتے ہیں اور مہمانوں کی میزبانی و راحت رسانی کو سعادت دارین سمجھتے ہیں- قابل ذکر امر یہ ہے کہ جو اہل غازی پور کی خدمت میں روزانہ بلا ناغہ حاضر ہوا کرتے تھے، وہ اب بھی بلا ناغہ بعد نماز مغرب فاتحہ کے لیے حاضری کو لازمی سمجھتے ہیں- ہر جمعرات کی شام کو مزار مبارک پر قل ہوا کرتا ہے۔ (سمات الاخیار،ص:۲۸۲)
سلسلۂ رشیدیہ کے تقریباً تمام مشائخ کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ طالبین و سالکین کی تعلیم و تربیت کرتے اور اسی کے پردے میں مقامات تک پہنچانے کی کوشش کرتے یعنی علم و عمل کے پردے ہی میں سارا کام ہوجاتا- اسرار و معارف کی باتیں بہت کم ظاہر ہو پاتیں- اس سلسلے کے مشائخ اور ان کے اخلاف کا حلقہ بہت بڑا تھا- حضرت آسی غازی پوری کے خلفا میں زیادہ تر ایسے اصحاب تھے جن کو ارادت بھی آپ ہی سے تھی مگر بعض وہ تھے جن کو صرف خلافت و اجازت آپ سے تھی - وہ علما و مشائخ جن کو ارادت و خلافت دونوں آپ سے تھی- ان میں سے سمات الاخیار کے مصنف نے ۹ ؍کا ذکر کیا ہے جس میں شاہ شاہد علی سبز پوش گورکھ پوری جو آپ کے جانشین بھی ہوئے ان کے علاوہ سید شاہ عبد العزیز بہاری، سید شاہ نذیر احمد بہاری، شاہ عبد الحق ظفر آبادی بھی شامل ہیں-
جن مشائخ کو صرف خلافت میسر آئی، ان میں مولوی عبد السبحان غازی پوری بھی ہیں- بیعت و تعلیم آپ کو مولانا عبد القادر شاہ غازی پوری سے حاصل تھی-۲۴؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۴۳ھ بنگال میں وصال ہوا، غازی پور میں مدفون ہوئے- دوسرے مفتی محمد وحید قادری جو آسی صاحب کے ماموں زاد بھائی اور قاضی عنایت حسین چریا کوٹی کے مرید تھے- تیسرے شاہ محمد فصیح شیخ پوری ،آپ خواجہ محمد عیسیٰ تاج کے چھوٹے بھائی تھے- آپ اپنے والد شاہ عنایت حسین بلیاوی کے مرید تھے اور بعد میں حضرت آسی سے اجازت و خلافت میسر آئی- چوتھے شیخ محمد امیر معصوم پوری، آپ بلیا کے رئیس اور شاہ علی حبیب سجادہ نشین خانقاہ مجیبیہ پھلواروی کے مرید اور فیض یافتہ تھے- چوںکہ آپ کے بزرگوں کو مشائخ خانقاہ رشیدیہ سے برابر بیعت رہی، اس نسبت کو باقی رہنے کے لیے آخر عمر میں آپ حضرت آسی سے طالب ہوئے اور اجازت و خلافت سے نوازے گئے- ان کے علاوہ شاہ محمد ادریس پھلواروی، شاہ ذاکر حسین چوکی قتال پوری، مولوی عبد الرحیم سیوانی، مولوی محب اللہ غازی پوری ، شاہ الفت حسین غازی پوری اور مولانا سید محمد فاخر بے خود اجملی الٰہ آبادی کو بھی حضرت آسی غازی پوری  سے اجازت و خلافت حاصل تھی- 
آسی غازی پوری کی علمی خدمات
یوں تو سلسلۂ رشیدیہ کے تمام مشائخ و علما نے علمی اور دعوتی خدمات میں اپنی حصہ داری پیش کی مگر بعض وہ مشائخ جو علمی اور دعوتی خدمات کے اعتبار سے ممتاز حیثیت کے مالک ہیں، ان میں ایک نام حضرت آسی غازی پوری کا بھی آتا ہے- آپ نے خانقاہ رشیدیہ اور اس کے تحت چلنے والی خانقاہوں کی تعمیر و ترقی، رفاہ عام، خدمت خلق، درس و تدریس، تصنیف وتالیف، ارشاد و ہدایت اور دعوت وتبلیغ سارے میدانوں میں اپنے وجود کا احساس دلایا- ایک طرف علمی اور روحانی اعتبار سے جہاں اچھے اور مفید افراد تیار کیے، وہیں دوسری طرف تصنیف و تالیف اور صوفیانہ و عارفانہ شعر گوئی اور غزل گوئی میں آپ نے ایک مثال قائم کی- آپ کی تصنیفات میں سراج الصرف، فواید صدیقیہ اور قواعد جوہریہ کا ذکر ملتا ہے- شعر گوئی کے ذریعے ناسخ جیسے شعرا نے زبان کی صفائی و شستگی میں جو سعی بلیغ تھی اسے حضرت آسی نے آگے بڑھایا اور مزید نئی راہیں ہمورا کیں بلکہ حضرت آسی نے اس فن میں جو کمال حاصل کیا اور جیسے تلامذہ پیدا کیے ان کی بنیاد پر آپ کو ناسخ وقت کہنا بے جا نہ ہوگا- حضرت آسی کا کلام مجاز کے پردے میں حقیقت کا جلوہ دکھاتا ہے، خود فرماتے ہیں:
اگر بیان حقیقت نہ ہومجاز کے ساتھ
وہ شعر لغو ہے آسی کلام ناکارا
آپ کے خلیفہ و جانشین سید شاہ شاہد علی نے آپ کے وصال کے بعد عین المعارف کے نام سے آپ کے کلام کا مجموعہ تیار کیا اور عارف ہسوی نے آپ کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیا - وہ لکھتے ہیں:
’’ حضرت آسی کے کلام میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو مذاق سلیم کسی غزل میں تلاش کرتا ہے- انداز بیان کی متانت و پختگی، مضامین کا علو، خیالات کی بلندی، جذبات کی پاکیزگی و لطافت؛ ان کے کلام کے مخصوص عناصر ہیں اور یہی وہ خوبیاں ہیں جو ان کے کلام کو نیرنگی و اعتبار کے بلند درجے پر پہنچا دیتی ہیں- ایک خاص خوبی حضرت آسی کے کلام کی یہ ہے کہ ان کی غزلوں میں بھرتی کے شعر بالکل نہیں ہوتے- سوقیت و عامیانہ مذاق سے کلام پاک ہے- نیز جرأت و داغ کی طرح ہوس ناکی، سفاہت بھی ان کے یہاں نہیںپائی جاتی- آسی ایک صاحب حال، صاحب دل، صاحب نسبت بزرگ تھے، اس لیے فطرتاًان کا کلام تصوف کی چاشنی سے معمور ہے- وہ کبھی تو ایسے اشارات صوفیانہ کر جاتے ہیں جس سے کلام کی رنگینی و رعنائی حد درجہ دل پذیری کی شان اختیار کرلیتی ہے اور کبھی کسی خاص مسئلۂ تصوف پر شاعرانہ رنگ میں روشنی ڈال جاتے ہیں اور کبھی مجاز کے پردہ میں رموز حقائق کی طلسم کشائی کر جاتے ہیں چوںکہ تصوف میں بھی حضرت آسی کا مذاق وحدۃ الوجود کا ہے اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس مسئلہ پر وہ مختلف والہانہ اور مستانہ انداز سے اپنے واردات قلب کو قالب شعر میں ڈھال کر پیش کر جاتے ہیں جن کو سنتے ہی سامع پر ایک بے خودی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور مذاق سلیم پیروں سر دھنتا ہے-‘‘ (سمات الاخیار،ص:۲۷۰)
حضرت آسی کی غزل اور آپ کی رباعیوں کے حوالے سے فراق گورکھ پوری کہتے ہیں:
’’آسیؔ غازی پوری کے کلام کے بھی ہم دونوں عاشق تھے جسے لذت لے لے کر ایک دوسرے کو سناتے تھے اور جس پر دونوں مل کر تبصرے کیا کرتے تھے- کئی برس بعد ایسا ہوا کہ میں کان پور سناتن دھرم کالج میں پروفیسر ہوگیا اور مجنوںؔ جو اب بی اے پاس کرچکے تھے گورکھ پور ہی میں تھے- ہم دونوں کے شعور اور وجدان کے باہمی ربط کا یہ کرشمہ تھا کہ بغیر ایک دوسرے کی خبر رکھے ہوئے ہم دونوں نے پچاس رباعیاں کہہ ڈالیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو خط لکھا کہ آسیؔ کی رباعیوں سے متاثر ہوکر یہ رباعیاں کہی گئی ہیں، ہم دونوں اب تک اس حسنِ اتفاق پر حیرت کرتے ہیں-‘‘ (عین المعارف، ص: ۳۳-۳۴)۔
 مولانا ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں:’’ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر سید محمود مرحوم سابق وزیر خارجہ حکومتِ ہند) کو جون پور کی خانقاہ رشیدیہ سے بھی بڑا گہرا روحانی تعلق تھا- یہ تو یقینی طور پر معلوم نہیں کہ وہ اس سلسلے میں بیعت بھی تھے لیکن ان کو اسی سلسلے کے مشہور شیخ مولانا عبد العلیم آسیؔ غازی پوری سے ایسی عقیدت ووابستگی تھی کہ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ اپنی نوجوانی میں ان سے بیعت ہوگئے تھے- اپنی زندگی کے آخری دور میں وہ ان کا کلام بڑے شغف اور جوش عقیدت کے ساتھ پڑھتے تھے اور اکثر ان کا تذکرہ فرماتے تھے-‘‘ ( عین المعارف، ص: ۳۴)
ایسے ہی مولانا محمد علی جوہر تحریر کرتے ہیں:
’’اس سفر (بسلسلۂ مقدمۂ کراچی) میں رات کے طول طویل گھنٹے درود وسلام کی تسبیحیں پڑھتے پڑھتے گزار دیے اور آسیؔ غازی پوری کا یہ شعر سارے سفر میں برابر وردِ زبان رہا :
وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد
تمہارے نام کی رٹ ہے خدا کے نام کے بعد‘‘ 
(عین المعارف، ص: ۳۴)
مجنوں گورکھ پوری تحریر کرتے ہیں: 
’’مشرق کے صوفی شاعروں میں صرف دو ہستیاں ایسی نظر آتی ہیں جنہوں نے مجاز کی حقیقت اور قدسیت کو کما حقہ تسلیم کیا ہے اور جن کے مسلک کو ’’مجازیت‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ ایک تو حافظؔ دوسرے آسیؔ‘‘ (عین المعارف، ص: ۲۰)
ان حضرات کی ان تحریروں سے حضرت آسی کے کلام کی اثر انگیزی اور غزل کی شہرت کا علم ہوتا ہے-
(۱۲) شاہ شاہد علی سبز پوش (پ: ۱۳۰۷ ھ /۱۸۸۸ء ۔ م:  ۱۳۷۲ھ/ ۱۹۵۳ء)
آپ کا نام شاہد علی اور لقب رشید الدین و شہود الحق اور تخلص فانی تھا- آپ حضرت آسی غازی پوری کے مرید و خلیفہ اور سلسلۂ رشیدیہ کے آٹھویں سجادہ جانشیں تھے- آپ کے والد کا انتقال آپ کی پیدائش سے ۳ ماہ ۳ دن قبل ہو گیا- آپ کا نسبی سلسلہ ۲۹؍ واسطوں سے حضرت علی امیر المومنین رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے-
آپ اپنے وقت کے اچھے شاعر اور متبحر عالم شریعت اور عارف باللہ تھے- (۴) مخلوق خدا کے ساتھ وقت کے بڑے نام ور شعرا سے بھی آپ کے اچھے تعلقات تھے- چند نام ور شعرا جو آپ سے اپنے تعلقات پر فخر کرتے تھے ان میں حفیظ جون پوری، جگر مرادآبادی ، وصل بلگرامی وغیرہم ہیں-
(دیوان فانی، ص:۱؍ تا ۳۰ ملخصاً)
اور ان جیسے دیگر علما و شعرا مثلاً علماے فرنگی محل، اصغر گونڈوی، ہادی مچھلی شہری ، حسرت موہانی، سیماب اکبرآبادی سے بھی آپ کے خاص روابط تھے-(سمات الاخیار،ص۳۰۱ تا ۳۰۳ ملخصاً)آپ نے دیوان فانی کے نام سے ایک شعری دیوان چھوڑا ہے جو عارفانہ اور صوفیانہ شاعری کا مجموعہ ہے-دعوت و تبلیغ کو جاری رکھتے ہوئے روحانی نعمتوں کو عام کرنے اور رہتی دنیا کے لیے رشد و ہدایت کا سلسلہ باقی رکھنے کی غرض سے آپ نے کچھ افراد کی تعلیم و تربیت کرکے ان کو اجازت وخلافت سے بھی سرفراز فرمایا- ان میں سے چند جن کا نام کتابوں میں ملتا ہے وہ یہ ہیں: سید مصطفی علی سبز پوش، سید شاہ ایوب ابدالی سجادہ نشیں خانقاہ اسلام پور پٹنہ، سید عبد الشکور سادات پوری، مولوی محمد یٰسین چمنی بازار پورنیہ، مولوی ذاکر حسین چوکی قتال پور، سیوان، بہار، حکیم لطیف الرحمن چمنی بازار، پورنیہ بہار-
(سمات الاخیار،ص۳۰۸)
(۱۳) سید شاہ مصطفی علی سبز پوش (وصال:۱۸؍ ذی القعدہ ۱۳۸۵ھ؍ ۱۱؍ جولائی ۱۹۵۸ء)
آپ سید شاہد علی سبز پوش کے لڑکے و جانشین اور خانقاہ رشیدیہ کے ۹؍ ویں سجادہ اور موجودہ سجادہ نشیں مفتی عبید الرحمن رشیدی مد ظلہ العالی کے شیخ ارادت تھے- مدرسیہ صولتیہ مکہ معظمہ کے سند یافتہ عالم اور صاحب تصرف صوفی تھے- بہار کے ضلع چمپارن میں جہاں وہابیوں کا زور تھا آپ نے زبردست دعوت و تبلیغ کی جس کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں نے توبہ کی اور جماعت اہل سنت میں شمولیت اختیار کی- (سمات الاخیار،ص:۳۰۹)
۱۸؍ ذی القعدہ۱۳۷۸ھ/۱۱؍ جولائی ۱۹۵۸ء کو گورکھ پور میں شہادت کی موت پائی اور واصل بحق ہوئے- جون پور، رشید آباد میں مدفون ہوئے- آپ کے بعد خانقاہ کا انتظام و انصرام کچھ دنوں تک سید ہاشم علی کے سپرد کیاگیا پھر رشد و ہدایت کا کام سید شاہد علی کے خلیفہ سید شاہ ایوب ابدالی جو شاہ مصطفی علی شہید کے مرشد کامل ہوتے ہیں، ان کے حوالے کیا گیا-
(سمات الاخیار،ص:۳۰۹ تا ۳۱۱ ملخصاً)
سلسلۂ رشیدیہ کی موجودہ علمی و دعوتی سرگرمیاں
بانی سلسلۂ رشیدیہ شیخ محمد رشید جن کی عارفانہ حیثیت کو ان کے ہم عصر مشائخ و صوفیہ نے تسلیم کیا اور جن کے تبحر علمی کی شبلی اور ان جیسے دیگر علما اور دانش وروں نے قصیدہ خوانی کی ہے، اس سلسلے کے مشائخ کی علمی اور روحانی حیثیتوں کو ملک العلما ظفر الدین بہاری جیسی عبقری شخصیات نے بھی تسلیم کیا اور ان کے ادبی اور شعری شہ پاروں کو دیکھ کر غالبؔ اور ناسخؔ جیسے فن کار شعر و سخن نے رشک کیا ہے- اس عظیم خانقاہ کی علمی اور روحانی حیثیت آج بھی باقی ہے- اس وقت ایک صاحب سجادہ کی نگرانی میں اس سلسلے کی پانچ خانقاہیں مختلف مقامات پر چل رہی ہیں- سب کے سب دعوت و تبلیغ اور خدمت خلق میں مصروف ہیںاور اپنے مشائخ کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے اشاعت علم ومعرفت کا سلسلہ جاری رکھی ہوئی ہیں- یہاں کے موجودہ صاحب سجادہ حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی کی لائق تعریف اور حکیمانہ قیادت میں مختلف مقامات پر اس سلسلے کے ترجمان مختلف معیاری علمی ادارے چل رہے ہیں جہاں سیکڑوں کی تعداد میں طالبان علوم نبویہ اپنی علمی تشنگی بجھا رہے ہیں- ان اداروں کے اسمایہ ہیں: (۱) دار العلوم مصطفائیہ، چمنی بازار، پورنیہ، بہار(۲) دار العلوم سرکار آسی، سکندر پور، بلیا(۳) دار العلوم طیبیہ معینیہ، بنارس(۴) دار العلوم رشیدیہ، جون پور(۵) دار العلوم حیدریہ معینیہ، سیوان (۶) دار العلوم علیمیہ شاہدیہ، غازی پور
مشائخ سلسلۂ رشیدیہ کا اعتقادی،فقہی اور صوفی مسلک
خانقاہ رشیدیہ ہندوستان کی قدیم روحانی اور علمی خانقاہ ہے- یہاں کے مشائخ نے اپنی علمی اور دعوتی دونوں حیثیتوں کو ثابت کیا اور ان دونوں میدانوں میں بے لوث خدمات انجام دیں-اس سلسلے کے مشائخ نے اعتقادی، فقہی اور سوانحی کتابیں بھی لکھی ہیں- خود بانی خانقاہ رشیدیہ شیخ محمد رشید قدس سرہ نے فن مناظرہ کی مشہور کتاب شریفیہ کی رشیدیہ کے نام سے جو شرح کی ہے وہ ان کے دینی افکار اور خیالات کو ثابت کرتی ہے- یوں ہی اس سلسلے کے مشائخ کی تصنیفات و تالیفات اور ملفوظات مثلاً : گنج رشیدی، گنج ارشدی، گنج فیاضی، کرامات فیاضی، مناقب العارفین، سمات الاخیار، عین المعارف، دیوان فانی وغیرہ کے مطالعے سے واضح طور پر جن افکار و نظریات اور خیالات کا علم ہوتا ہے اس کو ذیل میں قلم بند کیا جاتا ہے:
اعتقادی مسلک
ہندوستان کی دیگر خانقاہوں اور خانوادوں کے علما و مشائخ کی طرح سلسلۂ رشیدیہ کے علما و مشائخ اعتقادی طور پر حضرت امام ابو منصور ما تریدی قدس سرہ کے پیروکار رہے ہیں اور صدیوں سے متواتر طور پر چلے آرہے اہل سنت کے معتقدات ومعمولات خواہ وہ ضروری ہوں یا ظنی، ان کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں- 
فقہی مسلک
ہندوستان کی اکثر مسلم آبادی فقہ و فتاویٰ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت قدس سرہ کی پیروی کرتی ہے- ہندوستانی علما و مشائخ نے فقہ حنفی کی صرف پیروی ہی نہ کی بلکہ وسیع پیمانے پر اس مسلک و مذہب کی ترویج و اشاعت بھی کی ہے- سلسلۂ رشیدیہ کے علما و مشائخ نے بھی دعوت و تبلیغ اور درس و تدریس کے ساتھ اپنی تصنیفات و تالیفات کے ذریعے بھی فقہ حنفی اورمسلک امام اعظم ابو حنیفہ قدس سرہ کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ میں اپنے وجود کا احساس دلایا ہے-
صوفی مسلک
حضرت خواجہ غریب نواز قدس سرہ کی حکیمانہ دعوت و تبلیغ کی بنیاد پر چشتی نسبت نے قدیم ہندوستان کے اکثر حصوں کو اپنی روحانیت سے منور اور پرسکون بنادیا- بہت سے دوسرے مشائخ نے قادریت، نقش بندیت اور سہروردیت کی بھی ترویج و تبلیغ کی اور ان تمام روحانی چشموں سے خود بھی فیض یاب ہوئے اور دوسروں کو بھی فیض یاب فرمایا-البتہ چشتیت اور قادریت کا غلبہ ہندوستان میں زیادہ رہا- خانقاہ رشیدیہ جون پور بھی اصلاً چشتی خانقاہ ہے لیکن یہاں کے مشائخ کو دیگر مختلف سلاسل کی اجازت و خلافت شروع سے چلی آ رہی ہے - یہاں کے اکثر مشائخ نے زیادہ تر بیعت، سلسلۂ چشتیہ اور قادریہ میں کی ہے اور اجازت سے نوازا ہے-
یہاں کے بعض مشائخ چشتی صوفی رسوم مثلاً رقص وسماع وغیرہ سے بھی خوب لطف اندوز ہوئے ہیں-(۱)
تعلیقات
(۱)بانی سلسلہ ٔ رشیدیہ شیخ محمد رشید کے جد امجد حضرت شیخ عبدالحمید حضرت مخدوم سید اشرف جہاں گیر کچھوچھوی کے مرید و خلیفہ تھے-اس روایت کے تعلق سے نوجوان فاضل مولانا ابرار رضا مصباحی جو خانقاہ رشیدیہ سے اپنا روحانی رشتہ اور اس سلسلے کے مشائخ کے تعلق سے  معلومات رکھتے ہیں، لکھتے ہیں:’’یہ روایت و عبارت بھی ناقابل تسلیم اور حقیقت سے بعید معلوم ہوتی ہے- کیوں کہ خانوادۂ رشیدیہ کی تاریخ پر معتبر و مستند کتاب ’’گنج ارشدی شریف‘‘ اور دیگر کسی کتب تاریخ و سیرت میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ حضرت بندگی شیخ جمال الحق مصطفی کے والد بزرگ وار امام العارفین حضرت شیخ عبدالحمید حضرت سید اشرف جہاں گیر سمنانی کے مرید و خلیفہ تھے اور پھر یہ کہ ان دونوں حضرات کے زمانے میں بھی کافی تفاوت اور بون بعید ہے- لہٰذا یہ روایت کسی بھی طریقے سے درست نہیں ہے- البتہ ’’گنج ارشدی شریف‘‘ میں یہ ہے کہ حضرت شیخ عبدالحمید کی شادی شیخ عبد القادر کی دختر سے ہوئی اور شیخ عبدالقادر کے والد قاضی عبد الصمد شیرشاہ سوری کے لشکر کے قاضی تھے- آپ کا سلسلۂ نسب حضرت قاضی محمد عرف متھن صدیقی سے ملتا ہے جو کہ حضرت مخدوم میر سید اشرف جہاں گیر سمنانی قدس سرہ کے خلیفہ اورحضرت معروف شبلی کی اولاد سے ہیں-‘‘
(ماہ نامہ جام نور، نئی دہلی، فروری ۲۰۱۲ء، ص:۶۲)  
(۲) بانی سلسلۂ رشیدیہ شیخ محمد رشید کا نام عبد الرشید بھی ملتا ہے- آپ کے پیر بھائی اور خلیفہ شیخ یٰسین جھونسوی ’’مناقب العارفین‘‘ میں اپنے شیخ ارادت مخدوم شاہ طیب بنارسی قدس سرہ کے اولوالعزم خلفا کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:’’دوسری شخصیت استاذی واستاذ العالمین، ملاذی وملاذ الصالحین، زبدۃ الاحبار، عمدۃ الابرار، محبوب قلوب الشطار، صاحب الرشاد والسداد، والمتمکن فی مقام الارشاد، قدوۃ اہل التجرید و التفرید، بندگی میاں شیخ عبد الرشید ابد اللہ تعالی ظلال عاطفہ علی روس المعتقدین والمریدین کی ہے-‘‘ (مناقب العارفین،ص:۸۶)
شیخ محمد رشید کے ہم عصر اور خواجہ تاش نے جن الفاظ و القاب میں آپ کا ذکر کیا ہے، اس سے جہاں آپ کی عظمت ، رفعت اور مقام ولایت کا علم ہوتا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو عبد الرشید بھی کہا اور لکھا گیا ہے- یوں ہی مآثر الکرام کے مصنف میر سید غلام علی آزاد بلگرامی نے بھی آپ کا نام عبد الرشید اور لقب شمس الحق لکھا ہے- (مآثر الکرام، ص: ۳۱۱) حدائق الحنفیہ میں آپ کا تعارف کراتے ہوئے یوں تحریر ہے:’’ مخدوم شیخ عبد الرشید بن شیخ مصطفی عبد الحمید عثمان: پہلا نام آپ کا محمد رشید تھا اور اسی کو دوست رکھتے تھے اور مراسلات ومکاتبات میں لکھتے تھے- لقب آپ کا شمس الدین تھا ( حدائق الحنفیۃ ص: ۴۲۹) حدائق الحنفیۃ میں آپ کی تاریخ وفات ۱۰۵۵ھ بتائی گئی ہے جو دیگر تمام مراجع سے مختلف ہے- اس کے علاوہ تمام مراجع ومصادر میں ۱۰۸۳ھ ہے اور یہی درست ہے- صاحب نزہۃ الخواطر نے بھی آپ کا نام محمد رشید اور گنج ارشدی کے حوالے سے تاریخ وصال ۹؍ رمضان ۱۰۸۳ھ لکھا ہے-( نزہۃ الخواطر،ج: ۵، ص: ۳۹۹،۴۰۰)
صاحب تذکرہ علماے ہند، مولوی رحمن علی صاحب نے آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں تحریر کیا ہے: مولانا عبد الرشید جون پوری ابن شیخ مصطفی بن عبد الحمید، ان کا لقب شمس الحق تھا، شمس تخلص کرتے تھے، شیخ فضل اللہ جون پوری کے شاگرد اور اپنے والد شیخ مصطفی (مرید نظام الدین امیٹھوی) کے مرید تھے، جو اولیائے کبار اور علمائے کرام سے تھے- (تذکرہ علماء ہند، ص: ۲۹۷) 
سمات الاخیار کے مصنف نے جو بات تحریر کی ہے وہ یہ ہے: آپ کا نام نامی محمد رشید ہے اور آپ کی بعض تحریروں سے عبد الرشید بھی ثابت ہے مگر کم، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو محمد رشید زیادہ مطبوع ومحبوب تھا- آپ کی کنیت ابو البرکات اور لقب شمس الحق ہے- لوگ آپ کو قطب الاقطاب اور دیوان جی کہا کرتے تھے- (سمات الاخیار،ص: ۶۰) اب ان تفصیلات کے بعد آپ کے نام ولقب کے تعلق سے مزید کچھ لکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی-
(۳)شیخ محمد رشید کے شیوخ میں مخدوم شاہ طیب بنارسی حضرت عبد القدوس قلندر، میر سید شمس الدین کا لپی اور راجی احمد مجتبیٰ مانک پوری جیسے مشائخ کا نام آتا ہے اور شیخ نور الحق ابن شیخ عبد الحق محدث دہلوی شارح بخاری اور افضل العلماء شخ محمد افضل جیسے متبحر علماآپ کے اساتذہ ہوتے ہیں- ملا عبد الحکیم سیالکوٹی (۱۲؍ ربیع الاول ۱۰۶۷ھ) ملا عصمت اللہ سہارن پوری (۱۰۳۹ھ) اور شیخ محب اللہ الٰہ آبادی جیسے نامور علماومشایخ آپ کے ہم عصر اور ملا محمود جون پوری جیسے منقولی اور معقولی عالم آپ کے ہم سبق ساتھی تھے- آپ کے استاذ شیخ محمد افضل کہتے تھے کہ جس وقت علامہ تفتازانی اور جرجانی دنیا سے گئے اس وقت سے کسی نے بھی اتنے بڑے فاضلوں کو ایک شہر میں اکٹھا ہوتے نہیں دیکھا یعنی ملا محمود اور شیخ عبد الرشید- (مآثر الکرام، ص: ۳۶)
(۴) آپ کے بارے میں خانقاہ رشیدیہ کے موجودہ سجادہ حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی مدظلہ العالی تحریر کرتے ہیں: آپ حضرت سرکار آسی مولانا الشاہ محمد عبد العلیم قدس سرہ کے مرید خاص اور خلیفۂ اول اور خانقاہ رشیدیہ جون پور کے سجادہ نشین رہے ہیں- آپ کی ذات والا صفات محتاج تعارف نہیں- حضرت ملک العلمامولانا ظفر الدین فاضل بہاری مصنف صحیح البہاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ ’’موذن الاوقات‘‘ میں آپ کے جو آداب والقاب ذکر فرمائے ہیں وہ یہ ہیں ’’عارف باللہ، مقبول بارگاہ، ملحق الاصاغر بالاکابر، وارث العلم والفضل والمجد والشرف، کابراً عن کابرٍ، جامع شریعت وطریقت، حاوی اسرار حقیقت ومعرفت، عالی جناب، معلی القاب سید شاہد علی صاحب سبزپوش سجادہ نشین خانقاہ رشیدیہ علیمیہ، جون پور، دام بالفیض والسرورالی مرالدہور-‘‘ (خطبات رشیدیہ ،ص: ۳)
حضرت مفتی صاحب نے الاحسان کو دیے گئے اپنے تحریری انٹرویو میں یہ بات بھی تحریر کی ہے کہ حضرت ملک العلما ظفر الدین بہاری، حضرت سید شاہ شاہدعلی سبزپوش کے خلیفہ شاہ ایوب ابدالی خانقاہ اسلام پور پٹنہ کے اجازت یافتہ بھی تھے، اور یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ۱۹۴۶ء میں بنارس میں چار روزہ سنی کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں حضرت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مراد آبادی خلیفۂ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے خانقاہ رشیدیہ کے ۹؍ویں سجادہ نشیں سید شاہ شاہد علی سبز پوش قدس سرہ سے ملاقات کی اور ان کو کانفرنس کے اغراض ومقاصد سے آگاہ کیا- 
(۵) سماع اور وجد وکیف اور رقص کے تعلق سے مناقب العارفین کے مصنف شیخ یٰسین جھونسوی اپنے شیخ ارادت مخدوم شاہ طیب بنارسی جو شیخ محمد رشید بانی سلسلۂ رشیدیہ کے شیخ اجازت اور شیخ تربیت ہیں، کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: ’’ابتدا میں آپ قدس سرہ کو سماع سے بہت شغف تھا اور وجد ورقص بہت فرماتے تھے اور اکثر صالح قسم کے قوال آپ کے ساتھ رہتے تھے- کبھی کبھی سماع کے جوش میں جنگل کی طرف چلے جاتے، دو ر دراز جنگل میں رہتے اور کوئی نہ جانتا کہ آپ کہاں ہیں، لیکن جب قوال اس نواح میں جاتے اور گانا شروع کرتے تو اس کو سنتے ہی آپ کسی طرف سے ظاہر ہوجاتے اور رقص میں مشغول ہوجاتے- جب آپ پر حال طاری ہوتا اور آپ رقص فرماتے تو در و دیوار مست ہوجاتے اور ایسا معلوم ہونے لگتا کہ ہر چیز عالم رقص میں ہے- بہت سی راتیں اسی حال میں گزر جاتیں- آخر وقت میں سماع سے پرہیز فرمایا اور اپنے اختیار سے نہیں سنتے تھے- فرمایا کرتے کہ اس دور میں سرود نہیں سننا چاہیے کیوں کہ اس کی کوئی شرط باقی نہیں رہ گئی ہے، زمانہ فاسد ہوچکا ہے، یاران موافق نہیں رہ گئے ہیں اور قوالوں میں طمع جاگزیں ہوگئی ہے، اس لیے ایسے وقت میں سرود کا سننا فقرا کے طریقہ سے مناسبت نہیں رکھتا-‘‘ (مناقب العارفین، ص:۷۵،۷۶)
اور شیخ محمد ارشد ابن شیخ محمد رشید کے بارے میں سمات الاخیار کے مصنف ایک واقعہ یوں تحریر کرتے ہیں: ’’سماع کا سننا بعض روایتوں سے ثابت ہے- حضرت راجی سید احمد حلیم اللہ مانک پوری کا عرس تھا، بہت سے بزرگان دین مل کر گاگر بھرنے چلے، قوال ساتھ تھے،واپسی میں جب یہ شعر گایا:
شنیدہ ام کہ سگاں را قلادہ می بندی
چرا بہ گردن حافظ نمی نہی رستے
آپ پر ایسی حالت طاری ہوگئی کہ دستار مبارک اتار کر قوال کو عطا فرمایا- پھر دوسروں نے بھی تبعاً اپنی اپنی دستار دے ڈالی- آپ کی حالت نے ایسی تاثیر پیدا کی کہ دیکھنے والوں کی بھی حالت متغیر ہوگئی- اسی طرح حضرت مخدوم طیب بنارسی کے عرس میں آپ کو حال آیا- پہلے آپ نے بہت کچھ ضبط کیا مگر ضبط نہ ہوسکا تو فرمایا کہ حضرت مخدوم کی روح (روحانیت)نے غلبہ کیا- بزرگان چشتیہ نے سماع کی تعریف یوں کی ہے کہ سماع ایک تازیانہ ہے جو محب کو محبوب کی طرف ہنکاتا ہے اور ایک وسیلہ ہے جو دلوں کو معشوق کے قریب پہنچاتا ہے- رموز رحمانی میں سے ایک رمز ہے جو بیان سے کھل نہیں سکتا اور زبان سے ادا ہوسکتا نہیں- شوریدگان محبت اس سے محظوظ ہوتے ہیں اور ہشیار وخود پرست اس سے بے بہرہ رہتے ہیں- سچ ہے   ؎
حدیث عشق باخبار در نمی گنجد 
بیان شوق بگفتار در نمی گنجد
(سمات الاخیار،ص:۱۲۱)
معلوم ہوا کہ یہاں کے مشائخ نے سماع کے جو شرائط ہیں، ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے،سماع کا لطف اٹھایا ہے- جب جب شرائط پائے گئے تو سماع کیا اور جب شرائط کا فقدان رہا تو پرہیز کیا- یہی صوفیہ صافیہ کا طریقہ چلا آرہا ہے- آج بھی اگر شرائط یعنی زمان، مکان اور اخوان پائے جائیں تو اس کا لطف لیا جاسکتا ہے، ورنہ پرہیز بہتر ہے- 
کتابیات
(۱) سمات الاخیار، مولوی محمد عبد المجید و سید محمد اصغر ایوبی، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی، کراچی
مطبع: جمیل برادرز، لیاقت آباد، کراچی،۱۴۱۹ھ
(۲) دیوان فانی، سید مصطفی علی رشیدی، ناشر، انجمن فیضان رشیدی، کلکتہ
(۳) مناقب العارفین، شیخ یٰسین جھونسوی، مترجم ناشر: خانقاہ رشیدیہ جون پور شریف
(۴) عین المعارف، مولف: شاہ شاہد علی رشیدی، ناشر: انجمن فیضان رشیدی، کلکتہ
(۵) انوار الاولیا، مؤلف: مولوی حبیب اللہ مختار، خرم پرنٹنگ پریس، کراچی، ۲۰۰۰
(۶) ماہ نامہ جام نور،نئی دہلی، فروری ۲۱۰۲ء
(۷) تذکرہ علمائے ہند، مولوی رحمن علی، مطبع منشی نول کشور، لکھنو، ۱۹۱۴ء
(۸) حدائق الحنفیہ، مولوی فقیر محمد جہلمی، مکتبہ رضویہ، دہلی، ۲۰۰۶ء
(۹) نزہۃ الخواطر، عبد الحی الحسنی، مکتبہ دار عرفات، دائرہ الشیخ علم اللہ،راے بریلی، ۱۹۹۲ء
(۱۰) مآثر الکرام، غلام علی آزاد بلگرامی، مترجم: یونس رضا اویسی، جامعۃ الرضا، بریلی، ۲۰۰۸ء
(۱۱) خطبات رشیدیہ، مفتی عبید الرحمن رشیدی، مکتبہ آسی، بلیا، ۱۴۱۴ھ

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں