Akhlaqe Hasna Aur Uski Nauiyatein

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Aug-2015➤ Makhdoom Sheikh Saad Khairabadi                             Download_Pdf 


اخلاق حسنہ اوراس کی نوعیتیں

جامع شریعت وطریقت حضرت مخدوم شیخ سعدخیرآبادی(۹۲۲ھ)مریدوخلیفہ حضرت مخدوم شاہ مینالکھنوی (۸۸۴ھ) دسویں صدی ہجری کے عظیم فقیہ اور اعلیٰ صفت درویش گزرے ہیں۔اُنھوں نےآٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف متن تصوف ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ ازعلامہ قطب الدین دمشقی (۷۸۰ھ)کی عالمانہ وعارفانہ شرح لکھی اور اُس کا نام ’’مجمع السلوک‘‘ رکھا جو شریعت و طریقت کا عطرمجموعہ اور سالکین و طالبین کے لیے دستورالعمل ہے ۔
 مولانا ضیاء الرحمن علیمی استاذجامعہ عارفیہ نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے،ان شاء اللہ بہت جلد شاہ صفی اکیڈمی سے شائع ہوگا۔اس کتاب سےچندایمان افروزاقتباسات پیش ہیں ۔ ( ادارہ)

دسواں خلق:
خدمت خدمت یہ ہے کہ مسافرومقیم اورآنے جانے والوں کی خدمت اُن کی طبیعت کے مطابق کی جائے اوراُن کی فراغت قلبی کواپنا مطلوب بنایاجائے تاکہ یہ لوگ فارغ القلب ہوکر اوراد واذکار میں مشغول رہیں،تمہاری خدمت سے ان کو جمعیت خاطر حاصل ہوگی، اوراُن کے ذکرکاثواب تم کوبھی ملےگا،خانقاہیں،اورصوفیائے کرام کے جماعت خانے اسی لیے بنائے گئے ہیں،یہاں تک کہ صوفیا جب کسی کو اپناجانشین بناتے ہیں تومثال اوراجازت نامہ میں یہ تحریر کرتے ہیں کہ مسافروں اورآنے جانے والوں کی خدمت کریں۔اگر خانقاہ میں کوئی چیز موجود نہ ہوتوبھیک مانگ کرلائیں اوراُس سے ان کی خدمت کریں تاکہ اُن کو فراغت قلبی حاصل ہواورتم کوکسر نفسی کی دولت ہاتھ آئے،یہ عمل،خدمت اس صورت میں کہلائےگا جب کہ جس شخص کی خدمت کی جارہی ہے وہ اس کاہم عمریااس سے زیادہ عمر والاہو، اوراگرکم عمروالے کی خدمت کی جائے تویہ خدمت نہیں،بلکہ رحمت وشفقت کہلائےگی۔

گیارہواں خلق:
الفت الفت یہ ہے کہ باہمی ہم آہنگی پیداکی جائے،یعنی زندگی اس طرح نہ ہوکہ لوگ تم سے مانوس نہ ہوںاورنہ تم ان سے مانوس ہو،ایساشخص جس سے لوگ الفت نہ کریں اوروہ کسی سے الفت نہ کرے یاتودیوانہ اورپاگل ہوگایاکوئی مردود۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
اَلْمُؤمِنُ ألِفٌ ألُوْفٌ وَلَاخَیْرَ فِیْمَنْ لَّایُألِفُ وَلَایُؤْلَفُ۔
ترجمہ:مومن الفت کرنے والا ہوتاہے اوراُس سے الفت کی جاتی ہے،اوراس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جونہ دوسروں سے الفت کرے اور نہ دوسرا اُس سے الفت کرے۔
یہ ہم آہنگی اوراُلفت، شریعت کے طریقے پرہونی چاہیے، شریعت اور صوفیائے کرام کے طریقے کے خلاف نہیں ہونی چاہیے،نہ احباب واصحاب کے مابین بت پرست بن کر رہے،اورنہ کسی چیز کواپنابت بنائے،بلکہ احباب و اصحاب جو کام کریں وہی کام کیاجائے کہ اس کے کرنے یا نہ کرنےکی ضرورت نہ ہو، احباب واصحاب کے ساتھ رہنا کرم، مروت و الفت ہے،اور الفت محمودوپسندیدہ عادت ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
 اَلْمُؤمِنُ لِلْمُؤمِنُ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّہٗ بَعْضُھُمْ بَعْضًا۔
ترجمہ:ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہیں کہ ان میںسےعمارت کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوطی اورتقویت عطاکرتاہے۔

بارہواں خلق:
بشاشت وکرم بشاشت یہ ہے کہ کتنی ہی ناخوشی اورغمی کیوں نہ ہولیکن پھربھی کشادہ رواورہنس مکھ رہے،ترش رونہ رہے،اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاہے:
کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌوَإنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ أنْ تَلْقٰی أخَاکَ بِوَجْہٍ طَلَقٍ وَأنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِکَ فِی إنَاءِ أخِیْکَ۔
 ترجمہ:ہرنیکی صدقہ ہے،اوریہ عمل بھی نیکی میں سے ہے کہ تم اپنےمومن بھائی سے مسکراتے ہوئے ملو،اوراپنے ڈول سے اپنے مومن بھائی کے برتن میں پانی ڈالو۔
کرم ہر اس عمل کانام ہے جس سے دوسروں کونفع پہنچے،پھر کرم کی نوعیت کے اعتبارسے اس کے مختلف نام ہیں، مثلاًاگرمال دے کرکرم کامظاہرہ ہوتواُس کوسخاوت کہتے ہیں، اگراچھی بات کے ذریعے کرم کااظہار ہوتواُس کولطافت و حلاوت والی زبان کہتے ہیں، اوراگرذمہ داری اوروعدے کی تکمیل کے ذریعے کرم ہوتواُسے وفاکہتے ہیں،اوراگردوسروں کے ساتھ ہمدری کے ذریعے کرم ہوتواُسے شفقت کہتے ہیں، اگراُن میں سے ہرایک معانی میں غوروفکر کروتوکرم کی حقیقت تم پر روشن ہوجائے گی،اس لیے کہ ان میں سے ہرایک معنی کے اندریہ بات پنہاں ہے کہ دوسراشخص جب تم پر کوئی کرم کرتاہے تواُس سے خوشی ظاہرہوتی ہے،چنانچہ ہروہ کام جوتم انجام دویادوسراتمہارے ساتھ انجام دے اگر اس سے تمہارا دل خوش ہوجائے توسمجھ لوکہ تم جادۂ کرم پرگامزن ہو، اور جوکام اس کے برعکس ہواُسے ’’لوم‘‘(کمینگی)کہتے ہیں، اور اُس شخص کولئیم کہتے ہیں،اورلئیم کامعنی ہےکمینہ وذلیل ۔

تیرہواں خلق:
فتوت فتوت جواں مردی کوکہتے ہیں،صوفیاکہتے ہیں کہ انصاف سے پیش آئواوراِنصاف طلب کرویہ فتوت ہے،بعض مشائخ کاقول ہےکہ فتوت یہ ہے کہ لوگوں کی لغزش کو درگزر کرو،بعض کہتے ہیں کہ فتوت یہ ہے کہ ہمیشہ دوسروں کے کام میں لگے رہو،یعنی اس کام میں لگے رہوجس میں دوسروں کا فائدہ ہو۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لَایَزَالُ اللہُ فیِ حَاجَۃِ الْعَبْدِمَادَامَ الْعَبْدُ فیِ حَاجَۃِ أخِیْہِ الْمُسْلِمِ۔
ترجمہ:جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت کی تکمیل میں مصروف رہتاہے،اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاجت کی تکمیل کرتا رہتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 اشعریوں کاتوشہ جب تھوڑاسا رہ جاتاہے یااُن کے اہل وعیال کاکھاناتھوڑارہ جاتاہے توجوسب کے نزدیک جمع ہوتا ہے ان سب کوجمع کرکے آپس میں ہرایک کے برتن میں یہ برابرتقسیم کردیتے ہیں،یہ لوگ مجھ سے ہیں،اورمیں اُن سے ہوں۔
شیخ ابوالحسن بوشنجی رحمۃاللہ علیہ سے لوگوں نے فتوت کے بارے میں سوال کیاتواُنھوں نے جواب دیاکہ فتوت میرے نزدیک وہ اوصاف ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے انصار کو اس آیت کریمہ میں موصوف کیاہے:
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّااُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(حشر ۹)
ترجمہ:جنھوں نے پہلے سےمدینہ میں گھربنالیا ہے، جومہاجرین دارہجرت میں مقیم ہیں اوراخلاص کے ساتھ ایمان کواپنی قرارگاہ بنائے ہوئے ہیں،اپناوطن چھوڑکراُن کے پاس آئے ہوئے ہیں، اور جوچیزاُن کودی گئی ہے اپنے دلوں میںاس کی کوئی حاجت نہیں پاتے،کیوں کہ ان کو اِستغنااور شان بے نیازی عطاکی گئی ہے،یہ مہمانوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں،ان کے حصے کواپنے حصے پرمقدم رکھتے ہیں،اگرچہ خود اُن کوہی بڑی حاجت کیوںنہ ہو،اورجن کوبخل سے بچالیا گیاہےوہی کامیاب ہیں۔
یعنی جن کونفس کے ایسے بخل سے محفوظ کردیاگیاجس کے سبب وہ واجب حقوق کی ادائے گی نہ کرسکیں۔
بعض مشائخ نے کہا ہے کہ بخیل وہ ہے جواپنامال نہ دے ،اورشحیح وہ ہے جوناحق غیرکامال لینے کی فکرمیں لگاہو۔
شیخ دقاق رحمۃاللہ علیہ سے منقول ہے:
 فتوت ایک ایسی صفت ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ تمام وکمال کے ساتھ کسی کے اندر موجود نہیں ہے،اس لیے کہ کل قیامت میں ہرشخص نفسی نفسی کہےگااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُمتی اُمتی فرمارہے ہوں گے۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے:
فتوت ملک شام میں ہے،زبان ملک عراق میں اور صدق ملک خراسان میں۔
پیردستگیرقطب عالم قدس سرہٗ فرماتے تھے کہ ایک روز ایک درویش چند سومریدین کے ساتھ حضرت جنیدبغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس دوردراز سے تشریف لائے،حضرت جنید بغدادی نے خادم کوبلاکرایک اونٹ ذبح کرنے کاحکم دیاتاکہ سب کے لیے کافی ہوجائے،دوسرے روز بھی اُنھوں نے ایساہی کیا،اور تیسرے روزبھی انھوں نے ایساہی کیا۔
اس درویش نے جب دیکھاکہ حضرت جنید بغدادی تکلّف فرمارہے ہیں تواُنھوں نے روانگی کی اجازت طلب کی اورروانہ ہوگئے،انھوں نے روانگی کے وقت فرمایاکہ اگرآپ میرے پاس آئیں تومیں آپ کوفتوت کامعنی بتائوں گا، حضرت جنیدرحمۃاللہ علیہ جوطالب دین تھے،اگرچہ وہ لغت و اصطلاح کے اعتبار سے فتوت کے معنی سے واقف تھے،تاہم تیار ہوکر اُس درویش کے پاس تشریف لے گئے،اس درویش نے خادم کوبلاکرکہاکہ خواجہ کے ساتھ جتنے لوگ ہیںان کوشمار کرلو، اوراتنی مقدار میں پانی بڑھا دو۔جب افطار کا وقت ہوا توروٹی اورشورباحاضرکیاگیا،جب چند روز گزر گئے تو اُنھوں نے فرمایا کہ میں حسب وعدہ آیاہوں،کیوںکہ آپ نے فرمایا تھاکہ جب تم میرے پاس آئوگے تومیں تم کوفتوت کے معنی بتائوں گا،اس درویش نے جواب دیاکہ میں نے آنے کے وقت ہی تم کواُس کی تعلیم دے دی تھی،کیوںکہ صوفیائے کرام نے فرمایاہے کہ فتوت جواں مردی کانام ہے، اورجواں مردی وہ نہیں ہے جوتم نے کیاکہ ہرروز اُونٹ ذبح کیااورتکلّف میں پڑگئے،اگرچہ تم پرتنگی نہیں آئی اورخادم یاکسی پرکوئی انکار کا خیال دل میں نہیں آیا،البتہ!جب تم میرے پاس آئے تو میرے یہاں گوشت کی مقدار میں شوربامعمول کے مطابق تھا،جب آپ کے اصحاب آئے تو میں نے اُسی گوشت میں شوربا زیادہ کردیا، اس طرح اگرآپ میرے یہاں سالہا سال رہیں تب بھی کوئی فکر اورکوئی تردد نہیں ہوگا، درویش کے لیے فتوت یہ ہے کہ جواں مردی کرے نہ کہ تکلّف میں پڑجائے اور پراگندہ خاطر ہوجائے۔

چودہواں خلق:
ترک جاہ صوفیا کے اخلاق میں سے ایک خلق ترک جاہ یعنی جاہ و مرتبہ ترک کرنابھی ہے،جاہ ومرتبہ ترک کردینے کےمعنی یہ ہیں کہ اگر دو دوست ہم منصب ہوںیاایک دوسرے سے کم منصب ومرتبے والاہوتووہ معظم شخص اپنے ہم رتبہ یااپنے سے کم رتبے والے شخص کو اپنوں اورغیروں کے مجمع میں اپنی ریاست وعہدہ اس کوعطاکردے اورخود کواُس سےکم رتبہ بنادے یایہ کہ اگرکسی کوکوئی حاجت درپیش ہو، اوروہ کام ایک شخص کی کوشش سے ہوسکتاہے تواُس کام کے لیے خوداٹھ کھڑاہو، اور اس کام کوکردے۔
 منقول ہے کہ حضرت دانیال علیہ السلام ایک بادشاہ کی رکاب پکڑ کرچلاکرتے تھے،وہ لوگوں کے کام کرنے کے لیے اپنے جاہ ومرتبہ کاخیال نہیں کرتے، اس طرح سےانھوں نے ایک بادشاہ کادل جیتا،وہ بادشاہ بخت نصرتھا،جو بڑاہی ظالم و جابربادشاہ تھا،جس بادشاہ نے بیت المقدس کوتاراج کیاتھا اور توریت کوجلایاتھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
مَنْ أخَذَ بِرِکَابِ أخِیْہِ الْمُسْلِمِ لَایَرْجُوْہُ لَایَخَافَہٗ غُفِرَلَہٗ۔
ترجمہ:جواپنے مسلم بھائی کی رکاب اس حال میں پکڑلے کہ نہ اس کواس سے کوئی امیدہو،اورنہ اس کاکوئی خوف ہوتو اس کی مغفرت ہوگئی۔
ترک جاہ کے سلسلے میں کامل صوفی کامعاملہ عالم ربانی کی طرح ہے،جونفس کی آفتوں اور اُس کے عیوب سے آگاہ ہوتا ہے،چنانچہ ترک جاہ سےکسی جاہ کوحاصل کرنا مقصودنہ ہو،یہ ہوشیار رہنے کامقام ہے،یہاں ہوشیار رہنا چاہیے، یہ ہرجاہل مدعی کاکام نہیں ہے،یہ مقام اسی شخص کے لیے درست ہوتاہے جس کے باطن پراللہ تعالیٰ کسی کومطلع فرمادے۔
عوارف کے حاشیے میں لکھاہے کہ جاہ ورتبے کے ساتھ اسلام کی صحت ودرستی کاجمع ہونامشکل ہے،بلکہ بہت زیادہ مشکل ہے، اسی لیےصوفیا اپنی طرف سے جاہ ورتبے کوساقط کرکے اس سے سبکدوشی اختیار کرنے کالطیف حیلہ نکالتے ہیں،اوروہ حیلہ یہ ہے کہ وہ بظاہر اپنے آپ کوحق تعالیٰ کا نافرمان ظاہرکرتے ہیں،اورباطن میںوہ سب سے زیادہ تابع فرمان ہوتے ہیں، لہٰذا اگرکوئی شخص ان کوکسی برائی میں گرفتار پائے تووہ اس کوتاویل کی نگاہ سے دیکھے۔
بنی اسرائیل کی روایتوں میں مذکورہے کہ ایک نبی نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیاکہ اس کواپنا محبوب بندہ دکھادے،ان کوحکم ہواکہ فلاں شہرمیں چلے جائو،وہاں ایک قصائی ہے،اس کانام یہ ہے،وہ ہم سے محبت رکھتاہے،وہ نبی اس شہرمیں پہنچے اوراُس کوتلاش کیااورجس شخص سے بھی انھوں نے اس کے بارے میں پوچھا،لوگوں نے جواب دیاکہ وہ فاسق ہے،زانی ہے، شراب نوشی کرتاہے،وہ ایک شراب خانے میں پہنچے تواس کودیکھاکہ وہ عیاراور چوروں کےبھیس میں ہے،اس نبی نے اس سے کہاکہ آپ میری میزبانی کوقبول کریں گے؟اس نے جواب دیا:ہاں!آپ میرے مہمان رہیں،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگرآپ کوئی چیز دیکھیں تو لوگوں سے نہ بیان کریں، اس نبی نے جواب دیاکہ میں کسی سے نہیں کہوں گا،جب شام ہوئی تواُس نے شراب خانے کا دروازہ بندکرلیا،اورویرانے کی طرف نکل پڑا،شراب کاایک مٹکا خریدا،ایک فاجرہ کواُس نے اجرت پر لیا،اوراُسے لے کر شراب خانے میں آیا،مہمان کی اچھی مہمان نوازی کی اور اُسے سلادیا،مہمان نے سونے کی سی حالت بنالی،پھروہ قصاب اٹھا،اس نے اس عورت کو اُس کی اجرت اداکی، اور اُس کوبھی سلادیا،اس نے شراب بہادی،اپنا لباس بھی اتاردیا اوردوسرا لباس پہن لیا، پھررات میں قیام کے لیے کھڑاہوگیا اور صبح تک کھڑاہی رہا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتارہا،وہ نبی بیدارہوئے اوراُنھوں نے اٹھ کر اُس شخص کوبشارت سنائی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں وحی کی تھی۔
یہ سن کر وہ شخص بہت رویا،اوراُس نے ان ہی سے عرض کیاکہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے راز کوظاہرہی کردیاہے تو اللہ رب العزت سے دعاکردیجیےکہ میری روح قبض فرمالے، انھوں نے دعاکی اوراُن کی دعامقبول ہوگئی۔ (باقی آئندہ)

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں