Chhoti Chhoti Batein

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Aug-2015➤ Mudassir Raza Misbahi                                                 Download_Pdf 


چھوٹی چھوٹی باتیں

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
وَ اِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا(مائدہ۶)
ترجمہ: اور اگر تم ناپاک ہو تو خوب خوب پاک ہو جاؤ۔
 ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ (بقرہ۲۲۲)
ترجمہ: واقعی اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے اور خوب خوب پاکی حاصل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 جو شخص غسل جنابت میں ایک بال کی جگہ بھی دھوئے بغیرچھوڑ دے گا تو اس کے ساتھ آگ سے ایسا ایسا کیا جائے ، یعنی عذاب دیا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے سر کے ساتھ دشمنی کر لی،یعنی حلق کروالیا۔ ( ابو داؤد ،کتاب الطہارۃ)
مذکورہ بالا آیات کریمہ اور حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص ناپاک ہو جائے تو اس پر غسل فرض ہے اور ان ہی آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی توبہ کرنے والے اور خوب خوب پاکی حاصل کرنے والوں سے محبت فرماتاہے ۔ چنانچہ یہ واضح رہے کہ کوئی بھی شخص اچھی طرح اس وقت تک پاک نہیں ہو سکتاہے جب تک کہ وہ غسل کے فرائض و سنن کی صحیح ادائیگی کاخیال نہ رکھے ،لہٰذا غسل کے فرائض و سنن کا علم حاصل کرنا ہرعاقل وبالغ شخص کے لیے ضروری ہے ۔

غسل کے فرائض
غسل کے فرائض تین ہیں:

۱۔ کلی کرنا یعنی منھ کے اندرونی ہر حصے پر پانی پہنچانا ۔
۲۔ ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا۔
۳۔ پورے بدن پر پانی اس طرح بہانا کہ بدن کا کوئی حصہ بھیگنے سے باقی نہ رہ پائے۔

چنانچہ اگراِن تینوں فرائض کی صحیح صحیح ادائیگی جب تک نہ ہوگی اس وقت تک پاکی حاصل نہ ہوگی۔اس کے باوجود زیادہ ترلوگ غسل کے فرائض سے واقفیت حاصل نہیں کرتے ، جس کا نتیجہ یہ نکلتاہےکہ غسل کرنے کے بعد بھی ان کوپاکی حاصل نہیں ہوپاتی ،اور بہت سی عبادتیں جنھیں وہ باقاعدہ اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں وہ بھی ادانہیں ہوپاتیں۔
 اس طرح انھیں کئی طرح کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے:

۱۔ عبادتیں ضائع اوربیکار ہوجاتی ہیں۔
۲۔ گھروں میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
۳۔ اللہ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہونے کے بجائے محرومی حاصل ہوتی ہے۔

 حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا بیان ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
 اس گھر میں فرشتےنہیں جاتے جس گھرمیں تصویر، کتا اور ناپاک انسان ہو۔ (سنن ابی داؤد،ج:۱ ،ص ۱: ۰۹)
اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ انسان اِسی ناپاکی کی حالت میں مر جائےجو اُس کے لیےسخت گھاٹے کا سواد ہے۔ مزید یہ کہ ناپاکی سے مختلف بیماریاں بھی پیداہوتی ہیں  اورقلبی اطمینان و سکون بھی حاصل نہیں ہوتا۔

غسل کامسنون طریقہ
 حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہانے کے لیے میں نے پانی رکھا اور کپڑے سے پردہ کردیا،توآپ نے ہاتھوں پر پانی ڈالا اور ران کو دھویا ،پھر پانی ڈال کر ہاتھوں کو دھویا ،پھر داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا ،گندگی کو صاف کیا، پھر ہاتھ زمین پر مار کر اور رگڑکردھویا، پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور منھ ہاتھ دھویا ، پھر سر پر پانی ڈالا اور تمام بدن پر پانی بہایا ، پھر اس جگہ سے الگ ہو کر پائے مبارک دھوئے،اس کے بعد میں نے ایک کپڑا دیا توآپ نے نہ لیا اور ہاتھوں کو جھاڑتے ہوئے تشریف لے گئے ۔ (صحیح بخاری، کتاب الغسل)
لہٰذا جب بھی ہم آپ میں سے کسی کو ناپاکی لاحق ہو تو فوراً پاکی حاصل کریں اور ہر گز ہرگزغسل کے فرائض و سنن کو ترک نہ کریں،ورنہ دین ودنیامیں بھی سخت خسارےاور نقصان کے مستحق ہوں گے ۔

 و ضو کے فرائض
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَی الْكَعْبَیْنِ(مائدہ ۶)
ترجمہ:اے مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کر و تو اپنے منھ ، کہنیوں سمیت دونوںہاتھوں کو دھوؤ ، سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھوؤ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وضوکے فرائض چار ہیں:

۱۔ دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔
 ۲۔ ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک اور پیشانی کے بال اُگنے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک اس طرح چہرہ دھونا کہ ایک بال بھی نہ چھوٹنے پائے ۔
۳۔ سرکا مسح کرنا۔
۴۔دونوںپاؤں ٹخنوں سمیت دھونا ۔

 وضو کی سنتیں
وضوکی سنتیں درج ذیل ہیں:

۱۔نیت کر نا،
۲۔ بسم اللہ کرنا،
۳۔دونوں ہاتھ گٹوں تک دھونا،
۴۔مسواک کرنا،
۵۔ کلی کرنا،
۶۔ناک میں پانی چڑھانا ،
 ۷۔بالترتیب وضو کرنا،
۸۔ ہاتھ پاؤں میں پہلے داہنے کو دھونا،

ان کے علاوہ وضو کرتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کابھی خیال رکھناضروری ہے،مثلاً:

اگر انگلیوں میں انگوٹھی ہوتو اُس کے نیچے پانی ضرور پہنچائے ۔
اگرپاؤں اور ہاتھ کی انگلیوںمیں پھٹن ہو تو اس میں پانی پہنچائے۔
پیروں کی انگلیوں کے درمیان اچھی طرح پانی پہنچائے خصوصاً جاڑے کے موسم میں۔
اگرناخن میں آٹا، مٹی وغیرہ ہوتو اُن کو ہٹا کر پانی بہائے۔ث وضو کے درمیان فضول بات چیت نہ کریں۔
زیادہ پانی خرچ نہ کریں، یعنی ایسا نہ ہو کہ نل کھول دیا جائے اور کئی منٹوں تک وضو کیا جائے ۔

 مذکورہ بالا چیزوں کا بھر پور خیال رکھیں ،ورنہ وضو نہ ہونے کا اندیشہ ہے او راگر وضو نہ ہواتونماز بھی نہ ہوگی ۔

حقیقت وضو
لیکن وضوکی حقیقت کیاہے،اس تعلق سے مشائخ کرام فرماتے ہیں:

۱۔ ہاتھ کا وضو یہ ہے کہ اس سے کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے ۔
۲۔ پیرکا وضو یہ ہے کہ وہ کسی حرام، یامکروہ تحریمی عمل کی جانب نہ اُٹھے۔
 ۳۔سر کا مسح یہ ہے کہ وہ اللہ رب العزت کے سوا کسی کے سامنے عبادت کے لیے نہ جھکے۔
 ۴۔ کلی کی حقیقت یہ ہے کہ زبان پرجھوٹ، غیبت ،گالی گلوج اور دیگر بری باتیں نہ آئیں۔

ان باتوں کو معمولی سمجھ کرانسان اس کی طرف توجہ نہیں دیتا یا اُنھیں چھوڑدیتا ہے جب کہ یہی باتیں قیامت میں نجات کا سامان فراہم کریں گی ۔

اذان کا جواب دینا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
 مؤذن سےجو کچھ کہتے سنوتم بھی وہی کہو۔ ( سنن ابن ماجہ ، ابو اب الاذان )
 حضرت جابر رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ جو اذان سن کر اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہٰذِہِ الدَّ عْوَۃِ الخ پڑھ لے،تو اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی ۔ (صحیح بخاری ،کتاب التفسیر)
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کابیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
 عورتوں کے لیے ہر کام کے مقابل دس لاکھ درجے بلند کیے جائیں گے ،حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض  کیاکہ یہ عورتوں کے لیے ہےتو مردوں کے لیے کیا ہے ؟
 آپ نے فرمایا :مردوں کے لیے اس کادوگناہے۔

اذان سننے اوراس کا جواب دینے کے فوائد

 ۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر عمل ہوتا ہے۔
۲۔اذان کو غورسے سننے اور جواب دینے میں قلب کو اطمینان حاصل ہوتاہے ۔
۳۔قیامت کے دن نبی کریم صلی ا للہ علیہ و سلم کی شفاعت نصیب ہوگی ۔
۴۔بے حساب اجر و ثواب حاصل ہوتاہے۔
۵۔ نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے اور نماز کو غیر اللہ کے خیالات سے پاک کرنے میں یہ اہم وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشائخ مسجد میں بیٹھ کر اذان کا جواب دیا کرتے ہیں۔
 لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماراعمل اس کے برعکس ہے ،کیوںکہ اذان ہوتی رہتی ہے اور ہم دکانوں،ہوٹلوں ، بازاروں اور چوراہوں پر آپسی گفتگواور غیر ضروری کاموں  میں مشغول رہتے ہیں،نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ہم نہ اذان سنتے اور نہ اس کا جواب دیتے ہیں،جب کہ اذان کاجواب نہ دیناحضور کےحکم سے منھ موڑناہے ۔خبردار !اس کو ہلکے میں نہ لیاجائے ورنہ ہلاکت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔(العیاذباللہ )

نمازمیں تکمیل ارکان نہ کرنا
 مسجدوں میں عام طورپریہ دیکھا جاتاہے کہ بہت سے نمازی جلدی جلدی نمازاداکرنے کی وجہ سے صحیح طورسے نماز کے ارکان ادانہیں کرپاتے اورجانے انجانے میں ترکِ واجب کے مجرم بن جاتےہیں،مثلاًقیام،رکوع ،سجود کے درمیان توازن واعتدال نہیں رکھ پاتے جس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نماز ادا کرنے کے باوجود نمازیں ناقص رہ جاتی ہیں،اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے کامل نمازیں ادا کرلیں،چنانچہ دوران نماز اِن تمام باتوں پر دھیان دیناانتہائی ضروری ہے۔
اس تعلق سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں موجودتھے کہ ایک شخص آیا اور نماز اداکی،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پیش کیا،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایا:
ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ۔
ترجمہ:جاؤ پھرسے نماز پڑھو،کیوں کہ تیری نماز نہیں ہوئی۔
یہ سن کروہ شخص واپس گیا اور نماز اداکی ،اس طرح تین مرتبہ ہواکہ وہ باربارواپس جاتا اورنماز اداکرتا،اخیر میں اس نےعرض کیاکہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا،میں اس سے بہتر نہیں کرسکتا ،آپ مجھے اس کی تعلیم فرمائیں،اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
 إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ اجْلِسْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ افْعَلْ ذٰلِكَ فِى صَلاَتِكَ كُلِّهَا۔ (سنن ترمذی،باب ماجاء فی وصف الصلاۃ)
ترجمہ:جب نماز میں کھڑے ہوتو تکبیر (اللہ اکبر) کہو، پھر قرآن کریم کی کچھ آیتیں تلاوت کرو،پھر اطمینان سے رکوع کرو،اس کے بعد سیدھے کھڑے ہو،پھر اطمینان سے سجدہ کرو،اس کے بعد اطمینان سے بیٹھو،اور اسی طرح پوری نماز مکمل کرو۔
 معلوم ہواکہ صحیح صحیح قیام، قرأت، رکوع، سجود اور قعدہ ضروری ہے،تاکہ نماز کا ہررکن مکمل طورپر اداہو،ورنہ نمازنہیں ہوگی ، لہٰذا نما زمیں تعدیل ارکا ن کا خیال رکھنا لازمی ہے۔

تلاوت وقرأت میں جلد بازی
 اسی طرح کبھی بھی تلاوت وقرأت میں جلدبازی کرنا اچھی بات نہیں،کیوںکہ عین ممکن ہے کہ جلدی جلدی تلاوت اور قرأت کرنےکی وجہ سے اصل الفاظ میں تبدیلی آجائے اور اُن کے معانی کچھ سے کچھ ہوجائیں۔ خاص کر نماز میں اس کا خاص خیال رکھنا چاہیےکہ معانی میں تبدیلی کی وجہ سے نماز نہیں ہوتی ہے ۔
مذکورہ بالا تمام چیزیں دیکھنے میں چھوٹی لگتی ہے اور چھوٹی سمجھ کر بہت سے لوگ ترک بھی کر دیتے ہیں، حالاں کہ ان باتوں کا خیال نہ رکھناعبادت کے لیےسخت نقصان دہ ہے۔

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں