Sadaate Sufia Aur Tasawwuf

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Aug-2015Ishtiyaq Alam Misbahi                                                  Download_Pdf 


سادات صوفیااورتصوف

عقل مند وہ ہے جو اپنے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپردکردےاوراپنے زمانے کی مصیبتوں پر صبرکرے
امام ابو عبد الرحمن محمد بن حسین سلمی جہاں بہت بڑے صوفی تھے وہیں ایک عظیم محدث بھی تھے ۔آپ کی ولادت سنہ۳۳۰ ہجری میں ہوئی،جب کہ وفات سنہ۴۱۲ہجری میں ۔آپ کو بیک وقت تفسیر ،حدیث،سیر وتاریخ اور تصوف میں یدطولی حاصل تھا،آپ نے چند نمایاں اور مایۂ ناز کتابیں بھی یادگار چھوڑی ہیں،ان میں سے ایک کتاب ’’الاربعون فی التصوف ‘‘ہے۔ یہ سادات صوفیا اور تصوف کے موضوع پر ایک مفید کتاب ہے ،اس کی تخریج محترم ڈاکٹر کمال حوت نے کی ہے جب کہ اس کا ترجمہ مولانا اصغر علی مصباحی استاذ جامعہ عارفیہ ،سیدسراواں ،الہ آبادنے کیا ہے۔(ادارہ)

اجتماعی کھانے کی برکت
۳۱۔حضرت وحشی ابن حرب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ میں کھانا کھاتا ہوں لیکن آسودہ نہیں ہوپاتا۔
یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
فَلَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُوْنَ عَلٰی طَعَامِکُمْ،اجْتَمِعُوا عَلَیْہِ، وَاذْكُرُوْااسْمَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ یُبَارَکَ لَکُمْ فِیْہِ۔
ترجمہ:ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم سب الگ الگ کھانا کھاتے ہو،ایک ساتھ کھاؤ اور کھاتے وقت اللہ کا نام لو، تمہارے کھانوں میں برکت ہوگی ۔

علم باطن کی حقیقت
 ۳۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إنَّ مِنَ الْعِلْمِ کَہَیْئَۃِالْمَکْنُوْنِ لَا یَعْرِفُہٗ إلَّا الْعُلَمَاءُبِاللہِ عَزَّ وَجَلَّ،فَإذَا نَطَقُوْابِہٖ لَمْ یُنْکَرْہٗ إلَّا أہْلُ الْغِرَّۃِبِاللہِ عَزَّ وَجَلَّ۔
ترجمہ:بعض علوم پوشیدہ ہیں جنھیں صرف علمائے ربانی ہی جانتے ہیں،پھر جب وہ اُسے بیان کردیتے ہیں تو اس کا انکار صرف وہی کرتےہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی۔

 پُرتکلف میزبانی سے پرہیز
 ۳۳ ۔ حضرت ابوبختری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
نَزَلْنَاعَلٰی سَلْمَانَ الْفَارَسِیّ بِالَمَدَائِنِ فَقَرَّبَ خُبْزًا وَسَمَکًا وَقَالَ:کُلُوْانَہَانَارَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ عِنِ التَّکَلُّفِ وَلَوْ لَا ذٰلِکَ لَتَکَلَّفْتُ لَکُمْ۔
ترجمہ:ہم لوگ ’’مدائن‘‘میںحضرت سلمان فارسی کے مہمان ہوئے، انھوں نےہم لوگوں کے کھانے میں روٹی اور مچھلی پیش کیااور کہاکہ آپ لوگ کھانا شروع کریں،کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پُرتکلف کھاناکھلانے سے منع فرمایا ہے،اگرپُرتکلف کھانے کی ممانعت نہ ہوتی تو میں آپ لوگوں کے لیے ضرورپُرتکلف کھانا پیش کرتا۔

عیش پرستی سے پرہیز
۳۴۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں یمن کی طرف روانہ کیاتونصیحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا:
إیَّاکَ وَالتَّنَعُّمَ،فَإنَّ عِبَادَ اللہِ لَیْسُوْابِالْمُتَنَعَّمِیْنَ۔
ترجمہ:(معاذ!)عیش پرستی سے پرہیز کرنا،کیوں کہ اللہ رب العزت کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے۔

 مومن کی فراست
 ۳۵۔حضرت ابوسعیدرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
 اتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤ مِنِ فَإنَّہٗ یَنْظرُ بِنُوْرِ اللہِ ۔
ترجمہ: مومن کی فراست سے ڈرو،کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتاہے۔

قرب الٰہی کا راز
 ۳۶ ۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قَالَ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ:مَا يَزَالُ الْعَبْدُ يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰى أُحِبَّهٗ، فَإذَاأحْبَبْتُہٗ فَأَكُوْنَ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهٖ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهٖ، وَلِسَانَهُ الَّذِي يَنْطِقُ بِهٖ، وَقَلْبَهُ الَّذِي يَعْقِلُ بِهٖ، فَإِذَا دَعَانِی أَجَبْتُهٗ، وَإِذَا سَئَلَنِي أَعْطَيْتُهٗ۔
ترجمہ: اللہ تبارک وتعالیٰ نےفرمایاکہ بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے،یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، اور جب اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتاہے،اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان بن جاتاہوں جس سے وہ بولتا ہے،اس کا قلب بن جاتا ہوں جس سے وہ سمجھتا ہے،پھروہ دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوںاور جب وہ مجھ سے کچھ طلب کرتا ہے تو میں اُسے عطا بھی کرتا ہوں۔

مال جمع کرنے کی کراہیت
 ۳۷۔حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا تَتَّخِذُوْاالضَّیْعَۃَ فَتَرْغَبُوْا فِی الدُّنْیَا۔
ترجمہ:مال جمع کرکے نہ رکھو،کیوں کہ اسی کی وجہ سے دنیا میں رغبت پیداہونےلگےگی۔

عقل مندوں کی نشانی
 ۳۸۔حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :
 الْعَاقِلُ الَّذِی مَنْ عَقَلَ عَنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ أَمْرَهٗ، وَصَبَرَ عَلٰى بَلْوىٰ زَمَانِهٖ۔
ترجمہ:عقل مند وہ ہے جو اپنے تمام معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپردکردےاوراپنے زمانے کی مصیبتوں پر صبرکرے ۔

 سماع کی اباحت
 ۳۹۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایام تشریق میں میرے پاس تشریف لائے ،اس وقت عبداللہ بن سلام کی دوباندیاں بیٹھی دُف بجا رہی تھیں اور گنگنابھی رہی تھیں،پھر جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے،میں نے اُن باندیوں کو رُک جانے کے لیےکہا۔آنےکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تخت کے اوپر چادر اوڑھ کر لیٹ گئے۔ یہ دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں کہاکہ آج گانے بجانے کو یا تو حلال ہی فرمادیں گےیا پھر حرام۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ یہی خیال کرکے میں نے دونوں باندیوں کو اشارہ کیا کہ گانابجانا شروع کردو،اوراُنھوں نے شروع بھی کردیا،پھر کچھ دیر کے بعد حضرت ابوبکرصدیق اندر تشریف لائےجو لوہے کی طرح سخت مزاج تھے،وہ یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر مزمار شیطانی کا کیا کام؟یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےسر سے چادر کھسکائی اور فرمایا:
یَاأبَابَکْرٍ لِکُلِّ قَوْمٍ عِیْدٌ وَہٰذَا أیَّامُ عِیْدِنَا۔
 ترجمہ:اے ابوبکر! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے،اور یہ ہماری عید کے ایام ہیں۔

 رقص کی اباحت
 ۴۰۔حضرت ابراہیم بن محمد شافعی بیان کرتے ہیں:
أنَّ سَعِیْدَ بْنَ مُسَیَّبِ مَرَّ فِی بَعْضِ أزِقَّۃِ مَکَّۃَ فَسَمِعَ الْأخْضَرَ الْحَدِیّ یَتَغَنّٰی فِی دَارِ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ۔
یعنی جناب سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ مکہ کی گلیوں سے گزررہے تھے تواُنھوں نےاخضر حدی کو عاص بن وائل کے گھر میں یہ اشعار گنگناتے ہوئے سنا :
تَضَوَّعَ مِسْکاً بَطْنُ نُعْمَانَ إنْ مَشَتْ
بِہٖ زَیْنَبٌ فِی نِسْوَۃٍ عَطَرَاتِ
فَلَمَّا رَأتْ رَکْبَ النُّمَیْرِی أعْرَضَتْ
وَ ہُنَّ مِنْ أنْ یَلْقَیْنَہٗ حَذِرَاتِ
ترجمہ:وادی نعمان مشک سے معطر ہوتی ہےجب زینب عطر لگانے والی عورتوں کے درمیان سے چلتی ہے۔
جب وہ نمیری کے سواری کی طرف دیکھتی ہے تومنھ پھیرکر اُس کی طرف بڑھ جاتی ہے جب کہ وہ سب عورتیں گرنے سے خوف کھا رہی ہیں۔
راوی کا بیان ہے کہ وہ (سعید بن مسیب)بہت دیر تک اپناپاؤں زمین پر مارتے رہےاور ساتھ میں یہ بھی فرماتے جارہے تھے کہ یہ وہ کلام ہے جو سننے میںاچھا لگتا ہے۔
 اور اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ بالااشعار حضرت سعید بن مسیب کے ہیں،جب کہ ایسا نہیں۔ بلکہ یہ اشعار کسی اور کے ہیں جنھیں سن کرحضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ وجدکرنے لگے تھے۔

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں