تقدیم

Alehsan Media
0
مشتملات

شاعری عموماً اپنے جذبات دروں کے اظہار کا نام ہے اور بلفظ دیگر ہزار رنگ سے کاشانۂ دل کو سجا سنوار کر خود اپنے رنگ میں سر خوش و سرمست ہو جانا ہے- یہ شاعری جب کسی کے گوش شنوائی تک پہنچتی ہے تو اس کے وجدان کے جھوم اُٹھنے کا سبب بن جاتی ہے لیکن جب کوئی سعید ازلی، احسان و موہبت الٰہی کا پروردہ و عنایت رسیدہ ، انفس و آفاق کا مشاہدہ کرنے والا ، صوفی با صفاشعرگوئی کی طرف مائل ہوتا ہے تو وہ صرف اس کے جذبات ہی نہیں بلکہ و اردات قلبی کا عکس جمیل بن جاتی ہے۔
فارسی شاعری کے ساتھ اُردو شاعری کا دامن بھی ایسے بکثرت شعراسے مزین ہے جو صاحب سلاسل طریقت، اہل تصوف اور خانقاہوں سے وابستہ رہے ہیں اور اپنے مسلک و مشرب اور حال و مقام کے اعتبار سے بھی سر تا پا تصوف میں غرق رہے ہیں- انہوں نے قولاً، فعلاً اور حالاً تصوف اور انسانیت کی جیسی خدمت کی اس کی نظیر مشکل ہے- انہوں نے اپنے نثری و منظوم سرماے کے ذریعے تصوف کے اسرار و رموز ، حقائق و معارف ، اصطلاحات و مسائل اور مشاہدات کو بڑے عام فہم اور دل نشیں پیراے میں بیان کیا- ان مشہور صوفیہ میں حضرت شاہ تراب علی قلندر کاکوروی، حضرت مخدوم شاہ خادم صفی، حضرت شاہ عزیز اﷲ صفی پوری، حضرت مخدوم شاہ عارف صفی، حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی، حضرت مرزامظہر جان جاناں ، حضرت خواجہ میر دردؔ قدست ا سرارہم وغیرہم مشہور ہیں-
حضرت شاہ تراب علی قلندر قدس سرہ‘ اپنے معاصر و متاخر صوفیہ میں بہت سی جہات میں نمایاں و ممتاز رہے ہیں کہ ان کا کلام مقصودبالذات ہی نہیں بلکہ اس میں عملِ خیر کا بڑا دل نشیں و موثر پیغام اور انسانیت کو فلاح و کامرانی سے ہم کنارکرنے کے کیمیائی نسخے بھی ہیں- انہوں نے تصوف اور توحید و معرفت کے دقیق مسائل کو بھی بڑی سلاست سے حل فرمایا - ان کے یہاں زبان و بیان میں چاشنی اور تقریباً دو سو برس بعد کے زمانے سے بھی وہ ہم آہنگی ہے کہ غرابت الفاظ کا شائبہ بھی نہیں ہوتا- ان کے والد گرامی عارف باﷲ شاہ محمد کاظم قلندر علو ی کاکوروی بانی خانقاہ کاظمیہ قلندریہ (1745-1806) ایک عظیم صوفی اور اودھی زبان کے قادر الکلام اور غزل گو شاعر تھے جن کا تقریباً پانچ ہزار اشعار پر مشتمل دیوان موسوم بہ’’ نغمات الاسرار‘‘ معروف بہ ’’سانت رس ‘‘شائع ہو چکا ہے-
دوسری جانب اُردو شعرا کا ایک بڑا طبقہ وہ بھی ہے جس نے تصوف کے مسائل ، حقائق و معارف اور اسرار و نکات کا بیان جا بجا کیا ہے مگر تصوف ان کا با قاعدہ حال نہ رہااور نہ وہ خود ان صوفیہ صافیہ کے زمرے میں رہے-
زیر نظر مثنوی ’’ نغمات الاسرار فی مقامات الابرار ‘‘ اسی پہلے طبقے کے ایک صاحب دل و صاحب حال شخصیت کے قلبی واردات کا حسین و دلکش ، سلیس و عام فہم زبان میں مرقع ہے-
حضرت مولاناشاہ احسان اﷲ محمدی صفوی، اﷲ ان کے فیوض و برکات کو قائم و دائم رکھے، سلسلہ عالیہ چشتیہ کے شیخ اور آستانۂ عالیہ سید سراواں شریف الٰہ آباد کے زیب سجادہ ہیں- انہوں نے تصوف کی تعلیمات ، اس کے احوال و مقامات ، ان کے ضمن میں لوازم واہم امور طریقت کے مسائل، اصول و رموز اور نکات کو بڑی مہارت وصناعی سے اُردو الفاظ کے پیکر میں سالکین و طالبین کے لیے جنت نگاہ و فردوس گوش بنا کر پیش فرمایا ہے جو فی زماننا وقت کی ضرورت ، تصوف کی بڑی خدمت اور ساتھ ہی مرید ین ووابستگان سلاسل کے لیے قابل عمل ، لائق تقلید اور مشعل راہ بھی ہے- آج کے مصروف ترین دوراور اس سائنس و ٹیکنالوجی کی فضا میں سانس لینے والوں کو اتنی فرصت نہیں کہ وہ ان مسائل کی ضخیم عربی و فارسی کتابوں کو پڑھ کر یا کسی صاحب حال و صاحب دل کی صحبت میں بیٹھ کر اپنے لیے صحیح راہوں کا تعین کر سکیں ،گویا ؎
غمِ ایّام پہ دم بھر کے لیے غور کریں
اتنی فرصت ترے رندوں کو کہاں ہے ساقی!
نثر کے مقابلے میں نظم او ر شاعری کی بالادستی تقریباً ہر دور میں رہی ہے اور شاید اسی وجہ سے شعراذہن انسانی پر حکومت کرنے اور اثر انداز ہو نے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں اور جہاں شعراکے رحمن و رحیم کے تلمذ اور از دل خیز دکا معاملہ ہو ،وہاں یہ چیز سہ آتشہ بلکہ ہزار آتشہ ہو جاتی ہے-
راقم احقر نے نغمات الاسرار کی نغمگی و اثر آفرینی سے جستہ جستہ بقدر ظرف حظ وافر حاصل کیا- ایک صاحب دل صوفی کی و اردات قلبی کا آئینہ اس کے رشحات قلم ہوتے ہیں- وہ جس طرح اشیاکا مشاہدہ کرکے نتائج اخذ کرتا ہے وہی اس کی تحریر بن کر ہماری نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں-عشق قواعدو ضوا بط کا پابند نہیں ہے، اس لیے ایسی شاعری کو جو ظاہری پیمانوں اور عروض و قوافی کی پابندیوں سے علاحدہ ہوتی ہے، ان حدبندیوں کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے-
آں محترم نے یہ مثنوی خصوصاً ان لوگوں کے لیے منظوم فرمائی ہے جو ان کے دامن فیض سے وابستہ ہیں اور جن کے مزاجوں کے وہ سب سے بہتر آشنا ہیں- ان کے لیے کیا لفظیات و پیکر تراشی کرنا ہے یہ شاہ صاحب موصوف ہم سب سے بہتر جانتے ہیں- اس لیے ان کو ان کے خانقاہی حوالوں سے وابستہ کر کے پڑھنے کا لطف ہی الگ ہوگا-
یہ مثنوی۷اشعارکی تمہید،۳۲مختلف عنوانات،ایک مناجات اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے- زبان و بیان کی صفائی ، بندش کی چستی، سلاست و بر جستگی اور سہل ممتنع اپنی مثال آپ ہیں- تصوف کے بعض وہ دقیق مسائل بھی جو فلا سفہ و متکلمین اور صوفیہ کے مابین ما بہاالنزاع رہے، ان کو بھی بڑی سلاست و عام فہمی سے بیان کیا ہے-
حدیث شریف ہے :والذی نفس محمدبیدہ لوانکم ا دلیتم رجلا بحبل الی الارض السفلی لھبط علی اﷲ ثم قرأ :ھوالاول والآخر والظاہر والباطن وھوبکل شیٔ علیم’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے، اگرتم سب سے نیچے کی زمین پررسی لٹکائو توالبتہ وہ اللہ پرہی پڑے گی- بعدازاں آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ وہی اول وہی آخر وہی ظاہر اوروہی باطن ہے اوروہ ہرچیز سے پوری طرح باخبرہے-‘‘ (ترمذی،تفسیرالقرآن، سورۃ الحدید)
وہ ذات باری پردہ کی آڑ میں مخاطب ہے،وہ اپنی انانیت کااظہار فرماتاہے کہ میرے سوا کچھ موجود نہیں ،آسمان وزمین ،مکان ولامکاںبلکہ وراء الوراء کچھ نہیں بس میں ہی میں ہوں ’’إِنَّنِیْ أَنَا اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا‘‘(میں ہی اللہ ہوں میرے سواکوئی دوسرامعبود نہیں-طٰہٰ:۱۴) ’’وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُون ‘‘(وہ تمہارے نفوس میں ہے کیا تم کونظر نہیں آتا؟-الذاریات:۲۱) وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْْنَ مَا کُنتُمْ (تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے-الحدید:۴)’’نَفَخْتُ فِیْہِ مِن رُّوحِیْ‘‘(میں نے انسان میں اپنی روح پھونکی-الحجر:۲۹)’’وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد‘‘ (ہم انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں-ق:۱۶)
 کائنات کاذرہ ذرہ حضرت حق تعالیٰ کے ہونے کی گواہی دیتاہے،بقول شیخ سعدی : 
ہر گیاہے کہ از زمیں روید 
وحدہ لاشریک لہ گوید 
(جوگھاس روئے زمین سے اگتی ہے وہ وحدہ لاشریک کی وحدانیت کاکلمہ پڑھتی ہے)
صاحب نغمات فرماتے ہیں:
 بے صداوبے نوا وبے کلام 
 دے رہاہے ذرہ ذرہ یہ پیام
پتے پتے کی یہی ہے گفتگو 
اشہدان لاالہ الاہو
سبزۂ روئے زمیں ہے ذکر میں
محو حیرت غنچہ و گل فکر میں
حضرت شیخ اکبرمحی الدین ابن عربی(۶۳۸ھ/۱۲۴۰ء)فرماتے ہیں: 
الحق محسوس والخلق معقولحق تووجوداصلی ہے اورخلق حقیقت میں کچھ بھی نہیں،صرف سمجھ کاپھیر ہے،یعنی وجودحق اصلی ہے اسی کے ذریعے سے خلق کاوجود قائم ہے جومحض خیالی اورتعین عدمی ہے- موجودحقیقی ایک کے علاوہ ہے ہی نہیں، اگرایک سے زیادہ ہوگا توناقص ہوگااورناقص بذات خود موجود وقائم نہیں رہ سکتابلکہ ذات حق تمام صفات میں جلوہ گر ہے اورمن کل الوجوہ ظہور ذات ہی ہے- 
حضرت حق کی بندہ کے ساتھ معیت وہم نشینی کے سلسلے میں ارشاد ربانی: فَأَیْْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ(البقرہ:۱۱۵)وَفِیْ أَنفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُون (الذاریات:۲۱)کی تشریح وتفسیرمیںفرماتے ہیں :
کھول کرچشم حقیقت بے گماں
 دیکھ ہرشے میں ظہور جل شاں
کس گماں میں تو پڑا ہے بے خبر
حق تری صورت میں خودہے جلوہ گر 
ڈھوندتا پھرتا ہے تو اس کو کہاں
 جو تری ہستی کے اندر ہے نہاں 
حضرت سرمد اسی معیت وعینیت کے ضمن میں فرماتے ہیں:
 اے آں کہ شب وروز خدا می طلبی
کورے اگر از خویش جدا می طلبی 
 حق با تو بہر زمان سخن می گوید
 سر تا قدمت منم ، کجا می طلبی؟
(اے وہ شخص جودن رات خداکوتلاش کررہاہے،تونابیناہے کہ اس کواپنے سے الگ ڈھونڈرہاہے- حق تعالی تجھ سے ہرلمحہ یہ فرمارہاہے کہ تیرے سر سے پاؤں  تک میں ہی ہوں، توکہاں مجھے ڈھونڈرہاہے؟) 
مولاناروم اسی مقام سے خبردے رہے ہیں: 
اتصال بے تکیف بے قیاس
 ہست رب الناس را با جانِ ناس
 رب تعالیٰ کو انسان سے بے کیف وبے قیاس واندازہ اتصال ومیل ہے-
حضرت تراب علی قلندرکاکوروی فرماتے ہیں: 
گر آرسی ہو صاف تو چہرہ نظر آئے 
حق چمکے ہے اس دل میں نہ ہوجس میں کدروت
 جب تک خودی ہے تب ہی تلک ہے خدا جدا
غیبت گر آپ سے ہو تو حق کا ظہور ہے
 آئینۂ دل کوجب تک خودی کے زنگارسے صاف نہیں کیاجاتا، اس میں محبوب کاعکس نہیں آسکتا-شیخ سعدی فرماتے ہیں: 
سعدی حجاب نیست تو آئینہ صاف دار
 زنگار خوردہ کَے بنماید جمال دوست
(سعدی!تجھ میں اور اس میں کوئی پردہ نہیں ہے توآئینہ ٔدل کوصاف رکھ کیوں کہ  زنگ خوردہ اورمیل وکچیل والاآئینہ دوست کے جمال کوکیسے دکھاسکتاہے؟)
تیری خود بینی حجاب اس نور کا
 کاش تو خود سے نکل کر دیکھتا (نغمات)
سلطان العارفین حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: 
وتزعم انک جرم صغیر
 وفیک انطویٰ العالم الاکبر
 (تواپنے آپ کوایک حقیر ومعمولی ذرہ سمجھ رہاہے،حالانکہ تیری ذات میں ایک بڑاعالم پوشیدہے-)
بے خبر اک راز کی دنیا ہے تو
 شان حق کی تجھ سے ہوتی ہے نمو
 تیری رگ رگ میں تجلی ہے نہاں
 تو سراپا ہے نشان بے نشاں
 تیری ہستی ہے ظہور حسن ذات
 تو حقیقت میں ہے نور کائنات
تجھ میں شنوا اور بینا ہے وہی
 شعرکے پردہ میں گویا ہے وہی
جوشخص اپنی حالت وکیفیت کے اعتبارسے اپنے نفس کوپہچان لیتاہے کہ میں کسی رب کامربوب ہوں یعنی اسمائے حسنیٰ میں کسی  اسم سے متعلق ہوں، وہ اپنی اسی حالت وکیفیت کے لحاظ سے حسب استعداد اپنے رب کاعرفان حاصل کرسکتاہے-حدیث شریف ہے کہمن عرف نفسہ فقدعرف ربہ (کشف الخفاء:۲/۲۶۴،دار احیاء التراث العربی) جس نے اپنے نفس کوپہچانا اس نے اپنے رب کوپہچانا- تخلیق کامقصدعرفان نفس ہے-شہنشاہ مفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون(الذاریات:۵۶)کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:کہ میں نے جنوں اورانسانوں کواس لیے پیداکیاکہ وہ میری عبادت کریں (اي لیعرفون)یعنی مجھے پہچانیں-(تفسیر روح المعانی ، ۱۵/۵۰، دار احیاء التراث العربی) قیامت کے روز ہرانسان اپنے رب کے دیدار سے حسب استعداد مشرف ہوگا،اسی لیے عرفان نفس لازمی قرار پایا-(القول المؤجہ فيتحقیق من عرف نفسہ فقد عرف ربہ مصنفہ حضرت مولاناحافظ شاہ علی انورقلندر علوی کاکوروی اس حدیث کی تشریح وتعبیرمیں بڑی اہمیت کی حامل ہے)
من عرف نفسہ سے حال کھلا
 آپ کو جانے حق کو پہچانے
عالم لاہوت سے مراد ،محویت،گنج مخفی اورعالم ذات الٰہی ہیں جہاں سالک کومقام فنافی اللہ کامرتبہ حاصل ہوتاہے اوربعض حضرات کے نزدیک اس زندگی کوکہتے ہیں جو اشیاے ناسوت میں جاری وساری ہے اورجس کامقام روح ہے ،بعض مرتبۂ ذات کولاہوت ،مرتبۂ صفات کو جبروت اورمرتبۂ اسماکو ملکوت کہتے ہیں-جبروت سے مراد اسما وصفات الٰہی کی عظمت اورواحدیت کامرتبہ ہے کیوں کہ یہاں پربے شمار اعیان کامشاہدہ ہوتاہے جس سے سالک کے دل میں حضرت حق کی رفعت وعظمت طاری ہوتی ہے-نیز عالم ملکوت عالم غیب کوکہتے ہیں اور بعض کے نزدیک یہ ملائکہ کاعالم ہے-
بعض حضرات صوفیہ صافیہ قدس سرہم نے ۶ مراتب عروج بیان فرمائے ہیں؛ ناسوت ،ملکوت ،جبروت ،لاہوت،ہاہوت -ناسوت کی مثال خواب کی ،ملکوت کی بیداری کی ،جبروت کی معیت کی ،لاہوت کی عینیت کی،ہاہوت کی غیبوبیت کی، یہاں پرمعیت وعینیت دونوں مفقود ،نہ موحدنہ توحید، نہ بندہ نہ بندگی، نہ ہستی نہ ذات، نہ صفت نہ موصوف، نہ اسم نہ موسوم، گم گشتگی درگم گشتگی، خودفراموشی درخودفراموشی ؎ 
عین ایں وادی فراموشی بود
 گنگیٔ وکریٔ و مدہوشی بود 
جب اعتبارات اٹھ گئے توپھرناسوت اورہاہوت ایک ہوگئے، اسی کوناسوت الطف بھی کہتے ہیں ؎
 گم شدن درگم شدن دین من است
 نیستی در ہست آئین من است
 اسی مقام سے فرمایاگیاہے ؎ 
شمس الحق تبریزی از بس کہ درآمیزی
 تبریز خراساں شد تا باد چنیں بادا
اسی کومرتبہ شہودکہتے ہیں ؎
ہر کرا ذرۂ شہود بود
پیش ہر ذرہ در سجود بود
حضرت حق تعالیٰ نے حضرت غوث الاعظم سے ارشاد فرمایا:کل طوربین الناسوت و الملکوت فھو شریعۃ وکل طور بین الملکوت والجبروت فھو طریقۃ وکل طور بین الجبروت واللاھوت فھو حقیقۃ- (ناسوت اورملکوت کے درمیان ہرطور شریعت،ملکوت وجبروت کے درمیان طریقت اورجبروت ولاہوت کے درمیان حقیقت ہے)
حضرت حق تعالیٰ کے مراتب وجود میں وحدت ،واحدیت اوراحدیت کاتذکرہ حضرات صوفیہ کے یہاں برابر ہوتاہے،لغوی اعتبار سے ان کے کیا معنی ہیں مختصراً سمجھ لیاجائے ورنہ معاملہ تویہ ہے ؎
داستان شوق جب پھیلی تو لامحدود تھی
اور جب سمٹی تو تیرا نام بن کر رہ گئی
وحدت سے مراد ذات بحت اجمالی، حب ذاتی،حقیقت محمدی اوربرزخ کبریٰ ہے- اس کامطلب یہ ہے کہ سواے وجود حق کے کوئی چیز موجودنہ تھی، واحدیت اسما وصفات کے ساتھ مرتبہ ذات ہے،اس میں اعیان ثابتہ (صور علمیہ)ظاہرہوئے اوریہی تمام کثرت کی اصل اورسب کامنشا ہیں-احدیت سے مطلب بغیر اسماوصفات کے اعتبار ذات ہے، ذات اسما وصفات سے عاری نہیں بلکہ اس طرح پرکہ اس مرتبہ میں اسما وصفات پرنظر نہ کی جائے، اگر چہ وہ سب ذات میں موجودہیں-
موحد کامرتبہ بہت اعلیٰ ہے ،موحد کامل وہ ہے جوتوحید حق اوراس کی وحدت میں استوار،مضبوط اوریکتاوڈوبارہے اوریگانگی حق کے سوا کچھ نہ دیکھے- ذات حق میں ایک ہو،اپنی خودی وغیریت سے بالکل فارغ اورعینیت حق میں مستغرق ہو،ہرشئے میں اسی کاجلوہ دیکھتاہو،ہرکام حق تعالیٰ سے کرتاہو،اس کی بصارت وبصیرت ایک ہوچکی ہو- توحیدکامقام سب سے بلند ہے حضرت خواجہ باقی باللہ دہلوی نقش بندی فرماتے ہیں: 
’’عارف کے لیے اس سے بلند مقام کوئی نہیں- اس مقام میں فنائے  کلی، انعدام صرف ہے،یہ کلیہ فناکے مقام سے ہے- سالک کے لیے جوکچھ ضروری ہے وہ یہی خیال وحدت ہے-رات دن اسی کی کوشش کرناچاہیے کہ کثرت موہومہ جوبعنوان غریب نظر میں آتی ہے، نظرسے ساکت ہوکر وحدت کاآئینہ ہوجائے اورسالک ایک کے سوانہ دیکھے، نہ جانے اورنہ پڑھے ؎
دو مبیں و دو مداں و دو مخواں
 خواجہ را در بندۂ خود محو داں
تم اگر سالہا سال عبادت گزاری وفرماںبرداری اوراذکار واشغال میں مشغول رہواوروحدت سے غافل رہوتو وصل سے محروم رہوگے - (حقیقۃالحقائق مترجمہ مولوی حافظ شبیب انور علوی سلمہ)
توحیدکی چارقسمیں ہیں: 
(۱)توحیداسمائی یعنی تمام اسماے جملہ موجودات کواسماے الٰہی جانے- 
(۲)توحیدافعالی یعنی تمام افعال جملہ موجودات کواللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرے- 
(۳)توحید صفاتی یعنی تمام صفات موجودات کوصفات الٰہی جانے-
 (۴)توحیدذاتی یعنی تمام موجودات میں ذات واحد کے سوا کچھ نظرنہ آئے-
توحید کی راہ میں ہے ویرانہ سخت 
آزادی وبے تعلقی ہے یک لخت
 دنیا ہے نہ دیں ہے نہ دوزخ نہ بہشت
 تکیہ نہ سرائے ہے نہ چشمہ نہ درخت 
غر ض کہ توحید منزل نامرادی ہے- شاہ تراب علی قلندر قدس سرہ فرماتے ہیں:
عاشقی کان نامرادی ہے 
عشق دکان نامرادی ہے
 کون اس راہ میں قدم رکھے 
یہ تو میدان نامرادی ہے
 اس کی بے التفاتی واستغنا 
ساز و سامان نامرادی ہے
نامرادی کی بھی طلب نہ رہے
 یہی پایان نامرادی ہے
 اہل فقر و فنا ہیں جو ان پر
 نت نئی شان نامرادی ہے
ہے عجب ان دنوں ترابؔ کاحال
 دست و دامان نامرادی ہے
 ان سطور کے بعد صاحب نغمات کے وحدت کے بیان کوملاحظہ فرمائیے اوراس میں گم ہوجائیے-حضرت شاہ تراب علی قلندرقدس سرہ اسی عینیت ویک رنگی کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 
جیسے موجیں عین دریا ہیں حقیقت میں ترابؔ
ویسے عالم عین حق ہے غیر حق عالم نہیں 

 نور کے پردہ میں پنہاں ہے وہی
 اور اس پردہ سے عریاں ہے وہی 
ہر طرف ہر سمت ہے جلوہ نما 
بس اسی کی ذات بے چون وچر
ا حور و غلماں جن و انساں اور پری
سب ہیں اس کے نور کی جلوہ گری (نغمات)

ایک قطرہ بھی نہ پایا میں نے پانی کے سوا 
 جزو ایسا کون ہے جس میں وجود کل نہیں
 وحدت کی آنکھ سے جو نظر بھر کے دیکھیے
عالم ز ارض تا بہ سماوات ایک ہے (تراب)


غور سے دیکھو تو کوئی بھی نہیں
ماسواے ذات رب العالمیں
 از زمیں تا آسمان کبریا
بس خدا ہے بس خدا ہے بس خدا (نغمات)

غیریت وبے اعتباری کے پردہ میں پوشیدگی، گم گشتگی کے صحرا میں بے دست و پالاکر چھوڑ دیتی ہے،ورنہفَأَیْْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہ (البقرہ:۱۱۵)کامشاہدہ دم نقد ہوتاہے-
علم کی غیرت نے ڈالا دور سب کو یار سے 
ورنہ ہر صورت میں دیکھو جلوۂ محبوب ہے
زمیں سے تا بہ فلک بلکہ اور عرش تلک
 جو دیکھتا ہوں تو سارا وجود ہے اپنا
حضرت شیخ اکبر اور ان کے متبعین اﷲنور السمٰوات والارضکی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ نور بہ معنی ظہور اورظہور بمعنی وجود یعنی اللہ تعالیٰ کاوجود حقیقت ہے- بیس سال کی عمر کے ایک عارف وصاحب مقام اعراف مولاناتقی حیدر قلندر قدس سرہ اسی مقام سے فرماتے ہیں: 
’’قربان اس شاہد بے پروا ولاابالی کے جس نے اپنے کمال بے نیازی میں جمال وجلال سے آراستہ ہوکرجمال کے جلال کانام عشق اورجلال کے جمال کانام حسن رکھ کراپنے مصرملاحت میں مستانہ وار’’اﷲجمیل یحب الجمال‘‘ فرمایااورہنگامہ آرائی شہود خودنمائی وخودبینی ہوا ؎
یار من با کمال رعنائی 
خود تماشا و خود تماشائی
 شد چوں حب نظارہ دامن گیر 
گشت مطلق بدام قید اسیر
 از تقاضاے حب جلوہ گری
 آمد اندر حصار شیشہ پری
جلال نے جمال کودیکھا جمال نے جلال کوپایا، یہ پہلا ناز معشوقانہ تھا کہ اس نے اپنی شدت ظہور کی وجہ سے جمال کی نظرسے جلال کی شوخی میں اورجلال کی نظر سے جمال کی خوبی میں پوشیدہ ہوکرعزت وکبریائی سے فرمایاکہ ’’یُحَذِّرُکُمُ اللّہُ نَفْسَہُ وَاللّہُ رَؤُوفُ بِالْعِبَادِ‘‘ (اللہ تعالیٰ تم کواپنے آپ سے متنبہ کرتاہے ،وہ بندوں پر بڑامہربان ہے-اٰل عمران:۳۰)اوریہ دوسرا انداز د ل فریبی تھا کہ اپنے بطون کی نقاب ظہورکے چہرہ سے ہٹاکراپنے کمال کی نظر میں ہزاروں جاہ وجلال وحسن وجمال کے ساتھ بے پردہ مشہود ہوا اورایک شورانگیز تبسم سے فرمایا کہ ’’أَیْْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْہُ اللّہ‘‘(تم جدھر بھی رخ کرواسی طرف وجہ اللہ ہے- البقرہ:۱۱۵) اور یکتائی بے حرف وصوت سے گویاہوا کہ ’’لاَ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ‘‘(آنکھیں اس کاادراک نہیں کرپاتیں بلکہ وہ کرتاہے،وہ توبہت ہی مہربان وباخبرہے-الانعام:۱۰۳)یہی وہ الف ہے کہ جس نے مشہد بسم اللہ میں اپنی تنزیہ کی تشبیہ معانی میں اوراپنی تشبیہ کی تنزیہ صورت میں ثابت کرکے ظہوروبطون کوایک کرلیاہے کہ بجز وجود محض کے تنزیہ وتشبیہ وظہور وبطون میں کچھ نہ رہا جیسا کہ نہ تھا ؎
 کہ بندد طرف او از حسن شاہی
کہ باخود عشق ورزد جاودانہ
 یہی عشق ہے جس کی طرف، نزول کے اعتبار سے حدیث قدسیکنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق’’میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے  یہ چاہاکہ مجھے پہچانا جائے تو میں نے مخلوق کوپیداکیا‘‘ (کشف الخفاء: ۲/۱۳۲، دار احیاء التراث العربی) میں لفظ فأحببت سے اشارہ ہے اور عروج کے اعتبار سے اس کی تعریف العشق ناریحرق ماسوی المحبوب(عشق ایسی آگ ہے جومعشوق کے ماسوا کوجلاکرخاک کردیتی ہے)یعنی نیستی بھی حضرت عشق کاتقاضا ہے اورہستی بھی ان ہی حضرت کاکھیل ہے،سچ تویوں ہے کہ تنزیہ وتشبیہ وظہور وبطون صفات وشیون ہیں اور حضرت عشق محض ذات بے چون وچگونہ ؎
عشق شاہ و عشق ماہ و عشق راہ
بر سر خود عشق می پوشد کلاہ 
عشق عالم عشق آدم بالیقیں 
ہرچہ بینی در حقیقت عشق بیں
عشق وہم و عشق فہم و عشق ہوش 
عشق دست و عشق پا و عشق گوش
 عشق صورت در جمال خود نمود 
جملہ اشیا در حقیقت عشق بود 
چند گویم عشق ایں وعشق آں 
ہرچہ بینی عشق بیں و عشق داں
اسی عشق کاکرشمہ ہے جس نے احدیت کو وحدت میں منزوی کیااور وحدت کو واحدیت میں مخفی رکھا -عناصر اربعہ کوواحدیت سے ظاہر کیا،صفات کوحجاب ذات قرار دیااورپھر ذات اپنے تمام حجابات صفاتی واسمائے کونی میں بے پردہ وبے حجاب خوددرخودمتجلی ومشہود رہی،کعبہ کی سجدہ ریزی ،سومنات کی خاک بیزی،صومعہ کی خلوت،خرابات کی جلوت،شمع کانور، پروانہ کاسرور، بادہ کاجوش، پیمانہ کانوشانوش،حسن کوآن،جسم کوجان، زلف کوتسلسل،نگاہ کوکیف، پانی کی روانی،آتش کی تیز زبانی،خاک کی بربادی،بادکی آزادی،چشم کونور،دل کوحضور،کثرت کووحدت،وحدت کوکثرت،گلشن کوآب، گل کوتاب،آنکھ کی بینائی، دل کی دانائی سب اسی کاتصدق وطفیل ہے ؎
ہرچہ گویم عشق را شرح و بیاں 
چوں بعشق آیم خجل باشم ازاں
 اسی عشق کانام مرتبۂ الوہیت میں اللہ ہے اورصرافت اطلاقی میں احد اورمرتبۂ صمدیت میں ناشی اورحقیقت واحدیت میں عاقب، عالم امر میں ماحی اورروحانیت میں احمد اور بشریت میں محمدﷺہے اور چونکہ یقین اعتدالی انسانی محمدی بذاتہ جامع الکمالات ہے لہٰذا تمام مراتب عشقی کواس نے بیک دفعہ بتمامہ گھیرلیااورتمام انفس وآفاق میں جاذبات عشقی سے طلاطم مچادیا،ایک ذرہ بھی ایسا نہ چھوڑا جس کافی نفسہ عین نہ ہوگیاہواور چونکہ تعین محمدی نے بوجہ اپنی بشری جامعیت کے ذاتی کمال کے عشق کے شیونات کوبالکلیہ اپنے میں لے لیا،تومرتبۂ الوہیت سے آپ کومحبوبیت کی خلعت عطاہوئی ؛کیوںکہ اپنے ساتھ آپ محبت ہونا الوہیت کاتقاضائے ذاتی ہے،بالجملہ عشق ایک ذات ہے جس کے دوظہور ہیں عاشق ومعشوق بلکہ ایک ظہور ہے جس کے دونام ہیں احداحمد ؎ 
زاحمد تااحد یک میم فرق است
 جہانے اندراں یک میم غرق است
 احمدکی میم سے محمدی بشریت کی اجمالی حالت کی طرف اشارہ ہے جس کا تفصیلی ظہور تمام کائنات ہے جس کے بمناسب میم کے اعداد کے چالیس عوالم ہیں اورچوں کہ آپ تمام مراتب کونیہ میں بیک دفعہ بے تکلف اپنے اسم ناشی کی صمدیت کے ساتھ طاری وساری ہوگئے لہٰذا تمام عالم میں بجز صرافت عشقی کے کچھ باقی نہ رہا یعنی میم احمد عین احدہوکر احد کی احدیت میںگم ہوگیا ؎
محمد جملہ عشق آمد ازیں رو
دل و جان حسن قربان عشق است 
یہ ایک وجود صرف رہ گیا جوازل وابدمیں ’’الآن کماکان‘‘ہے اوراسی وجود کا سریان عوالم آفاقی میں مثل میم کے سریان کے اپنے اعداد میں ہے‘‘ (مناظرالشہود ص: ۳، ۵) 
صاحب نغمات نے حدیث قدسی ’’کنت کنزا مخفیا الخ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھاالخ کی تفسیرمیں ۲۳اشعار بڑی سلاست سے پیش فرمائے ہیں:
باعث تخلیق آدم عشق ہے
پیکر آدم مجسم عشق ہے
عشق ہے اسرار حق کا رازداں 
عشق ہے مقصود حرف کن فکاں 
ذرہ ذرہ عشق میں سرشار ہے
جملہ عالم عشق کا اظہار ہے
عشق ہے نور ظہور کبریا 
عشق ہے وجہ نمود مصطفی
حامل راز خدائی عشق ہے 
اور سر مصطفائی عشق ہے 
حضرات صوفیہ نے لکھا ہے کہ تخلیق کائنات کے ہنگامے کی رونمائی حدیث قدسی کی رو سے فاحببت(تومیں نے چاہا)کی منت پذیر ہے- اسی لیے ہرایک نے اپنے عرفان و مشاہدہ سے حضرت عشق کی تفسیرکی ہے- قارئین کرام کے ذوق کی خاطر عصر حاضرکے ایک نوجوان صاحب دل وعرفان کے واردات قلبی پیش ہیں:
عشق خواہد عاشقاں را سربکف 
عشق باشد ہر زماں تیغے بکف 
عشق جوید قلب بریاں ہر قدم
 عشق بیند چشم گریاں دم بدم 
عشق چوں شہباز آید بے گماں 
عشق گیرد صد شکار از یک کماں 
عشق تابد بر زمین و آسماں
عشق نازد بر قلوب عاشقاں 
عشق بگرفت ایں جہان وآں جہاں 
عشق خیمہ زد بہ ملک لامکاں 
عشق آرد لامکاں را در مکاں
عشق گفتہ روز اول کن فکاں
عشق نور و عشق نار و عشق پاک
عشق آب و عشق باد و عشق خاک 
کیست عاشق چیست عشق ذوالجلال
 ایں بیاںرانیست طاقت نے مجال
 (حضرت حافظ تقی انور قلندر کاکوری )
 (حضرت عشق ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ عاشق ہمیشہ سربکف رہیں-عشق کے ہاتھوں میں ہروقت تلوار رہتی ہے- وہ ہرہرقدم پراس دل کوتلاش کرتاہے جواس کی یادمیں جھلساوبھنا ہواہو-وہ ہروقت آنکھوں کواشک بار دیکھناچاہتاہے- عشق شہباز کی طرح اچانک نمودار ہوتاہے اورایک ہی کمان سے سو سو شکارکرلیتاہے- وہ زمین وآسمان کی چمک دمک کاسبب ہے- وہ ان دلوں پرناز کرتاہے جوہروقت عشق محبوب میں ڈوبے ہوئے ہیں- اس کے قبضہ میں دونوں جہان ہیں- اس کاخیمہ لامکاں میں ہے -وہ لامکاں کومکاں کی سیرکراتاہے- عشق ہی ہے جس نے روز ازل ہی سے ایک کن (ہوجا) سے ساری کائنات جلوہ گر کردی- عشق نوربھی ہے،نار بھی ہے- وہ پاک بھی ہے خاک بھی،آب بھی ہے باد بھی ہے- عاشق آخرکون ہے؟ذوالجلال والاکرام کاعشق آخر ہے کیاچیز؟ اسے نہ بیان کی طاقت ہے نہ مجال شرح و تفصیل-)
کلام پاک کی آیت کریمہ’’ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ الخ‘(الحدید:۳)‘اپنے اندر دوجہتیں رکھتی ہے- ایک سے وہ حمد الٰہی ہے اوردوسری سے نعت نبوی-احادیث نبویہ ہیں’’أول ماخلق اﷲنوری‘‘اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کی تخلیق فرمائی-(مصنف عبدالرزاق) کنت نبیا وآدم بین الروح والجسد‘‘میں اس وقت نبی تھا جب آدم کی تخلیق نہ ہوئی تھی- (مستدرک حاکم، کتاب تواریخ المتقدمین من الانبیاء والمرسلین، ذکر اخبار سید المرسلین، حدیث ۴۲۰۹)ھو نور نبیک یا جابر خلقہ اللّٗہ، ثم خلق فیہ کل خیر و خلق بعدہ کل شیء- (الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف لعبد الرزاق، ص:۶۵) ’’ اے جابر !سب سے پہلے اللہ نے تمہارے نبی کے نور کو پیدا کیا پھر اس میں ہر خوبی رکھی اور اس کے بعد ہرچیزپیدا فرمائی-‘‘
حقیقت محمدی اورمقام نبوی سے واقف ہونے کے لیے کلام پاک کی جانب رجوع کیجئے توپتہ چلے گاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماے حسنیٰ رؤف ،رحیم ،مومن ،خبیر،علیم،وغیرہ سے ہی موسوم نہیں فرمایابلکہ آپ کے عمل کواپناعمل قرار دیا’’ وَمَا رَمَیْْتَ إِذْ رَمَیْْتَ وَلَـکِنَّ اللّہَ رَمَی‘‘جب آپ نے پھینکا توآپ نے نہیں پھینکا بلکہ درحقیقت وہ اللہ نے پھینکاتھا- (الانفال:۱۷) ’’إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللَّہَ یَدُ اللَّہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ‘‘جولوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں- اللہ کاہاتھ ان کے ہاتھوں پرہے-(الفتح:۱۰)’’ مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ‘‘جورسول اللہﷺکی اطاعت کرتاہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتاہے- (النساء:۸۰) اسی مقام سے زبان نبوت ارشاد فرماتی ہے کہ’’من رآنی فقد رأی الحق‘‘ جس نے مجھے دیکھا اس نے حق کودیکھا- (صحیح مسلم،الرؤیا)شاعر بارگاہ رسالت حضرت حسان بن ثابت انصاری فرماتے ہیں: 
وضم الالہ اسم النبی الی اسمہ
اذاقال فی الخمس الموذن أشہد
وشق لہ من اسمہ لیجلہ 
 فذوالعرش محمود وھذامحمد 
(اللہ تعالیٰ نے نبیﷺکے نام نامی کو(محبت ویگانگت کی بنا پر)اپنے نام میں ضم  کرلیا اوروہ اس طرح کہ جب موذن پانچ وقت کی اذان میں اشہدان لاالہ الااﷲ کہتاہے تواسی کے ساتھ اشہدان محمدارسول اﷲ بھی کہتاہے- اس نے آپ کی تعظیم وتکریم کی خاطر آپ کے نام مبارک کو اپنے ہی نام سے نکالا اوروہ اس طرح کہ عرش والامحمودہے اور آپ محمد،اوردونوں ناموں کامادہ’’ حمد ‘‘ایک ہے-) 
ارباب تحقیق نے لکھا ہے کہ کلام پاک کی آیت مبارکہ’’قُل لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ الخ‘‘(الکہف:۱۰۹)اے رسول! آپ ان لوگوں سے فرمادیجیے کہ اگرتمام سمندروں کے پانی کی روشنائی بن جائے اورآپ کے پروردگا رکے کلمات یعنی آپ کی تمام صفات حمیدہ اورخصائل ظاہری وباطنی کابیان کیاجائے توسمندروں کی روشنائی ختم ہوجائے گی-
 دفترتمام گشت و بہ پایاں رسید عمر 
ماہم چناں دراول وصف توماندہ ایم 
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ وہ تمام آیات جن میں حضورﷺکی برابری ومساوات معلوم ہوتی ہووہ متشابہات کے مثل ہیں،جیسے اللہ تعالیٰ اپنے نور کی مثال یوں دیتاہے ’’مَثَلُ نُورِہِ کَمِشْکَاۃٍ فِیْہَا مِصْبَاح‘‘(اس کانور ایساہے جیسے طاقچہ میں چراغ-النور:۳۵) اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ نورالٰہی چراغ جیساہے- اسی طرح کوئی یہ نہیں سوچ سکتاکہ حضورﷺ نعوذباللہ ہم جیسے بشرہیں ؎ 
 محمد بشر لاکالبشر
 بل ہو یاقوت بین الحجر
 محمدﷺ بشرتوہیں مگرعام بشر جیسے نہیں، آپ کی مثال ایسی ہے جیسے پتھروں میں یاقوت مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کہتے ہیں ؎ 
 حق جلوہ گر ز طرز بیان محمد است
 آرے کلام حق بزبان محمد است
 رسول اکرم ارواحنا فداہ ﷺ آئینۂ حق ہیں جس کے دورخ ہیں اور اگرایسا نہ ہوتا تو کائنات کی حقیقت بے معنی ہوتی اور اس کا قالب بے فیض ہوتا-آئینہ کاایک رخ اللہ کی طرف ہے جہاں سے ارشاد ہوتاہے ’’وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْیٌ یُوحَی ٰ‘‘ (النجم:۳،۴)وہ اپنی خواہش اورمرضی سے کچھ نہیں فرماتے- ان سے تو جوکچھ اللہ فرماتاہے وہ وہی فرماتے ہیں ؎ 
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود 
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود 
اوردوسرارخ مخلوق کی طرف ہے جس سے ارشاد ہے ’’إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْالخ‘‘بے شکمیں تم جیسا بشرہوں-(الکھف:۱۱۰) حضرت شاہ بوعلی قلندر پانی پتی قدس سرہ فرماتے ہیں ؎ 
توبودی معنی آدم عزازیلے اگر داند
زاول روز تامحشر نمی برداشت پیشانی 
(آپ آدم اورآدمیت کاسر ہیں، اگرشیطان کویہ معلوم ہوجاتاتووہ قیامت تک سجدہ سے پیشانی نہ اٹھاتا) ؎
نہ پیچیدہ سر از طاعت اگر ابلیس دانستے
کہ مثل تو چوں فرزندیست در ذریت آدم
 (اگرشیطان کویہ پتہ چل جاتاکہ حضرت آدم کی اولاد میں آپ  جیسی ہستی ہوگی تووہ ان کو سجدہ کرنے سے کبھی انکار ہی نہیں کرتا -) 
کلام پاک کی بے شمار آیات میں آں حضرت  ﷺ کی بارگاہ میں ادب وتعظیم وتکریم میں غلو کابھی حکم ہے- سورۂ حجرات میں توصاف صاف فرمادیا کہ اے ایمان والو!اپنی آوازوں کونبی کی آواز سے بلند مت کرواور جس طرح آپس میں گفتگو کرتے ہو،اس طرح ان سے گفتگو نہ کرو، ایسانہ ہوکہ تمہاری ذراسی بے ادبی تمہارے سارے نیک اعمال کوبرباد کردے اورتم کوخبر بھی نہ ہو-(الحجرات: ۲)دوسری جگہ ارشاد باری ہے، ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا ‘‘(البقرۃ:۱۰۴)اے ایمان والو!حضور سے یہ مت عرض کروکہ ہماراخیال کیجیے بلکہ یوںعرض کروکہ ہمارے اوپرنظر کرم فرمائیے- عزت بخاری کاایک شعرہے ؎
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
یعنی زیر آسمان ایک ایسی بھی جاے ادب ہے جواپنی عظمت ورفعت اورنزاکت میں عرش سے زیادہ ہے اورجہاں حضرت سیدالطائفہ سرگروہ ارباب صحو جنید بغدادی اور سرخیل ارباب سکر حضرت سیدنابایزیدبسطامی جیسے کاملین دم بخود ہیں،اوراخیرمیں اسی فیصلہ پربات ختم کرنی پڑتی ہے ؎ 
غالب ؔثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم 
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد ست 
(غالب!ہم نے آقائے دوجہاں کی حمد وثنا کوخداے بزرگ وبرترکے لیے چھوڑ دیا، وہی پاک ذات سرکاردوعالم ﷺکامقام ومرتبہ جانتی ہے-) 
ان تمہیدی کلمات کے بعد حضرت صاحب نغمات کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں: 
عالم تنزیہ سے نور خدا
شان تشبیہی میں ہے جلوہ نما 
شکل احمد میں ہے متشکل احد
ہر تجلی میں ہے متجلی صمد
بے گمان بے کیف بے چون وچرا 
یوں ہی احمد میں احدہے خودنما
خود کلام اللہ میں ہے یوں رقم 
بے ادب لاترفعوا اصواتکم 
جو ہو گستاخ رسول کبریا
عین کافر ہے وہ مردود خدا
حکم ربی ہے کہ من یطع الرسول
 غورسے اس کوسمجھ اے بوالفضول 
آپ کی عظمت عیاں بے قال وقیل
 آپ کی رفعت مسلم بے دلیل
 اللہ اللہ عظمت شاہ رسل
 فہم مخلوقات سے بالا ہے کل 
وہ بشر ایسا بشر ہے بالقیں
 جس کے آگے سربہ خم روح الامیں
اس کا کوئی مثل اور ثانی نہیں
 وہ سراپا نور رب العالمیں
من رآنی سے یہ عقدہ حل ہوا 
آپ ہیں آئینۂ ذات خدا 
صاحب نغمات نے اولیاء اللہ کی عظمت وشان ،شریعت وطریقت وحقیقت،شیخ کامل کی ضرورت واہمیت وغیرہ کے ضمن میں بھی اشعار قلم بندفرمائے ہیں-نبوت کاخزانہ بندہوچکاہے مگرولایت کاخزانہ ابدالآباد تک صرف میں ہے- حدیث شریف میں ہے  کہ ’’واشوقاہ الی لقاء اخوانی من بعدی‘‘مجھے اپنے ان بھائیوں سے ملنے کابڑاشتیاق ہے جو میرے بعد ہوں گے - یہ وہی حضرات ہیں جن کے لیے ارشاد ہے ’’ھم القوم لا یشقی بھم جلیسھم ‘‘ وہ ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں ہوتا- (صحیح مسلم، باب فضل مجالس الذکر) سلسلۂ عالیہ چشتیہ کی ایک عظیم المرتبت شخصیت حضرت شیخ ابوجعفر حسینی مکی قدس سرہ۱۰؍ذی الحجہ۸۲۴ھ کے مکتوب میں تحریرفرماتے ہیں: 
’’حضرت صمدیت جلت قدرتہ کے ایسے محب بھی روے زمین پرہیں کہ خط دین کے قواعد ان کے اقدام صدق سے معمور ہیں اورآدم وآدمیت کاسران کے احوال کے جمال سے پاک ہے- وہ عرض ولایت کے سلطان اوربارگاہ عنایت کے ستون ہیں- ان کی ہمت کا ہما سوائے قاب قرب کے کہیں نہیں بیٹھتا- ان کی دولت کاعنقا سوائے سدرۂ کبریائی کے کہیں قرار نہیں پاتا- وہ وحدت کے ایسے شاہباز ہیں جن کی ہمت کی اکسیر بادیۂ جہالت کے مردود کوخالص سونا بنادیتی ہے- وہ جناب حضرت صمدیت کے ایسے پاکباز ہیں جن کے مبارک انفاس کی برکت سے وہ گمراہوں اورظالموں کوقبول کرکے مقبول بنادیتاہے- یہ محبوب حضرت لایزالی کے شہباز صحرائے محبت میں ڈیرے ڈالتے ہیں لیکن دیکھنے والوں کو آنکھیں میسر نہیں کہ وہ ان حضرات کے محرم ہوسکیں‘‘ 
حدیث قدسی ہے ’’عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اﷲﷺ ان اﷲتعالیٰ قال من عادیٰ لی ولیا فقدآذنتہ بالحرب وماتقرب الی عبدی بشیٔ احب الی مما افترضت علیہ ومایزال عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احببتہ فاذا احببتہ کنت سمعہ الذی یسمع بہ وبصرہ الذی یبصربہ ویدہ التی یبطش بھا ورجلہ التی یمشی بھا وان سألنی لاعطینہ ولئن استعاذنی لاعیذنہ- (بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع)
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ یقینا اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ جس نے بھی میرے ولی سے دشمنی رکھی ،اس کومیں اپنے سے لڑائی لڑنے سے خبردار کرتاہوں -میرے بندے نے میری طرف اس چیز سے زیادہ کسی چیزسے میراقرب حاصل نہیں کیاجومیں نے اس پرفرض کی- وہ نوافل کے ذریعے مسلسل میراقرب ڈھونڈتارہتاہے یہاں تک کہ میں اس کوچاہنے لگتاہوں اورجب میں اس کوچاہنے لگتاہوں اوردوست بنالیتاہوں تومیں اس کاکان بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے، آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے، ہاتھ بن جاتاہوں جس سے وہ پکڑتاہے اور پائوں بن جاتاہوں جن سے وہ چلتاہے- وہ اگر مجھ سے کچھ مانگتاہے تواس کودیتاہوں اور پناہ چاہتاہے تو پناہ دیتاہوں…ع 
میں جواس کاہوگیا وہ ہوگیا میرے لیے
 اس کاہرعمل حق تعالیٰ کاعمل بن جاتاہے- حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیںکہ ولی وہ ہے جس کودیکھنے سے خدایادآئے یعنی اس کی شخصیت میں ایمان و تقوی کی یکجائی ہو’’الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَکَانُواْ یَتَّقُونَ‘‘ جو ایمان لائے اورتقوی اختیار کیے-(یونس:۶۳)
عارف رومی فرماتے ہیں ؎
صحبت مرداں اگریک ساعت است بہتراز صد خلوت وصد طاعت ست
(مردان خدا کی ایک گھڑی کی صحبت وہم نشینی سیکڑوں خلوت واطاعت گزاری سے کہیں بہترہے)
 اولیاء اللہ ہیں سر تا بپا
نائب حضرت محمد مصطفیﷺ
جونہیں ملتی ریاضت سے وہ شے
 اولیاء اللہ کی صحبت میں ہے
اولیاء اللہ کو جو پاگیا
 وہ خدا و مصطفی کو پاگیا
 جس کا چہرہ عین وجہ اللہ ہے
جس کی ہستی نور الا اللہ ہے
 اے خوشا وہ دل کہ صورت آشنا
جو ہو دنیا میں کسی درویش کا
صحیح مسلم شریف کی حدیث ہے عن عبداللّٰہ ابن عمرمن خلع یدا من طاعۃ لقی اﷲ یوم القیامۃ لاحجۃ لہ و من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ ’’حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ جس نے اپنا ہاتھ ( امیر کی) اطاعت سے اٹھا لیاوہ قیامت کے روز اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہوگی اور جوشخص اس حال میں مراکہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہیںوہ جاہلیت کی موت مرا -‘‘ (مسلم، الامارۃ ، باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن)
خوبی قسمت سے جس کسی کوپیر کامل مل جائے تواس کے ہاتھ کوخدا کاہاتھ جانے اورسمجھے اوربیعت کے بعد اپنے کوبالکل اس کے سپرد کردے اسی طرح جس طرح مردہ اپنے نہلانے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے (کالمیت بیدالغسال) مرید پرفرض ہے کہ وہ اپنا جان و مال اولاد سب پیرپرنثار کردے اوراس کے حکم سے بال برابر انکار نہ کرے اوردل میں اس بات کاپورا یقین رکھے کہ اگر پیرغلطی بھی کرے تو اس کی غلطی میں بھی مجھ کو فائدہ ہوگا، بر خلاف اس کے کہ اپنی رائے اورمرضی سے سیدھے راستہ پرجائے- اس سلسلے میں ہمہ وقت حضرت موسیٰ اورحضرت خضر کے واقعات یادرکھے کیوںکہ جومرید اپنی مراد وارادت کی راہ پرچلتاہے وہ مراد کامریدہے نہ کہ پیرکا،مریدی دراصل پیر پرستی ہے، مولاناجلال الدین رومی قدس سرہ فرماتے ہیں ؎ 
 چوں کہ کردی ذات مرشد را قبول 
ہم خدا در ذاتش آمد ہم رسول
 مرید بیعت ہونے کے بعد یہ امید نہ رکھے کہ پیر سب سے بڑا عبادت گزار، معصوم عن الخطا اورتسبیح ومصلیٰ سے ہروقت وابستہ ہو،وہ اپنی ظاہری آنکھوں سے  پیرکے شب وروز کے اوقات نہ دیکھے بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرے اورہروقت اس خیال سے بچتارہے کہ پیرکے کسی ظاہری عمل کودیکھ کرشک پیدا ہواور گویاابوجہل وابولہب وغیرہ کی آنکھوں سے رسول اللہ ﷺ کے دیدار سے پناہ مانگتارہے- اپنے پیرسے اپنے تمام حالات عرض کرتارہے اورحاضر وغائب میں اس کی طرف متوجہ رہے ؎ 
حاضر و ناظر مرید اس طرح جانے پیر کو
جس طرح احوال بندہ سے خدا آگاہ ہو 
پیرکے مقبول کومقبول، مردودکومردود اورمخالف وموافق کو اپنامخالف وموافق سمجھے اور پیر ہرات حضرت خواجہ عبداللہ انصاری قدس سرہ کے اس ارشاد کوحرز جاں بنالے:
’’ہرکہ باپیر توبدباشد و تونیک،سگ ازتوبہترست‘‘(جوکوئی تمہارے پیرکابدخواہ و مخالف ہو اورتم اس کے خیرخواہ ہوتوجان لوکہ کتاتک تم سے بہترہے)کہ وہ اپنے مالک کے لیے کسی کی ترچھی نگاہ بھی برداشت نہیںکرتا- ارباب تصوف نے مریدی وپیری کے آداب، حقوق و فرائض اورطریقت کے ان باریک واہم مسائل پرکتابیں اور رسائل لکھے ہیں- حضرت شاہ تراب علی قلندر قدس سرہ کی تین تصانیف اس سلسلے میں بڑی اہم ہیں ،مطالب رشیدی، اسناد المشیخت،اورشرائط الوسائط-اول الذکر اورآخرالذکر کے اردوترجمے بالترتیب حضرت مرشد برحق مولانا شاہ محمدمصطفی حیدرقلندر قدس سرہ سجادہ نشین ہشتم خانقاہ کاظمیہ قلندریہ اورحضرت مولانا حافظ محمدمجتبیٰ حیدرقلندر مدظلہ العالی نے فرمائے ہیں- 
مریدکواپنے پیرکے ساتھ زیادہ سے زیادہ محبت رکھنا چاہیے ،جتنی زیادہ محبت ہوگی اتناہی فائدہ ہوگا،کیوںکہ محبت رکھنے والے کادرجہ یقینا ایسے مرید سے زیادہ ہے جوعبادت و ریاضت والاہو اورپیرکی محبت کم ہو-پیرکے سامنے نوافل ،تسبیحات اور اوراد ووظائف میں مشغول نہ ہوں کیوں کہ  پیرکے مشاہدہ سے بڑھ کر کوئی شغل نہیں، حتیٰ الوسع پیرکی خدمت میں خالی ہاتھ نہ جائے-حضرت شاہ تراب علی قلندر قدس سرہ کے چنداشعار اس ضمن میں یادآرہے ہیں ؎
 جو گدائی در پہ مرشد کے کرے وہ شاہ ہو 
بندۂ درگاہ ہو تب صاحب درگاہ ہو 
جس شخص کا دل مرشد و رہبر سے پھرا ہے
 وہ حق سے پھرا اور پیمبر سے پھرا ہے 
خوش آں دلے کہ دراں نیست غیر صورت پیر
خوش آں زباں کہ پر از داستان پیر بود
(وہ دل کتنااچھاہے جس میں پیرکی صورت کے علاوہ کوئی صورت نہ ہو اور وہ زبان کتنی اچھی ہے جس پر ہر وقت پیرکا چرچا وتذکرہ ہو-) 
مذکورہ بالاسطور کے بعد اب صاحب نغمات کے الفاظ ملاحظہ کیجیے:
 گوش دل سے سن توقول بوسعیدؔ 
شیخ ہے اس راہ کی اول کلید
شیخ سے گمراہ کرے جو آدمی
در حقیقت وہ ہے شیطان قوی 
شیخ ہے اپنے مریدوں میں یوں ہی 
جس طرح سے اپنی امت میں نبی
شیخ کی صورت ہے ایسا آئینہ 
جلوہ گر جس میں خدا و مصطفی
جس کا کوئی مرشد و رہبر نہیں
 اس کا رہبر نفس و شیطاں بالقیں
گر ہے تیرے پاس علم موسوی
جستجو کر پھر بھی خضر وقت کی 
صدق دل سے بے محابا اے پسر
 امر و نہی شیخ کو تسلیم کر
 اختلافی مسئلہ میں ہر گھڑی 
پیروی واجب ہے اپنے شیخ کی 
شیخ کی روحانیت کو ہر زماں
 حاضر و ناظر سمجھ تو اے جواں 
علاوہ از یں حضرت ناظم موصوف نے سماع و وجد ، شریعت ،طریقت، حقیقت اور معرفت ، تصوف کی فضیلت ، فقیہان خشک اور صوفیان جاہل ، علماے سوء، شان علماے بر حق ، شرائط درویشی و شیخی ، طالبانِ حق کے لیے پندو نصائح ، اذکار و اشغال اور مناجات کے عناوین کے تحت بہت کچھ نظم فرما دیا ہے جو یقینا طالبین و سالکین کے لیے لائق عمل و مشعل راہ ہے-
اگر تفصیل کا خوف دامن گیر نہ ہوتا تو ضرورت اس بات کی تھی کہ ہر ہر بات کی تشریح و تفصیل اور توجیہ و تعبیر میں دفتر سیاہ کیا جاتا- آں جناب موصوف نے راقم السطور سے حکم فرمایا چنانچہ پاس خاطر اور دیرینہ تعلق نے اس امر پر مجبور کیا کہ مثنوی کی بابت اپنے نامۂ اعمال کی طرح چند اوراق سیاہ کر دیے جائیں- اُمید ہے کہ یہ مثنوی ارباب تصوف کے یہاں پذیرائی حاصل کرے گی اور مشعل راہ ثابت ہوگی-
 مسعود انور علوی کاکوروی
 ۱۲ ربیع الاول ۱۴۲۵ھ مطابق ۳ مئی ۲۰۰۴ ء دو شنبہ
 نوٹ : تقدیم میں مذکور آیات و احادیث کی تخریج حاشیہ نگارنے کی ہے- مصباحی

Post a Comment

0Comments

اپنی رائے پیش کریں

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !