Jamia Arifia Mein Allama Ghulam Rasool Saeedi Ki Fiqhi Baseerat Par Seminar

جامعہ عارفیہ ، سید سراواں، الہ آباد میں’’علامہ غلام رسول سعیدی کی فقہی بصیرت‘‘ کے موضوع پر یک روزہ سیمینار

(رپورٹ: محمد شاہد رضا نجمیؔ)
یکم اکتوبر۲۰۱۶ ء ، بروز سنیچر جامعہ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد میں منعقدہ شعبہ دعوہ کے طلبہ کا یک روزہ سیمینار اختتام پذیر ہوگیا۔ سیمینار کا موضوع تھا ’’علامہ غلام رسول سعیدی کی فقہی بصیرت‘‘۔ غالبا یہ ہند وپاک کا پہلا سیمینار تھا جس میں علامہ غلام رسول سعیدی کی دینی اور فقہی خدمات پر مقالات ومضامین پیش کیے گئے۔ داعیِ اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی کی سرپرستی میں منعقد یہ سیمینار تقریبًا دو گھنٹے تک جاری رہا، جس میں کل چھ مقالے پڑھے گئے۔ صدارت کی ذمہ داری جامعہ کے ناظمِ اعلیٰ صاحب زادہ شیخ حسن سعید صفوی ازہری فرمارہے تھے، جب کہ نقابت کی ذمہ داری جامعہ کے استاذ مولانا محمد ذکی ازہری ادا کررہے تھے۔

 افتتاحی کلمات میں مولانا ذیشان احمد مصباحی صاحب نے فرمایا: ایک فقیہ کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہ دنیا کی ملامت ومذمت، طعن وتشنیع، تلخ اور پرآشوب رویوں سے بے نیاز ہوجائے۔ کوئی تحقیقی کام اسی وقت انجام پاسکتا ہے جب کہ اس طرح کی چیزیں راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ عظیم محقق وفقیہ علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کی ذات اسی وصف جمیل کی حامل تھی۔ آپ نے کبھی اس بات کی پرواہ نہ کی کہ میری تحقیق سے کون متفق ہوگا اور کون میری مخالفت کرے گا۔ جن باتوں پر قرآن وسنت اور اقوالِ سلف کی روشنی میں آپ کو شرحِ صدر ہوا آپ نے انھیں بلادریغ کہہ دیا۔
 افتتاحی کلمات کے بعد سب سے پہلا مقالہ جماعت دعوہ کے طالب علم  اشتیاق احمد سعیدی نے پیش کیا، جس میں انھوں نے سعیدی صاحب کی مختصر سوانح، اسلوبِ تحقیق اور چند تحقیقی مسائل کا ذکر کیا۔ تحقیقی مسائل میں انجکشن سے روزہ ٹوٹنے ، ریڈیو اور ٹی وی سے ہلالِ رمضان اور ہلالِ عید کا اعلان درست ہونے کے مسئلے پر خاص طور سے روشنی ڈالی۔پھر مقالہ پیش کرنے کے لیےدوسرے طالب علم شاہد رضا نجمی  کو دعوت دی گئی جس نے شرحِ صحیح مسلم کے حوالے سے سعیدی صاحب کی فقہی بصیرت کوگفتگو کا موضوع بنایا اورسعیدی صاحب کی فقہی بصیرت کو اجاگر کرنے کے لیے بارہ عناصرپیش کیے جنھیں سعیدی صاحب نے اپنی تحقیقی عمل میں اختیار کیا ہے۔ پھر ان میں سے بعض کے تحت چند مثالیں بھی بیان کیں۔ وہ بارہ عناصر یہ ہیں: تقریبًا ہر مسئلے کے تحت مذاہبِ اربعہ اور دوسرے فقہا کے اقوال کا بیان اور مذہبِ حنفی کی ترجیح،دلائل کی کثرت، عمدہ طرزِ استدلال، دل نشیں طرزِ بیان، متعارض اقوال میں خوبصورت تطبیق، مخالفین کے اعتراضات کا تحقیقی جواب، فقہا اور شارحین کے تسامحات پر تنبیہات، مسائلِ جدیدہ پر تفصیلی اور تحقیقی بحث، جزئیات کی فراہمی  اور مسائل کا استخراج، مختلف اقوال میں مع دلائل ترجیحات، ایجاز واختصار، فکری جمود سے دوری۔ اس کے بعد محمد گل بہار سعیدی نے ’’چور کے کٹے ہوئے ہاتھ کو جوڑنے‘‘ اور ’’چلتی ٹرین میں نماز پڑھنے ‘‘ کے حوالے سے سعیدی صاحب کی تحقیقات کو پیش کیا۔پھر مقالہ پیش کرنے کے لیےمحمد فرحان مصباحی کو دعوت دی گئی۔ انھوں نے اولا سعیدی صاحب کے اسلوبِ تحقیق کے حوالے سے گفتگو کی پھر ’’سجدے میں پیر زمین پر رکھنے کے حوالے سے سعیدی صاحب کی تحقیق تفصیل کے ساتھ پیش کی۔ پانچویں مقالہ نگار فیض العزیز سعیدی تھے۔ انھوں نے اجتہاد کی چند شرطیں بیان کیں اور سعیدی صاحب کی علمی شخصیت کو ان شرطوں کے آئینے میں پیش کیا۔ آخری مقالہ نگار کے طور پر محمد عرفان علی آئے۔ انھوں نے اولا سعیدی صاحب کی سوانح تفصیل کے ساتھ بیان کی، پھر سعیدی صاحب کی بعض علمی وفقہی تحقیقات کا ذکر کیا۔
 آخر میں تأثرات پیش کرنے کے لیے جامعہ کے دو مؤقر اساتذہ مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی اور مفتی رحمت علی مصباحی کو دعوت دی گئی۔ دونوں حضرات نے طلبہ کے اس اقدام کو کافی سراہا اور انھیں کامیابی کی دعائیں دیں۔ اس سیمینار میں جامعہ کے خامسہ سے دعوہ تک کے طلبہ حاضر تھے۔ جب کہ اساتذہ میں مولانا ارشاد عالم نعمانی، مولانا رفعت رضا نوری، مولانا اصغر علی ، مولانا شوکت علی سعیدی، مولانا فخرالزماں بھی موجود تھے۔اخیر میں حضور داعیِ اسلام کی نصیحتوں اور دعاؤں پر اس سیمینار کا اختتام ہوا۔ 

جامعہ عارفیہ کے شعبۂ دعوہ کے طلبہ کا یہ سیمینار، ان کا شوق وذوق دیکھ کر اور مقالات ومضامین سن کر بڑی خوشی ہوئی۔ یقینا علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ کی ذات بہت ہی پرنور اور بابرکت تھی۔ ان کی علمی مہارت، فقہی بصیرت اور دینی خدمات کے اثرات دور دور تک مرتب ہوچکے ہیں اور ابھی ہورہے ہیں۔ طلبۂ دعوہ کا یہ اقدام بڑا ہی خوش کن ہے۔ اللہ رب العزت کے ان کی ہمتوں کو سلامت رکھے اور جذبوں میں استحکام پیدا فرمائے۔ (مولانا ضیاء الرحمان علیمی)

سیمینار میں شریک ہوکر طلبۂ دعوہ کے مقالات ومضامین سننے کا موقع ملا، جس پر بڑی مسرت ہوئی۔ مقالات ومضامین کے مواد، طرزِ بیان اور پیش کش سبھی عمدہ تھے۔ اللہ رب العزت ان کے علم وعمل، تفکر وتدبر، شوق وذوق کو ہمیشہ سلامت رکھے۔(مفتی رحمت علی مصباحی) 


0 Comments

اپنی رائے پیش کریں