Seminar Mein padhe gaye Maqalon Ke Chand Iqtisabat



شذرات
سیمینار میں پڑھے گئے مقالوں کے چند اقتباسات

 عصرِ حاضر کے مسلمان ماضی کا احساس لیے جیتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم تاریخ کے کسی ایسے لمحے میں جی رہے ہیں جہاں اب قابلِ ذکر مسائل اور طرب انگیز حادثات کا ظہور بند ہوچکا ہے۔ ایک ایسی تاریخ جہاں سب کچھ ہوچکا ہے، اب کچھ غوروفکر، تدبر وتفکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری قوموں کے مقابل میں ہم نے ماضی کے مسائل کو تجربہ گاہ کے طور پر دیکھنے کے علاوہ مسائل کو صرف تقدیس کا حامل سمجھا ہے، لیکن اسی عہد میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب آئے اور اپنی فقہی بصیرت سے جدید مسائل کو حل کیا؛ کیوں کہ آپ جانتے تھے کہ نیا مسلم دماغ محض کتابوں کے ورد سے تیار نہیں ہوسکتا،بلکہ انجمادی کیفیت کو ترک کرکے از سرِ نوقرآن وحدیث میں غور وخوض، تفکر وتدبر اور ائمہ متقدمین کے مسائل کو تجربے کے طور پر سامنے رکھ کر مسلم ذہن کی تشکیل کرنا بے حد ضروری ہے۔علامہ سعیدی صاحب کی تگ ودو ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ مسائل کو جہاں تک ممکن ہو آسان رکھا جائے تاکہ امت حرج میں مبتلا نہ ہو، تاہم بعض مسائل میں انھوں نے عسر کا راستہ بھی اختیار کیا ہے، لیکن یہ سب آپ نے خلوص وللہیت کے سبب کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ سعیدی صاحب عصرجدید کے ایک متبحر عالم اور جید فقیہ تھے، جن کی فقہی بصیرت اس دورِ جدید کے علما کے لیے ایک نمونہ ہے جو علما کے ذہن کو تفقہ اور تحقیق کی طرف مرکوز کرتی ہے۔ آپ نے جس قدر عالمانہ اور فقیہانہ انداز سے مسائل کا تجزیہ کیا ہے اور جس طریقے سے نئے مسائل کی تحقیق کی ہے وہ آپ کی محنت اور کد وکاوش کا واضح ثبوت ہے۔اشتیاق عالم سعیدی


اردو زبان میں اب تک صحیح مسلم کی کوئی جامع ومبسوط شرح نہیں لکھی گئی تھی، جس کی وجہ سے اردو خواں طبقہ صحیح طور سے اس سے مستفید نہیں ہوپا رہا تھا۔ علامہ غلام رسول سعیدی قد س سرہٗ نے اس مہرِ سکوت کو توڑا اور سات ضخیم جلدوں میں ایک مبسوط شرح لکھ کر پوری جماعت کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کردیا۔ اردو خواں طبقے میں اس شرح کو اتنی ہی مقبولیت حاصل ہوئی جتنی عربی خواں طبقے میں امام نووی کی شرح’’المنہاج‘‘ کو۔ اس شرح سے علامہ غلام رسول سعیدی کی علمی گہرائی، فقہی گیرائی، دقیق فہمی،ژرف نگاہی، رمز شناسی، نکتہ سنجی، حدیث وتفسیر،سیرت و تصوف، زبان ولغت میں مہارت اور دوسرے علوم سے آشنائی ابھر کر آتی ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمہ نے شرحِ صحیح مسلم کے علاوہ اور کوئی تحقیقی کتاب نہ لکھی ہوتی تب بھی ہر چہار سو آپ کی علمی جلالت اور فقہی بصیرت کے لیے یہی کافی ووافی ہوتی۔ شرحِ صحیح مسلم کی جامعیت میں جن عناصر نے حصہ لیا ان میں سے بعض کچھ اس طرح ہیں: (۱) تقریبا ہر مسئلے کے تحت مذاہبِ اربعہ اور دوسرے فقہا کے اقوال کا بیان اور مذہبِ حنفی کی ترجیح (۲) کثرتِ دلائل (۳) عمدہ طرزِ  استدلال  (۴) دل نشیں طرزِ  بیان۔ (۵) متعارض اقوال میں خوب صورت تطبیق (۶) مخالفین کے اعتراضات کا تحقیقی جواب (۷) فقہا اور شارحین کے تسامحات پر تنبیہات (۸) مسائلِ جدیدہ پر تفصیلی اور تحقیقی بحث (۹) جزئیات کی فراہمی اور مسائل کا استخراج(۱۰) مختلف اقوال میں مع دلائل ترجیحات۔ بلاشبہ سعیدی صاحب کی پر نور ذات ہمارے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہ تھی۔ آپ کی وفات سے اہل سنت وجماعت کا جو علمی اور فکری نقصان ہوا ہے اس کی تلافی صدیوں تک ناممکن معلوم ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت آپ کو غریقِ رحمت کرے اور ہم میں آپ کے امثال پیدا فرمائے۔ آمین! محمد شاہد رضا نجمی

 فقہ وتحقیق کا عظیم کام خاص کر ہندوپاک میں تقریبًا پچاس ساٹھ سالوں سے مسلکی منازعے اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر سرد خانے میں پڑا رہا؛ کیوں کہ ایسے ماحول میں جب کوئی فقیہ اپنی فقہی تحقیق پیش کرنے کی کوشش کرتا تو اسے مسلک ومذہب سے خارج کردیا جاتا، لیکن اس پر آشوب ماحول میں علامہ غلام رسول سعیدی نے علم وتحقیق کے میدان میں اتر کر مختصر سی زندگی میں سالہا سال کی علمی اور فقہی کمی کو چند برسوں میں پورا کرنے کی کوشش کی۔ آپ کی علمی وفکری تحقیقات کو دیکھ کر اربابِ علم ودانش نے آپ کی علمی جلالت اور فقہی بصیرت کا خوب اعتراف کیا۔  گل بہار سعیدی

 اجتہاد کی چند شرطیں ہیں: (۱) قرآن کریم کا علم (۲) احادیثِ نبوی کا علم (۳) ناسخ ومنسوخ کی معرفت (۴) اجماعی مسائل کی شناخت (۵) عربی زبان وادب پر عبور (۶) مقاصدِ شریعت کا علم (۷) اصولِ فقہ کی معرفت (۸) قیاس کا علم (۹) ایمان وعدالت۔ یہ ساری شرطیں سعیدی صاحب میں پائی جاتی تھیں، جن پر ان کی کتابیں واضح ثبوت ہیں، لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سعیدی صاحب اجتہادی شان کے حامل فقیہ تھے۔فیض العزیز سعیدی 

آپ کا اسلوبِ تحقیق دیگر شارحینِ مسلم سے مکمل جداگانہ ہے، اپنی تحقیقات میں اصولِ تحقیق کی مکمل رعایت کے ساتھ اپنی رائے پر نہایت مؤدبانہ انداز سے متقدمین ومتأخرین فقہائے کرام کی آرا سے دلائل کی بنیاد پر اختلاف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی، بلکہ ہمیشہ اسلاف اور متقدمین کی علمی روش پر گامزن رہتے ہوئے پسندیدہ منہج کے مطابق اپنے موقف کا اظہار کیا جو دورِ حاضر کے علما کی جانب سے بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ قرآن وسنت، اجماع وقیاس کے ساتھ مسائل میں حالاتِ زمانہ کی رعایت اور عصری وسماجی ضروریات کی پاس داری آپ کی تحقیق کے خاص عناصر ہیں۔فرحان احمد مصباحی

 علامہ سعیدی صاحب نے دورِ جدید کے بہت سے مسائل کو حل کرکے امت پر ایک عظیم احسان فرمایا۔ آپ کی فقہی بصیرت کی مثال ہندو پاک میں تلاش کرنے کے باوجود بھی نہیں ملتی۔ آپ بڑے خوش مزاج اور صوفی صفت تھے۔ آپ کی فقہی بصیرت اور علمی تحقیق کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔محمد عرفان علی


0 Comments

اپنی رائے پیش کریں