Akhuwat o Mahabat


  اخوت و محبت
مولانا مقصود احمد سعیدی

اللہ رب العزت کا بے پناہ شکر واحسان ہے کہ اس نے ہمیں اسلام وایمان کی نعمت اوردولت سے مالا مال فرمایا اور اسلامی اخوت ومحبت قائم کرنے کی خاطر اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا حکم بھی فرمایا کہ: اے مومنو! تم آپس میں بھائی بھائی ہو، لہٰذا اپنے بھائیوں میں صلح کراؤ اور اللہ رب العالمین سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْْنَ أَخَوَیْْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون۔‘‘(حجرات :۱۰)
ترجمہ:مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرائواور اللہ سے ڈرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لے۔
اور آقا ومولیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ تَحَاسَدُوا وَلاَ تَنَاجَشُوا وَلاَ تَبَاغَضُوا وَلاَ تَدَابَرُوا وَلاَ یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلَی بَیْعِ بَعْضٍ وَکُونُوا عِبَادَ اللّٰہِ إِخْوَانًا۔الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لاَ یَظْلِمُہُ وَلاَ یَخْذُلُہُ وَلاَ یَحْقِرُہُ ،التَّقْوَی ہُنَاوَیُشِیرُ إِلٰی صَدْرِہٖ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ  بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاہُ الْمُسْلِمَ کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرْضُہَُ ۔‘‘(مسلم، البر، باب تحریم ظلم المسلم)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو،ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ،ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو ،کسی کی بیع پر بیع نہ کرواور خرید وفروخت میں کسی طرح کا دھوکہ نہ کرو ۔
 اللہ کے بندے! بھائی بھائی بن جاؤ ،مسلمان مسلمان کابھائی ہے ،کوئی کسی پر ظلم نہ کرے نہ اس کو رسوا کرے اور نہ حقیر جانے۔
 حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے ۔کسی شخص کی برائی کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو براجانے ،ایک مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ 
یعنی اپنے بھائی کا خون بہانا، اس کا مال ہڑپ لینا اور اس کی عزت کو داغدار کرنا ایک مسلمان کے لیے حرام ہے ۔ اس لیے ایک مسلمان کو اپنے مسلمان بھائی کا مکمل خیال رکھنا چاہیے تا کہ اللہ رب العزت اپنی رحمت کی آغوش میں جگہ عنایت فرمائے ۔
حدیث شریف میں ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ الدُّنْیَا نَفَّسَ اللَّہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِنْ کُرَبِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَمَنْ یَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ یَسَّرَ اللّٰہُ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَاللّٰہُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِی عَوْنِ أَخِیہِ وَمَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یَلْتَمِسُ فِیہِ عِلْمًا سَہَّلَ اللّٰہُ لَہُ بِہِ طَرِیقًا إِلَی الْجَنَّۃِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُونَہُ بَیْنَہُمْ إِلاَّ نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْہُمُ الْمَلاَئِکَۃُ وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ وَمَنْ بَطَّأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ۔‘‘(رواہ مسلم)
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیا وی مشکلات میں سے کوئی مشکل دور کی تواللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی مشکلات دور کردے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیداکی تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیااور آخرت میں آسانی پیداکر دے گا اورجس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تواللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور جب تک کوئی بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتارہتاہے اور جو شخص طلب علم کے لیے کسی راستے پر چلا ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کاراستہ آسان کردے گا اور اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت اور اس کے درس کے لیے جمع ہوتے ہیں تواُن پر سکینہ نازل ہوتا ہے اورانھیں رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے اُن کو گھیر لیتے ہیں جو فرشتے اللہ کے پاس ہیں اللہ تعالیٰ اُن فرشتوں میں اُن کاذکر کرتاہے اور جس شخص کے اعمال اس کو پیچھے کر دے ،اس کا نسب انھیں آگے نہیں بڑھائے گا ۔      
اس لیے اگر کوئی شخص اللہ کی پناہ چاہتا ہے تو اس کو اللہ کے بندوں کی مدد اوراُن کی برائیوں پر پردہ ڈالنا چاہیے، بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں کی عزت کو اپنی عزت اور اُن کی ذلت کو اپنی ذلت ،اُن کی راحت کو اپنی راحت اور اُن کے غم کو اپنا غم تصور کرنا چاہیے،کیونکہ یہی ایک مومن کی شان ہے ۔تمام مومن ایک جسم کی طرح ہیں ، جیساکہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :
’’مَثَلُ الْمُؤْمِنِینَ فِی تَوَادِّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکَی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّہَرِ وَالْحُمَّی۔‘‘ (رواہ مسلم، البر، باب تراحم المؤمن)
ترجمہ:مومن کی مثال آپس میں محبت،شفقت اور مہربانی کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے ایک عضو میں تکلیف ہو توسارا جسم درد اور بخار سے کراہ اٹھتاہے ۔
 اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئیں اور پیٹھ پیچھے بھی ایک دوسرے کے لیے دعائیں کریں ۔حدیث پاک میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’اِذَا دَعَا الْمُسْلِمُ لاخِیْہِ بِظَھْرِ الْغَیْبِ قَالَ الْمَلَکُ آمین وَلَکَ بِمِثْلِہ۔‘‘(رواہ مسلم)
ترجمہ:جب کوئی مسلم اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے دعاکرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں اور اس کے لیے بھی اسی کے مثل دعا کرتے ہیں۔

مذکورہ بالااحادیث کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ بھلائی،محبت، شفقت اور نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہیے تاکہ خیرخواہی اور آپسی بھائی چارہ کا ماحول پیداہو۔اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوںمیں ایک دوسرے کے لیے خیرخواہی اور خیرسگالی کا جذبہ پیدافرمائے۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین)


0 Comments

اپنی رائے پیش کریں