افسوس کے ساتھ یہ خبر دی جارہی ہے کہ خانقاہ عالیہ عارفیہ، سید سراواں شریف کے صاحب سجادہ حضور داعی اسلام شیخ ابوسعید ادام اللہ ظلہ علینا کے مشفق خال محترم اور ہم سب کے مہربان نانا جان حضرت شکیل احمد عثمانی علیہ الرحمہ کا آج بتاریخ 4 مارچ 2015 وقت صبح 4:45پر انتقال ہو گیا۔ آپ کی نماز جنازہ ان شاء اللہ کل بروز جمعرات صبح 9 بجے ہوگی۔
37-1336ھ سید سراواں کے ذی اقتدار عثمانی خانوادے میں ہوئی۔ عمر تقریبا 97 سال تھی۔
اس مرد صالح نے داعی اسلام کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا اور بچپن ہی سے داعی اسلام کی پرورش نہایت مشفقانہ انداز میں کی ، داعی اسلام پر ان کو ناز تھا ۔ اپنی گفتگو میں آپ نے بارہا فرمایا کہ داعی اسلام جیسا بیٹا اور ایسا مرشد اللہ رب العزت خوش نصیب لوگوں ہی کو عطا کرتا ہے۔آپ لاولد تھے مگر داعی اسلام کو پاکر کافی خوش تھے۔ داعی اسلام نے آپ کو لاولد ہونے کا کبھی احساس نہ ہونے دیا۔ آپ خود فرماتے تھے کہ ابو میاں (داعی اسلام) میرا جتنا خیال رکھتے ہیں اتنا تو اپنا بیٹا بھی اپنے باپ کا نہیں رکھ سکتا، ابو میاں نے میرا قرض ہی ادا نہ کیا بلکہ ان کا میرے اوپر عظیم احسان ہے۔ اللہ ان کی عمر دراز فرمائے اور جامعہ عارفیہ کو عظیم یونیورسٹی بنائے.جامعہ عارفیہ سے آپ کو بے پناہ محبت تھی، اس جامعہ کو آپ اسلامی علوم وفنون کا مرکز دیکھنا چاہتے تھے، جامعہ کے طلبہ اساتذہ سے بے حد محبت فرماتے ،جامعہ کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہتے ،اپنی ساری جائداد کو آپ نے جامعہ کے لیے حضور داعی اسلام کے سپرد کردیا۔فرائض وواجبات بلکہ نوافل کے ایسے پابند تھے کہ بڑے بڑے پابند شرع کے لیے آپ کی شخصیت قابل رشک تھی ، کیا مجال کہ آپ کی نماز باجماعت قضا ہوجائے ۔ایک بار آپ نماز کے لیے مسجد آرہے تھے کہ گرگئے جس کی وجہ سے کمر کی ہڈی اپنی جگہ سے ہٹ گئی کراہتے ہوئے کسی طرح جماعت میں شامل ہوئے نماز ادا کی درد سے کراہ رہے تھے آنکھو سے آنسو جاری تھے۔مگر آپ نے جماعت کو ترک نہ ہونے دیا۔
آپ داعی اسلام کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور اپنے گود کے پالے ہوئے کو اپنا مرشد جانا اور ایسا احترام کیا کہ اس سلسلے میں مرید صادق کے لیے آپ قابل رشک بن گئے۔دور سے بھی اگر آپ کی نظر داعی اسلام پر پڑجاتی تو ادب میں آپ اپنی گفتگو منقطع کردیتے اور آپ کی کوشش ہوتی کہ آپ اپنے مرشد کی دست بوسی کی سعادت حاصل کریں۔اکثر آپ اس سعادت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ۔اپنے مرشد کا احترام تو آپ کرتے ہی تھے ان سے منسوب ہر چیز کی عزت کرتے، وہ جس کو محبوب رکھتے اس سے آپ بھی بے لوث محبت فرماتے
اس مرد صالح نے داعی اسلام کو اپنی اولاد کی طرح سمجھا اور بچپن ہی سے داعی اسلام کی پرورش نہایت مشفقانہ انداز میں کی ، داعی اسلام پر ان کو ناز تھا ۔ اپنی گفتگو میں آپ نے بارہا فرمایا کہ داعی اسلام جیسا بیٹا اور ایسا مرشد اللہ رب العزت خوش نصیب لوگوں ہی کو عطا کرتا ہے۔آپ لاولد تھے مگر داعی اسلام کو پاکر کافی خوش تھے۔ داعی اسلام نے آپ کو لاولد ہونے کا کبھی احساس نہ ہونے دیا۔ آپ خود فرماتے تھے کہ ابو میاں (داعی اسلام) میرا جتنا خیال رکھتے ہیں اتنا تو اپنا بیٹا بھی اپنے باپ کا نہیں رکھ سکتا، ابو میاں نے میرا قرض ہی ادا نہ کیا بلکہ ان کا میرے اوپر عظیم احسان ہے۔ اللہ ان کی عمر دراز فرمائے اور جامعہ عارفیہ کو عظیم یونیورسٹی بنائے.جامعہ عارفیہ سے آپ کو بے پناہ محبت تھی، اس جامعہ کو آپ اسلامی علوم وفنون کا مرکز دیکھنا چاہتے تھے، جامعہ کے طلبہ اساتذہ سے بے حد محبت فرماتے ،جامعہ کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہتے ،اپنی ساری جائداد کو آپ نے جامعہ کے لیے حضور داعی اسلام کے سپرد کردیا۔فرائض وواجبات بلکہ نوافل کے ایسے پابند تھے کہ بڑے بڑے پابند شرع کے لیے آپ کی شخصیت قابل رشک تھی ، کیا مجال کہ آپ کی نماز باجماعت قضا ہوجائے ۔ایک بار آپ نماز کے لیے مسجد آرہے تھے کہ گرگئے جس کی وجہ سے کمر کی ہڈی اپنی جگہ سے ہٹ گئی کراہتے ہوئے کسی طرح جماعت میں شامل ہوئے نماز ادا کی درد سے کراہ رہے تھے آنکھو سے آنسو جاری تھے۔مگر آپ نے جماعت کو ترک نہ ہونے دیا۔
آپ داعی اسلام کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور اپنے گود کے پالے ہوئے کو اپنا مرشد جانا اور ایسا احترام کیا کہ اس سلسلے میں مرید صادق کے لیے آپ قابل رشک بن گئے۔دور سے بھی اگر آپ کی نظر داعی اسلام پر پڑجاتی تو ادب میں آپ اپنی گفتگو منقطع کردیتے اور آپ کی کوشش ہوتی کہ آپ اپنے مرشد کی دست بوسی کی سعادت حاصل کریں۔اکثر آپ اس سعادت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ۔اپنے مرشد کا احترام تو آپ کرتے ہی تھے ان سے منسوب ہر چیز کی عزت کرتے، وہ جس کو محبوب رکھتے اس سے آپ بھی بے لوث محبت فرماتے
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں