Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-oct-2015➤
Makhdoom Sheikh Saad Khairabadi Download_Pdf
مولانا ضیاء الرحمن علیمی استاذجامعہ عارفیہ نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے،ان شاء اللہ بہت جلد شاہ صفی اکیڈمی سے شائع ہوگا۔اس کتاب سےچندایمان افروزاقتباسات پیش ہیں ۔ ( ادارہ)
صاحب سکینہ وہ شخص ہےجواِن حالات میںبھی نہ بدلے، اوروقاریہ ہے کہ تمام کاموں میں اطمینان وسکون کا مظاہرہ ہو،عجلت اورجلدبازی نہ ہو،اس لیےکہ:
اَلْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطٰنِ وَالتَّأنِی مِنَ الرَّحْمٰنِ۔ ترجمہ:عجلت شیطان کی طرف سے اورسنجیدگی وسکون رحمٰن کی طرف سےہوتی ہے۔
روایت میں ہے کہ خواجہ احنف سے لوگوں نے پوچھاکہ آپ نے حسن خلق کس سے سیکھا؟
انھوںنے جواب دیا کہ میں ایک دن قیس بن عاصم کے ساتھ اُن کے گھرمیں بیٹھاہواتھا،اُن کی کنیزپیالے میں کچھ رکھ کرآرہی تھی کہ پیالا قیس بن عاصم کے بیٹے کے سرپر گرپڑا،اورفوراًہی اُس کی موت ہوگئی،وہ کنیز خوف زدہ ہوگئی۔
یہ دیکھ کرقیس بن عاصم نے کہاکہ میںنے تم کواللہ کے لیے آزاد کردیا۔
اور تعظیم احباب یہ ہے کہ ہمیشہ مومن بھائیوں کی عزت وتکریم کی جائے، اورہرشخص کواپنے سےبہتراورخود کواُن سے کمتر سمجھا جائے۔
روایت میں ہے کہ خواجہ شقیق بلخی اورابوتراب ایک دن سلطان العارفین کےمہمان ہوئے،کھانا سامنے حاضر کیا گیا، وہاںپرایک جوان تھاجواُن بزرگوں کی خدمت میں مصروف تھا۔ دونوں بزرگوں نے اس جوان سے کہاکہ آئو، ہمارے ساتھ کھاناکھالو۔اس نے جواب دیاکہ میں روزہ دار ہوں۔ خواجہ ابوتراب نے کہاکہ ہمارے ساتھ کھاناکھالو اور ایک ماہ کاثواب لے لو۔اس نے کہاکہ میںروزہ نہیں کھول سکتا، پھر خواجہ شقیق نے کہاکہ ہمارے ساتھ کھاناکھالو اور ایک سال کا ثواب لے لو،لیکن اس نے پھروہی جواب دیا۔ شیخ بایزید بسطامی نے فرمایاکہ اس کوچھوڑ دیجیے، کیوںکہ یہ بارگاہ الٰہی سے مردود ہے۔ا س کے بعد کچھ ہی زمانہ گزراہوگاکہ وہ چوری میں گرفتار ہوا،اوراُس کےدونوں ہاتھ کاٹ ڈالےگئے۔
حضرت سہل تستری رحمۃا للہ علیہ سے حسن خلق کے بارے میں پوچھاگیاتوانھوں نے فرمایا:
حسن خلق کاکمتر درجہ یہ ہے کہ مخلوق کی جفائوں کو برداشت کیاجائے اوربدلہ نہ لیاجائے،بلکہ ظالم کوبخش دیا جائے اوراُس کے لیے دعائے خیربھی کی جائے۔
روایت میں ہے کہ ایک دن خواجہ ابراہیم بن ادہم رحمۃاللہ علیہ کے سامنے ایک ترکی آیااورعرض کیا:
آبادکرنے کی جگہ کون سی ہے؟
ابراہیم بن ادہم نے قبرستان کی طرف اشارہ کردیا۔
یہ سن کر اُس ترک نے آپ کے سرپر ایسی ضرب لگائی کہ سرسے خون جاری ہوگیا،جب وہ ترک آگے بڑھ گیاتوکسی نے کہاکہ وہ خراسان کے زاہد ابراہیم بن ادہم ہیں،وہ ترک شرمندہ ہوا،اورواپس آکر اُس نے معذرت کرنی شروع کردی، ابراہیم بن ادہم نے فرمایاکہ اس کی حاجت نہیں،جس وقت تم نے میرے سرپر ضرب لگائی اس وقت میںنے تمہارے لیے حق تعالیٰ سے جنت کی دعاکی تھی۔
اُس ترک نےپوچھاکہ آپ نے ایساکیوں کیا؟ ا
س پرابراہیم بن ادہم نے جواب دیا،چوںکہ تمہارے مارنے کی وجہ سے مجھ کواجرملا،اس لیےمجھے یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ تم میرے ساتھ بھلائی کرواورمیں تمہارے ساتھ برائی؟
یہاں خواجہ سہل تستری نے حسن خلق کے سب سے کمتر درجے کی طرف اشارہ کیاہے ۔
حسن خلق کے تحت جن چیزوں کویہاں ذکرنہیں کیاگیا ہے،اگرکوئی شخص اس میںاچھی طرح غور وفکر کرے تواُس کو معلوم ہوجائے گاکہ جتنی باتیں مذکورہوئیں وہ سب اس قسم میں داخل ہیں۔
یہ بھی منقول ہے کہ خواجہ معروف کرخی رحمۃاللہ علیہ دریائے دجلہ کے کنارے وضوکے لیے تشریف لائے، آپ نے اپنامصحف اوراپنا کپڑا ایک جگہ رکھ دیااورخود وضو کرنے میں مشغول ہوگئے۔ایک عورت آئی اوروہ مصحف اور کپڑااُٹھاکر چلتی بنی۔خواجہ معروف کرخی نے اس عورت کو دیکھاتو فرمایا:
اے بہن!میں معروف کرخی ہوں کوئی بات نہیں ہے، کیاتمہارے پاس لڑکاہے جومصحف شریف کی تلاوت کرے؟ اس عورت نے کہاکہ نہیں،انھوںنے پوچھاکہ شوہر ہے؟اس نے کہاکہ نہیں۔
پھرشیخ معروف کرخی نے کہاکہ اے بہن!مجھ کو مصحف شریف واپس کردو اورکپڑالے جائو۔
امام احمد بن جنبل نے فرمایا کہ اے عزیز!میںنے یہ دستار تم کوہبہ کردی،تم یہ کہہ دوکہ میںنے قبول کرلیاتاکہ یہ تمہارے لیے حلال ہوجائے، اوراگر تم نہیں کہتے ہو،پھر بھی میں نے یہ دستار تم کو دے دی، اسےلے جاؤ۔
حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:
حسن خلق یہ ہے کہ کشادہ روئی سےپیش آیاجائے، رنجیدہ اوررنج پہنچانے سے دوری اختیار کی جائے اور دادودہش سے کام لیاجائے۔
اے عزیز!جس کو حسن خلق عطاہوگیااس کوتمام صفات حمیدہ عطاہوگئیں،کشادہ روئی،بشاشت،تبسم اورمزاح یہ سب حسن خلق میںشامل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگرکوئی غمگین ہوتاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی مزاح کے ذریعے اس کوخوش کردیتے۔
پیردستگیرقطب عالم نے یہ بھی فرمایاہےکہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میںآئی اور عرض کی کہ میرے لیے جنت کی دعا کردیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کوئی بوڑھی عورت جنت میںنہیں جائے گی۔وہ بوڑھی عورت روتی ہوئی اپنے گھر کی طرف لوٹنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایاکہ اس بوڑھی عورت سے کہہ دوکہ قیامت میںتمام ایمان والی بوڑھی عورتوں کوجوان اور دوشیزہ بنادیاجائےگا اور پھراُن کوجنت میںداخل کیا جائےگا۔
حضرت ابوالوردا رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔آپ نے میراچہرہ سرخ اورمجھ کو غمزدہ دیکھا تومجھ سے مزاح فرمایا:
تم ابوالوردا(سرخی کے باپ)ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کنیت سے مجھ کواز راہِ مزاح یادفرمایا،میں اسی کنیت سے مشہورو معروف ہوگیا، لوگوں کے درمیان میری یہی کنیت میرا عَلم (نام)بن گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے بارے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زاہد نام کاایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آیا کرتا تھا اورہرموسم میں بادیہ کاتحفہ لاتا۔میں بصد خلوص اُسےآپ کی خدمت میں پیش کرتااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے پسند فرماتے۔
زاہد نام کایہ شخص دیکھنے میں بدصورت تھا۔ایک دن وہ بازار میںسوداخریدرہاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پیچھے سے تشریف لائے اوراپنےدونوں ہاتھوں سے اس کی آنکھوں کوچھپادیا، جب اس کی پیٹھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک سے ملی، تووہ سمجھ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اُس کی آنکھوں پر رکھاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کون ہے جواِس غلام کومجھ سے خریدےگا؟
زاہد نے کہا:یارسول اللہ!جیساغلام میں ہوں اورمیری جوصورت وشکل ہے اس کی قیمت کوئی نہیں لگائےگا اوراس کوکوئی نہیں خریدے گا۔
یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ لوگوںکے نزدیک یہ غلام بے قیمت ہے توکیاہوا،حق تعالیٰ کی بارگاہ میں توگراں مایہ ہے۔
یہ روایت بھی آئی ہے کہ ایک شخص کی آنکھوں میں تکلیف تھی اوروہ آپ کے سامنے کھجور کھارہاتھا۔
یہ دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آنکھوں میں تکلیف ہے اورکھجور بھی کھارہے ہو؟یعنی یہ تمہارے لیے نقصان دہ ہے۔
اس نے جواب دیا:یارسول اللہ! میں اس آنکھ کی طرف سے کھارہاہوں جس طرف تکلیف نہیں ہے۔
یہ بات اس شخص نے خوش کلامی کے طور پرکہی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات اچھی لگی،آپ نے مسکرادیااور فرمایاکہ اللہ تعالیٰ اس مزاح کرنے والے کی گرفت نہیں فرمائےگا جواپنے مزاح میں سچاہو،یعنی ایسی سچی بات کہتا ہوجولوگوں کی خوش دلی کاذریعہ ہو۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے مزاح فرماتے اورکہتے :
یَاذَاالْأذْنَیْنِ! (اے دوکانوں والے!)
معلوم ہواکہ مزاح وتبسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کاعمل ہے۔البتہ!مزاح میں جھوٹ ، غیبت، فحش اوربیکار باتوں سے دوررہنا چاہیے اورہمیشہ مزاح نہیں کرناچاہیے،اس لیے کہ ہمیشہ مزاح کرناخفیف الطبع شخص کا کام ہے،خصوصیت کے ساتھ جولوگ سیادت و شرافت، عظمت وبزرگی اوروقاروعظمت والے ہوں،اُن کے ساتھ کثرت مزاح سے پرہیزکرناچاہیے،کیوںکہ شریف لوگوں کے ساتھ مزاح کرنے سے منع کیاگیا ہے ۔ ہوسکتاہے کہ یہ کینہ کاباعث ہوجائے،یوں ہی کمتر لوگوں سے بھی مزاح نہیں کرنا چاہیےممکن ہے کہ وہ بھی دلیراورنڈرہوجائیں۔
مطالب میں ہے کہ مزاح میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ والی بات نہ ہو،یالوگوں کوہنسانامقصود نہ ہو، اس لیے کہ یہ مذموم ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
میں مزاح کرتاہوں لیکن ہمیشہ سچامزاح کرتاہوں ۔
اور فقیہ نے فرمایاہےکہ زیادہ مزاح نہ کرے، کیوںکہ اس سے رعب اوروقار چلاجاتاہے،حماقت پیداہوتی ہے، خفت اورہلکے پن کاباعث ہوتاہے،جس سے میل جول نہ ہو، اورجس کے عادات واخلاق معلوم نہ ہوں اس سے مزاح نہ کرناچاہیے،اپنے ہم عصروں اورہم نشینوں سے مزاح میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ُاس میں کوئی گناہ والی بات نہ ہو، لیکن یہ مزاح حدسے زیادہ نہ ہو،اس لیے کہ تمام امورمیں بیچ کی راہ سب سے بہترہوتی ہے۔
بستان ابواللیث میں ہےکہ زیادہ مزاح سے پرہیز کرے،اس لیے کہ زیادہ مزاح رعب اوروقار کوختم کردیتا ہے اوررسوائی کاباعث بنتاہے۔
لیکن لغویات سے پاک مزاح میںکوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا:
أحْمَلُکَ عَلٰی وَلْدِالنَّاقَۃِ۔ ترجمہ:میں تم کواونٹنی کے بچے پر بٹھاؤں گا۔
یعنی اونٹ پربٹھاؤںگا،کیوں کہ اونٹنی کا بچہ اونٹ ہی ہوتا ہے۔
اورآپ نے جویہ فرمایاکہ کوئی بڑھیاجنت میں نہیں جائےگی۔یہاںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرادیہی تھی کہ بوڑھی عورتیں جوان ہوکرجنت میںجائیں گی۔
جب اکتاہٹ محسوس ہوتی توحضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنے مصاحبین سے یہ فرماتے کہ پرلطف گفتگو کرو۔
ایساہی شرعۃ الاسلام میں ہےکہ مزاح میں کوئی حرج نہیں،جب کہ وہ سچاہو۔
ایساہی جوامع الفقہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سےمروی ہے کہ آپ بکثرت مزاح فرمایاکرتے ۔
اخلاق حسنہ اوراس کی نوعیتیں
جامع شریعت وطریقت حضرت مخدوم شیخ سعدخیرآبادی(۹۲۲ھ)مریدوخلیفہ حضرت مخدوم شاہ مینالکھنوی (۸۸۴ھ) دسویں صدی ہجری کے عظیم فقیہ اور اعلیٰ صفت درویش گزرے ہیں۔اُنھوں نےآٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف متن تصوف ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ ازعلامہ قطب الدین دمشقی (۷۸۰ھ)کی عالمانہ وعارفانہ شرح لکھی اور اُس کا نام ’’مجمع السلوک‘‘ رکھا جو شریعت و طریقت کا عطرمجموعہ اور سالکین و طالبین کے لیے دستورالعمل ہے ۔
مولانا ضیاء الرحمن علیمی استاذجامعہ عارفیہ نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے،ان شاء اللہ بہت جلد شاہ صفی اکیڈمی سے شائع ہوگا۔اس کتاب سےچندایمان افروزاقتباسات پیش ہیں ۔ ( ادارہ)
چھبیسواں خلق:
سکینہ اوروقار
سکینہ یہ ہے کہ تم اپنےہرعمل میںسکون وراحت کے ساتھ رہو،اسی لیے کہاگیاہے کہ ہر حادثہ، ہرحال اور ہر پریشانی کی بنیادپر انسان کی طبیعت اپنی اصلی حالت سے نکل جاتی ہے،وہ مضطرب اوربے چین ہوجاتی ہے۔
صاحب سکینہ وہ شخص ہےجواِن حالات میںبھی نہ بدلے، اوروقاریہ ہے کہ تمام کاموں میں اطمینان وسکون کا مظاہرہ ہو،عجلت اورجلدبازی نہ ہو،اس لیےکہ:
اَلْعُجْلَۃُ مِنَ الشَّیْطٰنِ وَالتَّأنِی مِنَ الرَّحْمٰنِ۔ ترجمہ:عجلت شیطان کی طرف سے اورسنجیدگی وسکون رحمٰن کی طرف سےہوتی ہے۔
ستائیسواں خلق:
دعااورثنا
دعایہ ہے کہ ہرمسلمان کوبہرحال دعائے خیر میں یادرکھا جائے،خواہ وہ انعام واحسان کرنے والاہویاظلم وجفا کرنے والاہو، اور ثنایہ ہے کہ اگرکوئی جفاکرنے والاہوپھر بھی اس کے ساتھ اچھےطریقے سے بات کی جائے۔
ا
ٹھائیسواں خلق:
حسن خلق
حسن خلق یعنی اچھی عادت یہ ہے کہ لوگوں کےبوجھ کو برداشت کیاجائے،اپنابوجھ کسی پرنہ ڈالاجائےاور عفوودرگذر کولازم پکڑاجائے۔
روایت میں ہے کہ خواجہ احنف سے لوگوں نے پوچھاکہ آپ نے حسن خلق کس سے سیکھا؟
انھوںنے جواب دیا کہ میں ایک دن قیس بن عاصم کے ساتھ اُن کے گھرمیں بیٹھاہواتھا،اُن کی کنیزپیالے میں کچھ رکھ کرآرہی تھی کہ پیالا قیس بن عاصم کے بیٹے کے سرپر گرپڑا،اورفوراًہی اُس کی موت ہوگئی،وہ کنیز خوف زدہ ہوگئی۔
یہ دیکھ کرقیس بن عاصم نے کہاکہ میںنے تم کواللہ کے لیے آزاد کردیا۔
اُنتیسواں خلق:
تحقیرنفس اورتعظیم احباب
تحقیر نفس یہ ہے کہ نفس کوہروقت اللہ تعالیٰ کی طاعت و فرماں برداری میں ذلیل کیاجائےاورکسی بھی حال میںنفس کی اطاعت وپیروی نہ کی جائے۔اور تعظیم احباب یہ ہے کہ ہمیشہ مومن بھائیوں کی عزت وتکریم کی جائے، اورہرشخص کواپنے سےبہتراورخود کواُن سے کمتر سمجھا جائے۔
تیسواں خلق:تعظیم مشائخ
مشائخ کرام کی تعظیم وتکریم کامطلب یہ ہے کہ جو لوگ سجادۂ مشیخت پر متمکن ہیں یاجولوگ عمر میںبڑے ہیں ان کی تعظیم وتکریم کی جائے،لازمی طورسے اُن کااحترام بجالایا جائے اوراُن کی حکم عدولی نہ کی جائے۔
روایت میں ہے کہ خواجہ شقیق بلخی اورابوتراب ایک دن سلطان العارفین کےمہمان ہوئے،کھانا سامنے حاضر کیا گیا، وہاںپرایک جوان تھاجواُن بزرگوں کی خدمت میں مصروف تھا۔ دونوں بزرگوں نے اس جوان سے کہاکہ آئو، ہمارے ساتھ کھاناکھالو۔اس نے جواب دیاکہ میں روزہ دار ہوں۔ خواجہ ابوتراب نے کہاکہ ہمارے ساتھ کھاناکھالو اور ایک ماہ کاثواب لے لو۔اس نے کہاکہ میںروزہ نہیں کھول سکتا، پھر خواجہ شقیق نے کہاکہ ہمارے ساتھ کھاناکھالو اور ایک سال کا ثواب لے لو،لیکن اس نے پھروہی جواب دیا۔ شیخ بایزید بسطامی نے فرمایاکہ اس کوچھوڑ دیجیے، کیوںکہ یہ بارگاہ الٰہی سے مردود ہے۔ا س کے بعد کچھ ہی زمانہ گزراہوگاکہ وہ چوری میں گرفتار ہوا،اوراُس کےدونوں ہاتھ کاٹ ڈالےگئے۔
اکتیسواںخلق:چھوٹے بڑے کا لحاظ
چھوٹے بڑے کےلحاظ کامطلب یہ ہے کہ ہرچھوٹے اوربڑے کے ساتھ شفقت ورحمت اوربخشش کامعاملہ کیا جائے،یعنی لطف وکرم کادائرہ پوری انسانیت کو عام ہو۔
بتیسواںخلق:استعظام الیہ واستصغارمامنہ
استعظام الیہ اوراستصغارمامنہ کےمعنی یہ ہیں کہ جوچیز دوسروں کی طرف سے تمھیںمل رہی ہواُس کوعظمت والی سمجھو اور جو چیز تمہاری جانب سے دوسروں کودی جا رہی ہو،اگرچہ وہ چیزعظمت والی ہی کیوں نہ ہواُس کوحقیر اورمعمولی سمجھو۔حضرت سہل تستری رحمۃا للہ علیہ سے حسن خلق کے بارے میں پوچھاگیاتوانھوں نے فرمایا:
حسن خلق کاکمتر درجہ یہ ہے کہ مخلوق کی جفائوں کو برداشت کیاجائے اوربدلہ نہ لیاجائے،بلکہ ظالم کوبخش دیا جائے اوراُس کے لیے دعائے خیربھی کی جائے۔
روایت میں ہے کہ ایک دن خواجہ ابراہیم بن ادہم رحمۃاللہ علیہ کے سامنے ایک ترکی آیااورعرض کیا:
آبادکرنے کی جگہ کون سی ہے؟
ابراہیم بن ادہم نے قبرستان کی طرف اشارہ کردیا۔
یہ سن کر اُس ترک نے آپ کے سرپر ایسی ضرب لگائی کہ سرسے خون جاری ہوگیا،جب وہ ترک آگے بڑھ گیاتوکسی نے کہاکہ وہ خراسان کے زاہد ابراہیم بن ادہم ہیں،وہ ترک شرمندہ ہوا،اورواپس آکر اُس نے معذرت کرنی شروع کردی، ابراہیم بن ادہم نے فرمایاکہ اس کی حاجت نہیں،جس وقت تم نے میرے سرپر ضرب لگائی اس وقت میںنے تمہارے لیے حق تعالیٰ سے جنت کی دعاکی تھی۔
اُس ترک نےپوچھاکہ آپ نے ایساکیوں کیا؟ ا
س پرابراہیم بن ادہم نے جواب دیا،چوںکہ تمہارے مارنے کی وجہ سے مجھ کواجرملا،اس لیےمجھے یہ کیسے گوارا ہوسکتا ہے کہ تم میرے ساتھ بھلائی کرواورمیں تمہارے ساتھ برائی؟
یہاں خواجہ سہل تستری نے حسن خلق کے سب سے کمتر درجے کی طرف اشارہ کیاہے ۔
حسن خلق کے تحت جن چیزوں کویہاں ذکرنہیں کیاگیا ہے،اگرکوئی شخص اس میںاچھی طرح غور وفکر کرے تواُس کو معلوم ہوجائے گاکہ جتنی باتیں مذکورہوئیں وہ سب اس قسم میں داخل ہیں۔
یہ بھی منقول ہے کہ خواجہ معروف کرخی رحمۃاللہ علیہ دریائے دجلہ کے کنارے وضوکے لیے تشریف لائے، آپ نے اپنامصحف اوراپنا کپڑا ایک جگہ رکھ دیااورخود وضو کرنے میں مشغول ہوگئے۔ایک عورت آئی اوروہ مصحف اور کپڑااُٹھاکر چلتی بنی۔خواجہ معروف کرخی نے اس عورت کو دیکھاتو فرمایا:
اے بہن!میں معروف کرخی ہوں کوئی بات نہیں ہے، کیاتمہارے پاس لڑکاہے جومصحف شریف کی تلاوت کرے؟ اس عورت نے کہاکہ نہیں،انھوںنے پوچھاکہ شوہر ہے؟اس نے کہاکہ نہیں۔
پھرشیخ معروف کرخی نے کہاکہ اے بہن!مجھ کو مصحف شریف واپس کردو اورکپڑالے جائو۔
ملفوظ حضرت مخدوم شاہ مینا:
پیردستگیرقطب عالم فرماتے تھے کہ ایک روز امام احمدبن حنبل رحمۃاللہ علیہ بیٹھ کروضو فرمارہے تھے،آپ کی دستار پیچھے رکھی ہوئی تھی،ایک شخص آیااورلے کرچلتابنا۔ امام احمد بن جنبل نے فرمایا کہ اے عزیز!میںنے یہ دستار تم کوہبہ کردی،تم یہ کہہ دوکہ میںنے قبول کرلیاتاکہ یہ تمہارے لیے حلال ہوجائے، اوراگر تم نہیں کہتے ہو،پھر بھی میں نے یہ دستار تم کو دے دی، اسےلے جاؤ۔
حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:
حسن خلق یہ ہے کہ کشادہ روئی سےپیش آیاجائے، رنجیدہ اوررنج پہنچانے سے دوری اختیار کی جائے اور دادودہش سے کام لیاجائے۔
اے عزیز!جس کو حسن خلق عطاہوگیااس کوتمام صفات حمیدہ عطاہوگئیں،کشادہ روئی،بشاشت،تبسم اورمزاح یہ سب حسن خلق میںشامل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگرکوئی غمگین ہوتاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی مزاح کے ذریعے اس کوخوش کردیتے۔
پیردستگیرقطب عالم نے یہ بھی فرمایاہےکہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میںآئی اور عرض کی کہ میرے لیے جنت کی دعا کردیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ کوئی بوڑھی عورت جنت میںنہیں جائے گی۔وہ بوڑھی عورت روتی ہوئی اپنے گھر کی طرف لوٹنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایاکہ اس بوڑھی عورت سے کہہ دوکہ قیامت میںتمام ایمان والی بوڑھی عورتوں کوجوان اور دوشیزہ بنادیاجائےگا اور پھراُن کوجنت میںداخل کیا جائےگا۔
حضرت ابوالوردا رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔آپ نے میراچہرہ سرخ اورمجھ کو غمزدہ دیکھا تومجھ سے مزاح فرمایا:
تم ابوالوردا(سرخی کے باپ)ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کنیت سے مجھ کواز راہِ مزاح یادفرمایا،میں اسی کنیت سے مشہورو معروف ہوگیا، لوگوں کے درمیان میری یہی کنیت میرا عَلم (نام)بن گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے بارے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زاہد نام کاایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آیا کرتا تھا اورہرموسم میں بادیہ کاتحفہ لاتا۔میں بصد خلوص اُسےآپ کی خدمت میں پیش کرتااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے پسند فرماتے۔
زاہد نام کایہ شخص دیکھنے میں بدصورت تھا۔ایک دن وہ بازار میںسوداخریدرہاتھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پیچھے سے تشریف لائے اوراپنےدونوں ہاتھوں سے اس کی آنکھوں کوچھپادیا، جب اس کی پیٹھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک سے ملی، تووہ سمجھ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اُس کی آنکھوں پر رکھاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کون ہے جواِس غلام کومجھ سے خریدےگا؟
زاہد نے کہا:یارسول اللہ!جیساغلام میں ہوں اورمیری جوصورت وشکل ہے اس کی قیمت کوئی نہیں لگائےگا اوراس کوکوئی نہیں خریدے گا۔
یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ لوگوںکے نزدیک یہ غلام بے قیمت ہے توکیاہوا،حق تعالیٰ کی بارگاہ میں توگراں مایہ ہے۔
یہ روایت بھی آئی ہے کہ ایک شخص کی آنکھوں میں تکلیف تھی اوروہ آپ کے سامنے کھجور کھارہاتھا۔
یہ دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آنکھوں میں تکلیف ہے اورکھجور بھی کھارہے ہو؟یعنی یہ تمہارے لیے نقصان دہ ہے۔
اس نے جواب دیا:یارسول اللہ! میں اس آنکھ کی طرف سے کھارہاہوں جس طرف تکلیف نہیں ہے۔
یہ بات اس شخص نے خوش کلامی کے طور پرکہی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات اچھی لگی،آپ نے مسکرادیااور فرمایاکہ اللہ تعالیٰ اس مزاح کرنے والے کی گرفت نہیں فرمائےگا جواپنے مزاح میں سچاہو،یعنی ایسی سچی بات کہتا ہوجولوگوں کی خوش دلی کاذریعہ ہو۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے مزاح فرماتے اورکہتے :
یَاذَاالْأذْنَیْنِ! (اے دوکانوں والے!)
معلوم ہواکہ مزاح وتبسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کاعمل ہے۔البتہ!مزاح میں جھوٹ ، غیبت، فحش اوربیکار باتوں سے دوررہنا چاہیے اورہمیشہ مزاح نہیں کرناچاہیے،اس لیے کہ ہمیشہ مزاح کرناخفیف الطبع شخص کا کام ہے،خصوصیت کے ساتھ جولوگ سیادت و شرافت، عظمت وبزرگی اوروقاروعظمت والے ہوں،اُن کے ساتھ کثرت مزاح سے پرہیزکرناچاہیے،کیوںکہ شریف لوگوں کے ساتھ مزاح کرنے سے منع کیاگیا ہے ۔ ہوسکتاہے کہ یہ کینہ کاباعث ہوجائے،یوں ہی کمتر لوگوں سے بھی مزاح نہیں کرنا چاہیےممکن ہے کہ وہ بھی دلیراورنڈرہوجائیں۔
مطالب میں ہے کہ مزاح میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ والی بات نہ ہو،یالوگوں کوہنسانامقصود نہ ہو، اس لیے کہ یہ مذموم ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
میں مزاح کرتاہوں لیکن ہمیشہ سچامزاح کرتاہوں ۔
اور فقیہ نے فرمایاہےکہ زیادہ مزاح نہ کرے، کیوںکہ اس سے رعب اوروقار چلاجاتاہے،حماقت پیداہوتی ہے، خفت اورہلکے پن کاباعث ہوتاہے،جس سے میل جول نہ ہو، اورجس کے عادات واخلاق معلوم نہ ہوں اس سے مزاح نہ کرناچاہیے،اپنے ہم عصروں اورہم نشینوں سے مزاح میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ُاس میں کوئی گناہ والی بات نہ ہو، لیکن یہ مزاح حدسے زیادہ نہ ہو،اس لیے کہ تمام امورمیں بیچ کی راہ سب سے بہترہوتی ہے۔
بستان ابواللیث میں ہےکہ زیادہ مزاح سے پرہیز کرے،اس لیے کہ زیادہ مزاح رعب اوروقار کوختم کردیتا ہے اوررسوائی کاباعث بنتاہے۔
لیکن لغویات سے پاک مزاح میںکوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا:
أحْمَلُکَ عَلٰی وَلْدِالنَّاقَۃِ۔ ترجمہ:میں تم کواونٹنی کے بچے پر بٹھاؤں گا۔
یعنی اونٹ پربٹھاؤںگا،کیوں کہ اونٹنی کا بچہ اونٹ ہی ہوتا ہے۔
اورآپ نے جویہ فرمایاکہ کوئی بڑھیاجنت میں نہیں جائےگی۔یہاںآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرادیہی تھی کہ بوڑھی عورتیں جوان ہوکرجنت میںجائیں گی۔
جب اکتاہٹ محسوس ہوتی توحضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنے مصاحبین سے یہ فرماتے کہ پرلطف گفتگو کرو۔
ایساہی شرعۃ الاسلام میں ہےکہ مزاح میں کوئی حرج نہیں،جب کہ وہ سچاہو۔
ایساہی جوامع الفقہ میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سےمروی ہے کہ آپ بکثرت مزاح فرمایاکرتے ۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں