بیعت و ارادت
بیعت
لغت:بیعت کامعنی خرید وفروخت کے ہیں، یہ لفظ دومتضادمعنی رکھتا ہے، عرف میں معاہدہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ فَمَن نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْماً۔‘‘(فتح،آیت:۱۰)
ترجمہ:جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی بیعت کرتے ہیںکیونکہ ان کے ہاتھوںپر اللہ کا ہاتھ ہے توجس نے اس عہدکو توڑا،ا س نے اپنے بڑے عہد کو توڑا،اور جس نے اس عہد کوپورا کیا جو اس نے اللہ سے کیا تھاتو اللہ اسے بہت ثواب دے گا۔
اصطلاح:طریقت کی زبان میں بیعت کا مطلب ہوتاہے کہ بندہ اپنے آپ کو آسانی یا تنگی ہرحال میں اللہ اور اس کے رسول کے سپردکردے اور ان کا حکم بجا لائے۔
ارادت
لغت: ارادت کا معنی چاہنا، قصدکرنا ہے،اس کا اسم فاعل مرید(ارادہ کرنے والا)ہے۔
اصطلاح:صوفیا کے نزدیک ارادت کا مطلب ہوتا ہے کہ بندہ کی آتش ارادت اس کی تمام خواہشات کوختم کردے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْْنَاکَ عَنْہُم‘‘(کہف،آیت:۲۸):
ترجمہ:اور اپنے آپ کو ان کے پاس روکے رکھوجو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں،اس کی رضا چاہتے ہیںاوراپنا رخ ان سے مت ہٹائو۔
بیعت ارادت: بندہ اپنے ارادہ واختیار سے یکسر باہر ہوکر اپنے آپ کو شیخِ مرشد ،ہادیِ برحق اور واصل حق کے ہاتھ میں بالکل سپرد کردے اسے مطلقا اپنا حاکم ومالک ومتصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بے اس کی مرضی کے نہ رکھے ۔
بیعت کا ثبوت:
قرآن : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(۱) ’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْبا۔‘‘(فتح،آیت:۱۸)
ترجمہ:بے شک اللہ ایمان والوںسے راضی ہوا جب وہ اس پیڑکے نیچے تمھاری بیعت کررہے تھے ،اللہ نے جاناجو کچھ ان کے دلوں میں ہے ، ان پر اطمینان اتارا ،اورانھیںجلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔
اااااااا
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْْدِیْہِمْ فَمَن نَّکَثَ فَإِنَّمَا یَنکُثُ عَلَی نَفْسِہِ وَمَنْ أَوْفَی بِمَا عَاہَدَ عَلَیْْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْماً۔‘‘(فتح،آیت:۱۰)
ترجمہ:جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی بیعت کرتے ہیںکیونکہ ان کے ہاتھوںپر اللہ کا ہاتھ ہے توجس نے اس عہدکو توڑا،ا س نے اپنے بڑے عہد کو توڑا،اور جس نے اس عہد کوپورا کیا جو اس نے اللہ سے کیا تھاتو اللہ اسے بہت ثواب دے گا۔
اصطلاح:طریقت کی زبان میں بیعت کا مطلب ہوتاہے کہ بندہ اپنے آپ کو آسانی یا تنگی ہرحال میں اللہ اور اس کے رسول کے سپردکردے اور ان کا حکم بجا لائے۔
ارادت
لغت: ارادت کا معنی چاہنا، قصدکرنا ہے،اس کا اسم فاعل مرید(ارادہ کرنے والا)ہے۔
اصطلاح:صوفیا کے نزدیک ارادت کا مطلب ہوتا ہے کہ بندہ کی آتش ارادت اس کی تمام خواہشات کوختم کردے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْْنَاکَ عَنْہُم‘‘(کہف،آیت:۲۸):
ترجمہ:اور اپنے آپ کو ان کے پاس روکے رکھوجو صبح وشام اپنے رب کو پکارتے ہیں،اس کی رضا چاہتے ہیںاوراپنا رخ ان سے مت ہٹائو۔
بیعت ارادت: بندہ اپنے ارادہ واختیار سے یکسر باہر ہوکر اپنے آپ کو شیخِ مرشد ،ہادیِ برحق اور واصل حق کے ہاتھ میں بالکل سپرد کردے اسے مطلقا اپنا حاکم ومالک ومتصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بے اس کی مرضی کے نہ رکھے ۔
بیعت کا ثبوت:
قرآن : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(۱) ’’لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوبِہِمْ فَأَنزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْْہِمْ وَأَثَابَہُمْ فَتْحاً قَرِیْبا۔‘‘(فتح،آیت:۱۸)
ترجمہ:بے شک اللہ ایمان والوںسے راضی ہوا جب وہ اس پیڑکے نیچے تمھاری بیعت کررہے تھے ،اللہ نے جاناجو کچھ ان کے دلوں میں ہے ، ان پر اطمینان اتارا ،اورانھیںجلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔
اااااااا
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں