مجدد سلسلۂ صفویہ قطب العالم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہ
یوں توسلسلۂ صفویہ کے تقریبا تمام مشائخ اپنے آپ میںایک عالم سمیٹے ہوئے تھے مگران میں سے بعض نے ایساتاریخ ساز کارنامہ انجام دیاہے جن کے ذکرکے بغیر تاریخ صفی پور شریف نامکمل رہے گی۔ ان میں سے چندکاتذکرہ گزرچکا۔اب اس عظیم شخصیت کاذکرکیاجارہاہے جس کوسلسلہ صفویہ کامجدد کہاجاتاہے،جن کے بارے میں اس سلسلے کے عظیم بزرگ حضرت شاہ قدرت اللہ قدس سرہٗ نے فرمایاتھاکہ میرے بعد صفی پورمیں ایک چراغ روشن ہوگا،جس پرایک زمانہ شیفتہ اورپروانہ وارنثارہوگا، اس شمع ہدایت سے بہت سے طالبان راہ خدامستفیض ہوں گے۔ وہ اپنا اور اپنے پیران طریقت کانام روشن کرنے والاہوگا۔
اس پیشین گوئی کے مصداق حضرت مخدوم عالم شاہ خادم صفی محمدی قدس سرہٗ ہوئے۔ آپ ۱۲؍ رجب ۱۲۲۹ھ (جون ۱۸۱۴ء)کودوشنبہ کی رات صفی پورمیں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کانام حضرت عطائے صفی عرف بڑے میاںتھا۔آپ کے والدہی کی طرح والدہ بھی بڑی پارسا اور خدا رسیدہ تھیں۔
آپ حضرت بندگی شاہ مبارک کی اولاد میں ہیں۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے: شاہ خادم صفی بن شاہ عطائے صفی عرف بڑے میاں بن شاہ محمدمعصوم بن شاہ نہال بن شاہ عبدالحق بن شیخ دانیال رحمہم اللہ تعالیٰ۔ اس کے آگے آپ کااور آپ کے پیر ومرشد حضرت مخدوم شاہ محمد حفیظ اللہ قدس سرہٗ کاشجرۂ نسب ایک ہے (جو مذکور ہوا)۔
والدہ کی طرف سے بھی آپ فاروقی تھے۔آپ کے نانا شیخ فضل اللہ (والد ماجد حضرت شاہ محمد حفیظ اللہ قدس سرہٗ) تھے۔ مادری وپدری نسب نامہ میں صرف چند ناموں کا فرق ہے، والدہ کی طرف سے صرف پانچ پشتوںکے بعدحضرت شاہ بندگی مبارک پر دونوں نسب نامہ مل جاتاہے۔
آپ مادرزاد ولی تھے، بچپن ہی سے آپ کی عادتیں عام بچوںسے الگ تھیں۔ بچپن میں حضرت شاہ غلام زکریا قدس سرہٗ نے آپ کی ایک خدمت گزاری پرخوش ہوکر فرمایا تھا کہ ہم نے حفیظ اللہ شاہ کو ایک امانت سپردکردی ہے، بڑے ہونے کے بعد ان سے طلب کرلینا۔ بعدمیں آپ حضرت حفیظ اللہ شاہ کے ہاتھ پربیعت ہوئے اور خلافت واجازت سے نوازے گئے۔
آپ نے ضروری تعلیم حاصل کی اورعین شریعت کی طلب میں مصروف رہے۔ قرآن مجید کی تعلیم حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی قدس سرہٗ کے شاگرد حضرت مولانا چراغ علی علیہ الرحمۃ سے حاصل کی اورتصوف اورسلوک کی چند کتابیں مولانا حکیم ہدایت اللہ صفی پوری (شاگرد مرزا حسن علی محدث لکھنوی)سے پڑھیں۔
آپ نے ہرعلم وفن میں کسی نہ کسی کواپنااستاد بنایا۔ علم برائے عمل حاصل کیا، ہمیشہ اس کوواسطہ خیال کیا اور اصل مقصد کوپیش نظررکھا۔
احکام شرعیہ کے ابتدائی عمرہی سے پابندتھے،ہمیشہ ہر سنت و مستحب پر نظر رکھتے تھے۔ مسائل شرعیہ کی نہایت تحقیق فرماتے تھے اور باوجود علم و آگہی علماسے ضرور استفسار فرماتے تھے ۔ابتدا سے ہی دل طلب مولیٰ کے جذبہ سے سرشار تھا۔ باشعور ہونے کے بعدمرشدکامل کی تلاش ہوئی،اس وقت آپ کے ماموںحضرت مخدوم شاہ حفیظ اللہ قدس سرہ کافیض جاری تھا۔
بیس سال کی عمرمیں آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے۔بیعت کے بعد حالت مزیدبدل گئی ،صرف یادالٰہی سے کام تھا،اسی عمر میں چچاکی صاحب زادی سے آپ کاعقدمسنون بھی ہوگیا۔ازدواجی زندگی میں مصروف ہونے کے باوجود طلب مولیٰ کے جذبےمیں کوئی کمی نہ آئی۔ مجاہدات و ریاضات کے پہلے ہی سے عادی تھے،اس کے باوجودمرشدکے حکم کے مطابق اس راہ میں مختلف قسم کی شدتیںبرداشت کرنی پڑیں اور ایک دن ان تمام مجاہدات شاقہ کی تپش سے کندن ہوگئے۔ بالآخر ماہ ذی قعدہ۱۲۵۵ھ / جنوری ۱۸۴۰ءبروز جمعہ مرشدگرامی نے تمام روحانی نعمتوںسے نوازا اور اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔
آپ سیرت نبوی کے آئینہ دار تھے، خلافت واجازت کے بعد مسند ارشاد پر فائز ہوگئے اور رشد و ہدایت کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ آپ کی بارگاہ میںطالبین کی ایک بڑی جماعت ہمیشہ موجود رہتی۔ آپ ان کی تعلیم و تلقین کواپنادینی فریضہ خیال کرتے۔ تربیت و تزکیۂ نفس میں اکثر اوقات گزارتے۔
خلافت کے بعد سے آخر وقت تک (تقریباً۲۲؍سال)صفی پورسے باہر تشریف نہ لے گئے۔ ہمیشہ خلق خداکومعرفت الٰہی سے روشناس کرایا،ناقصوںکوکامل اورکاملوںکورہنمابنانے کا کام انجام دیا۔
۴۲؍نفوس قدسیہ کی مکمل تربیت وتزکیہ کرنے کے بعد ان کو اجازت وخلافت سے سرفرازفرمایا۔ جن میںسے تمام کے تمام اپنے وقت کے کامل مرشداورمکمل رہنماکی حیثیت رکھتے ہیں۔ان میں سے ہرایک کے دست حق پرست پر ہزاروں اور لاکھوں کی تعدادمیں لوگ تائب ہوئے اور ان کے ذریعہ طالبین مولیٰ نے اپنے مقصد حیات تک رسائی حاصل کی
کعبۃ العشاق باشد ایں مقام
ہر کہ ناقص آمد ایں جا شد تمام
آپ کے خلفا
(۱)حضرت خلیفۃاللہ شاہ عرف شاہ امیراحمد(جانشین)
(۲) حضرت ذوالفقاراللہ شاہ عرف الطاف محمدصفی پوری (آپ حضرت مخدوم شاہ صفی کے گیارہویں صاحب سجادہ ہیں۔)
(۳)حضرت کریم اللہ شاہ عرف کریم بخش صفی پوری
(۴)حضرت شاہ عظمت اللہ خان افغان فرخ آبادی
(۵)حضرت حبیب اللہ شاہ عرف رمضان خان بانگرمؤی ثم سیتل گنجوی
(۶)حضرت یقین اللہ شاہ عرف سیدقمرعلی پنجابی ثم لکھنوی
(۷)حضرت عطاء اللہ شاہ عرف عطا حسین صفی پوری
(۸)حضرت عنایت اللہ شاہ صفی پوری
(۹)حضرت مولاناحافظ شاہ عبدالرحمن ترہوانی
(۱۰)حضرت مظہراللہ شاہ عرف سیدمظہرحسین لکھنوی
(۱۱)حضرت اہل اللہ شاہ عرف مشرف علی دہلوی ثم میرٹھی
(۱۲)حضرت مبارک اللہ شاہ عرف مبارک حسین
(۱۳)حضرت ظہوراللہ شاہ عرف اجپل شاہ ملتانی
(۱۴)حضرت مولاناحافظ شوکت علی سندیلوی
(۱۵)حضرت شاہ سعادت علی خان رام پوری
(۱۶)حضرت امیراللہ شاہ اناوی
(۱۷)حضرت شرافت اللہ شاہ آسیون،انائو
(۱۸)حضرت نوراللہ شاہ عرف نور محمدخان گھاتم پور،کانپور
(۱۹)حضرت اسداللہ شاہ عرف چودھری محمدخصلت حسین سندیلوی
(۲۰)حضرت صاحب سرّقل ہواللہ شاہ عبدالغفور محمدی بارہ بنکوی
(۲۱)حضرت مراد اللہ شاہ عرف مداربخش کھیر ی لکھیم پوری
(۲۲)حضرت کلیم اللہ شاہ عرف فرزندحسن نیوتنوی،اناوی
(۲۳)حضرت مظہراللہ شاہ عرف سرفراز علی سانڈوی
(۲۴)حضرت وجہ اللہ شاہ عرف مولوی فیض محی الدین ہردوی
(۲۵)حضرت کرامت اللہ شاہ بانگرمؤی
(۲۶)حضرت رحیم اللہ شاہ عرف سالار بخش کانپوری
(۲۷)حضرت احسان اللہ شاہ صفی پوری
(۲۸)حضرت خوب اللہ شاہ اناوی
(۲۹)حضرت سیدشاہ یعقوب علی ترکواسی گڑگاؤں،دہلی
(۳۰)حضرت شاہ محمدشفیع صفی پوری
(۳۱)حضرت برحق اللہ شاہ حقانی اناوی
(۳۲)حضرت شاہ نیازحسین بانگرموی
(۳۳)حضرت انواراللہ شاہ عرف نورمحمدمحمودنگری لکھنوی
(۳۴)حضرت کفایت اللہ شاہ بلہوری،کانپوری
(۳۵)حضرت سیدیعقوب علی موہانی موہان اناؤ
(۳۶)حضرت اظہاراللہ شاہ عرف نیازمحمدصفی پوری
(۳۷)حضرت خلیل اللہ شاہ عرف حکیم خلیل الدین خان طبیب لکھنوی ثم الٰہ آبادی
(۳۸)حضرت روح اللہ شاہ عرف مولوی حسین علی صفی پوری ثم سندیلوی
(۳۹)حضرت احمداللہ شاہ عرف احمدعلی صفی پوری
(۴۰)حضرت بشارت اللہ شاہ صفی پوری
(۴۱)حضرت عین اللہ شاہ عرف خلیل احمدصفی پوری
(۴۲)حضرت عزیزاللہ شاہ عرف منشی محمدولایت علی خان صفی پوریقدست اسرارہم
حضرت مخدوم العالم نے ان ۴۲؍ نفوس قدسیہ کے علاوہ مزید ۲۹؍ مردوں اور ۷؍عورتوں کو شربت نوش فقیربنایا۔آپ نے خودبھی فقیری کااعلیٰ نمونہ بن کر دکھایا۔ ۱۲۵۵ھ میںجب حضرت حفیظ اللہ شاہ نے اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا تو آپ نے اپنی تمام جائداد یہاں تک کہ ذاتی گھربھی مرشد کو نذر کردیا اور خود مرشد کے گھرمیں رہنے لگے۔
حضرت شاہ خادم صفی قدس سرہٗ نے عمرکی ۵۸ بہاروں کو دیکھا تھا۔ آپ نے اپنی زندگی کے اکثر حصے سخت عبادت و ریاضت اورتنگی میں گزارے۔ آپ ۱۲۷۷ھ کے بعد مسلسل بیماررہے اور درمیان میں والدہ کے اصرارپرعلاج ومعالجہ کی غرض سے لکھنؤ اور کان پورجانے کااتفاق ہوا۔
ایام علالت میں پیرو مرشد کی عیادت بھی حاصل رہی،مرشدکی دعاکی برکت سے ایک بارمکمل صحت یاب بھی ہوئے جس کے شکرانے میں مرشدکے وصال (۱۲۸۱ھ) کے بعدمزارشریف پر چادرپیش کیا اور اپنے مرشد زادہ حضرت شاہ امیر اللہ کوعمامہ ،پیرہن اورکچھ نقد نذر کیا۔
آپ مستقل صفی پور شریف ہی میں قیام پذیر رہے۔ سوائے چند ایک مقامات کے کہیں بھی تشریف نہ لے گئے۔کان پورآنے جانے کے درمیان جاجمؤمیں حضرت مخدوم شاہ اعلیٰ جاجموی قدس سرہ کی درگاہ میں حاضری ہوئی جو آپ کے اجدادمیں آتے ہیں( جن کاتذکرہ پہلے گزرچکاہے)
کان پورمیں قیام کے درمیان حضرت شاہ غلام رسول نقشبندی قدس سرہ سے دلچسپ ملاقات ہوئی۔گفتگو کے درمیان آپ نے حضرت شاہ غلام رسول نقشبندی قدس سرہ سے فرمایاکہ آپ کاگھربے رونق لگ رہاہے؟اس کے دو یاتین روز کے بعد حضرت نقشبندی قدس سرہ کا وصال ہوگیا۔
آپ روپئے پیسے کو ہاتھ سے نہ چھوتے مگر محفل سماع میں جب کوئی نذر دیتا تو کبھی اس کے ہاتھ کو پکڑ کر قوال کے سامنے کر دیتے اور کبھی خود دست مبارک سے اٹھا کر دے دیتے، یا پیر ومرشد کو اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے کو جب نذر دیتے تب ہاتھ لگاتے۔
آپ کی نظروں میں بڑی تاثیر اور جاذبیت تھی۔ سید ارادت حسین صاحب اثناعشری محفل سماع میں ہنسے ،آپ نے پلٹ کر دیکھا وہ فورا تڑپنے لگے۔محفل کے بعد سنی ہو کر مرید ہو گئے۔ان کے اعزّہ انہیں مجتہد تک لےگئے لیکن کچھ نہ ہوا ،آخر مجتہد نے کہا کہ ان پر پڑھا ہوا جن سوار ہے ۔(عین الولایت ،ص :۲۳-۲۴)
اس طرح کے بے شمار واقعات ہمیشہ رونما ہوتے رہتے ۔
آپ کے ملفوظ کے دو مجموعے ہیں : (۱)نغمۂ طریقت ، جو آ پ کے خلیفہ حضر ت شاہ محمد شفیع قدس سرہ نے جمع کیا ہے اور نایا ب ہے۔ (۲)مخزن الولایت والجمال (۱۲۸۶ھ): اسے آپ کے جلیل القدر خلیفہ، مخدوم مولانا شاہ محمد عزیز اللہ صفی پور ی قدس سرہ نے فارسی زبان میں جمع کیا ۔اپنی نوعیت کا منفرد ولاجواب ملفوظ ہے۔ اس میں آپ کی سوانح کے ساتھ آپ کے خلفاکے بھی مختصر حالات درج ہیں۔
۱۳۰۰ھ میں مطبع انوار محمدی، لکھنؤ سے طبع ہوا ۔اردو ترجمہ بھی پاکستان سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوچکا ہے ۔آپ کی وفات ۱۳؍ رجب ۱۲۸۷ھ مطابق ۹؍ اکتوبر ۱۸۷۰ء بروز یک شنبہ ہوئی۔ صفی پورہی میںمدفون ہوئے۔آپ کامزار مقدس آج بھی مرجع خلائق ہے۔
ماخوذ
خانقاہ صفویہ
تاریخ اور خدمات کا اجمالی جائزہ
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں