بانی سلسلۂ صفویہ حضرت مخدوم شاہ صفی قد س سرہ
صفی پورضلع اناؤ کاقدیم ترین قصبہ ہے،جوانائو سے ۲۷؍کلومیٹر جانب مغرب میں واقع ہے اوراناؤ شمالی ہندکے کثیرآبادی والے صوبہ اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے جانب جنوب میں ۶۴؍کلومیٹر کی دوری پرواقع ہے۔اس قصبہ کاپرانانام ’’سائی پور‘‘ تھا۔ساتویں صدی ہجری میں ایک کامل صوفی حضرت شاہ اکرم عثمانی سہروردی قدس سرہ (وصال: ۱۴؍شعبان۶۷۵ھ)یہاں تشریف لا ئے، آپ کے ذریعے اس خطے میںاسلام کی تبلیغ ہوئی،آپ کی چوتھی پشت میںبانی سلسلۂ صفویہ حضرت شیخ عبدالصمد عرف مخدوم شاہ صفی قدس سرہ (۱)پیداہوئے، بعد میں یہ قصبہ آپ ہی کے نام سے موسوم ہوگیا اور آپ کی روحانی و دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنا اور اس طرح آپ سلسلۂ صفویہ کے بانی قرار پائے۔
خاندانی پس منظر
حضرت شیخ عبدالصمد مخدوم شاہ صفی قدس سرہ کے آباء واجداد ظاہری وباطنی خوبیوں کے مالک اورفقرودرویشی کے امین تھے۔ آپ کے والد گرامی حضرت مولانا علم الدین قدس سرہ سہروردی بزرگ تھے اور آپ کواپنے والدبزرگوارحضرت شاہ زین الاسلام قدس سرہ سے اجازت و خلافت تھی،ان کو ان کے والدحضرت شاہ اکرم قدس سرہ نے اجازت وخلافت عطاکی تھی اورانہوں نے یہ روحانی دولت اپنے والد سے حاصل کی تھی۔
مخدوم شاہ صفی قدس سرہٗ کے آباواجداد مشرباًسہروردی تھے ۔علوم ظاہری سے بھی مکمل حصہ رکھتے تھے ،فقرودرویشی مخدوم شاہ صفی قدس سرہٗ کو آبا واجدادسے ملی تھی۔ نسب کے لحاظ سے آپ حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہیں۔
نسبی شجرہ
حضرت شیخ عبدالصمد عرف شاہ صفی بن حضرت مولانا علم الدین بن مولانا زین الاسلام بن شیخ اکرم بن مولانا شاہ علی بن مولانا شاہ نور بن مولانا شاہ عبد اللہ قدست اسرارہم ۔(عین الولایت، ص: ۴۲)
اس کے بعد کانسبی شجرہ تا ہنوز راقم کودست یاب نہ ہوسکا۔
تعلیم وتربیت اوراجازت وخلافت
ابتدائی تعلیم والد ماجد مولانا شاہ علم الدین قدس سرہ کے زیر سایہ صفی پور میں ہی ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کی خاطر خیرآباد تشریف لے گئے اورشیخ الاسلام والمسلمین قطب عالم مخدوم شیخ سعد الدین خیر آبادی قدس سرہ (م: ۹۲۲ھ /۱۵۱۶ء)(۱)کے مدرسےمیں داخل ہوئے اور حصول تعلیم میں سعی بلیغ فرمانے لگے۔ ایک روز قطب العالم شیخ سعد کی نظر آپ پر پڑی تو آپ کو بلایا اور نام پوچھا۔ آپ نے ’’عبد الصمد عرف صفی بن مولانا علم الدین‘‘ بتایا تو سکونت دریافت کی۔ آپ نے ’’سائی پور‘‘ بتایا۔ حضرت قطب العالم، مولانا علم الدین سے بخوبی واقف تھے۔فرمایا کہ تم ہمارے پاس پڑھا کرو، کسی اور کے پاس مت پڑھو۔ہم خود تمہیں تعلیم دیں گے۔اس دن سے آپ حضر ت مخدوم کی خدمت میں حاضر رہنے لگے اور ان سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ کچھ روز بعدحضرت مخدوم نے فرمایا کہ تم باورچی خانے میں مت کھایا کرو، ہمارے ساتھ کھایا کرو۔ حضرت قطب عالم روزہ رکھا کرتے تھے ۔ اکثر فاقہ کشی کرتے۔ دوسرے تیسرے روز کھانا تناول فرماتے۔ چنانچہ حضرت مخدوم شاہ صفی بھی آپ کے ساتھ کھانا کھانے لگے اوربھوک پیاس کی سختی برداشت کرنے لگے۔اس دوران آپ نےاستاذ گرامی کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ فرمایا۔
(سبع سنابل،ص: ۸۰- ۸۱، عین الولایت،ص:۴۳)
آپ نے حضرت قطب العالم کے دست مبارک پر بیعت فرمائی اور آپ ہی سے خرقۂ خلافت پہنا۔ اپنے پیرو مرشد کی بارگاہ میں بہت مقبول تھے۔ بارگاہ شیخ میں آپ کی مقبولیت کے بہت سے واقعات ’’سبع سنابل‘‘ اور’’ عین الولایت‘‘ وغیرہ معتبر کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اپنے پیرومرشد کی طرح آپ بھی مجرد و حصور رہے۔ بڑے صاحب جلال تھے، جس پر نظر پڑجاتی وہ دیر تک بے خود رہتا۔ عاجزی اور انکساری کا یہ حال تھا کہ حضرت مخدوم شیخ سعد کی خانقاہ میں ’’صفیا‘‘نامی ایک غلام تھا، جب کوئی اسے آواز دیتا تو آپ جواب دے دیتے اوریہ خیال نہ فرماتے کہ آپ کو ’’صفیا‘‘ کون کہے گا۔( عین الولایت، ص: ۴۵)
حضرت مخدوم شیخ سعدبن بڈھن قدس سرہٗ کوحضرت مخدوم شاہ مینا لکھنوی قدس سرہٗ(وصال:۸۸۴ھ/۱۴۷۹ء) سے ارادت وخلافت تھی اور ان کوحضرت مخدوم شیخ سارنگ قدس سرہٗ (وصال:۸۵۵ھ/۱۴۵۱ء) سے۔
حضرت مخدوم شیخ سارنگ قدس سرہٗ کو حضرت مخدوم قوام الدین حاجی الحرمین قدس سرہٗ(وصال:۸۰۶ھ) سے ارادت اور تلقین ذکر حاصل تھی اور حضرت مخدوم سید صدر الدین ابوالفضل راجوقتال قدس سرہٗ(وصال:۸۲۷ھ)سے اجازت و خلافت حاصل تھی نیز حضرت مخدوم یوسف ایرچی قدس سرہٗ (وصال:۸۳۴ھ)سے بھی اجازت تھی۔
حضرت مخدوم شیخ سارنگ قدس سرہٗ مختلف مشائخ سے فیض یاب ہوئے۔آپ کو حضرت مخدوم جہانیاں جلال الحق بخاری قدس سرہٗ (وصال: ۷۸۵ھ)کی بھی صحبت حاصل تھی لیکن خلافت آپ کے چھوٹے بھائی حضرت مخدوم سیدصدرالدین ابوالفضل محمد راجوقتال قدس سرہٗ سے تھی۔
حضرت مخدوم جہانیاںجلال الحق بخاری قدس سرہٗ کومختلف سلاسل میں اجازت و خلافت حاصل تھی(۱)۔سلسلہ عالیہ چشتیہ میں حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی قدس سرہٗ سے اجازت وخلافت تھی۔ان تمامی سلاسل کی اجازت و خلافت آج بھی خانوادۂ صفویہ میںمروج ہے۔
روحانی سلاسل
سلسلۂ عالیہ چشتیہ
حضرت مخدوم شاہ صفی قدس اللہ سرہ(۱۹؍محرم ۹۴۵ھ)
حضرت مخدو م شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس اللہ سرہ(۱۶؍ربیع الاول ۹۲۲ھ)
حضرت شیخ محمدمعروف بہ مخدوم شاہ میناقدس اللہ سرہ(۲۳؍صفر۸۸۴ھ)
حضرت مخدو م شیخ سارنگ قدس اللہ سرہ(۱۷؍شوال ۸۵۵ھ)(۲)
حضرت صدر الدین محمدراجوقتال قدس اللہ سرہ(۱۶؍جمادیٰ الثانی۸۲۷ھ)
حضرت مخدوم جہانیاں سیدجلال الحق بخاری قدس اللہ سرہ (۱۰؍ذی الحجہ ۷۸۵ھ)
حضرت خواجہ نصیرالدین چراغ دہلی قدس اللہ سرہ(۱۸؍رمضان۷۵۷ھ)
حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی قدس اللہ سرہ(۱۸؍ربیع الثانی ۷۲۵ھ)
حضرت بابافریدالدین مسعود گنج شکر قدس اللہ سرہ(۵؍محرم۶۶۴ھ)
حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی اوشی قدس اللہ سرہ(۱۴؍ربیع الثانی ۶۳۳ھ)
حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی قدس اللہ سرہ (۶؍رجب۶۳۲ھ)
سلسلۂ عالیہ قادریہ
حضرت مخدوم شاہ صفی قدس اﷲسرہ(۱۹؍محرم الحرام ۹۴۵ھ)
حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس اﷲسرہ(۱۶؍ربیع الاول۹۲۲ھ)
حضرت شیخ محمدمعروف بہ مخدوم شاہ میناقدس اللہ سرہ(۲۳؍صفر۸۸۴ھ)
حضرت مخدوم شیخ سارنگ قدس اللہ سرہ (۱۷؍شوال ۸۵۵ھ)
حضرت سیدابوالفضل محمدراجوقتال قدس اللہ سرہ (۱۶؍جمادیٰ الثانی۸۲۷ھ)
حضرت مخدوم جہانیاںسیدجلال الحق بخاری قدس اللہ سرہ (۱۰؍ذی الحجہ ۷۸۵ھ)
حضرت شیخ محمدبن عبید غیثی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ شمس الدین عبید بن فاضل غیثی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ ابو المکارم فاضل بن عبیدغیثی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ ابوالغیث بن جمیل قد س اللہ سرہ
حضرت شیخ شمس الدین علی بن افلح حداد قد س اللہ سرہ
حضرت شیخ علی حداد قدس اللہ سرہ
حضرت محی الدین شیخ عبدالقادرجیلانی قدس اللہ سرہ(۱۷؍ربیع الآخر ۵۶۱ھ)
سلسلۂ عالیہ سہروردیہ
حضرت مخدوم شاہ صفی قد س اللہ سرہ (۱۹؍محرم الحرام ۹۴۵ھ)
حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس اللہ سرہ(۱۶؍ربیع الاول ۹۲۲ھ)
حضرت شیخ محمدمعروف بہ مخدوم شاہ مینا قدس اللہ سرہ(۲۳؍صفر۸۸۴ھ)
حضرت مخدو م شیخ سارنگ قدس اللہ سرہ(۱۷؍شوال ۸۵۵ھ)
حضرت سیدابوالفضل محمد راجوقتال قدس اللہ سرہ(۱۶؍جمادیٰ الثانی۸۲۷ھ)
حضرت مخدوم جہانیاںسیدجلال الحق بخاری قدس اللہ سرہ (۱۰؍ذی الحجہ ۷۸۵ھ)
حضرت خواجہ کبیرالحق والدین احمد بخاری قدس اللہ سرہ حضرت جلال الدین میرسرخ بخاری قدس اللہ سرہ(۱۹؍ جمادی الاولیٰ ۶۹۰ھ)
حضرت شیخ بہاء الدین زکریاملتانی قدس اللہ سرہ(۷؍صفر۶۶۹ھ)
حضرت شیخ الشیوخ شہاب الدین عمرسہروردی قدس اللہ سرہ(۳۰ ؍محرم ۶۳۳ھ)
شجرۂ تلقین ذکر
حضرت مخدوم شاہ صفی قد س اللہ سرہ (۱۹؍محرم الحرام ۹۴۵ھ)
حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس اللہ سرہ(۱۶؍ربیع الاول ۹۲۲ھ)
حضرت شیخ محمدمعروف بہ مخدوم شاہ مینا قدس اللہ سرہ(۲۳؍صفر۸۸۴ھ)
حضرت مخدو م شیخ سارنگ قدس اللہ سرہ(۱۷؍شوال ۸۵۵ھ)
حضرت مخدوم شیخ یوسف ایرچی قدس اللہ سرہ(۸۳۴ھ)
حضرت مخدوم جہانیاں سید جلال الدین بخاری قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ امام الدین محمد گازرونی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ امین الدین گازرونی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ اوحد الدین عبد اللہ بن مسعود بلیانی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ اصیل الدین شیرازی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ رکن الدین ابو الغنائم بن فضل بن ابو القاسم قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ قطب الدین بن ابو رشید احمد بن محمدابہری قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ ضیاء الدین ابو النجیب عبد القاہر سہروردی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ احمد غزالی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ ابو حفص عمر بن محمدعمویہ قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ ممشاد دینوری قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ جنید بغدادی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ سری سقطی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ معروف کرخی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ داؤد طائی قدس اللہ سرہ
حضرت شیخ حبیب عجمی قدس اللہ سرہ
حضرت خواجہ حسن بصری قدس اللہ سرہ
حضرت امیر المومنین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ
سید عالم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
مخدوم شاہ صفی قدس اﷲسرہٗ کے خلفا
آپ کے تمام خلفا صاحبان کمال اور ذی علم حضرات تھے۔ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی فرماتے ہیں:
’’خلفاء حضرت مخدوم شیخ صفی ہمہ اہل علم بودند، وایشاں ہیچ جاہلے را خلافت ندادند۔‘‘(سبع سنابل، ص:۸۲)
(حضرت مخدوم شاہ صفی قدس سرہ کے تمام خلفاء عالم تھے۔ آپ نے کسی جاہل کو خلافت نہیں دی۔ )
(۱)حضرت شیخ بندگی مبارک جاجموی قدس اللہ سرہ(خواہرزادہ وسجادہ نشین)
(۲ )حضرت سیدنظام الدین عرف مخدوم الہدیہ خیرآبادی قدس سرہ
(۳)حضرت شیخ شاہ فضل اللہ گجراتی قدس اللہ سرہ
(۴)حضرت شیخ حسین محمدسکندرآبادی قدس اللہ سرہ
(۵)حضرت شیخ مبارک سندیلوی قد س سرہٗ
(۶)حضرت شیخ محمدمانو جگوری قدس سرہٗ
(۷)حضرت شیخ اﷲدیہ جنولی قدس سرہٗ
(۸)حضرت سیدحسن محمد اودھی قدس سرہٗ
(۹)حضرت شیخ حاجی منڈھن آسیونی قدس سرہٗ
(۱۰)حضرت شیخ جان سانڈھوی قدس سرہٗ
(۱۱)حضرت سیدابراہیم بلگرامی قدس سرہٗ(والد حضرت میر عبد الواحد بلگرامی)
(۱۲)حضرت سید طٰہٰ بلگرامی قدس سرہٗ( عم محترم حضرت میر عبد الواحد بلگرامی)
(۱۳)حضرت شیخ پیارہ کنجوی قدس سرہٗ
(۱۴)حضرت شیخ ابوالفتح آسیونی قدس سرہٗ
(۱۵)حضرت شیخ جانوکاکوروی قدس سرہٗ
(۱۶)حضرت سیدجیوموہانی قدس سرہٗ
(۱۷)حضرت شیخ عبدالغنی فتح پوری قدس سرہٗ
(۱۸)حضرت شیخ کمال الدین پھول قدس سرہٗ
اول الذکرچارخلفاسے سلسلہ صفویہ کافروغ ہوا۔ ’’عین الولایت ‘‘ص: ۵۵، ۵۶ پر حضرت شاہ محمدعزیزاﷲتحریرکرتے ہیں:
’’آپ کے چار خلیفہ سے سلسلہ جاری ہے:
(۱) بندگی شیخ مبارک سے، جو آپ کے بھانجے اورصاحب سجادہ ہیں۔
(۲) مخدوم الہدیہ خیرآبادی سے اوریہ سلسلہ حضرت شاہ قدرت اﷲقدس اﷲ سرہٗ کے واسطے سے یہاں(صفی پورمیں) موجود ہے اورسعدی میاں بلگرامی قدس اﷲسرہٗ ان کی اولاد میں ہیں۔
(۳) حضرت شیخ فضل اﷲگجراتی سے اوریہ سلسلہ بھی حضرت شاہ قطب عالم کے واسطے سے یہاںموجودہے۔
(۴) حضرت شیخ حسین محمد سکندر آبادی سے، جو دہلی کے پاس ہے اوریہ سلسلہ حضرت میرعبدالواحدبلگرامی صاحب سنابل کی اولادمیںشائع ہے، جو بلگرام اور مارہرہ میںہیں۔‘‘
وصال
حضرت مخدوم شاہ صفی قدس سرہ کا وصال شب دوشنبہ ۱۹؍ محرم الحرام ۹۴۵ھ / ۱۷؍ جون ۱۵۳۸ء میں ہوا۔
آپ کےوصال کے تعلق سے علامہ غلام علی آزاد بلگرامی ’’مآثر الکرام‘‘ میں تحریرکرتے ہیں: ’’وفات شیخ صفی نوزدہم ماہ محرم ۹۳۳ھ‘‘ اور ’’فوائدسعدیہ‘‘ میں علامہ قاضی ارتضا علی صفوی یوں تحریرکرتے ہیں:’’وفاتش ہژدہم محرم الحرام سنہ نہ صدوسی وسہ ہجری، ومزارمبارکش درسائی پورزیارت گاہ خلائق است۔‘‘
میر عبدالواحد بلگرامی کے حوالہ سے آزاد بلگرمی نے مآثرالکرام میں تحریر کیا ہے کہ میر صاحب نے تاریخ وصال ’’شیخ پاک‘‘کہی ہے۔ شیخ پاک کاعدد ۹۳۳ ہی نکلتاہے۔
سلسلہ صفویہ کی عظیم علمی شخصیت حضرت شاہ محمد عزیزاللہ قدس سرہ( ۱۳۴۷ھ/ ۱۹۲۸ء)اپنی تصنیف’’ عین الولایت‘‘(ص:۵۸)میں تحریرکرتے ہیں:
’’وفات شریف سنہ نوسو پینتالیس (۹۴۵ھ)میں واقع ہوئی۔ چنانچہ جب آپ نے حضرت شیخ ابوالفتح آسیونی کو خلیفہ کیاہے تب مثال اجازت (خلافت نامہ) اپنے دست مبارک سے لکھ کرمرحمت فرمائی ہے۔ اس کے آخر میں لکھا ہے :’’کتبہ صفی بن علم ۹۴۴ھ أربع وأربعین وتسع مأۃ۔‘‘ اور اسی مثال کے حاشیہ پرحضرت شیخ ابو الفتح نے آپ کے اسم مبارک کے پاس اپنے ہاتھ سے لکھاہے کہ آپ کی وفات دوشنبہ کی رات کو محرم کی انیسویں تاریخ سنہ نو سو پینتالیس (۹۴۵)میں واقع ہوئی۔ یہ مثال حضرت امیراللہ شاہ صاحب کے پاس موجودہے اوراس پرآپ کی مہربھی لگی ہوئی ہے۔ اس کا نقش یہ ہے:’’ عبدالملک العلام صفی علم بن زین الاسلام‘‘ اورمہرگولی ہے۔ اسی کے موافق جناب ماموں صاحب قبلہ(مولوی حکیم ہدایت اللہ مرحوم) خیر آباد سے خواہ کہیںاورسے حضرت شیخ پیارہ آپ کے خلیفہ کے مثال پران کا لکھا ہوادیکھ آئے تھے۔ اسی حساب سے ’’شیخ پاک بود‘‘اور’’مخدوم صفی زاہد ولی بود‘‘ دونوں تاریخیں قدیم سے چلی آتی ہیں۔ جو لوگ ’’بود‘‘کوان دونوں میں سے نابودکرتے ہیں،محض بے سودکرتے ہیں۔ اسی حساب سے فقیر نے آپ کی تاریخ لکھی ہے:
شاہ صفی حضرت عبد الصمد
رفت بہ جنت ز سہ پنجی سرائے
مصرع تاریخ نوشتم عزیزؔ
مرد خدا بود و ولی ہائے ہائے‘‘
ان حوالوں سے معلوم ہواکہ میر صاحب نے تاریخ وفات ’’شیخ پاک بود‘‘ کہی ہے، مگر ناقلین سے لفظ ـ’’بود‘‘سہواً رہ گیا۔اس کی وجہ سے یہ خرابی آئے گی کہ شیخ ابوالفتح آسیونی آپ کے خلفاء سے خارج ہوجائیں گے کیوں کہ ’’شیخ پاک‘‘ کا عدد ۳۳ ہے اورخلافت کاسال ۹۴۴ ہے، مگر جب شیخ پاک کے ساتھ لفظ ’’بود‘‘ لگا دیا جائے تو ۹۴۵ کاعددحاصل ہوتاہے اوریہی درست ہے۔
ماخوذ
خانقاہ صفویہ
تاریخ اور خدمات کا اجمالی جائزہ
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں