Qurbani ka Na-qabile faramosh pas-e-manzar

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-oct-2015Jahangir hasan Misbahi➤ اداریہ                                      Download_Pdf 


قربانی کاناقابل فراموش پس منظر
محترم قارئین!ماہِ ذی الحجہ کے آتے ہی حضرت ابراہیم ،حضرت اسمٰعیل اورحضرت ہاجرہ کی یادتازہ ہوجاتی ہے،اوراِن تینوں مبارک ہستیوں کا نام آتے ہی بالترتیب قربانی،زمزم اور صفا ومروہ جیسی عظیم یادگار کے آگے عقیدت ومحبت کاسرجھک جاتا ہے۔
اگر ہم حضرت ابراہیم اوراُن کی اولاد کے بارے میں غورکریں تواُن سب کی پوری زندگی مختلف امتحان وآزمائش سے لبریز نظر آتی ہے۔ بالخصوص حضرت ابراہیم کی زندگی امتحان وآزمائش اورپھر اُس میں کامیابی کے اعتبارسےسنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
مثال کے طورپر حضرت ابراہیم نےجیسے ہی عقل وشعور کی منزل میں قدم رکھا اور توحید کی دعوت عام کی تو اُن کی قوم کے سربرآوردہ لوگوں نے اُنھیں آگ میں ڈال دیا۔اس کے باوجودوہ ثابت قدم رہے اورحق وصداقت کی اشاعت سے بال برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے۔چنانچہ اللہ رب العزت کوحضرت ابراہیم کا یہ عمل اِس قدرپسندآیا کہ اُن کو تکلیف سے محفوظ رکھنے کےلیے آگ کو یہ حکم دے دیا:یَانَارُكُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰی اِبْرٰهِیْمَ۝۶۹(انبیا)
ترجمہ:اے آگ! ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس آگ کاکام جلانا اور تکلیف پہنچاناتھا وہ ایک دم سے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی اوربقول اقباؔل:
اس آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
اس آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
اس موقع پرحضرت جبرئیل نےحضرت ابراہیم سے کہاتھا کہ کوئی حاجت ہوتو بتائیں ، تاکہ میں اُسے بارگاہِ الٰہی میں پیش کردوں۔ لیکن حضرت ابراہیم کی غیرتِ توکل نے یہ گوارا نہیں کیاکہ وہ حضرت جبرئیل سے اپنی حاجت بیان کریں،اور اُنھوں نے یہ کہتے ہوئےاپنا سارا معاملہ رب العلمین پر چھوڑدیا کہ میرے رب کو سب پتاہے ،مجھے کچھ کہنے کی حاجت نہیں۔
پھرحضرت اسمٰعیل کی پیدائش ہوئی ،لیکن ابھی وہ شیرخوارگی کے مرحلے میں تھے کہ اُنھیں ایک ایسی سنسان وادی میں چھوڑنے کاحکم ہواجہاں نہ آدم تھا نہ آدم زاد۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے اس حکم کو بھی بسروچشم قبول کیا اوراللہ رب العزت کی بارگاہ میں یہ دعاکرتے ہوئے اپنی ذرّیت کو بے آب وگیاہ علاقے میں چھوڑبھی آئےکہ رَبَّنَااِنِّیْ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ۝۳۷(ابراہیم)
ترجمہ:اے ہمارے رب!میں نے اپنی ذرّیت کوتیرے محترم گھرکے پاس ایک بنجرعلاقے میں ٹھہرایاہے۔اے ہمارے رب! وہ تیری عبادت قائم رکھیں اس لیے لوگوں کے دلوں کو اُن کی طرف موڑدےاوراُنھیں پھلوں سے رزق عطافرما، تاکہ وہ شکرگزاربنیں۔
پھر حضرت ابراہیم نے واپس ہونے کا ارادہ کیا تو حضرت ہاجرہ گھبراگئیں۔ لیکن یہ معلوم ہوتے ہی کہ یہ حکم ربانی ہے،اُنھوں نے سکون کا سانس لیا اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب اُنھیں کسی چیز کی کوئی حاجت ہی نہیں ،کیوں کہ اللہ رب العزت کی مرضی کے آگےاُنھیں اور کیا چاہیے تھا ۔
یہاں ایک لمحے کے لیے ٹھہریں اورغورکریں کہ ایک بچہ جو شیرخوارگی کے دورسے گزررہا ہو، ایک بیوی جوقدم قدم پر ساتھ دینےوالی ہو، اور جس کی مفارقت ناقابل برداشت ہو ،اُسے اگر سنسان اور بے آب وگیاہ علاقے میں چھوڑنا پڑے تو ایک شوہر کے دل پر کیا بیتےگی،اسی طرح ایک خاتون کواگر اپنے شیرخواربچے کے ساتھ کسی بیابان میں تنہاگزربسرکرناپڑے تو وہ کس اضطرابی کیفیت سے دوچار ہوگی ؟یہ سوچ کرہی بڑے بڑوں کو پسینہ آجاتا ہے لیکن جس کا دل عشق حقیقی کے نورسے معمورہو،اورجو فنافی اللہ ہو،اُس کے لیے یہ معمولی بات ہے۔ جس کاواضح ثبوت حضرت ابراہیم اورحضرت ہاجرہ کا یہ عمل ہے۔
اسی درمیان حضرت اسمٰعیل کی بھوک اورپیاس نے حضرت ہاجرہ کو اِس قدر بے چین کردیاکہ پانی کی اُمید لیے وہ کبھی ’’صفا‘‘ پر جاتیں اورکبھی ’’مروہ‘‘پر۔ سات چکر مکمل کرلینے کے بعد جب وہ حضرت اسمٰعیل کے پاس واپس آئیں تودیکھاکہ قدم اسمٰعیل کی رگڑسے ایک چشمہ اُبل رہا ہے۔ گویاحضرت ابراہیم،حضرت ہاجرہ اورحضرت اسمٰعیل کے صبروتحمل اورتوکل علی اللہ کا یہ انعام تھاجو ’’زمزم‘‘کی شکل میں ظاہرہوا،جس کی رحمتوں اوربرکتوں سے اُس وقت بھی لوگوں نے فائدہ اُٹھایا،آج بھی فائدہ اٹھارہے ہیں اور قیامت تک یوں ہی فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
جب حضرت اسمٰعیل تقریباًبارہ تیرہ سال کے ہوئے،یعنی اس قابل ہوگئے کہ اپنے والدماجد کو سہارا وتعاون دےسکیں توایک بارپھر حضرت ابراہیم کوایک عظیم قربانی دینی پڑی ، یعنی اللہ تعالیٰ کاحکم آیا کہ ابراہیم!اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرو۔لہٰذا حضرت ابراہیم نے یکے بعددیگرےسو،دوسو،اورتین سو اُونٹوں کی قربانی پیش کی،پھر بھی قربانی کامطالبہ ہوتارہا،اورسب سے پیاری چیز کی قربانی پیش کرنے کو کہاگیا۔چنانچہ حضرت ابراہیم نے حضرت اسمٰعیل سے کہا:
یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی۝۱۰۲ (صافات)
ترجمہ:اے میرےبیٹے!میں نے دیکھاہے کہ خواب میں تجھے ذبح کررہاہوں،بتاؤ اِس سلسلے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ یہ سن کر حضرت اسمٰعیل نےبڑی سعادت مندی سے جواب دیا:
یٰاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۝۱۰۲(صافات)
ترجمہ: اے والد محترم!آپ کو جوحکم ملا ہے وہ پوراکریں ،ان شاء اللہ آپ مجھے صبرکرنے والوںمیں سے پائیں گے۔ اوراِس طرح باپ بیٹے نےاپنی اپنی قربانی پیش کرکے ایک تاریخ بنادی۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اللہ تعالیٰ نےاُن دونوں کی اِس مثالی قربانی کوقیامت تک لوگوں کےلیے بطورسنت براہیمی ایک یادگاربنادیا۔
جہاں حضرت ابراہیم کایہ عمل قابل رشک اور مثالی ہے،وہیں حضرت اسمٰعیل کی رضامندی بھی رضائے الٰہی پر قربان ہونے کا اعلیٰ نمونہ ہے،کیوں کہ حضرت ابراہیم کے دریافت کرنے پر حضرت اسمٰعیل نےیہ نہیں کہا کہ’’آپ نے جوخواب دیکھا ہے اُسے پورا کریں۔‘‘بلکہ یہ کہاکہ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ۔یعنی آپ کو جس بات کاحکم ہواہےوہ پوراکریں۔اسی طرح حضرت اسمٰعیل کا یہ عمل ہر طرح کی انانیت اور کبروریاسے بھی پاک وصاف ہے،کیوں کہ جواب میں اُنھوں نے یہ نہیں کہاکہ’’ میں صبرکرلوں گا۔‘‘ بلکہ یہ کہاکہ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔یعنی اِن شاء اللہ آپ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ حضرت اسمٰعیل کوبھی یقین تھاکہ یہ قربانی واقعی اللہ کا حکم ہے آپ اِسےضرور پورا کریں،اور ساتھ ہی دعابھی کریں کہ اِس حکم الٰہی کی تعمیل میں اللہ مجھے صبرکی طاقت دے اوروہ مجھے صبرکرنے والوں کی صف شامل کردے۔
دوسرے لفظوںمیں یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل کو اپنی ذات پر بھروسہ نہیں تھا،اگر بھروسہ تھاتو صرف اللہ رب العزت کی ذات پرتھا کہ وہی چاہے تو میں اپنی جان کی قربانی بھی دے سکتا ہوں اوروہی چاہے تو میں صبر کرنے والوں میں بھی ہوسکتاہوں۔اس طرح دیکھاجائے تو توکل علی اللہ کی یہ انوکھی مثال صرف اور صرف خاندان ِبراہیمی ہی پیش کرسکتا ہے۔
آج ضرورت اِس بات کی ہے ہم سبھی اپنے اپنے کرداروعمل کا محاسبہ کریں کہ ہم جب کبھی زندگی کے مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں، یاکسی امتحانی دورسے گزررہے ہوتے ہیں تو اُس وقت ہمارے اندرکس درجے کا توکل ہوتاہے،اور ہم کہاں تک صبرو تحمل سے کام لیتے ہیں۔ پھرہم جو قربانی پیش کررہے ہوتے ہیں اُس کا رشتہ وتعلق سنت براہیمی سے کس حد تک ہوتاہے ؟ قربانی کی قبولیت میں ہم اللہ رب العزت پر کہاں تک توکل کر پاتے ہیں ؟اگر سنت براہیمی کی رعایت اورپابندی کرپارہے ہیں تو ٹھیک،ورنہ ہمیں اپنے اعمال وکردار اورایثاروقربانی میں وہ صفتیں پیدا کرنی ہوں گی جو ہمیں توکل علی اللہ کی لذت سے آشنا کراسکیں اورہمارے دکھاوٹی توکل کو حقیقی توکل کا جامہ پہناسکیں۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0