Sultanul Arefin Shah Arif Safi

سلطان العارفین شاہ عارف صفی محمدی قدس سرہ
سلطان العارفین مخدوم شاہ عارف صفی محمدی قدس سرہٗ الٰہ آباد کے ایک قصبہ ، سید سراواں کے مشہور و معروف زمیندار گھرانے میںپیدا ہوئے ۔ آپ کی ولادت ۱۲۷۸ھ؍۱۸۶۱ء میں ہوئی۔ والد ماجد شیخ وارث علی (م:۱۳۳۰ھ/ ۱۹۱۲ء) مشہور رؤسا میں سے تھے ۔ والدین کی پہلی اولاد ہونے کے سبب دادا دادی کے منظور نظر رہے ۔ ناز و نعم میں پرورش ہوئی۔
آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے ۔والدہ ماجدہ مخدومہ سیدہ عظیم النساء (م:۱۳۱۵ھ/۱۸۹۸ء) سادات سے تھیں اور حضرت مخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت قدس سرہٗ کی اولاد سے تھیں۔
آپ آپ فخر خاندان، فخر عصر اور علم و معرفت میں یکتائے روزگار ہوئے ۔آپ کے فضل و کمال کا اعتراف معاصرین و متأخرین سب کو تھا۔ مؤلف ’’مرآت جلالی‘‘ رقم طراز ہیں :
آپ ’’مخدوم حضرت امیر علی شاہ (سلطان العارفین شاہ عارف صفی محمدی)ساکن سید سراواں ضلع الٰہ آباد، شیخ عثمانی ہیں ۔آپ کے مورث اعلیٰ شیخ بہاؤ الدین سپہ سالار غزنی کے رہنے والے تھے ،ہمراہ حضرت سید قطب الدین محمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ،بغرض جہاد ہندوستان تشریف لائے تھے ،اور قلعۂ کڑا کو فتح کیا تھا اور محی الدین پور چروا ضلع الٰہ آباد میں قیام فرمایا۔جملہ شیخ زادے سید سراواں آپ کی اولاد سے ہیں، جو اِس وقت صاحب اقتدا ر ہیں۔ حضرت امیر علی شاہ اسی خاندان میں تھے ،معرفت میں یگانۂ روزگار ہوئے۔‘‘
(ص :۶۶ طبع دوم ،کراچی ۱۹۹۹ء)
تعلیم و تربیت
ابتدائی تعلیم گھر کے بزرگوں سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے گاؤں کے مقتدر علما مولانا سید اَبو میاں صاحب اور مولانا منظور حسین رحمہما اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ا ُن سے علوم ظاہری میں فراغت حاصل کی۔ عمر شریف اس وقت ۱۶؍ سال کی تھی۔ آپ کا فارسی واردو دیوان آپ کے اعلیٰ علمی ذوق کا بین ثبوت ہے۔
اخلاق وعادات
بچپن ہی سے آپ عمدہ اخلاق و عادات سے مزین تھے۔ ذہانت،سنجیدگی، اطاعت شعاری ، غربا پروری ، منکسرالمزاجی اور رحم دلی آپ کا خاصہ تھا۔ والدین کی اطاعت اور اساتذہ کے ادب و احترام میںمثالی نمونہ تھے۔زمانۂ طالب علمی میں شفقت و رحم دلی کا یہ عالم تھا کہ ہم سبق طلبہ میں جو کمزور ہوتے اُن کو سبق یاد کراتے ، سمجھاتے اور مشقی کاموںکی انجام دہی میں اُن کی مدد فرماتے ۔ ہر شخص کی فلاح و بہبود ہمیشہ پیش نظر رہتی تھی ۔جو لوگ آپ سے بغض و حسد رکھتے اُن سے بھی خندہ روئی سے ملتے اور ضرورت پڑنے پر ہر طرح کی مدد فرماتے اور کبھی کسی کی دل آزاری گوارا نہ فرماتے ۔
جذبۂ خدا طلبی وبیعت
تعلیم کے بعد والد ماجد نے زمینداری کے کاموں میں لگانا چاہا ،لیکن آپ کی طبیعت سے یہ کام بالکل مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ رعایا اور زمینداروں کے مابین صورت ِحال دیکھ کر آپ کا دل موروثی زمینداری سے متنفر تھا، اس لیے ملازمت کی طرف آپ کی طبیعت مائل ہوئی ، چنانچہ آپ محکمۂ پرمٹ سے ملحق ہوکر ضلع بارہ بنکی میں تعینات ہوئے۔ دینداری ،خدا ترسی اور للّٰہیت کا وہ جذبہ جو قسام ازل نے آپ میں ودیعت فرمایا تھا، جوش زن ہوا۔ احکامِ شرع کے تو آپ اس وقت سے پابند تھے جب اس کے مکلف بھی نہ تھے ۔ مرشد کامل کی طلب ہوئی ،اسی دوران حضرت حاجی وارث علی شاہ قدس سرہٗ کا نام نامی سنا تو زیارت کے مشتاق ہوئے اور آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر حال باطن بیان کیا اور بیعت کی خواہش ظاہر کی ۔آپ نے سر جھکایا اور کچھ دیر بعد فرمایا:
’’مالک عنقریب آپ کو بلند مراتب پر فائز فرمانے والا ہے، البتہ آپ کاحصہ میرے پاس نہیں بلکہ حضرت قل ہوا للہ شاہ صاحب کے پاس ہے ،آپ انھیں کی خدمت میں حاضر ہوں ۔‘‘
قطب عالم واقف سرّ قل ہوا للہ شاہ عبد الغفور محمدی صفوی قدس سرہٗ( ۱۲۳۵ھ- ۱۳۲۴ھ) اسی شہر (بارہ بنکی) کے محلہ رسول پور میں جلوہ افروز تھے ۔آپ کے یہاں ہر ماہ گیارہویں شب کوفاتحہ اور محفل سماع منعقد ہوتی تھی جس میں آپ کے خلفا، مریدین ومعتقدین حاضر ہوتے تھے ۔
حضرت سلطان العارفین اسی ماہ کی گیارہویں کو اپنے اردلی جناب بہادر خاں کو ہمراہ لے کر حضرت قطب عالم قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عشا کی نماز آپ کی اقتدا میں ادا کی اور بعدنماز عشا محفل میں شریک ہو گئے۔
سلطانِ خوباں، ہجومِ عاشقاں میں صدر نشین تھے اور عشاق، جمال روئے تاباں کی ضیا پاشیوں سے شاد کام ہو رہے تھے۔ اکتساب فیض کا یہ سلسلہ فجر تک چلا۔ فجر کی نماز حضرت قطب عالم قدس سرہٗ کی اقتدا میں پڑھ کر آپ اپنے مقام و اپس تشریف لائے، لیکن بےقراری اور اضطراب نے بے چین کر دیا۔ آپ نے تازہ غسل کیا اور شیرینی ہمراہ لے کر پیر ومرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ فرائض منصبی مکمل کرکے آپ ہمیشہ پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہونے لگے اور تعلیم و تلقین حاصل کرنے لگے۔
اجازت وخلافت
پیر و مرشد کی تعلیمات کے مطابق مجاہدات بھی شروع فرمادیے ،کچھ عرصے بعد ملازمت سے استعفیٰ بھی دے دیا اور اب کامل یکسوئی سے حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو گئے۔ بالآخر سلوک کی تکمیل فرما کر حضرت پیرو مرشد قدس سرہٗ نے ۱۱؍ رمضان المبارک ۱۲۹۸ھ مطابق ۷؍اگست ۱۸۸۱ء کو اجازت وخلافت عطا فرمایا اور ’’شاہ عارف صفی ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا ۔ اس وقت عمر شریف صرف ۲۰ ؍سال کی تھی ۔
اجودھیا میں استقامت
پیر ومرشد نے آپ کو اجودھیا کی مسجد میں متوکلا ً علی اللہ استقامت گزیں ہونے کا حکم فرمایا، چنانچہ آپ بارہ بنکی سے براہِ راست وہاں منتقل ہوگئے اور وہاں قیام فرماکر ریاضت و مجاہدے میں مشغول ہوگئے ۔
والدین کریمین اور گھر کے دیگر افراد کو آپ کی فرقت و جدائی نہایت گراں گزر رہی تھی،بالخصوص والدہ ماجدہ ،جن کے آپ منظور نظر تھے ،وہ آپ کی جدائی کے صدمے سے پریشان اور مضمحل ہوتی جا رہی تھیں ۔چنانچہ آپ کے نانا نے آپ کی والدہ ماجدہ کو ہمراہ لے کر حضر ت قطب عالم کی بارگاہ میں حاضری دی اور آپ کی والدہ کی صورتِ حال بیان کی۔
وطن واپسی
حضرت قطب عالم نے آپ کو اجودھیا سے واپس بلایا اور وطن ہی میں قیام فرمانے کا حکم فرمایا۔ حضرت قطب عالم نے جو اَبھی الٰہ آباد تشریف نہیں لائے تھے ، آپ سے فرمایا:
’’بہتر ہے کہ آپ ان لوگوں کے ساتھ وطن جائیے اور بجائے مکان میں قیام کرنے کے سید سرانواں گاؤں کے باہر حضرت سید محمد حقانی قدس اللہ سرہٗ کے مزار مبارک کے پاس جھوپڑی ڈال کر قیام کیجیے اور روزانہ ایک مرتبہ والدہ ماجدہ کی زیارت کے لیے مکان جا یا کیجیے ۔‘‘
آپ پیر ومرشد کے حسب حکم واپس تشریف لائے اور سید محمد حقانی قدس سرہٗ (متوفی مابین ۷۷۵۔۷۸۶ھ، خلیفۂ وخویش حضر ت مخدوم سید شعبان الملۃ جھونسوی قدس سرہٗ) کے مزار مقدس کے قریب اِملی کے درخت کے سایے میں ایک کٹیا بنوائی اور اسی میں قیام پذیر ہوگئے ۔( جس مقام پر آپ نے جھوپڑی بنوا کر قیام فرمایا تھا اسی جگہ بعد میں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کر دی گئی تھی ،اِمتداد زمانہ کے سبب کافی خام ہوگئی تھی، گرنے کا خوف تھا، اس لیے اُسے شہید کر دیا گیا۔ اب از سرِ نو تعمیر کا ارادہ ہے۔)
آپ نے اسی جھوپڑی میںقیام فرمایا اور صرف ذکرو فکر سے کام رکھا ۔روزانہ ایک مرتبہ والدہ ماجدہ کی قدم بوسی کے لیے مکان تشریف لے جاتے تھے ۔
رجوع خلق و فیض رسانی
جس مقام پر سب سے پہلے سید محمد حقانی سبزاواری قدس سرہٗ نے شمع ہدایت روشن فرمائی تھی ،اسی مقام پر ایک طویل عرصے کے بعد سلطان العارفین شاہ عارف صفی محمدی قدس اللہ روحہٗ سے دوبارہ ہدایت و معرفت ، علم و آگہی اور امن و امان کا سر چشمہ جاری ہوا۔خلق خدا جو ق در جوق آ آ کر اِس سرچشمۂ حیات سے سیرابی حاصل کرنے لگی ۔مختصر سی مدت میں ہزاروں ہزار لوگ دولت ایمان سے مالا مال ہوئے۔ سلطان العارفین نے سنہ ۱۳۰۰ھ ؍۱۸۸۳ء میں خانقاہ قائم فرمائی تھی اور صرف بیس سال کی مختصر مدت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو عموماً مدت دراز میں بھی لوگوں کو نصیب نہیں ہوتے ۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤتِیْہِ مَن یَّشَاءُ۔
پیر ومرشد کی بارگاہ میں مقبولیت
اس راہ میں شیخ و مربی یا پیر و مرشد کی بڑی اہمیت ہے۔اکابرِ طریقت نے فرمایا ہے کہ مرید کو اپنے مرشد کے ہاتھوںمیں ایسا ہونا چاہیے جیسے مردہ بدست زندہ (کَالمَیِّتِ بِیَدِ الغَسَّالِ)۔
حضرت پیر ومرشد کی بارگاہ میں آپ کی فنائیت و خود سپردگی کے بہت سے واقعات ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیر و مرشد کا مقام آپ کی نظر میں کیسا تھا۔ کسی مرید سے اگر اس کا پیر ایسا راضی ہو کہ اس کے لیے’من تو شدم تو من شدی‘ اور یَدُہُ کَیَدِیْ کا مژدہ سنادے تو اُس مرید کے علو مرتبت و عظمت کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے۔ آپ کے حق میںحضر ت قطب عالم نے متعدد مرتبہ اِس طرح کے کلمات ارشاد فرمائے ۔ایک موقع پر ارشاد فرمایا :’’جو کچھ عارف صفی کریں گے عین مرضی میری ہے۔‘‘
اور ایک موقع پر ارشادفرمایا:
’’عارف صفی کا ہاتھ عین میرا ہاتھ ہے ( یَدُہُ کَیَدِیْ)۔‘‘
مشائخ کی بارگاہ میں آپ کی مقبولیت و محبوبیت کا اندازہ ذیل کے اِس ایک واقعے سے بھی بخوبی ہو تاہے ۔ حضرت قطب عالم قدس سرہٗ نے ایک مرتبہ آپ کو اطلاع کرائی کہ فلاں تاریخ کو میں عرس کے موقع پر صفی پورشریف پہنچ رہا ہوں ، آپ بھی وہاں آجاتے تو اچھا رہتا ۔ حسبِ فرمائش مقررہ تاریخ پر آپ صفی پور شریف حاضر ہوئے۔ حضر ت قطب عالم آپ کو ہمراہ لے کراپنے پیرومرشد حضرت مخدوم عالم شاہ خادم صفی محمدی قدس اللہ سرہٗ کی درگاہ میں تشریف لے گئے۔ حضرت قطب عالم تو اندرون روضہ تشریف لے گئے مگر آپ مؤدب دست بستہ باہر چوکھٹ پر کھڑے رہے ۔ تھوڑے وقفے کے بعد حضرت قطب عالم روضہ شریف سے باہر تشریف لائے اور آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ــ’’ماشاء اللہ ،ماشاء اللہ ! آپ کو سرکار سے لقب ’’لاہوتی ‘‘ اور ’’محبوب الٰہی گیسو دراز ‘‘ عطا ہوا ۔‘‘ پھر برادران طریقت میں جن جن حضرات سے ملاقات ہوتی، سب سے فرماتے کہ ان سے ملیے ،انھیں سرکار کی بارگاہ سے لقب ملا ہے۔
تصانیف
خلق کی فیض رسانی کی خاطرآپ سے نظم و نثر ،اردو و فارسی میں چند تصنیفات بھی معرض و جود میں آئیں، جن کے اسما یہاں درج ہیں۔چوںکہ تفصیل کا موقع نہیں ، اس لیے ان کا تفصیلی تعارف قلم انداز کیا جا رہاہے:
۱۔گنجینۂ اسرار (فارسی) ۲۔مرآۃ الاسرار (اردو)۳۔مثنوی معرفت (فارسی) ۴۔دیوان فارسی۵۔دیوان اردو ۶۔دیوان ہندی
خلفا
آپ نے دس سے زائد افراد کو خلافت و اجازت سے نوازا ،جن میں چند مشہور حضرات کے اسما یہاں درج ہیں:
(۱)حضرت مخدوم شاہ صفی اللہ محمدی عرف شاہ نیاز احمد صاحب قدس سرہٗ (خلف اکبر و جانشین اول)
(۲) شاہ ظہور اللہ محمدی عرف سید عبد اللطیف قدس سرہٗ (۱۳۶۴ھ، پورخاص)
(۳)شاہ نعمت اللہ محمدی عرف مولاناسید محمد امین بخاری قدس سرہٗ (۱۳۶۰ھ، کلکتہ)
(۴) شاہ علیم اللہ محمدی عرف عبد العلی قدس سرہٗ (۱۳۴۹ھ،نیم سرائے، الٰہ آباد)
(۵) شاہ نعیم اللہ محمدی عرف خان بہادر حافظ محی الدین قدس سرہٗ ( لکھنؤ)
اولاد وامجاد
آپ کے اخلاف میں دو صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہوئیں ۔
(۱)محتسب العارفین مخدوم شاہ صفی اللہ محمدی عرف شاہ نیاز احمد قدس سرہٗ
آپ کی ولادت باسعادت ۲۸؍ رمضان ۱۳۰۵ھ مطابق ۹؍ جون ۱۸۸۸ء شنبہ کے روز ہوئی۔ حضرت سلطان العارفین کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے اورآپ کے مرید وخلیفہ اور جانشین ہوئے۔ سلسلے کے اکابرین نے آپ کو اَپنے خانوادے کا’’شیر نر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
۲۸؍ شعبان المعظم ۱۳۷۴ھ مطابق ۲۲ ؍اپریل ۱۹۵۵ء جمعہ کے روز وصال فرمایا۔ پسماندگان میں ایک صاحبزادی زوجہ جناب سید مجیب احمدصاحب مرحوم (مدفون کراچی )اور ۴ ؍ صاحبزادے یادگار چھوڑے:
ا۔حضرت حکیم آفاق احمد صاحب رحمہ اللہ (۱۹۰۸-۲۰۰۱ء، خانقاہ عالیہ عارفیہ) ۲۔حضرت شاہ صابر حسین صاحب رحمہ اللہ(۱۹۱۷-۱۹۸۲ء، کراچی، پاکستان) ۳۔ حضرت شاہ الہام صفی محمدی عرف امتیاز احمد رحمہ اللہ(۱۹۲۸-۲۰۱۱ء، کراچی) ۴۔ مخدومی انیس احمد عثمانی مد ظلہ (پ: ۱۹۳۲ء، ساکن کراچی ) ۔
(۲)بقیۃ السلف حضرت مخدوم شاہ احمدصفی محمدی خادم محمد صفوی عرف شاہ ریاض احمد قدس سرہٗ
آپ کی ولادت باسعادت ۱۸۹۶ء میں ہوئی۔ سلطان العارفین قدس سرہٗ کے وصال کے وقت آپ کی عمر شریف ۶؍۷ سال کی تھی۔ والد ماجد سے شرف بیعت حاصل تھا اور اجازت وخلافت اپنے برادر گرامی سے تھی۔ اپنے اسلاف کی سیرت و صورت کے مکمل آئینہ دار تھے۔ اپنے بزرگوں کی روش سےبال برابر بھی تجاوز گوارا نہ تھا۔ برادرگرامی کے وصال کے بعد مسند نشین ہوئے اور خلق خدا کے لیے سامان ہدایت بنے۔
طویل مدت تک خلق خد اکو فیض یاب فرمانے کے بعد ۱۵؍محرام الحرام ۱۴۰۰ھ مطابق ۶؍دسمبر ۱۹۷۹ء پنجشنبہ کے روز دار باقی کی جانب کوچ فرمایا۔
آپ نے اپنے بھتیجے و خلیفہ مخدومی حکیم آفاق احمد صاحب رحمہ اللہ کے صاحب زادے مخدومنا و مولانا عارف باللہ شاہ احسان اللہ محمدی صفوی معروف بہ شیخ ابو سعید حفظہ اللہ ورعاہ (ولادت:۵؍ محرم ۱۳۷۷ھ/۲؍ اگست ۱۹۵۷ء بروز جمعہ)کو ۱۸؍ ذوالقعدۃ ۱۳۹۸ھ بمطابق۲۱؍ اکتوبر ۱۹۷۸ء کو اجازت و خلافت سے نوازا اور اپنا جانشین مقرر فرمایا ۔
تعلیمات
ذیل میں ہم حضور سلطان العارفین کے چند ارشادات کو افادۂ عام کی غرض سے پیش کر رہے ہیں :
 اگر تمہارا اَثر دوسروں پر نہ پڑے تو کم از کم دوسروں کااَثر تم پر تو نہ پڑے ۔ 
خرقۂ درویشی، اللہ کے شیروں کا لباس ہے ۔جو شخص اس لباس کو پہنے اس کو اللہ کاخوف کرناچاہیے ۔ایک ٹکڑا روٹی کے لیے در بدر ہو کر اس (فقر و درویشی) کو ذلیل نہ کرانا چاہیے۔ اس کو پہن کر مر د خدا بننا چاہیے نہ کہ طالب دنیا ۔
 والدین کی خدمت کو ترک کرنا،خدا کے قہر کا سبب ہوتاہے ۔
 دوسروں کی حاجت روائی کرے لیکن اپنی حاجت دوسروں کے سامنے پیش نہ کرے۔
 طریق عشق میں دلیل و برہان کی کوئی ضرور ت نہیں ہوتی ۔حکم خدا و رسول و مرشدین مجتہدین کا فی ہوتاہے ۔
 کسی سے اپنی عزت کی خواہش نہ رکھے تاکہ دل پر نورِالٰہی وارد ہو۔
وصال
سلطان العارفین قدس سرہٗ نے صرف ۴۱؍۴۲ سال کی عمر پائی۔ عاشورۂ محرم الحرام ۱۳۲۰ھ کے بعد سے سلسلۂ امراض شروع ہوا ،اور طبیعت دن بہ دن مضمحل ہوتی گئی ۔ وقتی افاقہ ہوتا لیکن مکمل آرام نہ ہوا۔بالآخر ۱۸؍ ذوالقعدۃ ۱۳۲۰ھ مطابق ۱۶ ؍ فروری ۱۹۰۳ء سہ شنبہ کے روز بوقت صبح صادق آپ واصل بحق ہوئے ۔آپ کا وصال آپ کے پیر و مرشد کی حیات ظاہری میں ہوا ۔جس وقت آپ نے پردہ فرمایا اس وقت حضرت قطب عالم نے فرمایا: ’’آج میری کمرٹوٹ گئی۔‘‘
آپ کے حسب حکم آپ کے معالج، الٰہ آبادکے مشہور عالم وطبیب مولانا حکیم سید مسیح الدین قادری رحمہ اللہ(۱۳۳۳ھ)نے نماز جنازہ پڑھائی اور خانقاہ عالیہ عارفیہ میں مدفون ہوئے۔(قَدَّسَ اللہُ رُوْحَہٗ وَأَوْصَلَ إِلَیْنَا فُتُوْحَہٗ)
ماخوذ
خانقاہ صفویہ تاریخ اور خدمات کا اجمالی جائزہ

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں