Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-Sep-2015➤
Makhdoom Sheikh Saad Khairabadi Download_Pdf
اخلاق حسنہ اوراس کی نوعیتیں
پندرہواں خلق: مروت
مروت یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے ہرشخص کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے۔امام نصیرآبادی نے فرمایاکہ مروت وہ شان ہے جس کے سبب کونین سے بے نیازی کاجذبہ پیدا ہوتا ہے اورثقلین سے عار محسوس ہونے لگتاہے۔
کسی بزرگ کا قول ہے کہ مروت یہ ہے کہ اگرتم پرکسی نے احسان کیاہوتوتم بھی اس کے ساتھ احسان سے پیش آئو۔
سولہواں خلق:مودت
مودت یہ ہے کہ مخلوق کے ساتھ دوست کی طرح رہے، یعنی بظاہراُن کے ساتھ معاملہ اورتعلق رکھے تاکہ وہ یہ یقین رکھیں کہ یہ شخص ہم کوچاہتاہے، ہم سے محبت رکھتا ہے، ورنہ صوفی اللہ کے علاوہ کسی اورسے محبت نہیں رکھتا۔گویااللہ کی رضاکے لیے دوسروں سے بہ تکلف محبت رکھنے کانام مودت ہے ۔
حضرت ابوادریس خولانی نے حضرت معاذرضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں آپ سے محبت رکھتاہوں۔ حضرت معاذنے فرمایاکہ مبارک ہو!اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ قیامت کے روز عرش کے چاروں طرف لوگوں کی ایک جماعت کے لیے کرسیاں لگائی جائیں گی،ان کے چہرے چودہویں کےچاندکی طرح روشن ہوں گے،اس روز سب لوگ خوف میں ہوں گے لیکن ان لوگوں کوکوئی خوف اور غم نہ ہوگا۔
صحابہ کرام نے سوال کیا:یارسول اللہ!یہ کون لوگ ہوں گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جوآپس میں ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت رکھتے ہیں اوردوستوں کی طرح رہتے ہیں۔
حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ ایک دوسرے کودوست رکھنے اورباہم محبت ورحمت کامظاہرہ کرنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کاکوئی حصہ تکلیف میں ہوتاہے تودوسرے اعضابھی بیداررہتے ہیں اور وہ بھی مضطرب وپریشان رہتے ہیں۔
چنانچہ جومومن کسی مومن سے دوستی اورمحبت کادعویٰ رکھتاہے اس کا دل بھی اس مومن بھائی کے مصائب وآلام میں گرفتار ہونے کی صورت میں دردمندہوجاتاہے۔ جوچیزاپنے لیے پسندنہیں کرتاوہ اس مومن بھائی کے لیے بھی پسند نہیں کرتا، اورجوچیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے مومن بھائی کے لیے پسند کرتاہے ،بلکہ اس کے لیے زیادہ بہتر پسندکرتاہے۔
سترہواں خلق:جودوکرم
جود وکرم جوان مرد ی کانام ہے،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کسی کی طرف سے اس پر کوئی احسان نہ ہو، اوراپنی طرف سے بھلائی کا اظہارنہ ہو،اور کسی بدلے کی امید میں کسی پرکوئی نوازش نہ کی جائے اور اس سے کسی قسم کی مدح وثنا کی بھی توقع نہ ہو۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ کوئی چیز دینے میں کسی شخص کے درمیان کوئی تفریق نہ کی جائےکہ یہ مومن یہ کافر،مستحق ہے یا غیرمستحق۔ بعض کاقول ہے کہ جودوکرم یہ ہے کہ زیادہ دے اور تھوڑے پرنگاہ رکھے۔
اٹھارہواں خلق: عفو ودرگذر
عفویہ ہے کہ گناہ کودرگذرکردیاجائے،اورکسی کے گناہ کی جانب نظرنہ کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میںنے شب معراج میںجنت کے اندر بلندوبالا محلات دیکھے،چنانچہ میں نے کہاکہ اے جبرئیل! یہ محلات کس کے ہیں؟ جبرئیل نے جواب دیاکہ یہ محلات ان لوگوں کے لیے ہیں جوغصہ کوپی جاتے ہیں اورگنہ گاروںسے عفوو درگذر کامعاملہ کرتے ہیں،اس لیے کہ دوسروںکی غلطی کو معاف کردینا اوراُس کے کردہ کوناکردہ بنادینا،اس کے ساتھ اس طرح حسن سلوک سے پیش آناکہ ا س کے دل سے خوف دور ہوجائے،یہ نیک لوگوں کاکام ہے،یہ نیک نفس لوگوں کا عمل ہے،اس میں نفس وشیطان کی مخالفت ہے،اس طرح کا عمل پاک نفوس سے صادرہوتاہے،اس قسم کاعمل چنیدہ ذات سے ظاہر ہوتاہے،جس نے برائی کی ہواُس کے ساتھ حسن سلوک کرنااوربرائی کابدلہ نیکی سے دینا ایک عظیم نیکی ہے،یہ ایک اعلیٰ حسن عمل ہے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ساتھ ساتھ تھے۔ایک شخص آیا اوراُس نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کوگالی دیناشروع کردیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہےاوررنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے۔لیکن تھوڑی دیربعد حضرت ابوبکر نے جواب دے دیا۔یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوگئے اوراُٹھ کرچلے گئے۔
حضرت ابوبکر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے اورعرض کی:یارسول اللہ!اس شخص نے مجھ کوگالی دی توآپ تبسم فرماتے رہے،اورجب میں نے اس کاجواب دیا، توآپ ناراض ہوکرچلے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے ابوبکر!جس وقت تم خاموش تھے اورتم نے گالی کاجواب نہیںدیاتھا،اس وقت تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھاجوتمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہاتھا،پھرجب تم بول پڑے اوراُس کاجواب دے دیا توشیطان آگیااورجس جگہ شیطان ہو،وہاں میں کیسے رہ سکتا ہوں۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر! یہ جان لوکہ تین باتیں برحق ہیں:
جس بندے پرظلم کیاجاتا ہے اگروہ اس ظلم کو معاف کردیتاہے توحق تعالیٰ اس کواپنا عزیزبنالیتاہے۔
جوبندہ مال کی کثرت کے لیے دست سوال دراز کرتا ہے توحق تعالیٰ اس کے مال میں اورکمی فرمادیتاہے ۔
جوبندہ عطاونوازش اوردادودہش کادروازہ کھول دیتا ہے توحق تعالیٰ اس نوازش وعطاکے صدقے اس کے لیے کثرت وزیادتی کادروازہ کھول دیتاہے۔
روایت ہے کہ کل بروز قیامت منادی ندادے گاکہ وہ لوگ کہاں ہیں جن کااجرحق تعالیٰ کے ذمے ہے؟
یہ سن کر صرف وہ لوگ اٹھیں گے جنھوں نے غلطی کرنے والوں کو معاف کردیاہوگا۔
ایک بار حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ایک غلام سے پیالہ زمین پرگرگیا۔حضرت عثمان ناراض ہوئے،تو اس غلام نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
میری صحبت ومعیت ہوتے ہوئے بھی تم گذشہ اُمتوں کی طرح نہ بنو،کیوںکہ وہ لوگ کہتے تھےکہ اگرلوگ احسان کریں گے توہم بھی احسان کریںگے اوراگر لوگ ظلم کریں گے توہم بھی ظلم کریںگے۔ تم اپنے نفس کو نرمی سکھائو، جن کے ساتھ تم بھلائی کرو،اگروہ بھی بدلے میں تمہارے ساتھ برائی کریں تب بھی تم ظلم مت کروبلکہ ان کومعاف کردو۔کیوں کہ
اُنیسواں خلق:صفح
صفح یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کی غلطی معاف کرنے کے علاوہ اُس کے ساتھ حسن سلوک بھی کیاجائے،چنانچہ عفو عام ہے اورصفح خاص ۔
بیسواں خلق:سخاوت
سخاوت یہ ہے کہ مال کا ایک حصہ دے دیاجائے اور ایک حصےکی حفاظت کی جائے اورجود یہ ہے کہ اکثرمال دے دیاجائے اورکچھ مال بچاکررکھ لیاجائے،جیساکہ اس کو بیان کیاجاچکاہے،اورجوشخص کچھ بھی بچاکرنہ رکھے اورکل مال دے دے وہ صاحب ایثارہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ ایک دن نوے ہزاردرہم چاندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آئی،آپ نے فرمایاکہ ان تمام درہموں کومسجدکے فرش پر بکھیردو۔ جب تک ان تمام درہموں کوحاجت مندوں اور مستحقین تک نہیں پہنچادیا اور راہِ الٰہی میں خرچ نہیں کردیا اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے نہیں اٹھے۔
البتہ! اس گفتگوسے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جود،سخاوت سے اعلیٰ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سخاوت جودسے اعلیٰ اوراکمل ہے۔ کہاگیاہے کہ حق تعالیٰ سالک کوجب صوفی بناتاہے تواس کی طبیعت میں سخاوت ضرورڈال دیتاہے اورجس کی طبیعت میںسخاوت ہووہ جلدی صوفی بن جاتاہے،اس لیے کہ سخاوت ایک طبعی صفت ہے،سخاوت کے مقابلے میں نفس کی ایک دوسری صفت ’’شح‘‘ہے ،جب تک نفس پرتوجہ نہ ہو،نفس پاکیزہ نہ ہو اورخصائل حمیدہ تک نفس کی رسائی نہ ہوجائے ، اس وقت تک سخاوت کی صفت حاصل نہیں ہوگی۔
جودکے بالمقابل بخل ہے،جوداوربخل کسب اورعادت سے بھی حاصل ہوجاتاہے،لیکن سخاوت اورشح طبعی صفتیں ہیں، اگر نفس غالب ہوتوشح غالب ہوتاہے اوراگر روح غالب ہوتوسخاوت غالب ہوتی ہے ۔ سخاوت خاص ہے اورجودعام ، ہرسخی جواد ہے، لیکن ہرجواد سخی نہیں۔اللہ تعالیٰ کی ذات کو سخاوت کے ساتھ موصوف نہیں کیا جاتا،اس لیے کہ سخاوت طبیعت کانتیجہ ہے اوراللہ اس سے پاک ہے۔یہ بھی کہاگیا ہے کہ جود میں ریاکادخل زیادہ ہوتاہے، یوں ہی فوراًیابعد میں ملنے والے بدلےکی طلب ، لوگوں کی جانب سے تعریف وتوصیف اوراللہ کی طرف سے ثواب کی خواہش نگاہ میں ہوتی ہے،جب کہ سخاوت ان تمام چیزوں سے پاک ہوتی ہے،اسی لیے سخاوت اہل صفاکی صفت ہوتی ہے، اورایثار اہل انوار کی صفت ہوتی ہے،اور بذل ان سب سے عام ہے، سخاوت،جود سے اتم واکمل ہے اور ایثار سخاوت سے افضل واعلیٰ ۔
شحیح وبخیل کے درمیان فرق
البتہ! شح اوربخل کوبعض علمانے ہم معنی قرار دیاہے اور بعض نےفرق کیا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ بخیل وہ ہے جواپنا مال نہ دے اورشحیح وہ ہے جوناحق غیرکامال حاصل کرنے کی فکر میں ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ بخیل وہ ہے جو خود کھائے لیکن دوسروں کونہ دے اورشحیح وہ ہے جو نہ خود کھائے اورنہ دوسروں کودے۔بعض کاقول ہے کہ بخیل وہ ہے جواُس چیز پر بخل کرے جواُس کے پاس ہے اورشحیح وہ ہے جو اُس چیز پربھی بخل کرےجواُس کے پاس ہےاوراُس چیزپر بھی جودوسرے کے پاس ہے ۔
اکیسواں خلق:وفا
وفایہ ہے کہ جس نے تم پراحسان کیاہوتم بھی اس پراس طرح احسان کروجس طرح اس کے لائق ہے،نہ کہ جس طرح تمہارے لائق ہے،اس طرح وفامروت سے خاص ہے۔
بائیسواں خلق:حیا
حیایہ ہے کہ نفس کوجس طرح بازرکھنے کاحق ہے اس طرح ان تمام چیزوں سے بازرکھاجائے جوشریعت وطریقت اورعادت ومروت کے لحاظ سے مذموم ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ ایک دن آپ نے اپنے اصحاب کرام سے فرمایاکہ حق تعالیٰ سے جس طرح حیاکرنے کاحق ہے اس طرح حیاکرو۔
صحابہ کرام نے عرض کیا:الحمدللہ! ہم اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ حیانہیں ہے بلکہ جس طرح حیاکاحق ہے اس طرح حیاہوناچاہیے، جواپنے سر کی اورجس کووہ شامل ہے اس کی حفاظت کرتاہے۔ جو اپنے شکم کی اورجواُس میں ہے اس کی حفاظت کرتاہے اور موت کی تیاری میں لگارہتا ہےاسی طرح تمام چیزوں میں حیا کرتا ہے وہی درحقیقت حیاوالاہے۔
تئیسواں خلق:لطف ونرمی
لطف ونرمی یہ ہے کہ مخلوق کے ساتھ آسانی کی جائے سختی نہ کی جائے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کابیان ہے کہ انھوں نے اپنے غلام کو بلایا لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری بار تیسری بار آواز دی،پھر خود ہی اٹھ کرگئے ،دیکھاکہ لیٹا ہوا ہے۔انھوں نے کہامیں تم کوبلارہاہوں مگر تم سن نہیں رہے ہو۔
اس نے جواب دیاکہ میں سن رہاہوں۔اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایاکہ پھرتم نے ایسا کیوں کیا کہ جواب نہیں دیا؟اس نے کہاکہ مجھ کو آپ طرف سےبالکل ہی کوئی خطرہ نہیں ہے، اس لیے میں نے جواب نہیں دیا۔
یہ سن کرحضرت علی نے فرمایاکہ میں نے تم کو آزاد کردیا۔
چوبیسواں خلق:خندہ روئی
بشروخندہ روئی یہ ہے کہ دل میں تکلیف اورمصیبت کے باوجود لوگوں کے سامنے تروتازگی کااظہار کیا جائے،چنانچہ بشر اور بشاشت قریب المعنی ہیں۔
پچیسواں خلق:کشادہ روئی
طلاقت یہ ہے کہ لوگوں سے گفتگوکے وقت کشادہ روئی کا اظہارکیاجائے، یعنی کسی کے سامنے سخت کلامی اوردرشت گوئی نہ کی جائے،اوراس طرح گفتگونہ کی جائے کہ وہ ناراض ہوجائے۔ بستان کے باب حسن معاشرت میں مذکورہے کہ آدمی کونرم ہونا چاہیے۔ بغیرکسی مداہنت کے ہرصالح وفاجر اور بدعتی کے ساتھ کشادہ روہوناچاہیے اورکوئی ایسی گفتگونہیں کرنی چاہیے جس سے مداہنت سے رضا جھلکتی ہو۔کہاگیاہے کہ تم لوگوں کی دل جوئی اورمدارت کروجب تک ان کے دار میں ہو، اورجب تک ان کی سرزمین میں ہواُن کو راضی رکھو۔
حق تعالیٰ نےحضرت موسیٰ اورحضرت ہارون سے فرمایا:
اخلاق حسنہ اوراس کی نوعیتیں
جامع شریعت وطریقت حضرت مخدوم شیخ سعدخیرآبادی(۹۲۲ھ)مریدوخلیفہ حضرت مخدوم شاہ مینالکھنوی (۸۸۴ھ) دسویں صدی ہجری کے عظیم فقیہ اور اعلیٰ صفت درویش گزرے ہیں۔اُنھوں نےآٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف متن تصوف ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ ازعلامہ قطب الدین دمشقی (۷۸۰ھ)کی عالمانہ وعارفانہ شرح لکھی اور اُس کا نام ’’مجمع السلوک‘‘ رکھا جو شریعت و طریقت کا عطرمجموعہ اور سالکین و طالبین کے لیے دستورالعمل ہے ۔
مولانا ضیاء الرحمن علیمی استاذجامعہ عارفیہ نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے،ان شاء اللہ بہت جلد شاہ صفی اکیڈمی سے شائع ہوگا۔اس کتاب سےچندایمان افروزاقتباسات پیش ہیں ۔ ( ادارہ)
پندرہواں خلق: مروت
مروت یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے ہرشخص کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے۔امام نصیرآبادی نے فرمایاکہ مروت وہ شان ہے جس کے سبب کونین سے بے نیازی کاجذبہ پیدا ہوتا ہے اورثقلین سے عار محسوس ہونے لگتاہے۔
کسی بزرگ کا قول ہے کہ مروت یہ ہے کہ اگرتم پرکسی نے احسان کیاہوتوتم بھی اس کے ساتھ احسان سے پیش آئو۔
سولہواں خلق:مودت
مودت یہ ہے کہ مخلوق کے ساتھ دوست کی طرح رہے، یعنی بظاہراُن کے ساتھ معاملہ اورتعلق رکھے تاکہ وہ یہ یقین رکھیں کہ یہ شخص ہم کوچاہتاہے، ہم سے محبت رکھتا ہے، ورنہ صوفی اللہ کے علاوہ کسی اورسے محبت نہیں رکھتا۔گویااللہ کی رضاکے لیے دوسروں سے بہ تکلف محبت رکھنے کانام مودت ہے ۔
حضرت ابوادریس خولانی نے حضرت معاذرضی اللہ عنہ سے کہاکہ میں آپ سے محبت رکھتاہوں۔ حضرت معاذنے فرمایاکہ مبارک ہو!اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ قیامت کے روز عرش کے چاروں طرف لوگوں کی ایک جماعت کے لیے کرسیاں لگائی جائیں گی،ان کے چہرے چودہویں کےچاندکی طرح روشن ہوں گے،اس روز سب لوگ خوف میں ہوں گے لیکن ان لوگوں کوکوئی خوف اور غم نہ ہوگا۔
صحابہ کرام نے سوال کیا:یارسول اللہ!یہ کون لوگ ہوں گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ یہ وہ لوگ ہوں گے جوآپس میں ایک دوسرے سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت رکھتے ہیں اوردوستوں کی طرح رہتے ہیں۔
حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے کہ ایک دوسرے کودوست رکھنے اورباہم محبت ورحمت کامظاہرہ کرنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کاکوئی حصہ تکلیف میں ہوتاہے تودوسرے اعضابھی بیداررہتے ہیں اور وہ بھی مضطرب وپریشان رہتے ہیں۔
چنانچہ جومومن کسی مومن سے دوستی اورمحبت کادعویٰ رکھتاہے اس کا دل بھی اس مومن بھائی کے مصائب وآلام میں گرفتار ہونے کی صورت میں دردمندہوجاتاہے۔ جوچیزاپنے لیے پسندنہیں کرتاوہ اس مومن بھائی کے لیے بھی پسند نہیں کرتا، اورجوچیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے مومن بھائی کے لیے پسند کرتاہے ،بلکہ اس کے لیے زیادہ بہتر پسندکرتاہے۔
سترہواں خلق:جودوکرم
جود وکرم جوان مرد ی کانام ہے،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کسی کی طرف سے اس پر کوئی احسان نہ ہو، اوراپنی طرف سے بھلائی کا اظہارنہ ہو،اور کسی بدلے کی امید میں کسی پرکوئی نوازش نہ کی جائے اور اس سے کسی قسم کی مدح وثنا کی بھی توقع نہ ہو۔
بزرگوں نے کہا ہے کہ کوئی چیز دینے میں کسی شخص کے درمیان کوئی تفریق نہ کی جائےکہ یہ مومن یہ کافر،مستحق ہے یا غیرمستحق۔ بعض کاقول ہے کہ جودوکرم یہ ہے کہ زیادہ دے اور تھوڑے پرنگاہ رکھے۔
اٹھارہواں خلق: عفو ودرگذر
عفویہ ہے کہ گناہ کودرگذرکردیاجائے،اورکسی کے گناہ کی جانب نظرنہ کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میںنے شب معراج میںجنت کے اندر بلندوبالا محلات دیکھے،چنانچہ میں نے کہاکہ اے جبرئیل! یہ محلات کس کے ہیں؟ جبرئیل نے جواب دیاکہ یہ محلات ان لوگوں کے لیے ہیں جوغصہ کوپی جاتے ہیں اورگنہ گاروںسے عفوو درگذر کامعاملہ کرتے ہیں،اس لیے کہ دوسروںکی غلطی کو معاف کردینا اوراُس کے کردہ کوناکردہ بنادینا،اس کے ساتھ اس طرح حسن سلوک سے پیش آناکہ ا س کے دل سے خوف دور ہوجائے،یہ نیک لوگوں کاکام ہے،یہ نیک نفس لوگوں کا عمل ہے،اس میں نفس وشیطان کی مخالفت ہے،اس طرح کا عمل پاک نفوس سے صادرہوتاہے،اس قسم کاعمل چنیدہ ذات سے ظاہر ہوتاہے،جس نے برائی کی ہواُس کے ساتھ حسن سلوک کرنااوربرائی کابدلہ نیکی سے دینا ایک عظیم نیکی ہے،یہ ایک اعلیٰ حسن عمل ہے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ساتھ ساتھ تھے۔ایک شخص آیا اوراُس نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کوگالی دیناشروع کردیا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہےاوررنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے۔لیکن تھوڑی دیربعد حضرت ابوبکر نے جواب دے دیا۔یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوگئے اوراُٹھ کرچلے گئے۔
حضرت ابوبکر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئے اورعرض کی:یارسول اللہ!اس شخص نے مجھ کوگالی دی توآپ تبسم فرماتے رہے،اورجب میں نے اس کاجواب دیا، توآپ ناراض ہوکرچلے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے ابوبکر!جس وقت تم خاموش تھے اورتم نے گالی کاجواب نہیںدیاتھا،اس وقت تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھاجوتمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہاتھا،پھرجب تم بول پڑے اوراُس کاجواب دے دیا توشیطان آگیااورجس جگہ شیطان ہو،وہاں میں کیسے رہ سکتا ہوں۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر! یہ جان لوکہ تین باتیں برحق ہیں:
جس بندے پرظلم کیاجاتا ہے اگروہ اس ظلم کو معاف کردیتاہے توحق تعالیٰ اس کواپنا عزیزبنالیتاہے۔
جوبندہ مال کی کثرت کے لیے دست سوال دراز کرتا ہے توحق تعالیٰ اس کے مال میں اورکمی فرمادیتاہے ۔
جوبندہ عطاونوازش اوردادودہش کادروازہ کھول دیتا ہے توحق تعالیٰ اس نوازش وعطاکے صدقے اس کے لیے کثرت وزیادتی کادروازہ کھول دیتاہے۔
روایت ہے کہ کل بروز قیامت منادی ندادے گاکہ وہ لوگ کہاں ہیں جن کااجرحق تعالیٰ کے ذمے ہے؟
یہ سن کر صرف وہ لوگ اٹھیں گے جنھوں نے غلطی کرنے والوں کو معاف کردیاہوگا۔
ایک بار حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ایک غلام سے پیالہ زمین پرگرگیا۔حضرت عثمان ناراض ہوئے،تو اس غلام نے
وَالْکَاظِمِیْنَ وَالْغَیْظَتلاوت کی۔یہ سن کر حضرت عثمان نے فرمایا:
(غصے کوپینے والے)
کَظَمْتُ غَیْظِیاورعفوودرگذر کی موتیاں چن لیں، اس غلام نےپھر
(میں نے غصے کوپی لیا)
وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِکی تلاوت کی۔ حضرت عثمان نےکہا:
عَفَوْتُ عَنْکَاس غلام نے پھر
(میں نے تم کومعاف کیا)
وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَکی تلاوت کی،اور آزادی کا پروانہ حاصل کرناچاہا،حضرت عثمان نے فرمایا:
أعْتَقْتُکَغصے کوپی جانا ایک عظیم الشان کام ہے، اس میں نفس کو دبانااورشیطان کے ساتھ جہادکرناہے،اس لیے کہ نفس ناراضگی کے اظہارپر اُکساتاہے اور شیطان ایذارسانی اورجانی تکلیف دینے پرابھارتاہےاور حقیقت میں مرد وہ ہے جونفس و شیطان پر غالب آجائے اور ان کی موافقت ومتابعت نہ کرے-
(میں نے تم کوآزاد کردیا)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
میری صحبت ومعیت ہوتے ہوئے بھی تم گذشہ اُمتوں کی طرح نہ بنو،کیوںکہ وہ لوگ کہتے تھےکہ اگرلوگ احسان کریں گے توہم بھی احسان کریںگے اوراگر لوگ ظلم کریں گے توہم بھی ظلم کریںگے۔ تم اپنے نفس کو نرمی سکھائو، جن کے ساتھ تم بھلائی کرو،اگروہ بھی بدلے میں تمہارے ساتھ برائی کریں تب بھی تم ظلم مت کروبلکہ ان کومعاف کردو۔کیوں کہ
مِنْ مَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ أنْ تَعْفُوَعَمَّنْ ظَلَمَکَ، وَتَصِلَ إلٰی مِنْ قَطَعَکَ ،وَتُعْطَی مَنْ حَرَمَکَ۔
ترجمہ:یہ مکارم اخلاق میں سےہے کہ جوتم پرظلم کرے تم اس کومعاف کردو،جوتم سے رشتہ توڑےاس سے تم رشتہ جوڑو،اورجوتم کومحروم رکھےاُس کوعطا کرو۔
اُنیسواں خلق:صفح
صفح یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کی غلطی معاف کرنے کے علاوہ اُس کے ساتھ حسن سلوک بھی کیاجائے،چنانچہ عفو عام ہے اورصفح خاص ۔
بیسواں خلق:سخاوت
سخاوت یہ ہے کہ مال کا ایک حصہ دے دیاجائے اور ایک حصےکی حفاظت کی جائے اورجود یہ ہے کہ اکثرمال دے دیاجائے اورکچھ مال بچاکررکھ لیاجائے،جیساکہ اس کو بیان کیاجاچکاہے،اورجوشخص کچھ بھی بچاکرنہ رکھے اورکل مال دے دے وہ صاحب ایثارہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ ایک دن نوے ہزاردرہم چاندی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آئی،آپ نے فرمایاکہ ان تمام درہموں کومسجدکے فرش پر بکھیردو۔ جب تک ان تمام درہموں کوحاجت مندوں اور مستحقین تک نہیں پہنچادیا اور راہِ الٰہی میں خرچ نہیں کردیا اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے نہیں اٹھے۔
البتہ! اس گفتگوسے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جود،سخاوت سے اعلیٰ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ سخاوت جودسے اعلیٰ اوراکمل ہے۔ کہاگیاہے کہ حق تعالیٰ سالک کوجب صوفی بناتاہے تواس کی طبیعت میں سخاوت ضرورڈال دیتاہے اورجس کی طبیعت میںسخاوت ہووہ جلدی صوفی بن جاتاہے،اس لیے کہ سخاوت ایک طبعی صفت ہے،سخاوت کے مقابلے میں نفس کی ایک دوسری صفت ’’شح‘‘ہے ،جب تک نفس پرتوجہ نہ ہو،نفس پاکیزہ نہ ہو اورخصائل حمیدہ تک نفس کی رسائی نہ ہوجائے ، اس وقت تک سخاوت کی صفت حاصل نہیں ہوگی۔
جودکے بالمقابل بخل ہے،جوداوربخل کسب اورعادت سے بھی حاصل ہوجاتاہے،لیکن سخاوت اورشح طبعی صفتیں ہیں، اگر نفس غالب ہوتوشح غالب ہوتاہے اوراگر روح غالب ہوتوسخاوت غالب ہوتی ہے ۔ سخاوت خاص ہے اورجودعام ، ہرسخی جواد ہے، لیکن ہرجواد سخی نہیں۔اللہ تعالیٰ کی ذات کو سخاوت کے ساتھ موصوف نہیں کیا جاتا،اس لیے کہ سخاوت طبیعت کانتیجہ ہے اوراللہ اس سے پاک ہے۔یہ بھی کہاگیا ہے کہ جود میں ریاکادخل زیادہ ہوتاہے، یوں ہی فوراًیابعد میں ملنے والے بدلےکی طلب ، لوگوں کی جانب سے تعریف وتوصیف اوراللہ کی طرف سے ثواب کی خواہش نگاہ میں ہوتی ہے،جب کہ سخاوت ان تمام چیزوں سے پاک ہوتی ہے،اسی لیے سخاوت اہل صفاکی صفت ہوتی ہے، اورایثار اہل انوار کی صفت ہوتی ہے،اور بذل ان سب سے عام ہے، سخاوت،جود سے اتم واکمل ہے اور ایثار سخاوت سے افضل واعلیٰ ۔
شحیح وبخیل کے درمیان فرق
البتہ! شح اوربخل کوبعض علمانے ہم معنی قرار دیاہے اور بعض نےفرق کیا ہے۔بعض کہتے ہیں کہ بخیل وہ ہے جواپنا مال نہ دے اورشحیح وہ ہے جوناحق غیرکامال حاصل کرنے کی فکر میں ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ بخیل وہ ہے جو خود کھائے لیکن دوسروں کونہ دے اورشحیح وہ ہے جو نہ خود کھائے اورنہ دوسروں کودے۔بعض کاقول ہے کہ بخیل وہ ہے جواُس چیز پر بخل کرے جواُس کے پاس ہے اورشحیح وہ ہے جو اُس چیز پربھی بخل کرےجواُس کے پاس ہےاوراُس چیزپر بھی جودوسرے کے پاس ہے ۔
اکیسواں خلق:وفا
وفایہ ہے کہ جس نے تم پراحسان کیاہوتم بھی اس پراس طرح احسان کروجس طرح اس کے لائق ہے،نہ کہ جس طرح تمہارے لائق ہے،اس طرح وفامروت سے خاص ہے۔
بائیسواں خلق:حیا
حیایہ ہے کہ نفس کوجس طرح بازرکھنے کاحق ہے اس طرح ان تمام چیزوں سے بازرکھاجائے جوشریعت وطریقت اورعادت ومروت کے لحاظ سے مذموم ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ ایک دن آپ نے اپنے اصحاب کرام سے فرمایاکہ حق تعالیٰ سے جس طرح حیاکرنے کاحق ہے اس طرح حیاکرو۔
صحابہ کرام نے عرض کیا:الحمدللہ! ہم اللہ تعالیٰ سے حیا کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ حیانہیں ہے بلکہ جس طرح حیاکاحق ہے اس طرح حیاہوناچاہیے، جواپنے سر کی اورجس کووہ شامل ہے اس کی حفاظت کرتاہے۔ جو اپنے شکم کی اورجواُس میں ہے اس کی حفاظت کرتاہے اور موت کی تیاری میں لگارہتا ہےاسی طرح تمام چیزوں میں حیا کرتا ہے وہی درحقیقت حیاوالاہے۔
تئیسواں خلق:لطف ونرمی
لطف ونرمی یہ ہے کہ مخلوق کے ساتھ آسانی کی جائے سختی نہ کی جائے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کابیان ہے کہ انھوں نے اپنے غلام کو بلایا لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری بار تیسری بار آواز دی،پھر خود ہی اٹھ کرگئے ،دیکھاکہ لیٹا ہوا ہے۔انھوں نے کہامیں تم کوبلارہاہوں مگر تم سن نہیں رہے ہو۔
اس نے جواب دیاکہ میں سن رہاہوں۔اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایاکہ پھرتم نے ایسا کیوں کیا کہ جواب نہیں دیا؟اس نے کہاکہ مجھ کو آپ طرف سےبالکل ہی کوئی خطرہ نہیں ہے، اس لیے میں نے جواب نہیں دیا۔
یہ سن کرحضرت علی نے فرمایاکہ میں نے تم کو آزاد کردیا۔
چوبیسواں خلق:خندہ روئی
بشروخندہ روئی یہ ہے کہ دل میں تکلیف اورمصیبت کے باوجود لوگوں کے سامنے تروتازگی کااظہار کیا جائے،چنانچہ بشر اور بشاشت قریب المعنی ہیں۔
پچیسواں خلق:کشادہ روئی
طلاقت یہ ہے کہ لوگوں سے گفتگوکے وقت کشادہ روئی کا اظہارکیاجائے، یعنی کسی کے سامنے سخت کلامی اوردرشت گوئی نہ کی جائے،اوراس طرح گفتگونہ کی جائے کہ وہ ناراض ہوجائے۔ بستان کے باب حسن معاشرت میں مذکورہے کہ آدمی کونرم ہونا چاہیے۔ بغیرکسی مداہنت کے ہرصالح وفاجر اور بدعتی کے ساتھ کشادہ روہوناچاہیے اورکوئی ایسی گفتگونہیں کرنی چاہیے جس سے مداہنت سے رضا جھلکتی ہو۔کہاگیاہے کہ تم لوگوں کی دل جوئی اورمدارت کروجب تک ان کے دار میں ہو، اورجب تک ان کی سرزمین میں ہواُن کو راضی رکھو۔
حق تعالیٰ نےحضرت موسیٰ اورحضرت ہارون سے فرمایا:
فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّیِّنًا (طہ۴۴)نہ تم موسیٰ وہارون سے افضل داعی ہو، اورنہ تمہارا مدعو فرعون سے زیادہ خبیث ۔(باقی آئندہ)
یعنی تم دونوں اُن سے نرم گفتگوکرنا۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں