Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-Nov-2015➤
Makhdoom Sheikh Saad Khairabadi Download_Pdf
یوم عاشورا کی تحقیق
’’بستان الفقیہ ابواللیث‘‘میں ہےکہ محرم کو محرم اس لیے کہا گیاکہ اس مہینےمیں زمانۂ جاہلیت میں جنگ حرام تھی۔ ’’شرحِ اوراد‘‘میں ہےکہ یوم عاشوراکے سلسلےمیں اختلاف ہے۔عاشوراکو عاشوراکہنے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ رب العزت نے اس دن دس انبیا کودس کرامتیں عطا فرمائیں، وہ انبیایہ ہیں:آدم،ادریس،نوح،یونس، ایوب، یوسف، موسیٰ، عیسیٰ، ابراہیم اورمحمدصلوات اللہ علیہم اجمعین۔
’’السامی من الاسامی‘‘ میں ہےکہ نویں محرم کو’’تاسوعا‘‘ اور دسویں محرم کو’’عاشورا‘‘کہتے ہیں۔
’’تجنیس‘‘میں ہےکہ محرم کا دسواں دن عاشورا ہے، ایسا ہی حضرت قتادہ،حضرت حسن اورحضرت سعیدرضی اللہ عنہم سے منقول ہے،اوراِس سلسلے میںان لوگوں سے ایک مرفوع حدیث بھی مروی ہے۔
’’تنبیہ الفقیہ ابواللیث‘‘میں ہےکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیںکہ عاشورا نومحرم ہے،جب کہ بعض علمائے کرام نے فرمایاہےکہ گیارہ محرم عاشوراہے۔ لیکن اکثرعلماکا یہی قول ہے کہ دس محرم عاشورا ہے۔
’’یواقیت المواقیت‘‘میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوعاً روایت ہے کہ یوم عاشورانویں محرم ہے۔
حضرت حسن اورحضرت ابوسفیان سے منقو ل ہے کہ وہ دونوںدسویں دن کوعاشوراکہتےتھےاوراُن ہی دونوں کے مطابق عام روایات ہیں اوراکثر احادیث مروی ہیں جب کہ پہلی والی روایت شاذہے۔
عاشورا کے روزے
’’عوارف‘‘ میں ہےکہ محرم کے دس دنوں کاروزہ مستحب ہے،اور’’ریاحین‘‘میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
حضرت عبداللہ ابن عباس نے جواب دیا:
’ملتقط‘‘میں ہےکہ عاشورا سے ایک دن قبل ( ۹؍کو) بھی روزہ رکھنا مستحب ہے تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو۔
’’شرعۃ‘‘میں ہےکہ یوم عاشوراکے ساتھ نویں محرم یا گیارہویں محرم کے دن بھی روزے رکھے، تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو۔
عاشوراکے دن سرمہ لگانا
عاشورا کےدن سرمہ لگانا بعض لوگوں کے نزدیک سنت ہے،اوربعض اُسے بدعت اورمکروہ قراردیتے ہیں،جب کہ سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایساہی ذخیرہ میں ہے، بلکہ سرمہ لگانامستحب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ایک قول کے مطابق سنت ہے،مثلا:
’’ والجیہ‘‘میں ہےکہ عاشورا کے دن سرمہ لگانا مکروہ ہے، اس لیے کہ یزید بن زیادنے امام حسین رضی اللہ عنہ کے خون سے سرمہ لگایا،اور’’ جوامع الفقہ‘‘میںہے کہ عاشورا کے دن سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں اوریہی مختارہے ،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہانے عاشورا کے دن سرمہ لگایا۔
لیکن اب چوںکہ ایسا کرنابغض اہل بیت کی علامت ہے،اس لیے اس کاترک واجب ہے۔
قنیہ میں ہے اوراکابرمیں سے کسی کایہ قول بھی ہے:
۱۔ روزہ رکھو
۲۔نمازاداکرو
۳۔یتیموں کے سرپر شفقت کاہاتھ پھیرو
۴۔غسل کرو
۵۔صلح کرو
۶۔بیماروں کی عیادت کرو
۷۔اپنے اہل وعیال کوپیٹ بھرکھلاؤ
۸۔اپنے علماکی زیارت کرو
۹۔دعاکرو
۱۰۔سرمہ لگائو۔
مشائخ کااس پراتفاق ہے کہ اثمدلگانے میں کوئی حرج نہیں،ایساہی ذخیرہ میں بھی ہے۔
اثمدایک پتھرہے جس کا سرمہ استعمال کیا جاتاہے، ایسا ہی صحاح میں ہے۔پھراِس پربھی مشائخ کرام کااتفاق ہے کہ اگرزینت مقصود ہوتوسیاہ سرمہ لگانا مکروہ ہے،اور اگر زینت مقصودنہ ہوتوایسی صورت میں اختلاف ہے،لیکن عام مشائخ کاقول ہے کہ مکروہ نہیں ہے۔
واضح ہوکہ عاشوراکے دن جومختلف اناج کاکھچڑاپکایا جاتاہےیہ جائزہے۔ قنیہ میںہےکہ عاشورا کے روز کھچڑا کے سلسلے میں کوئی مضبوط دلیل آثارسے نہیں ہے،لیکن اس میں حرج نہیں ہےبلکہ ثواب کی اُمیدہے۔
ملفوظ حضرت مخدوم شاہ مینا:
پیردستگیرقطب عالم فرماتے تھےکہ جب حضرت نوح علیہ السلام طوفان کے بعد کشتی سے نیچے اترے توآپ نے فرمایاکہ غلہ کی جنس سے جس کے پاس جوکچھ بچاہووہ لےکر آئے۔سب لوگ لے کرآئے،تمام قسم کے دانوں کوایک جگہ جمع کرکےپکایاگیا،وہ دن عاشورا کا دن تھا،اس طرح کھچڑا پکانا حضرت نوح علیہ السلام کی سنت ہے۔
عاشورا کے نوافل ودعا
’’اوراد‘‘میں لکھاہے کہ عاشوراکے دن جب سورج بلند ہوجائے تودورکعت نماز اداکرے۔ پہلی رکعت میںسورۂ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی اوردوسری رکعت میں سورۂ حشر کی آخری آیتیں پڑھے،اورسلام کے بعد درود پڑھے پھریہ دعاپڑھے:
سوال:جب تخلیق اول کے وقت یوم عاشورا موجودہی نہیں تھاپھرخَلَقْتَ أَوَّلَ مَاخَلَقْتَ فِی ھٰذَاالْیَوْمِ۔(اس دن تونے سب سے پہلے پیداکیا جوتونےپیداکیا)کہناکیسے درست ہوسکتاہے؟
جواب:وجودسے قبل عدم کاجوامتدادوتسلسل ہے،اس میں مقدرایام جواللہ کے لیے معلوم وممیزہیں،ممکن ہے ان ہی میں عاشورا ہو۔ چنانچہ یہ بعید نہیں ہے کہ وجود میں آنے والے ایام میں یوم عاشورا کوہی سلسلۂ وجود کی ابتدا ہوئی ہو۔حضرت شیخ شہاب الدین کابھی یہی موقف ہے۔
’’اوراد‘‘میں لکھاہےکہ جوشخص عاشورا کے دن یہ دعاپڑھ لے،اس کواُس سال موت نہیں آئے گی اوراگرموت آنے والی ہوگی تواُسےیہ دعا پڑھنے کی توفیق نہیں ہوگی:
ایساہی مصابیح کی شرح مفاتیح میں ہے۔ (ماخوذازمجمع السلوک شرح الرسالۃ المکیۃ )
یوم عاشورا کی تحقیق
’’بستان الفقیہ ابواللیث‘‘میں ہےکہ محرم کو محرم اس لیے کہا گیاکہ اس مہینےمیں زمانۂ جاہلیت میں جنگ حرام تھی۔ ’’شرحِ اوراد‘‘میں ہےکہ یوم عاشوراکے سلسلےمیں اختلاف ہے۔عاشوراکو عاشوراکہنے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ رب العزت نے اس دن دس انبیا کودس کرامتیں عطا فرمائیں، وہ انبیایہ ہیں:آدم،ادریس،نوح،یونس، ایوب، یوسف، موسیٰ، عیسیٰ، ابراہیم اورمحمدصلوات اللہ علیہم اجمعین۔
’’السامی من الاسامی‘‘ میں ہےکہ نویں محرم کو’’تاسوعا‘‘ اور دسویں محرم کو’’عاشورا‘‘کہتے ہیں۔
’’تجنیس‘‘میں ہےکہ محرم کا دسواں دن عاشورا ہے، ایسا ہی حضرت قتادہ،حضرت حسن اورحضرت سعیدرضی اللہ عنہم سے منقول ہے،اوراِس سلسلے میںان لوگوں سے ایک مرفوع حدیث بھی مروی ہے۔
’’تنبیہ الفقیہ ابواللیث‘‘میں ہےکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیںکہ عاشورا نومحرم ہے،جب کہ بعض علمائے کرام نے فرمایاہےکہ گیارہ محرم عاشوراہے۔ لیکن اکثرعلماکا یہی قول ہے کہ دس محرم عاشورا ہے۔
’’یواقیت المواقیت‘‘میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوعاً روایت ہے کہ یوم عاشورانویں محرم ہے۔
حضرت حسن اورحضرت ابوسفیان سے منقو ل ہے کہ وہ دونوںدسویں دن کوعاشوراکہتےتھےاوراُن ہی دونوں کے مطابق عام روایات ہیں اوراکثر احادیث مروی ہیں جب کہ پہلی والی روایت شاذہے۔
عاشورا کے روزے
’’عوارف‘‘ میں ہےکہ محرم کے دس دنوں کاروزہ مستحب ہے،اور’’ریاحین‘‘میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
مَنْ صَامَ آخَرَ یَوْمِ ذِی الْحِجَّۃِ وَأَوَّلَ یَوْمٍ مِنَ الْمُحَرَّمِ فَقَدْخَتَمَ السَّنَۃَالْمَاضِیَّۃَ بِصَوْمٍ، وَفَتَحَ السَّنَۃَ الْمُسْتَقْبِلَۃَ بِصَوْمٍ وَجَعَلَ اللہُ لَہٗ کَفَّارَۃَ خَمْسِیْنَ سَنَۃً۔ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیااوربولاکہ اے ابن عم رسول اللہ !عاشوراکب ہے؟
ترجمہ:جس نے ذی الحجہ کے آخری اورمحرم کے پہلے دن کاروزہ رکھاگویااُس نے گزشتہ سال کوروزے پرختم کیااور آنے والے سال کاروزے سے آغاز کیا۔چنانچہ اس روزے کواللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے پچاس سال کاکفارہ بنادےگا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس نے جواب دیا:
إِذَارَأَیْتَ ھٰذَاالْمُحَرَّمَ فَصُمِ الْیَوْمَ الَعَاشِرَمِنْہُ فَإِنَّہٗ یَوْمُ عَاشُوْرَاءَ، فَقَالَ السَّائِلُ أَھٰکَذَاکَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَصُوْمُ ؟ قَالَ: نَعْمْ۔’’تحفہ‘‘میں ہےکہ صرف عاشوراکے دن(دسویں)کا روزہ بعض علمائے کرام کے نزدیک مکروہ ہے کہ اس میں یہودیوں سے مشابہت ہے۔ ’
ترجمہ:جب ماہ محرم آئے تواُس کےدسویںدن روزہ رکھو،اس لیے کہ وہ یوم عاشورا ہے۔سائل نے پوچھاکہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح روزہ رکھتے تھے؟ اس پر اُنھوںنے جواب دیاکہ ہاں!
’ملتقط‘‘میں ہےکہ عاشورا سے ایک دن قبل ( ۹؍کو) بھی روزہ رکھنا مستحب ہے تاکہ اہل کتاب کی مخالفت ہو۔
’’شرعۃ‘‘میں ہےکہ یوم عاشوراکے ساتھ نویں محرم یا گیارہویں محرم کے دن بھی روزے رکھے، تاکہ یہودیوں کی مخالفت ہو۔
عاشوراکے دن سرمہ لگانا
عاشورا کےدن سرمہ لگانا بعض لوگوں کے نزدیک سنت ہے،اوربعض اُسے بدعت اورمکروہ قراردیتے ہیں،جب کہ سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایساہی ذخیرہ میں ہے، بلکہ سرمہ لگانامستحب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
مَنْ إِکْتَحَلَ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ بِالْأَثْمَدِ لِلرَّوْحِ لَنْ تَرْمَدَ عَیْنَاہُ أَبَدًا۔ایک قول کے مطابق عاشوراکے دن سرمہ لگانامکروہ ہے۔
ترجمہ:جس نے عاشورا کے دن آنکھوں کے آرام کے لیے اثمد کاسرمہ لگایااس کوکبھی آشوبِ چشم نہیں ہوگا۔
ایک قول کے مطابق سنت ہے،مثلا:
’’ والجیہ‘‘میں ہےکہ عاشورا کے دن سرمہ لگانا مکروہ ہے، اس لیے کہ یزید بن زیادنے امام حسین رضی اللہ عنہ کے خون سے سرمہ لگایا،اور’’ جوامع الفقہ‘‘میںہے کہ عاشورا کے دن سرمہ لگانے میں کوئی حرج نہیں اوریہی مختارہے ،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہانے عاشورا کے دن سرمہ لگایا۔
لیکن اب چوںکہ ایسا کرنابغض اہل بیت کی علامت ہے،اس لیے اس کاترک واجب ہے۔
قنیہ میں ہے اوراکابرمیں سے کسی کایہ قول بھی ہے:
ترجمہ:اے میری قوم!عاشوراکے دن اِن دس باتوں کو لازم پکڑو:عَلَیْکُمْ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ قَوْمِیبِأَنْ تَاتُوْا بِعَشَرٍ مِنْ خِصَالٍبِصَوْمٍ وَالصَّلٰوۃِ وَ مَسَحِ أَیْدٍعَلٰی رَأْسِ الْیَتِیْمِ وَاغْتِسَالِوَصُلَحٍ وَالْعَیَادَۃِ لِلْأَعْلَّاءِوَتَوْسِیْعِ الطَّعَامِ عَلَی الْعَیَالِوَثَامِنُھُمْ زِیَارَۃُ عَالِمِیْکُمْوَتَاسِعُھَا الدُّعَاءُ مَعَ اِکْتِحَالِ
۱۔ روزہ رکھو
۲۔نمازاداکرو
۳۔یتیموں کے سرپر شفقت کاہاتھ پھیرو
۴۔غسل کرو
۵۔صلح کرو
۶۔بیماروں کی عیادت کرو
۷۔اپنے اہل وعیال کوپیٹ بھرکھلاؤ
۸۔اپنے علماکی زیارت کرو
۹۔دعاکرو
۱۰۔سرمہ لگائو۔
مشائخ کااس پراتفاق ہے کہ اثمدلگانے میں کوئی حرج نہیں،ایساہی ذخیرہ میں بھی ہے۔
اثمدایک پتھرہے جس کا سرمہ استعمال کیا جاتاہے، ایسا ہی صحاح میں ہے۔پھراِس پربھی مشائخ کرام کااتفاق ہے کہ اگرزینت مقصود ہوتوسیاہ سرمہ لگانا مکروہ ہے،اور اگر زینت مقصودنہ ہوتوایسی صورت میں اختلاف ہے،لیکن عام مشائخ کاقول ہے کہ مکروہ نہیں ہے۔
واضح ہوکہ عاشوراکے دن جومختلف اناج کاکھچڑاپکایا جاتاہےیہ جائزہے۔ قنیہ میںہےکہ عاشورا کے روز کھچڑا کے سلسلے میں کوئی مضبوط دلیل آثارسے نہیں ہے،لیکن اس میں حرج نہیں ہےبلکہ ثواب کی اُمیدہے۔
ملفوظ حضرت مخدوم شاہ مینا:
پیردستگیرقطب عالم فرماتے تھےکہ جب حضرت نوح علیہ السلام طوفان کے بعد کشتی سے نیچے اترے توآپ نے فرمایاکہ غلہ کی جنس سے جس کے پاس جوکچھ بچاہووہ لےکر آئے۔سب لوگ لے کرآئے،تمام قسم کے دانوں کوایک جگہ جمع کرکےپکایاگیا،وہ دن عاشورا کا دن تھا،اس طرح کھچڑا پکانا حضرت نوح علیہ السلام کی سنت ہے۔
عاشورا کے نوافل ودعا
’’اوراد‘‘میں لکھاہے کہ عاشوراکے دن جب سورج بلند ہوجائے تودورکعت نماز اداکرے۔ پہلی رکعت میںسورۂ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی اوردوسری رکعت میں سورۂ حشر کی آخری آیتیں پڑھے،اورسلام کے بعد درود پڑھے پھریہ دعاپڑھے:
یَاأَوَّلَ الَأَوَّلِیْنَ، یَاآخِرَالْآخَرِیْنَ، لَاإِلٰہَ إِلَّاأَنْتَ، خَلَقْتَ أَوَّلَ مَاخَلَقْتَ فِی ھٰذَاالْیَوْمِ، وَتَخْلُقُ آخَرَمَاتَخْلُقُ فِی ھٰذَاالْیَوْمِ،أَعْطِنِیْ فِیْہِ خَیْرَمَاأَوَلَیْتَ فِیْہِ أَنْبِیَائَکَ وَأصْفِیَائَکَ مِنْ ثَوَابِ الْبَلَایَا، وَأکْسِنِیْ مَاأَعْطَیْتَھُمْ فِیْہِ مِنَ الْکَرَامَۃِ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُآخرتک پوری دعا پڑھے ۔
سوال:جب تخلیق اول کے وقت یوم عاشورا موجودہی نہیں تھاپھرخَلَقْتَ أَوَّلَ مَاخَلَقْتَ فِی ھٰذَاالْیَوْمِ۔(اس دن تونے سب سے پہلے پیداکیا جوتونےپیداکیا)کہناکیسے درست ہوسکتاہے؟
جواب:وجودسے قبل عدم کاجوامتدادوتسلسل ہے،اس میں مقدرایام جواللہ کے لیے معلوم وممیزہیں،ممکن ہے ان ہی میں عاشورا ہو۔ چنانچہ یہ بعید نہیں ہے کہ وجود میں آنے والے ایام میں یوم عاشورا کوہی سلسلۂ وجود کی ابتدا ہوئی ہو۔حضرت شیخ شہاب الدین کابھی یہی موقف ہے۔
’’اوراد‘‘میں لکھاہےکہ جوشخص عاشورا کے دن یہ دعاپڑھ لے،اس کواُس سال موت نہیں آئے گی اوراگرموت آنے والی ہوگی تواُسےیہ دعا پڑھنے کی توفیق نہیں ہوگی:
بِسْمِ ﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ،سُبْحَانَ اللہِ مَلَأ الْمِیْزَانِ وَمُنْتَھَی الْعِلْمِ وَمَبْلَغُ الرَّضَاءِ وَزِنَۃُ الْعَرْشِ،لَامَلْجَأَ وَلَامَنْجَاَ مِنَ ﷲِ إِلَّاإِلَیْہِ، سُبْحَانَ اللہِ عَدَدَالشَّفَعِ وَالْوَتَرِ، عَدَدَکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ أَسْأَلُہُ السَّلَامَۃَ بِرَحْمَتِہٖ وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ إِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ،وَھُوَحَسَبِیْ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ،نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ،وَصَلَّی اللہُ عَلٰی خَیْرِخَلْقِہٖ مُحَمَّدٍوَّآلِہٖ أَجْمَعِیْنَ۔اس دعامیں مَلْجَأَ ہمزہ کے ساتھ ہے،اورمَنْجَاَ بغیر ہمزہ کے ہے،اس میں میم یاتومصدری ہے،یامکان کوبتانے کے لیے ہے،اور نَجَایَنْجُوْ سے مشتق ہے،مَلْجَأَمیں بھی میم یاتومصدری ہے،یالَجَأَیَلْجَأُسے ظرف مکان ہے،یہ اس وقت بولاجاتاہےجب کہ کوئی کسی کے پاس سے بھاگ کے کسی کے گوشۂ امان میں پناہ لے لے،اوردونوں کےمعنی یہ ہیں کہ تیری بارگاہ کے علاوہ تیرے عذاب سے بھاگنے کی اور نجات و قرار کی کوئی اور جگہ نہیں ہے۔
ایساہی مصابیح کی شرح مفاتیح میں ہے۔ (ماخوذازمجمع السلوک شرح الرسالۃ المکیۃ )
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں