Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-oct-2015➤
Sheikh Muhammad Bin Munawwar Download_Pdf
اے میرے جانوروں کی ماں اور ذلیلوں کی جماعت! ارے ارے ! ان کے سر اور گردن تو دیکھو ایسے ہیں جیسے چارہ کھانے والےدُنبے۔
اسی طرح اوربھی بُری بُری گالیاں دینے لگا اور وہ یہ سمجھتا رہا کہ کوئی بھی اُن گالیوں کو نہیں سن رہا ہے ۔مگر شیخ قدس سرہٗ نے اپنی ایمانی فراست سے اُسے سمجھ لیا اور آگاہ ہوگئے، چنانچہ حسن مؤدب کو بلا کر کہا کہ حسن! جاؤاور اُس قصاب کو بلا لاؤ۔
حضرت حسن، قصاب کے پاس پہنچے اور اُس سےکہا کہ تمھیں شیخ یاد فرمارہے ہیں، اتنا سننے ہی قصاب خوف زدہ ہوگیا اور لرزاں و ترساں شیخ کے پا س پہنچا ۔
ادھرشیخ ایک صوفی کوپہلے ہی حمام بھیج چکے تھے ، حسن مؤدب کے آنے کے بعداُن سے کہا کہ قصاب کو حمام لے جاؤ،حضرت حسن قصاب کو حمام لےگئے ۔
پھر شیخ نے کہا کہ حسن!باز ار چلے جاؤ اور وہاں سے ایک باریک سوتی کپڑا ، ایک جوڑی جوتی، اور ایک طبری عمامہ خرید لاؤ، پھر ان چیزوں کو حمام لے جانا مگر اس سے پہلے دو صوفیوں کو حمام روانہ کر دو تاکہ اُس کو عمدہ طریقے سے نہلا دیں۔ حضرت حسن دو صوفیوں کو قصاب کی خدمت کے لیے حمام روانہ کر کے خود بازار چلے گئے اور شیخ نےجوکچھ خریدنے کے لیے کہا تھاوہ سب خرید کر لے آئے ۔
شیخ نے صوفیوں کی جماعت سے کہا کہ ان کپڑوں کو جلدی سے سی لو تاکہ قصاب کے لیے تہہ بند اورکُرتا تیار ہوجائے ۔ جب کپڑے سل گئے تو شیخ نے کہا کہ اسے اٹھا ؤ اور قصاب کو زیب تن کر ادو ، اُسے سود رہم بھی دےدو اوراُس سے کہو کہ وہ پہلے جوکچھ بک رہا تھاوہ پھر سے بولے، مزید اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ جب یہ پیسے ختم ہو جائے تو پھر آکر لے لے۔
حسن مؤدب نے شیخ کے فرمان کے مطابق قصاب سے ایسا ہی سلوک کیا ، قصاب نے جب شیخ ابوسعید کے اچھے اور بلنداخلاق کو دیکھا ،تووہ آہ و بکا کرتے ہوئے شیخ کے قدموں پر گر گیا، پھر اُس نے توبہ کی ، حلقۂ ارادات میں شامل ہوا، اور صوفیائے کرام کا زبردست معتقد ہو گیا۔
میں روزانہ اوقاتِ درس سے فراغت کے بعد شیخ کی خدمت میں حاضر ہوتااور ظہر کی نماز تک وہیں ٹھہرا رہتا ،جب ظہر کی نماز ہو جاتی توواپس مدرسہ آجاتا ۔
ایک دن معمول کے مطابق میں شیخ کی خدمت میں پہنچا ، شیخ نے اپنے جانمازکےنیچے سے ایک مشت کشمش نکالا اور فرمایاکہ فتوحات حاصل ہوئے ہیں، انھوں نے ’’طرسوس‘‘ کا معرکہ جیت لیا ہے ،میں تم لوگوں کا حصہ رکھے ہواہوں ،اس کشمش میں سے ہر ایک کاحصہ سات سات دانے ہیں۔
فاضل محمدبیان کرتے ہیں کہ مدرسہ میں میرے دو ساتھی اور بھی تھے مگر شیخ نے تین لوگوں کا حصہ ہمیں دیا، میں سلام کرنے کے بعد خانقاہ سے باہر آیا اور مدرسہ کے لیے روانہ ہوگیا،راستے میں ایک بارپھر اس دانے کو شمار کیا تووہ تین لوگوں کا حصہ تھا۔
میں مدرسہ پہنچا تو دیکھا کہ میرے ایک ساتھی کا بھائی عراق سے پہنچا ہواہے اورمیرے کمرے میں بیٹھا ہواہے، میں اندر گیااور خبرخیریت دریافت کی،پھر اُس کشمش کو تقسیم کیا توشیخ کے فرمان کے مطابق سب کے حصے میں ٹھیک سات سات دانےآئے۔
اب میرا حال یہ ہو گیا کہ سارادن اسی انتظار میں رہتاکہ شیخ کب اپنے حجرے سے باہر تشریف لائیں اور میں ان کی زیارت سے اپنی بے قراری کو تسکین دوں، اور میں ان کے غلاموں میں خفیہ طور سے شامل ہوجاؤں،چوں کہ میرا گمان یہ تھا کہ شیخ مجھے نہیں پہچانتے ۔
ایک دن میں اپنے مدرسے کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ یکبارگی شیخ ابوسعیدکے دیدار کی طلب دل میں پیدا ہوئی، مگر وہ وقت شیخ کے باہر تشریف لانے کا نہ تھا، میں نے صبر کرنا چاہا لیکن صبرنہ کر سکا ،بالآخر اٹھ کر باہر آگیا، جب میں دیوانہ وار گھومتے گھومتے چوراہے پر پہنچاتو دیکھا کہ شیخ ایک جم غفیر کے ساتھ کسی مجلس کی طرف جا رہے ہیں ،میں وارفتگی کے عالم میں ان کے ساتھ ہولیا، شیخ اپنی جماعت کے ساتھ اس سرائے میںداخل ہوئے جہاں مجلس منعقد کی گئی تھی، میں بھی ان کے ساتھ اندر داخل ہو گیا اور ایک گوشے میں اس طرح بیٹھ گیا کہ شیخ کی نظر مجھ پر نہ پڑے،جب سماع کا آغاز ہوا تو شیخ کی حالت میں انبساط پیدا ہو ا،اور اُن پر کیفیت طاری ہوگئی ، انھوں نے اپنا کپڑا چاک کرلیا،جب سماع سے فارغ ہوئے تو اپنا جامہ اتار کر اُس کا اگلا حصہ چاک کیا اور ایک آستین چاقو سے کاٹ کر الگ کر دی، پھر بلند آواز سے فرمایا: اے ابو علی طوسی! تم کہاں ہو ؟ میں نے دل میں سوچاکہ شیخ نہ مجھے جانتے ہیں اور نہ مجھے دیکھ رہے ہیں۔میں نےاس خیال سے کوئی جواب نہیں دیا کہ ممکن ہے شیخ کے کسی اورمرید کا نام بھی ابو علی ہو،شیخ نے دوبارہ اسی طرح پکارا،اس باربھی میں خاموش رہا، تیسری بار جب شیخ نے پکارا تو لوگ مجھ سے کہنے لگے کہ شاید شیخ تمھیں ہی بلا رہے ہیں،آخر کار میں اٹھ کر شیخ کی خدمت میں پہنچا، شیخ نے اپنا وہ چاقو اور بُریدہ آستین مجھے عنایت فرمائی اور کہا کہ تم ہمارے لیے آستین اور چاقو کی طرح ہو، میں نے وہ کپڑا لے لیا،اُسے بوسہ دیا اور نہایت حفاظت کے ساتھ اپنے پاس رکھ لیا۔اس طرح میں ہمیشہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہو ا کرتاتھا، ان کی خدمت سے مجھ کو بہت فائدہ پہنچا اوربہت سےفیوض و برکات حاصل ہوئے۔
جب شیخ ابوسعیدنیشاپور سے رخصت ہو گئے تومیں استاذ ابوالقاسم قشیری کی بارگاہ میں حاضر ہوا،اورجو کچھ احوال مجھ پر ظاہر ہوتے میں ان سے بیان کردیاکرتا۔
یہ سن کروہ مجھ سے کہاکرتے کہ بیٹا! جاؤ اور تحصیل علم میں مشغول رہو، دوتین سال تک میں تحصیل علم میں مصروف رہا، پھر ایک دن کا واقعہ ہے کہ جب میں نے دوات سے قلم نکالا تو اس سےسفید ی نکلی،تین مرتبہ میں نے ایساہی کیا، پھر بھی سفیدی ہی ظاہر ہوئی۔یہ دیکھ کرمیں استاذ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اُن سے یہ ماجرا بیان کیا، انھوں نے کہاکہ جب علم نے تم سے علیٰحدگی اختیار کر لی تو تم بھی علم سے الگ ہو جاؤ،اور مجاہد، ریاضت اور طریقت کے کام میں لگ جاؤ۔میں وہاں سے مدرسہ آگیا اور اپنا تمام سامان اٹھالایا،اُسے استاذ کی خانقاہ میں رکھ دیا اور اُنھیں کی خدمت میں رہنے لگا۔ ایک دن استاذ قشیری حمام میں تشریف لے گئے، میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے چل دیا اور چند ڈول پانی اُن کے بدن پر ڈالا، غسل سے فراغت کے بعد استاذ باہر تشریف لائے،نماز ادا فرمائی، پھر دریافت کیاکہ کون تھا جس نے حمام میں مجھ پر چند ڈول پانی ڈالا تھا ، میں اس خوف سے خاموش رہا کہ شاید مجھ سے کوئی بے ادبی ہو گئی ہے ، آپ نے دوبارہ یہی سوال کیا، میں پھربھی خاموش رہا، پھر جب تیسری بار استاذنے دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ حضور! میں تھا ۔
یہ سن کر استاذ ابوالقاسم نے کہاکہ اے ابوعلی!جو کچھ ابوالقاسم نے ستر سال میں حاصل نہ کیا وہ تم نے ایک ڈول میں حاصل کرلیا۔
اس کے بعدبھی میں ایک عرصے تک استاذ کی خدمت میں مجاہدہ کرتا رہا۔ایک دن دورانِ مجاہدہ مجھ پر عجیب و غریب حالت طاری ہوئی اور میں اسی میں گم ہو گیا۔
اس واقعے کو میں نے استاذ سے بیان کیا تو انھوں نے کہاکہ اے ابو علی! میری رسائی یہاں سے آگے نہیں ہے، اس سے اوپر کی راہ مجھے معلوم نہیں ہے، میں نے دل میں سوچا کہ مجھے اب ایسے مرشد کی ضرورت ہے جو مجھے اس مقام سے آگے لے جائے ۔ میں نےشیخ ابوالقاسم جرجانی کا نام سن رکھا تھا، چنانچہ میں نے اپناسامانِ سفر باندھا اور طوس کے لیے روانہ ہوگیا۔مجھے ان کی صحیح قیام گاہ معلوم نہ تھی،اس لیے طوس پہنچنے پرجب لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ کہاں رہتے ہیں تومعلوم ہواکہ وہ محلہ رود بار کی ایک مسجد میں اپنے مریدوں کے ساتھ رہتےہیں، میں اس مسجد میں پہنچا تو دیکھا کہ شیخ ابوالقاسم بیٹھے ہوئے ہیں، پہلے میں نے دورکعت تحیۃ المسجد ادا کیا، پھر اُن کی خدمت میں پہنچا،وہ اس وقت سر جھکائے تھے، میرے پہنچنے پر اپنا سر اٹھایا اورکہاکہ ابوعلی !آؤ آؤ! کہو کیا حال ہے ؟
میں سلام عرض کر کے بیٹھ گیا اور اپنی تما م سر گذشت بیان کردی ، میرے حالات سننے کے بعد انھوں نے کہاکہ تمہارا آغاز بہت اچھا ہے، لیکن ابھی تم کسی درجے پر نہیں پہنچے ہو،ہاں! اگر تمہاری تربیت کی جائے تو تم عظیم مرتبےپر فائز ہوجاؤگے، اس وقت میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میرے مطلوب مرشد یہی ہیں، چنانچہ میں نے وہیں سکونت اختیار کرلی، عرصۂ دراز کے بعدایک مجلس منعقد فرمائی ،جس میں مجھ پر اسرار و رموز منکشف ہو گئے ۔
خواجہ ابو نصر عیاض بیان کرتے ہیں کہ ابھی میرے دل میں یہ اندیشہ گذرا ہی تھا کہ شیخ ابوسعید نے اسی وقت منبرسے یہ فرمایا:
’’آنا چاہیے۔‘‘
یہ سن کرمیں حیرت میں پڑ گیاکہ یہ اندیشہ تو میرے دل میں پیداہو اتھا، شیخ اسے کہاں سے جان گئے ،پھر دوبارہ وہ گفتگو میں مشغول ہوئے تو میرے دل میں پھروہی خیال پیدا ہو اکہ مجھے بھی اسی راہ میں ہونا چاہیے ۔شیخ نے منبر سےیہ فرمایا کہ اس خطرے کے لیے تاخیر ٹھیک نہیں ہے،چنانچہ جب شیخ کی کرامت باربارظاہرہوتی رہی تو میرا شک بھی دورہو گیا ۔ جب مجلس ختم ہوئی تو میں مدرسہ سے اپنا سارا سامان اٹھالایا اور شیخ ابوسعیدکی خدمت میں رہنے کی غرض سے روانگی کا اپنا ارادہ ظاہر کیا، اسی درمیان کسی نے خواجہ ابو محمد جوینی کو میرے بارے میں خبر کر دیا ، میں نے ان سے بھی یہ سارے احوال بیان کر دیے، تو انھوں نے فرمایاکہ میں تمھیں شیخ کی خدمت میں جانے سے روک نہیں سکتا، البتہ! یہ جان لو کہ تم ان کی مجلس میں رہو گے تو ایک عظیم با رعب ،سخن طراز ، صاحب کرامات مرد کی زیارت کرتے رہوگے، یہ فائدہ تو تم کو ملتا رہے گا لیکن اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بھی شیخ ابوسعید بن جاؤگے تو تمہارایہ خیال غلط ہے ،اس لیے کہ جس قدر انھوں نے ریاضت و مجاہدہ کیا ہے تمھیں اس کی خبر بھی نہیں ہے ۔
میں جانتا ہوں کہ اُنھوں نے کیسا مجاہدہ کیا ہےاور وہ کیسےاس مرتبے پر پہنچے ہیں ۔
جان لو کہ اگر سو آدمی بھی مل کر وہی ریاضت ومجاہدہ کرے، پھر بھی انھیں وہ مقام حاصل نہ ہوگا جو رب تعالیٰ نے شیخ ابوسعید کو عطا کیا ہے ، اگر تم بھی اسی لالچ سے تحصیل علم کو ترک کر رہے ہو تو جان لو کہ تم علم سے دورتوہوگے ہی،اس کے ساتھ ہی تم اس درجے کو بھی نہ پاسکوگے جس کے لیے تم نےعلم ترک کیاہے ۔
خواجہ ابو نصر بیان کرتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے تھے وہ درست تھا،کیوں کہ شیخ ابو سعید کے تعلق سے میرا اعتقادبھی وہی تھا،چنانچہ میں تحصیل علم میں بدستورلگا رہا اور شیخ کی بارگاہ میں بھی حاضری دیتا رہا، ان کی خدمت سے مجھے بے شمار فائدے حاصل ہوئے ،نیز انھوں نے بھی میرے اوپر کافی الطاف و عنایات فرمائے ۔
استاذ اسمٰعیل صابونی بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں سویا ہوا تھا، جب ورد میں مشغول ہونے کے وقت اٹھنے کا ارادہ کیا تو کاہلی چھاگئی ،میں پھر سو گیا،اچانک میرے سرہانے رکھے ہوئے لوٹے کاپانی بلی نے میرے اوپرگرادیا ، میں اٹھ گیا پھر بھی سستی چھائی رہی اور آنکھ بند ہوگئی، پھر اچانک ایک پتھر گھر کے چھت سے برتن میں گرا ،گھروالے شور کرنے لگے چورہے،چو ر۔چنانچہ میں بھی بیدارہوگیا اور ورد کرنا شروع کر دیا۔
دوسرے دن شیخ ابوسعید کی مجلس میں پہنچا تودورانِ وعظ شیخ میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ جب بندہ پوری رات سوتا ہے اور دیر سے اٹھتا ہے تو چوہے اور بلی کو حکم دیا جا تاہے کہ باہم لڑے اور لوٹے کے پانی کو بہا دے تاکہ نیند ختم ہوجائے اور چور کو حکم دیاجاتا ہے کہ اس کے گھر میں پتھر پھینکے تاکہ لوگ شور کرنے لگے :’’چور ہے چورہے ۔‘‘
حالاں کہ وہ چور نہ تھا بلکہ ہمارا فرستادہ تھا تاکہ تجھے نیند سے بیدار کرے اورتم گھڑی بھر میرے ساتھ مناجات کرو ۔
خواجہ اسمٰعیل کابیان ہےکہ جب شیخ ابوسعیدنے ایسی بات بیان فرمائی تو میرے اوپر گریہ طاری ہو گیا اور میں نے جان لیا کہ شیخ کسی بھی حال میں مجھ سے غافل نہیں ہیں۔ (جاری)
حکایات مشائخ
سلطان طریقت،برہان حقیقت شیخ ابو سعیدفضل اللہبن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی قدس اللہ سرہٗ یکتائے روزگار شخصیت ، عارف ربانی اورعظیم صوفی تھے۔ان کی پیدائش’خراسان‘ کے ’میہنہ‘گاؤں میں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ آپ نے وفات پائی۔ ’’اسرارالتوحید فی مقامات ابی سعید‘‘موسوم بہ’مقامات خواجہ‘ ان کے مخصوص احوال واقوال پر مشتمل ہے جسے آپ کےپر پوتے شیخ محمد بن منور قدس سرہٗ نے ترتیب دی ہے۔یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔ مولاناامام الدین سعیدی(ا ستاذ جامعہ عارفیہ ) نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے۔۱۵ویں قسط سےاُنھیں کاترجمہ مسلسل ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
حکایت
بیان کیاجاتا ہے کہ ایک دن شیخ ابوسعیدصوفیوں کی ایک جماعت کے ساتھ محلہ ’’کو یان‘‘ پہنچے ،وہاں ایک قصا ب تھا، اس نے شیخ اور اُن کی جماعت کو دیکھ کرآہستہ آہستہ یہ بُرے الفاظ بکنے لگا:
اے میرے جانوروں کی ماں اور ذلیلوں کی جماعت! ارے ارے ! ان کے سر اور گردن تو دیکھو ایسے ہیں جیسے چارہ کھانے والےدُنبے۔
اسی طرح اوربھی بُری بُری گالیاں دینے لگا اور وہ یہ سمجھتا رہا کہ کوئی بھی اُن گالیوں کو نہیں سن رہا ہے ۔مگر شیخ قدس سرہٗ نے اپنی ایمانی فراست سے اُسے سمجھ لیا اور آگاہ ہوگئے، چنانچہ حسن مؤدب کو بلا کر کہا کہ حسن! جاؤاور اُس قصاب کو بلا لاؤ۔
حضرت حسن، قصاب کے پاس پہنچے اور اُس سےکہا کہ تمھیں شیخ یاد فرمارہے ہیں، اتنا سننے ہی قصاب خوف زدہ ہوگیا اور لرزاں و ترساں شیخ کے پا س پہنچا ۔
ادھرشیخ ایک صوفی کوپہلے ہی حمام بھیج چکے تھے ، حسن مؤدب کے آنے کے بعداُن سے کہا کہ قصاب کو حمام لے جاؤ،حضرت حسن قصاب کو حمام لےگئے ۔
پھر شیخ نے کہا کہ حسن!باز ار چلے جاؤ اور وہاں سے ایک باریک سوتی کپڑا ، ایک جوڑی جوتی، اور ایک طبری عمامہ خرید لاؤ، پھر ان چیزوں کو حمام لے جانا مگر اس سے پہلے دو صوفیوں کو حمام روانہ کر دو تاکہ اُس کو عمدہ طریقے سے نہلا دیں۔ حضرت حسن دو صوفیوں کو قصاب کی خدمت کے لیے حمام روانہ کر کے خود بازار چلے گئے اور شیخ نےجوکچھ خریدنے کے لیے کہا تھاوہ سب خرید کر لے آئے ۔
شیخ نے صوفیوں کی جماعت سے کہا کہ ان کپڑوں کو جلدی سے سی لو تاکہ قصاب کے لیے تہہ بند اورکُرتا تیار ہوجائے ۔ جب کپڑے سل گئے تو شیخ نے کہا کہ اسے اٹھا ؤ اور قصاب کو زیب تن کر ادو ، اُسے سود رہم بھی دےدو اوراُس سے کہو کہ وہ پہلے جوکچھ بک رہا تھاوہ پھر سے بولے، مزید اس سے یہ بھی کہہ دینا کہ جب یہ پیسے ختم ہو جائے تو پھر آکر لے لے۔
حسن مؤدب نے شیخ کے فرمان کے مطابق قصاب سے ایسا ہی سلوک کیا ، قصاب نے جب شیخ ابوسعید کے اچھے اور بلنداخلاق کو دیکھا ،تووہ آہ و بکا کرتے ہوئے شیخ کے قدموں پر گر گیا، پھر اُس نے توبہ کی ، حلقۂ ارادات میں شامل ہوا، اور صوفیائے کرام کا زبردست معتقد ہو گیا۔
حکایت
ابو بکر شوکانی کابیان ہے کہ میرے والدماجد فاضل محمد بیان کرتے ہیں کہ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں دورانِ طالب علمی نیشاپور میں مقیم تھا اور خواجہ ابو سعید قدس سرہٗ بھی نیشاپور میں اقامت پذیر تھے ۔
میں روزانہ اوقاتِ درس سے فراغت کے بعد شیخ کی خدمت میں حاضر ہوتااور ظہر کی نماز تک وہیں ٹھہرا رہتا ،جب ظہر کی نماز ہو جاتی توواپس مدرسہ آجاتا ۔
ایک دن معمول کے مطابق میں شیخ کی خدمت میں پہنچا ، شیخ نے اپنے جانمازکےنیچے سے ایک مشت کشمش نکالا اور فرمایاکہ فتوحات حاصل ہوئے ہیں، انھوں نے ’’طرسوس‘‘ کا معرکہ جیت لیا ہے ،میں تم لوگوں کا حصہ رکھے ہواہوں ،اس کشمش میں سے ہر ایک کاحصہ سات سات دانے ہیں۔
فاضل محمدبیان کرتے ہیں کہ مدرسہ میں میرے دو ساتھی اور بھی تھے مگر شیخ نے تین لوگوں کا حصہ ہمیں دیا، میں سلام کرنے کے بعد خانقاہ سے باہر آیا اور مدرسہ کے لیے روانہ ہوگیا،راستے میں ایک بارپھر اس دانے کو شمار کیا تووہ تین لوگوں کا حصہ تھا۔
میں مدرسہ پہنچا تو دیکھا کہ میرے ایک ساتھی کا بھائی عراق سے پہنچا ہواہے اورمیرے کمرے میں بیٹھا ہواہے، میں اندر گیااور خبرخیریت دریافت کی،پھر اُس کشمش کو تقسیم کیا توشیخ کے فرمان کے مطابق سب کے حصے میں ٹھیک سات سات دانےآئے۔
حکایت
خواجہ ابو علی فارمدی بیان کرتے ہیں کہ میں جوانی میں نیشاپور کے مدرسے’’ سراجان‘‘ میں حصول علم میں مصروف تھا، ایک وقت آیا کہ پور ے شہر میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ شیخ ابوسعید قدس سرہٗ ’’میہنہ‘‘ سے تشریف لائے ہوئے ہیں اور وعظ وتذکیر میں مصروف ہیں، ان کی بے شمار کرامتیں لوگوں کے درمیان مشہور تھیں ،نیزنیشاپور کے باشندے اور تمام مسلک کے ائمہ ان کے معتقد ہو چکے تھے۔ میں بھی شوق زیارت میںان کی مجلس میں پہنچا اورجیسے ہی میری نظر اُن کے رُخ زیبا پر پڑی میں اُن کا دیوانہ ہو گیا اور صوفیائے کرام کی عقیدت و محبت میرے دل میں گھرکر گئی۔
اب میرا حال یہ ہو گیا کہ سارادن اسی انتظار میں رہتاکہ شیخ کب اپنے حجرے سے باہر تشریف لائیں اور میں ان کی زیارت سے اپنی بے قراری کو تسکین دوں، اور میں ان کے غلاموں میں خفیہ طور سے شامل ہوجاؤں،چوں کہ میرا گمان یہ تھا کہ شیخ مجھے نہیں پہچانتے ۔
ایک دن میں اپنے مدرسے کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ یکبارگی شیخ ابوسعیدکے دیدار کی طلب دل میں پیدا ہوئی، مگر وہ وقت شیخ کے باہر تشریف لانے کا نہ تھا، میں نے صبر کرنا چاہا لیکن صبرنہ کر سکا ،بالآخر اٹھ کر باہر آگیا، جب میں دیوانہ وار گھومتے گھومتے چوراہے پر پہنچاتو دیکھا کہ شیخ ایک جم غفیر کے ساتھ کسی مجلس کی طرف جا رہے ہیں ،میں وارفتگی کے عالم میں ان کے ساتھ ہولیا، شیخ اپنی جماعت کے ساتھ اس سرائے میںداخل ہوئے جہاں مجلس منعقد کی گئی تھی، میں بھی ان کے ساتھ اندر داخل ہو گیا اور ایک گوشے میں اس طرح بیٹھ گیا کہ شیخ کی نظر مجھ پر نہ پڑے،جب سماع کا آغاز ہوا تو شیخ کی حالت میں انبساط پیدا ہو ا،اور اُن پر کیفیت طاری ہوگئی ، انھوں نے اپنا کپڑا چاک کرلیا،جب سماع سے فارغ ہوئے تو اپنا جامہ اتار کر اُس کا اگلا حصہ چاک کیا اور ایک آستین چاقو سے کاٹ کر الگ کر دی، پھر بلند آواز سے فرمایا: اے ابو علی طوسی! تم کہاں ہو ؟ میں نے دل میں سوچاکہ شیخ نہ مجھے جانتے ہیں اور نہ مجھے دیکھ رہے ہیں۔میں نےاس خیال سے کوئی جواب نہیں دیا کہ ممکن ہے شیخ کے کسی اورمرید کا نام بھی ابو علی ہو،شیخ نے دوبارہ اسی طرح پکارا،اس باربھی میں خاموش رہا، تیسری بار جب شیخ نے پکارا تو لوگ مجھ سے کہنے لگے کہ شاید شیخ تمھیں ہی بلا رہے ہیں،آخر کار میں اٹھ کر شیخ کی خدمت میں پہنچا، شیخ نے اپنا وہ چاقو اور بُریدہ آستین مجھے عنایت فرمائی اور کہا کہ تم ہمارے لیے آستین اور چاقو کی طرح ہو، میں نے وہ کپڑا لے لیا،اُسے بوسہ دیا اور نہایت حفاظت کے ساتھ اپنے پاس رکھ لیا۔اس طرح میں ہمیشہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہو ا کرتاتھا، ان کی خدمت سے مجھ کو بہت فائدہ پہنچا اوربہت سےفیوض و برکات حاصل ہوئے۔
جب شیخ ابوسعیدنیشاپور سے رخصت ہو گئے تومیں استاذ ابوالقاسم قشیری کی بارگاہ میں حاضر ہوا،اورجو کچھ احوال مجھ پر ظاہر ہوتے میں ان سے بیان کردیاکرتا۔
یہ سن کروہ مجھ سے کہاکرتے کہ بیٹا! جاؤ اور تحصیل علم میں مشغول رہو، دوتین سال تک میں تحصیل علم میں مصروف رہا، پھر ایک دن کا واقعہ ہے کہ جب میں نے دوات سے قلم نکالا تو اس سےسفید ی نکلی،تین مرتبہ میں نے ایساہی کیا، پھر بھی سفیدی ہی ظاہر ہوئی۔یہ دیکھ کرمیں استاذ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اُن سے یہ ماجرا بیان کیا، انھوں نے کہاکہ جب علم نے تم سے علیٰحدگی اختیار کر لی تو تم بھی علم سے الگ ہو جاؤ،اور مجاہد، ریاضت اور طریقت کے کام میں لگ جاؤ۔میں وہاں سے مدرسہ آگیا اور اپنا تمام سامان اٹھالایا،اُسے استاذ کی خانقاہ میں رکھ دیا اور اُنھیں کی خدمت میں رہنے لگا۔ ایک دن استاذ قشیری حمام میں تشریف لے گئے، میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے چل دیا اور چند ڈول پانی اُن کے بدن پر ڈالا، غسل سے فراغت کے بعد استاذ باہر تشریف لائے،نماز ادا فرمائی، پھر دریافت کیاکہ کون تھا جس نے حمام میں مجھ پر چند ڈول پانی ڈالا تھا ، میں اس خوف سے خاموش رہا کہ شاید مجھ سے کوئی بے ادبی ہو گئی ہے ، آپ نے دوبارہ یہی سوال کیا، میں پھربھی خاموش رہا، پھر جب تیسری بار استاذنے دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ حضور! میں تھا ۔
یہ سن کر استاذ ابوالقاسم نے کہاکہ اے ابوعلی!جو کچھ ابوالقاسم نے ستر سال میں حاصل نہ کیا وہ تم نے ایک ڈول میں حاصل کرلیا۔
اس کے بعدبھی میں ایک عرصے تک استاذ کی خدمت میں مجاہدہ کرتا رہا۔ایک دن دورانِ مجاہدہ مجھ پر عجیب و غریب حالت طاری ہوئی اور میں اسی میں گم ہو گیا۔
اس واقعے کو میں نے استاذ سے بیان کیا تو انھوں نے کہاکہ اے ابو علی! میری رسائی یہاں سے آگے نہیں ہے، اس سے اوپر کی راہ مجھے معلوم نہیں ہے، میں نے دل میں سوچا کہ مجھے اب ایسے مرشد کی ضرورت ہے جو مجھے اس مقام سے آگے لے جائے ۔ میں نےشیخ ابوالقاسم جرجانی کا نام سن رکھا تھا، چنانچہ میں نے اپناسامانِ سفر باندھا اور طوس کے لیے روانہ ہوگیا۔مجھے ان کی صحیح قیام گاہ معلوم نہ تھی،اس لیے طوس پہنچنے پرجب لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ کہاں رہتے ہیں تومعلوم ہواکہ وہ محلہ رود بار کی ایک مسجد میں اپنے مریدوں کے ساتھ رہتےہیں، میں اس مسجد میں پہنچا تو دیکھا کہ شیخ ابوالقاسم بیٹھے ہوئے ہیں، پہلے میں نے دورکعت تحیۃ المسجد ادا کیا، پھر اُن کی خدمت میں پہنچا،وہ اس وقت سر جھکائے تھے، میرے پہنچنے پر اپنا سر اٹھایا اورکہاکہ ابوعلی !آؤ آؤ! کہو کیا حال ہے ؟
میں سلام عرض کر کے بیٹھ گیا اور اپنی تما م سر گذشت بیان کردی ، میرے حالات سننے کے بعد انھوں نے کہاکہ تمہارا آغاز بہت اچھا ہے، لیکن ابھی تم کسی درجے پر نہیں پہنچے ہو،ہاں! اگر تمہاری تربیت کی جائے تو تم عظیم مرتبےپر فائز ہوجاؤگے، اس وقت میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میرے مطلوب مرشد یہی ہیں، چنانچہ میں نے وہیں سکونت اختیار کرلی، عرصۂ دراز کے بعدایک مجلس منعقد فرمائی ،جس میں مجھ پر اسرار و رموز منکشف ہو گئے ۔
حکایت
خواجہ ابونصر عیاض سرخسی بیان کرتے ہیں کہ میں نیشاپور میں خواجہ ابو محمد جوینی کے پاس علم فقہ حاصل کرتاتھا، اختلافی مسائل اور تعلیقات پر مجھے اچھی دسترس حاصل ہوگئی تھی۔ اسی درمیان میں نے سنا کہ’’ میہنہ‘‘سے شیخ ابوسعید تشریف لائے ہوئےہیں اور وعظ و تذکیر کررہے ہیں ۔ ایک دن میں بھی بطور نظارہ ان کی مجلس میں پہنچا اورجیسے ہی میری نگاہ نے ان کے پُر جلال چہرے کا مشاہد ہ کیا تو اُن کی ہیبت اور فراست سے میں حیرت زدہ ہو گیا،جب انھوں نے اپنی گفتگو کا آغازکیا تو اُن کی بات میرے اوپر اس قدر اثر انداز ہوئی کہ میں نےدل ہی دل میں کہا کہ اگر چہ میں علم کے بلند درجےپر فائز ہو گیا ہوں مگراللہ کی راہ کاعلم میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے ، ہاں ! جو معرفت کے چشمے خواجہ ابو سعید کی زبان سے پھوٹ رہے ہیں بلا شبہ یہی اللہ کی راہ ہیں اورمجھے بھی اسی راہ میں ہونا چاہیے ۔
خواجہ ابو نصر عیاض بیان کرتے ہیں کہ ابھی میرے دل میں یہ اندیشہ گذرا ہی تھا کہ شیخ ابوسعید نے اسی وقت منبرسے یہ فرمایا:
’’آنا چاہیے۔‘‘
یہ سن کرمیں حیرت میں پڑ گیاکہ یہ اندیشہ تو میرے دل میں پیداہو اتھا، شیخ اسے کہاں سے جان گئے ،پھر دوبارہ وہ گفتگو میں مشغول ہوئے تو میرے دل میں پھروہی خیال پیدا ہو اکہ مجھے بھی اسی راہ میں ہونا چاہیے ۔شیخ نے منبر سےیہ فرمایا کہ اس خطرے کے لیے تاخیر ٹھیک نہیں ہے،چنانچہ جب شیخ کی کرامت باربارظاہرہوتی رہی تو میرا شک بھی دورہو گیا ۔ جب مجلس ختم ہوئی تو میں مدرسہ سے اپنا سارا سامان اٹھالایا اور شیخ ابوسعیدکی خدمت میں رہنے کی غرض سے روانگی کا اپنا ارادہ ظاہر کیا، اسی درمیان کسی نے خواجہ ابو محمد جوینی کو میرے بارے میں خبر کر دیا ، میں نے ان سے بھی یہ سارے احوال بیان کر دیے، تو انھوں نے فرمایاکہ میں تمھیں شیخ کی خدمت میں جانے سے روک نہیں سکتا، البتہ! یہ جان لو کہ تم ان کی مجلس میں رہو گے تو ایک عظیم با رعب ،سخن طراز ، صاحب کرامات مرد کی زیارت کرتے رہوگے، یہ فائدہ تو تم کو ملتا رہے گا لیکن اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بھی شیخ ابوسعید بن جاؤگے تو تمہارایہ خیال غلط ہے ،اس لیے کہ جس قدر انھوں نے ریاضت و مجاہدہ کیا ہے تمھیں اس کی خبر بھی نہیں ہے ۔
میں جانتا ہوں کہ اُنھوں نے کیسا مجاہدہ کیا ہےاور وہ کیسےاس مرتبے پر پہنچے ہیں ۔
جان لو کہ اگر سو آدمی بھی مل کر وہی ریاضت ومجاہدہ کرے، پھر بھی انھیں وہ مقام حاصل نہ ہوگا جو رب تعالیٰ نے شیخ ابوسعید کو عطا کیا ہے ، اگر تم بھی اسی لالچ سے تحصیل علم کو ترک کر رہے ہو تو جان لو کہ تم علم سے دورتوہوگے ہی،اس کے ساتھ ہی تم اس درجے کو بھی نہ پاسکوگے جس کے لیے تم نےعلم ترک کیاہے ۔
خواجہ ابو نصر بیان کرتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہے تھے وہ درست تھا،کیوں کہ شیخ ابو سعید کے تعلق سے میرا اعتقادبھی وہی تھا،چنانچہ میں تحصیل علم میں بدستورلگا رہا اور شیخ کی بارگاہ میں بھی حاضری دیتا رہا، ان کی خدمت سے مجھے بے شمار فائدے حاصل ہوئے ،نیز انھوں نے بھی میرے اوپر کافی الطاف و عنایات فرمائے ۔
استاذ اسمٰعیل صابونی بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں سویا ہوا تھا، جب ورد میں مشغول ہونے کے وقت اٹھنے کا ارادہ کیا تو کاہلی چھاگئی ،میں پھر سو گیا،اچانک میرے سرہانے رکھے ہوئے لوٹے کاپانی بلی نے میرے اوپرگرادیا ، میں اٹھ گیا پھر بھی سستی چھائی رہی اور آنکھ بند ہوگئی، پھر اچانک ایک پتھر گھر کے چھت سے برتن میں گرا ،گھروالے شور کرنے لگے چورہے،چو ر۔چنانچہ میں بھی بیدارہوگیا اور ورد کرنا شروع کر دیا۔
دوسرے دن شیخ ابوسعید کی مجلس میں پہنچا تودورانِ وعظ شیخ میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ جب بندہ پوری رات سوتا ہے اور دیر سے اٹھتا ہے تو چوہے اور بلی کو حکم دیا جا تاہے کہ باہم لڑے اور لوٹے کے پانی کو بہا دے تاکہ نیند ختم ہوجائے اور چور کو حکم دیاجاتا ہے کہ اس کے گھر میں پتھر پھینکے تاکہ لوگ شور کرنے لگے :’’چور ہے چورہے ۔‘‘
حالاں کہ وہ چور نہ تھا بلکہ ہمارا فرستادہ تھا تاکہ تجھے نیند سے بیدار کرے اورتم گھڑی بھر میرے ساتھ مناجات کرو ۔
مہ روی بتا دوش ببامت بودم
گفتی دزد است دزد نہ بود من بودم
ترجمہ: ایک ماہ رو کی شکل میں گذشتہ رات تیرے بام پر میں ہی تھا ،تو کہتا ہے کہ چو رہے، چو رنہیں بلکہ وہ میں تھا ۔
خواجہ اسمٰعیل کابیان ہےکہ جب شیخ ابوسعیدنے ایسی بات بیان فرمائی تو میرے اوپر گریہ طاری ہو گیا اور میں نے جان لیا کہ شیخ کسی بھی حال میں مجھ سے غافل نہیں ہیں۔ (جاری)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں