Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-Nov-2015➤
Ziyaurrahman Alimi Download_Pdf
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لغت میں برزخ ہر اُس شئے کو کہتے ہیں جو دوچیزوں کے درمیان ہو،اور ان دونوں چیزوں کو ایک دوسرے میں گڈمڈ ہونے سے روکنے والی ہو،جب کہ اصطلاح شریعت میں برزخ زندگی کے اس مرحلےکا نام ہے جو موت سے لےکر بعثت کے دن تک محیط ہے،اس زندگی کو ہم قبر کی زندگی سے بھی جانتے ہیں۔
ایک طرف دنیاوی زندگی ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں، سنتےہیں،پہچانتے ہیں،خوشی اور غم کا اظہار کرتے ہیں، طاعت وبندگی کرتے ہیں،معصیت میںگرفتارہوتے ہیں، غذا استعمال کرتے ہیں اور پیشاب یا پاخانے کی بھی حاجت ہوتی ہےاور دوسری طبعی وبشری حاجتیں بھی پیش آتی ہیں۔
دوسری طرف اخروی زندگی ہے جہاں دیکھنا،سننا، پہچاننا،جنتی ہونے کی صورت میں صرف خوشی اور جہنمی ہونے کی صورت میں صرف غم اور تکلیف ہے، وہاں کھانااور پینابھی ہے ،لیکن ان کی کیفیتوں کو رب تعالیٰ ہی جانتاہے ،کیوں کہ ان کا تعلق غیبی معاملات سے ہے۔ ہم اُخروی زندگی کے حوالے سے صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایاہے۔
البتہ! یہ ہم یقین سے جانتے ہیں کہ وہاں بشری تقاضے اور سفلی حاجتیں مثلاً پیشاب،پاخانہ وغیرہ کی حاجت نہیں ہوگی۔ان دونوں کے بیچ میں برزخی زندگی ہے،چوں کہ یہ زندگی دنیاوی اور اُخروی زندگی کے درمیان برزخ ہے اس لیے اس زندگی کو دونوں زندگیوں کے ساتھ کچھ مماثلت پائی جاتی ہے۔موت کے ساتھ ہی انسان کی روح جسم سے جدا ہوجاتی ہے اور وہ عالم شہادت سے نکل کرعالم غیب میں داخل ہوجاتی ہے،اس لیے اصولی طورپر برزخی زندگی اُخروی زندگی کے زیادہ قریب ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
یوںہی یہ بھی اشارہ فرمادیاہے کہ قبر میں لطف اندوز ہونا یاتکلیف اٹھانا جو کہ دنیاوالوں کی صفت ہے وہ بھی وہاں پائی جائےگی۔ اس طرح گویابرزخی زندگی کو دنیاوی زندگی کے مشابہ بھی کہا جاسکتاہے،لیکن یہ مشابہتیں بھی صرف لفظی ہیں حقیقی نہیں ۔
برزخی زندگی اور عقیدۂ اہل سنت
برزخی زندگی کے تعلق سے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ زندگی ایک حقیقی زندگی ہے کوئی خیالی یا تمثیلی نہیں،اور نہ ہی یہ زندگی مکمل طورپردنیوی زندگی کی طرح ہے۔اس زندگی کا اصل تعلق روح سے ہوتاہے جس میں مکمل شعور،کامل ادراک اور صحیح طورپر ایک دوسرے کی پہچان پائی جاتی ہے،اور مردےنبی،شہید،ولی اور عام مومن ہونے کے لحاظ سے اپنے حدود میں تصرفات بھی انجام دیتے ہیں ،مثلاً سننا، پہچاننا، مدد کرنا،دعا کرنا،خواب میں ظاہر ہونا،قبرمیں ملنے والی نعمتوں اورسزاؤںسے راحت وتکلیف پاناغرض کہ جو عموماً دنیا میں زندہ لوگوں کے اندر صفات پائی جاتی ہیں وہ برزخی زندگی میں بھی پائی جاتی ہیں۔
علمائے کرام نے حیات برزخ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ جو فرمایاہے کہ یہ حقیقی زندگی ہے،اس سے ان کا مقصد ان فلاسفہ کا ردّ کرنا ہےجو اس بات کے قائل ہیںکہ حیات برزخ ایک خیالی ،مثالی اور فرضی زندگی ہے حقیقی نہیں۔ان کا یہ مقصود نہیں ہے کہ یہ زندگی دنیاوی زندگی کی طرح ہے جیساکہ بعض لوگوں کوبدگمانی ہوئی ہے کہ یہ علما قبر والوں کے لیے دنیوی زندگی ثابت کرتے ہیں جس میں انسان کو بشری تقاضوں مثلاًپیشاب یاپاخانےکی تکمیل کی ضرورت پڑتی ہے۔
یوں ہی جہاں علمانے یہ ذکرکیاہے کہ برزخی زندگی دنیوی زندگی کی طرح ہے تو اس جملے سے بھی ان کا مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ زندگی ہر طرح سے دنیوی زندگی کے مشابہ ہے، بلکہ ان کی مراد صرف یہ ہے کہ سننے، دیکھنے، دعا، مدد،باہم ملاقات اور اس طرح کی دوسری صفتیں جو زندوں کی صفتیں ہیں وہ ان قبروالوں کے لیے بھی ثابت ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی کیفیتیں اور ان کے درجے مختلف ہیں اور دنیوی زندگی سے اعلیٰ ہیں ۔یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ وہ زندگی بہر صورت دنیوی زندگی کی طرح ہے، اور اس قیدسے ان کا مقصود ان گمراہوں کا رد کرنا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مردوں کے لیے کسی قسم کی زندگی ثابت نہیں،وہ تو مرنے کے بعد پتھر کی طرح ہوتے ہیں،اورسننے،دیکھنے اور اس کے علاوہ مذکورہ بالا صفتیں ان کے اندر بالکلیہ کسی بھی حیثیت سے نہیں پائی جاتی۔
بعض علمانے حیات برزخ کو حقیقی زندگی کہنے کے ساتھ غیر دنیوی بھی کہاہے۔اس قید سے بھی ان کا ارادہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا رد کیا جائے جو حیات برزخ کو مکمل طورپر دنیوی زندگی کی طرح سمجھتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ برزخی زندگی اصولی طورپر اخروی زندگی کے مشابہ ہے کہ موت کے ساتھ ہی روح جسم سے آزاد ہوگئی اور عالم ارواح میں داخل ہوگئی اور عالم ارواح جس کا مادی دنیاسے کوئی تعلق نہیں اس کواس مادی زندگی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔البتہ! اس زندگی کو دنیاوی زندگی سے کچھ مشابہت اور ایک حدتک تعلق پایاجاتا ہے۔
جن لوگوں نے حیات برزخ کا انکار کیاہے اور مردوں کے لیے سننے اور اس جیسی دوسری صفات کو مسترد کیاہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انھوں نے روح کومادہ پر قیاس کیا جو غلط ہے،انھوں نے یہ سوچاکہ روح جسم سے جداہے ،اب اگر کوئی قبر کے پاس آئےگا، سلام کرے گا،یا کوئی کلام کرے گا تو روح اتنی دورسے اس کی آواز کیسے سن لے گی اور اس کو کیسے پہچان لے گی؟
چنانچہ اگر ان کے لیے زندوں کی صفات کو ثابت کیا جائے تو مکمل دنیوی زندگی کو ثابت کرنا پڑےگا، لہٰذااُنھوں نے ایک شرسے بچنے کےلیے خودکو دوسرے شر میں پھنسا دیا اور حیات برزخ کا انکارکردیا اور مردوں کے لیے زندوں کی بعض صفات جو اپنی حقیقت کے لحاظ سےبہت مختلف ہیں، اس کا سرے سےہی انکارکردیا۔ہم ایسے لوگوں کی دلی تشفی وتسلی کے لیے شیخ ابن تیمیہ کا ایک فتویٰ نقل کرتے ہیں ۔ شیخ ابن تیمیہ سے دریافت کیاگیا کہ جب زندے مردوں کی زیارت کرتے ہیں تو کیا مردوں کو اُن کی زیارت کا علم ہوتا ہے اور جب میت کے کسی رشتے دار یا کسی اور کا انتقال ہوجاتا ہے تو کیا اس کو خبر ہوتی ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ اپنے ’’مجموعہ فتاویٰ‘‘ میں لکھتے ہیں:
موت،روح کے فنا ہوجانے کا نہیں بلکہ ایک زندگی سے دوسری زندگی کی جانب منتقل ہوجانے کا نام ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مِنْ وَّرَآىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (مومنون۱۰۰)اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے برزخی زندگی کا صراحت کے ساتھ ذکرفرمایاہے۔
ترجمہ:ان کے پیچھے بعثت کے دن تک کے لیے برزخ کی زندگی ہے۔
لغت میں برزخ ہر اُس شئے کو کہتے ہیں جو دوچیزوں کے درمیان ہو،اور ان دونوں چیزوں کو ایک دوسرے میں گڈمڈ ہونے سے روکنے والی ہو،جب کہ اصطلاح شریعت میں برزخ زندگی کے اس مرحلےکا نام ہے جو موت سے لےکر بعثت کے دن تک محیط ہے،اس زندگی کو ہم قبر کی زندگی سے بھی جانتے ہیں۔
ایک طرف دنیاوی زندگی ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں، سنتےہیں،پہچانتے ہیں،خوشی اور غم کا اظہار کرتے ہیں، طاعت وبندگی کرتے ہیں،معصیت میںگرفتارہوتے ہیں، غذا استعمال کرتے ہیں اور پیشاب یا پاخانے کی بھی حاجت ہوتی ہےاور دوسری طبعی وبشری حاجتیں بھی پیش آتی ہیں۔
دوسری طرف اخروی زندگی ہے جہاں دیکھنا،سننا، پہچاننا،جنتی ہونے کی صورت میں صرف خوشی اور جہنمی ہونے کی صورت میں صرف غم اور تکلیف ہے، وہاں کھانااور پینابھی ہے ،لیکن ان کی کیفیتوں کو رب تعالیٰ ہی جانتاہے ،کیوں کہ ان کا تعلق غیبی معاملات سے ہے۔ ہم اُخروی زندگی کے حوالے سے صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایاہے۔
البتہ! یہ ہم یقین سے جانتے ہیں کہ وہاں بشری تقاضے اور سفلی حاجتیں مثلاً پیشاب،پاخانہ وغیرہ کی حاجت نہیں ہوگی۔ان دونوں کے بیچ میں برزخی زندگی ہے،چوں کہ یہ زندگی دنیاوی اور اُخروی زندگی کے درمیان برزخ ہے اس لیے اس زندگی کو دونوں زندگیوں کے ساتھ کچھ مماثلت پائی جاتی ہے۔موت کے ساتھ ہی انسان کی روح جسم سے جدا ہوجاتی ہے اور وہ عالم شہادت سے نکل کرعالم غیب میں داخل ہوجاتی ہے،اس لیے اصولی طورپر برزخی زندگی اُخروی زندگی کے زیادہ قریب ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
إِنَّمَا القَبْرُ رَوْضَةٌ مِّنْ رِيَاضِ الجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِّنْ حُفَرِ النَّارِ۔(سنن ترمذی،باب:۲۶،حدیث:۲۴۶۰)اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو جنت کاباغیچہ یا پھر جہنم کا گڑھا فرماکر یہ اشارہ دے دیاہے کہ برزخی زندگی اُخروی زندگی سے زیادہ مشابہ ہے۔
ترجمہ:قبریاتو جنت کےباغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے،یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
یوںہی یہ بھی اشارہ فرمادیاہے کہ قبر میں لطف اندوز ہونا یاتکلیف اٹھانا جو کہ دنیاوالوں کی صفت ہے وہ بھی وہاں پائی جائےگی۔ اس طرح گویابرزخی زندگی کو دنیاوی زندگی کے مشابہ بھی کہا جاسکتاہے،لیکن یہ مشابہتیں بھی صرف لفظی ہیں حقیقی نہیں ۔
برزخی زندگی اور عقیدۂ اہل سنت
برزخی زندگی کے تعلق سے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ زندگی ایک حقیقی زندگی ہے کوئی خیالی یا تمثیلی نہیں،اور نہ ہی یہ زندگی مکمل طورپردنیوی زندگی کی طرح ہے۔اس زندگی کا اصل تعلق روح سے ہوتاہے جس میں مکمل شعور،کامل ادراک اور صحیح طورپر ایک دوسرے کی پہچان پائی جاتی ہے،اور مردےنبی،شہید،ولی اور عام مومن ہونے کے لحاظ سے اپنے حدود میں تصرفات بھی انجام دیتے ہیں ،مثلاً سننا، پہچاننا، مدد کرنا،دعا کرنا،خواب میں ظاہر ہونا،قبرمیں ملنے والی نعمتوں اورسزاؤںسے راحت وتکلیف پاناغرض کہ جو عموماً دنیا میں زندہ لوگوں کے اندر صفات پائی جاتی ہیں وہ برزخی زندگی میں بھی پائی جاتی ہیں۔
علمائے کرام نے حیات برزخ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے یہ جو فرمایاہے کہ یہ حقیقی زندگی ہے،اس سے ان کا مقصد ان فلاسفہ کا ردّ کرنا ہےجو اس بات کے قائل ہیںکہ حیات برزخ ایک خیالی ،مثالی اور فرضی زندگی ہے حقیقی نہیں۔ان کا یہ مقصود نہیں ہے کہ یہ زندگی دنیاوی زندگی کی طرح ہے جیساکہ بعض لوگوں کوبدگمانی ہوئی ہے کہ یہ علما قبر والوں کے لیے دنیوی زندگی ثابت کرتے ہیں جس میں انسان کو بشری تقاضوں مثلاًپیشاب یاپاخانےکی تکمیل کی ضرورت پڑتی ہے۔
یوں ہی جہاں علمانے یہ ذکرکیاہے کہ برزخی زندگی دنیوی زندگی کی طرح ہے تو اس جملے سے بھی ان کا مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ زندگی ہر طرح سے دنیوی زندگی کے مشابہ ہے، بلکہ ان کی مراد صرف یہ ہے کہ سننے، دیکھنے، دعا، مدد،باہم ملاقات اور اس طرح کی دوسری صفتیں جو زندوں کی صفتیں ہیں وہ ان قبروالوں کے لیے بھی ثابت ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی کیفیتیں اور ان کے درجے مختلف ہیں اور دنیوی زندگی سے اعلیٰ ہیں ۔یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ وہ زندگی بہر صورت دنیوی زندگی کی طرح ہے، اور اس قیدسے ان کا مقصود ان گمراہوں کا رد کرنا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مردوں کے لیے کسی قسم کی زندگی ثابت نہیں،وہ تو مرنے کے بعد پتھر کی طرح ہوتے ہیں،اورسننے،دیکھنے اور اس کے علاوہ مذکورہ بالا صفتیں ان کے اندر بالکلیہ کسی بھی حیثیت سے نہیں پائی جاتی۔
بعض علمانے حیات برزخ کو حقیقی زندگی کہنے کے ساتھ غیر دنیوی بھی کہاہے۔اس قید سے بھی ان کا ارادہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا رد کیا جائے جو حیات برزخ کو مکمل طورپر دنیوی زندگی کی طرح سمجھتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ برزخی زندگی اصولی طورپر اخروی زندگی کے مشابہ ہے کہ موت کے ساتھ ہی روح جسم سے آزاد ہوگئی اور عالم ارواح میں داخل ہوگئی اور عالم ارواح جس کا مادی دنیاسے کوئی تعلق نہیں اس کواس مادی زندگی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔البتہ! اس زندگی کو دنیاوی زندگی سے کچھ مشابہت اور ایک حدتک تعلق پایاجاتا ہے۔
جن لوگوں نے حیات برزخ کا انکار کیاہے اور مردوں کے لیے سننے اور اس جیسی دوسری صفات کو مسترد کیاہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انھوں نے روح کومادہ پر قیاس کیا جو غلط ہے،انھوں نے یہ سوچاکہ روح جسم سے جداہے ،اب اگر کوئی قبر کے پاس آئےگا، سلام کرے گا،یا کوئی کلام کرے گا تو روح اتنی دورسے اس کی آواز کیسے سن لے گی اور اس کو کیسے پہچان لے گی؟
چنانچہ اگر ان کے لیے زندوں کی صفات کو ثابت کیا جائے تو مکمل دنیوی زندگی کو ثابت کرنا پڑےگا، لہٰذااُنھوں نے ایک شرسے بچنے کےلیے خودکو دوسرے شر میں پھنسا دیا اور حیات برزخ کا انکارکردیا اور مردوں کے لیے زندوں کی بعض صفات جو اپنی حقیقت کے لحاظ سےبہت مختلف ہیں، اس کا سرے سےہی انکارکردیا۔ہم ایسے لوگوں کی دلی تشفی وتسلی کے لیے شیخ ابن تیمیہ کا ایک فتویٰ نقل کرتے ہیں ۔ شیخ ابن تیمیہ سے دریافت کیاگیا کہ جب زندے مردوں کی زیارت کرتے ہیں تو کیا مردوں کو اُن کی زیارت کا علم ہوتا ہے اور جب میت کے کسی رشتے دار یا کسی اور کا انتقال ہوجاتا ہے تو کیا اس کو خبر ہوتی ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ اپنے ’’مجموعہ فتاویٰ‘‘ میں لکھتے ہیں:
اَلْحَمْدُلِلہِ،نَعْمْ قَدْجَاءَتِ الْآثَارُبِتَلَاقِیْہِمْ وَتَسَاؤُلِہُمْ وَعَرْضِ أَعْمَالِ الْأحْیَاءِ عَلَی الْأمْوَاتِ، کَمَارَوَی ابْنُ الْمُبَارَکِ عَنْ أَبِی اَیُّوْبَ الْأنْصَارِیِّ قَالَ: إذَا قُبِضَتْ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ،تَلْقَاہَاالرَّحَمَۃُ مِنْ عِبَادِاللہِ کَمَایَتَلَقَّوْنَ الْبَشِیْرَفِی الدُّنْیَافَیُقْبِلُوْنَ عَلَیْہِ وَیَسْأَلُوْنَہٗ فَیَقُوْلُ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ:اُنْظُرُوْاأخَاکُمْ یَسْتَرِیْحُ، فَإنَّہٗ کَانَ فِی کَرْبٍ شَدِیْدٍ، قَالَ:فَیُقْبِلُوْنَ عَلَیْہِ وَیَسْأَلُوْنَہٗ مَافَعَلَ فَلَانٌ؟وَمَافَعَلَتْ فَلَانَۃٌ؟وَأمَّاعِلْمُ الْحَیِّ بِالْمَیِّتِ إذَا زَارَہٗ وَسَلَّمَ عَلَیْہِ فَفِی حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَامِنْ أَحَدٍ یَمُرُّبِقَبْرِ أَخِیْہِ الْمُؤمِنِ کَانَ یَعْرِفُہٗ فِی الدُّنْیَافَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ إلَّاعَرَفَہٗ وَرَدَّعَلَیْہِ السَّلَامُ،قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ ثَبَتَ ذٰلِکَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَحَّحَہٗ عَبْدُالْحَقِّ صَاحِبُ الْاَحْکَامِ۔ (جلد:۲۴،باب:سئل عن الاحیاءاذازارواالاموات)ایک دوسرے فتویٰ میں اسی قسم کے سوال کا جواب دینے کے بعد جسم وروح کی دوری کے باوجود مردہ کیسے سن لے گا اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ترجمہ:الحمدللہ!ہاں مردوں کاآپس میں ملنااور ان کا ایک دوسرے سے پوچھ تاچھ کرنااورزندوں کے اعمال کا مردوں پر پیش ہوناآثارسے ثابت ہے،جیساکہ ابن مبارک نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،انھوںنے فرمایاکہ جب کسی مومن کی روح قبض ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کےمہربان مردہ بندے نووارِد میت کااستقبال کرتے ہیں جس طرح سے کہ خوش خبری لے کر آنے والے شخص کا استقبال کیا جاتاہے ،پھر وہ مردےا س نوواردمیت کی طرف متوجہ ہوکر اُس سے خبر خیریت دریافت کرتے ہیں،پھر وہ لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیںکہ اپنے بھائی کو آرام کرنے دو، کیوںکہ وہ بڑے کرب میں تھا۔
حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں کہ پھر وہ لوگ اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ فلاں شخص کا کیاہوا،اور فلانی نے نکاح کیاکہ نہیں؟
اور جہاں تک زیارت کرنے اور سلام کرنے کے وقت مردوں کو زندوں کا علم ہونے کی بات ہے تو حضرت ابن عباس کی حدیث میں ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کوئی بھی شخص دنیامیں پہچان رکھنے والے مومن بھائی کی قبر کے پاس سے گزرتا ہے اورسلام کرتا ہے تو وہ وفات یافتہ مومن اس کو پہچانتا ہے اور سلام کا جواب دیتاہے۔
ابن مبارک فرماتے ہیں کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہےاور ’’الاحکام‘‘کے مؤلف امام عبد الحق اشبیلی نے اس حدیث کو صحیح قراردیاہے۔
وَ مَعَ ذٰلِکَ فَتَتَّصِلُ بِالْبَدَنِ مَتٰی شَاءَ اللہُ،وَذٰلِکَ فِی اللَّحْظَۃِ بِمَنْزِلَۃِ نُزُوْلِ الْمَلَکِ وَظُہُوْرِ الشُّعَاعِ فِی الْأرْضِ وَانْتَبَاہِ النَّائِمِ۔ (جلد:۲۴،باب:فصل ہل تعاد الروح للبدن عن الزیارۃ ؟)خلاصہ کلام یہ کہ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق موت،روح کے فنا ہوجانے کا نہیں بلکہ ایک زندگی سے دوسری زندگی کی جانب منتقل ہوجانے کا نام ہےجس میںاللہ کے اذن سےزندوںکی بعض صفات وتصرفات کیفیتوں کے اختلاف کے ساتھ باقی رہتے ہیں۔البتہ! ان کواس روحانی زندگی میں بشری تقاضوں کی تکمیل کی حاجت نہیں رہتی۔ یہ عقیدہ احادیث وآثار سے ثابت ہے،اس پر تفصیلی گفتگوآئندہ قسطوں میں کی جائےگی۔ (ان شاء اللہ)
ترجمہ: اس کے باوجوداللہ تعالیٰ جب چاہتاہے روح کا تعلق جسم سے قائم ہوجاتاہے اور یہ ایک پل میں ہوجاتاہے جیسے کہ فرشتوں کا آسمان سے اترنا ،سورج کی کرنوں کازمین پر ظاہر ہونا اور سوتے انسان کا بیدارہونا۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں