Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-oct-2015➤
Muhammad Hashim Quadri Misbahi Download_Pdf
حضرت ابراہیم اور اُن کی قربانیاں
ہر فردِبشر کے لیے حضرت ابراہیم اوراُن کے ساتھیوں کی سیرت ایک اچھا نمونہ ہے
دنیا میں کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں کے مسلمان ، یہودی اور عیسائی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے واقف نہ ہوں، بلکہ دنیا کے اکثر لوگ اُنھیں اپنا پیشوا اور رہنمابھی مانتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم کی ہی اولاد سے ہیں۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کاتذکرہ ۶۷؍بار کیاگیا ہےاور ایک مکمل سورہ کا نام ’’ابراہیم‘‘بھی ہے۔ حضرت ابراہیم ایک مثالی کردار کے مالک تھے،جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیٓ اِبْرَا ہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ۴ ( ممتحنہ)
ترجمہ : تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اُن کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔
وہ کون سے اعمال ہیں جن کی بنیادپر سیدناابراہیم علیہ السلام کی زندگی ، ایک مثالی زندگی کے طورپر ہمارے سامنے آتی ہے؟اوراُنھیں کیوں ہمارامقتداوپیشوابنایاگیا؟اس پہلوپر غور کرنے سے یہ چیزیں سامنے آتی ہیں:
ترجمہ:ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی، سلام ہو ابراہیم پر، نیکوں کوہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں،بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجے کےمومن بندوں میں ہیں۔
وَاِذَابْتَلٰی اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۱۲۴(بقرہ)
ترجمہ: ابراہیم کو اُس کے رب نے کچھ باتوں میں آزمایا تو اُنھوں نے ان کو پورا کر دکھایا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میںتم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔
ترجمہ:(اے محبوب)یادکریںہمارے(مقبول) بندوں ابراہیم، اسحٰق ، یعقوب کو ،بڑی قوت و الے اور روشن ضمیر تھے، ہم نے اُنھیں ایک خاص چیزسے مختص کیا تھااوروہ دارِ آخرت کی یاد تھی۔ یہ ہمارے نزدیک منتخب نیک لوگ ہیں، اور یاد کریں اسمٰعیل، یسع اور ذی الکفل کو ، یہ سب نیکوںمیں سے ہیں ۔ یہ نصیحت ہے کہ بے شک پرہیز گاروں کے لیے عمدہ ٹھکانہ جنت ہے۔
گویاحضرت ابراہیم اوراُن کی پاک اولادبڑے جری اورروشن ضمیر تھے،ان کو جسمانی قوتوں کے ساتھ ساتھ یقین کی قوتیں ، اعمال صالحہ انجام دینے کی قوتیں اور روحانی قوتیں بھی حاصل تھیں۔ نیز اُنھیں دینی بصیرت او رمعرفت الٰہی بھی حاصل تھی۔
اس کی تفصیل قرآن مجید میں اس طورپربیان کی گئی ہے:
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاقَالَ هٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّااَفَلَ قَالَ لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ۷۶ فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّا اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ۷۷ فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَا اَكْبَرُ فَلَمَّا اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۷۸ اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَااَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۷۹
ترجمہ:جب رات آئی اور ایک تارے کو دیکھاتو (حضرت ابراہیم ) بولے کہ اِسے میرا رب ٹھہراتے ہو، پھر وہ ڈوب گیا تو (حضرت ابراہیم ) بولےکہ میں ڈوبنے والوں کو پسندنہیںکرتا۔جب چاندکوچمکتےہوئےدیکھاتو(حضرت ابراہیم ) بولےکہ اِسے میرا رب ٹھہراتے ہو،جب وہ ڈوب گیاتو (حضرت ابراہیم )بولےکہ اگر میرارب مجھےہدایت نہ دیتاتو یقیناًمیں بھی گمراہ قوم سے ہوجاتا۔ جب سورج کو جگمگاتے ہوئےدیکھاتو(حضرت ابراہیم ) بولے کہ اِسے میرارب ٹھہراتے ہو، یہ تواُن سب سے بڑا ہے، لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو(حضرت ابراہیم ) بولےکہ اے میری قوم ! میں تمہارے شرکیہ عمل سےبَری ہوں۔ میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف یکسو ہوکرپھیر لیا ہےجس نے آسمانوں اور زمین کوپیدا فرمایا اور میں مشرکوں میں سےنہیں ہوں ۔
حضرت ابراہیم کےاِن دلائل کے سامنےاُن کی قوم کے لوگ لاجواب ہوگئے اوراُن سے جھگڑنے لگے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:ۚ وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِ وَ لَا اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖ اِلَّا اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْـًٔاوَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ۸۰ (انعام )
ترجمہ: حضرت ابراہیم کی قوم اُن سے الجھ گئی،اس پر حضرت ابراہیم اپنی قوم سے بولے کہ تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے الجھتے ہو؟ حالاں کہ اُس نے مجھے سیدھی راہ دکھائی،میں تمہارے شریک ٹھہرائے ہوئے خداؤں سے نہیں ڈرتا۔ ہاں!اگر میرا رب کچھ چاہے،کیوںکہ میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے،کیاتم اب بھی ہوش میں نہیں آؤگے۔
حضرت ابراہیم اپنی قوم کو سمجھاتے رہے لیکن قوم کے ذہنوںسے دیوی دیوتاؤں کاڈرنہ نکل سکااور وہ یہی سمجھتے رہے کہ دیوی دیوتاؤں کی شان میں معمولی بے ادبی بھی بربادی کاسبب ہے، حالاں کہ حضرت ابراہیم نے صاف صاف بتادیاکہ ان کو تو تم خود اپنے ہاتھ سے بناتے ہو،یہ خود تمہارے محتاج ہیں ،ان میں اپنی حفاظت کرنے کی سکت نہیں،پھریہ تمھیںنفع یانقصان کیسےپہنچا سکتے ہیں ۔
رَبَّنَا اِنِّیْ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ۳۷
ترجمہ:اے ہمارے رب!میں نےاپنی ذرّیت کو تیرے محترم گھر(خانہ کعبہ)کے پاس ایک سنسان وادی میں ٹھہرادیاہے، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔اے ہمارے رب! لوگوں کے دلوں کواُن کی طرف پھیردے اوراُنھیں پھلوں سے رزق عطافرما،تاکہ وہ شکرگزار بنیں۔
وہ جگہ جو کبھی بے آب و گیاہ اورسنسان وادی کے نام سے جانی جاتی تھی آج دنیا کی توجہ کا مرکزبنی ہوئی ہے،مرکز رشدو ہدایت ہے، وہاںسال میں ایک بار عالمی پیمانے پر مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع ہوتا ہے اور لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کی صداؤں سےوہاں فضا گونج اُٹھتی ہیں۔یہ سب حضرت ابراہیم کےاخلاص ،ان کی نیک نیتی اوراللہ کی راہ میں اُن کی آزمائش کا نتیجہ ہے۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۹۲ (آل عمران )
ترجمہ: تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچوگے جب تک کہ اللہ کی راہ میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کروگے وہ اللہ رب العزت کو معلوم ہے۔
چنانچہ جب حضرت ابراہیم نے اپنےبیٹے حضرت اسمٰعیل سے اس بارے میں دریافت کیاتوجواب ملا:
یٰٓاَ بَتِ افْعَلْ مَاتُؤمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآ ئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْن۱۰۲ (صافات)
ترجمہ: ابّا جان ! آپ کو جو حکم دیاجارہا ہے اُسےپورا کریں، ان شاء اللہ آپ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گے۔
اس کے بعدباپ بیٹےدونوں نےحکم الٰہی کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْن۱۰۳(صافات)
ترجمہ:پھر(ابراہیم واسمٰعیل) دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کوپیشانی کے بل لٹادیا۔
یہ ایک کھلی آزمائش تھی جس کابدلہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیاکہ اس قربانی کوبعد والوں کے لیےیادگاربنادیا ،چنانچہ یہی قربانی بطورسنت براہیمی آج ہم سبھی پر واجب ولازم ہے۔ اور یہ تمام آزمائشیں اورقربانیاں حضرت ابراہیم نے نام ونمودکی خاطر نہیں دیں،بلکہ یہ قربانیاںاللہ کی رضا اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیں،لہٰذاآج بھی ہم جو قربانی پیش کریں وہ صرف رضائے الٰہی کے لیے ہو،اوربس۔
خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ ۳۷ (حج)
ترجمہ: اللہ کی بارگاہ میں قربانی کا گوشت اور اُس کا خون نہیں ،بلکہ تمہار ا تقویٰ پہنچتا ہے ۔
اوریہی تقویٰ قربانی کا اصل جوہر ہے جو بندہ ٔمومن کی زندگی میں ہمیشہ نمایاں رہنا چاہیے ،کیوں کہ قربانی کااصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کاحصول ہے ۔
حجۃ الوداع کے موقع پر رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خصوصی طورپر یمن بھیجا جس کا مطلب یہ ہوا کہ اونٹوں کی اتنی بڑی تعداد مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں دستیاب نہ تھی ، پھر یوم النحر جیسے مصروف ترین دن میں اپنے دستِ مبارک سے ترسٹھ (۶۳) اونٹ ذبح فرمائے۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کام میں آپ کی معاونت کی ہوگی۔ اس کے باوجود اونٹ کو قربانی کی جگہ لانے، باندھنے اور پھراُس کو ذبح کرنے میں اگر کم سے کم پانچ منٹ بھی لگاہو،اس کوجوڑاجائےتویہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کام پر پانچ گھنٹے پندرہ منٹ صرف کیے، امت کو دینی مسائل اور احکامات سکھائے ۔
پھر آپ کا یہ فرمانا کہ مناسکِ حج مجھ سے سیکھ لو، اِس کے کیا معنی ہیں؟قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے بارے میں یہ فرمانا کہ جو قربانی نہ کرے وہ (نمازِ عید کے لیے) ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ان تمام باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
لہٰذاہمیں چاہیے کہ ہم دل و جان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی و اتباع کریں اوریہ خیال رکھیں کہ وقت آنے پر اللہ کی راہ میں ہر چیز کی قربانی دی جا سکتی ہے اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لیےتیاربھی رہیں اور سنتِ ابراہیمی کی اتباع میں تقویٰ اوراخلاص کومضبوطی کے ساتھ اپنائیں ۔ آج طاغوتی طاقتیں آلِ ابراہیم کو چیلنج کر رہی ہیں،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت ابراہیم کے نام لیوا بیدار ہوں اور طاغوتی طاقتوں کی پروا کیے بغیر اپنے فرائض کی ادائیگی میں دل وجان سےمصروف ہوجائیں۔کیوںکہ ؎
ترجمہ : تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اُن کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔
وہ کون سے اعمال ہیں جن کی بنیادپر سیدناابراہیم علیہ السلام کی زندگی ، ایک مثالی زندگی کے طورپر ہمارے سامنے آتی ہے؟اوراُنھیں کیوں ہمارامقتداوپیشوابنایاگیا؟اس پہلوپر غور کرنے سے یہ چیزیں سامنے آتی ہیں:
۱۔کامل الایمان ہونا
ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الآخِرِیْنْ۱۰۸ سَلٰمٌ عَلٰی اِبْرَاہِیْم۱۰۹کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْن۱۱۰اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِ نَا الْمُؤمِنِیْنَ۱۱۱ (صافات)ترجمہ:ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی، سلام ہو ابراہیم پر، نیکوں کوہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں،بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجے کےمومن بندوں میں ہیں۔
۲۔ہرآزمائش میں کامیاب ہونا
قرآن کریم میں ارشادفرمایاگیاہے:
وَاِذَابْتَلٰی اِبْرَاہِیْمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۱۲۴(بقرہ)
ترجمہ: ابراہیم کو اُس کے رب نے کچھ باتوں میں آزمایا تو اُنھوں نے ان کو پورا کر دکھایا ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میںتم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔
۳۔روشن ضمیرنیکوںمیں ہونا
ارشاد باری ہے:وَ اذْكُرْ عِبٰدَنَا اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ اُولِی الْاَیْدِیْ وَ الْاَبْصَارِ۴۵ اِنَّا اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَی الدَّارِ۴۶ وَ اِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَیْنَ الْاَخْیَارِ۴۷ وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِ وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِ۴۸ هٰذَا ذِكْرٌ وَ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَاٰبٍ۴۹( ص) ترجمہ:(اے محبوب)یادکریںہمارے(مقبول) بندوں ابراہیم، اسحٰق ، یعقوب کو ،بڑی قوت و الے اور روشن ضمیر تھے، ہم نے اُنھیں ایک خاص چیزسے مختص کیا تھااوروہ دارِ آخرت کی یاد تھی۔ یہ ہمارے نزدیک منتخب نیک لوگ ہیں، اور یاد کریں اسمٰعیل، یسع اور ذی الکفل کو ، یہ سب نیکوںمیں سے ہیں ۔ یہ نصیحت ہے کہ بے شک پرہیز گاروں کے لیے عمدہ ٹھکانہ جنت ہے۔
گویاحضرت ابراہیم اوراُن کی پاک اولادبڑے جری اورروشن ضمیر تھے،ان کو جسمانی قوتوں کے ساتھ ساتھ یقین کی قوتیں ، اعمال صالحہ انجام دینے کی قوتیں اور روحانی قوتیں بھی حاصل تھیں۔ نیز اُنھیں دینی بصیرت او رمعرفت الٰہی بھی حاصل تھی۔
۴۔توحید کا داعی ہونا
آپ کاسب سے اہم کارنامہ عقیدۂ توحید کی دعوت دینا ہے۔ آپ نے شرک کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں اس وقت توحید کی شمع روشن کی اور توحید کا ایک فیصلہ کن نظریہ پیش کیا جب پوری دنیاایک معبود کو بھول کرسیکڑوں معبودوں کی پرستش کررہی تھی۔لوگ سورج،چانداورتاروں کواپنامعبوداور دیوتا مانتے تھے ۔
اس کی تفصیل قرآن مجید میں اس طورپربیان کی گئی ہے:
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاقَالَ هٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّااَفَلَ قَالَ لَا اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ۷۶ فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّا اَفَلَ قَالَ لَىِٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ۷۷ فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَا اَكْبَرُ فَلَمَّا اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ۷۸ اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَااَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ۷۹
ترجمہ:جب رات آئی اور ایک تارے کو دیکھاتو (حضرت ابراہیم ) بولے کہ اِسے میرا رب ٹھہراتے ہو، پھر وہ ڈوب گیا تو (حضرت ابراہیم ) بولےکہ میں ڈوبنے والوں کو پسندنہیںکرتا۔جب چاندکوچمکتےہوئےدیکھاتو(حضرت ابراہیم ) بولےکہ اِسے میرا رب ٹھہراتے ہو،جب وہ ڈوب گیاتو (حضرت ابراہیم )بولےکہ اگر میرارب مجھےہدایت نہ دیتاتو یقیناًمیں بھی گمراہ قوم سے ہوجاتا۔ جب سورج کو جگمگاتے ہوئےدیکھاتو(حضرت ابراہیم ) بولے کہ اِسے میرارب ٹھہراتے ہو، یہ تواُن سب سے بڑا ہے، لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو(حضرت ابراہیم ) بولےکہ اے میری قوم ! میں تمہارے شرکیہ عمل سےبَری ہوں۔ میں نے اپنا رخ اس ذات کی طرف یکسو ہوکرپھیر لیا ہےجس نے آسمانوں اور زمین کوپیدا فرمایا اور میں مشرکوں میں سےنہیں ہوں ۔
حضرت ابراہیم کےاِن دلائل کے سامنےاُن کی قوم کے لوگ لاجواب ہوگئے اوراُن سے جھگڑنے لگے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:ۚ وَ حَآجَّهٗ قَوْمُهٗ قَالَ اَتُحَآجُّوْٓنِّیْ فِی اللّٰهِ وَ قَدْ هَدٰىنِ وَ لَا اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖ اِلَّا اَنْ یَّشَآءَ رَبِّیْ شَیْـًٔاوَسِعَ رَبِّیْ كُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ۸۰ (انعام )
ترجمہ: حضرت ابراہیم کی قوم اُن سے الجھ گئی،اس پر حضرت ابراہیم اپنی قوم سے بولے کہ تم لوگ اللہ کے معاملے میں مجھ سے الجھتے ہو؟ حالاں کہ اُس نے مجھے سیدھی راہ دکھائی،میں تمہارے شریک ٹھہرائے ہوئے خداؤں سے نہیں ڈرتا۔ ہاں!اگر میرا رب کچھ چاہے،کیوںکہ میرے رب کا علم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے،کیاتم اب بھی ہوش میں نہیں آؤگے۔
حضرت ابراہیم اپنی قوم کو سمجھاتے رہے لیکن قوم کے ذہنوںسے دیوی دیوتاؤں کاڈرنہ نکل سکااور وہ یہی سمجھتے رہے کہ دیوی دیوتاؤں کی شان میں معمولی بے ادبی بھی بربادی کاسبب ہے، حالاں کہ حضرت ابراہیم نے صاف صاف بتادیاکہ ان کو تو تم خود اپنے ہاتھ سے بناتے ہو،یہ خود تمہارے محتاج ہیں ،ان میں اپنی حفاظت کرنے کی سکت نہیں،پھریہ تمھیںنفع یانقصان کیسےپہنچا سکتے ہیں ۔
۵۔بیوی اوربچے کوسنسان وادی میں چھوڑنا
حضرت ابراہیم کی یہ قربانی بھی قابلِ عبرت ہے کہ ضعیفی کے عالم میں آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی بیوی اور جان سے زیادہ پیارے بیٹے کو ایسی سرزمین میں چھوڑآئےجہاں نہ تو انسان بستےتھے اور نہ ہی وہاںان کی ضرورت کاکوئی سامان موجودتھا،بلکہ بالکل ایک سنسان وادی تھی اورمیدانی علاقہ تھا۔اس کا ذکر قرآن میں یوںموجود ہے:رَبَّنَا اِنِّیْ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ۳۷
ترجمہ:اے ہمارے رب!میں نےاپنی ذرّیت کو تیرے محترم گھر(خانہ کعبہ)کے پاس ایک سنسان وادی میں ٹھہرادیاہے، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔اے ہمارے رب! لوگوں کے دلوں کواُن کی طرف پھیردے اوراُنھیں پھلوں سے رزق عطافرما،تاکہ وہ شکرگزار بنیں۔
وہ جگہ جو کبھی بے آب و گیاہ اورسنسان وادی کے نام سے جانی جاتی تھی آج دنیا کی توجہ کا مرکزبنی ہوئی ہے،مرکز رشدو ہدایت ہے، وہاںسال میں ایک بار عالمی پیمانے پر مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع ہوتا ہے اور لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کی صداؤں سےوہاں فضا گونج اُٹھتی ہیں۔یہ سب حضرت ابراہیم کےاخلاص ،ان کی نیک نیتی اوراللہ کی راہ میں اُن کی آزمائش کا نتیجہ ہے۔
۶۔بیٹےکو قربان کرنا
حضرت ابراہیم کاایک اہم کارنامہ قربانی ہے، جواُنھوں نےاللہ کی رضا اور اُس کی خوشنودی کی خاطرسب سے زیادہ محبوب اپنے لختِ جگرکی شکل میں دی تھی اوراللہ تعالیٰ کے اِس فرمان مقدس کی عملی تفسیرپیش کی تھی،جس میں فرمایاگیاہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۹۲ (آل عمران )
ترجمہ: تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچوگے جب تک کہ اللہ کی راہ میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کروگے وہ اللہ رب العزت کو معلوم ہے۔
چنانچہ جب حضرت ابراہیم نے اپنےبیٹے حضرت اسمٰعیل سے اس بارے میں دریافت کیاتوجواب ملا:
یٰٓاَ بَتِ افْعَلْ مَاتُؤمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآ ئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْن۱۰۲ (صافات)
ترجمہ: ابّا جان ! آپ کو جو حکم دیاجارہا ہے اُسےپورا کریں، ان شاء اللہ آپ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گے۔
اس کے بعدباپ بیٹےدونوں نےحکم الٰہی کے آگے سرتسلیم خم کردیا۔ارشادباری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِیْن۱۰۳(صافات)
ترجمہ:پھر(ابراہیم واسمٰعیل) دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کوپیشانی کے بل لٹادیا۔
یہ ایک کھلی آزمائش تھی جس کابدلہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیاکہ اس قربانی کوبعد والوں کے لیےیادگاربنادیا ،چنانچہ یہی قربانی بطورسنت براہیمی آج ہم سبھی پر واجب ولازم ہے۔ اور یہ تمام آزمائشیں اورقربانیاں حضرت ابراہیم نے نام ونمودکی خاطر نہیں دیں،بلکہ یہ قربانیاںاللہ کی رضا اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دیں،لہٰذاآج بھی ہم جو قربانی پیش کریں وہ صرف رضائے الٰہی کے لیے ہو،اوربس۔
خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ ۳۷ (حج)
ترجمہ: اللہ کی بارگاہ میں قربانی کا گوشت اور اُس کا خون نہیں ،بلکہ تمہار ا تقویٰ پہنچتا ہے ۔
اوریہی تقویٰ قربانی کا اصل جوہر ہے جو بندہ ٔمومن کی زندگی میں ہمیشہ نمایاں رہنا چاہیے ،کیوں کہ قربانی کااصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کاحصول ہے ۔
حجۃ الوداع کے موقع پر رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خصوصی طورپر یمن بھیجا جس کا مطلب یہ ہوا کہ اونٹوں کی اتنی بڑی تعداد مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں دستیاب نہ تھی ، پھر یوم النحر جیسے مصروف ترین دن میں اپنے دستِ مبارک سے ترسٹھ (۶۳) اونٹ ذبح فرمائے۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کام میں آپ کی معاونت کی ہوگی۔ اس کے باوجود اونٹ کو قربانی کی جگہ لانے، باندھنے اور پھراُس کو ذبح کرنے میں اگر کم سے کم پانچ منٹ بھی لگاہو،اس کوجوڑاجائےتویہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس کام پر پانچ گھنٹے پندرہ منٹ صرف کیے، امت کو دینی مسائل اور احکامات سکھائے ۔
پھر آپ کا یہ فرمانا کہ مناسکِ حج مجھ سے سیکھ لو، اِس کے کیا معنی ہیں؟قربانی کی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کے بارے میں یہ فرمانا کہ جو قربانی نہ کرے وہ (نمازِ عید کے لیے) ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ان تمام باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
لہٰذاہمیں چاہیے کہ ہم دل و جان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی و اتباع کریں اوریہ خیال رکھیں کہ وقت آنے پر اللہ کی راہ میں ہر چیز کی قربانی دی جا سکتی ہے اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لیےتیاربھی رہیں اور سنتِ ابراہیمی کی اتباع میں تقویٰ اوراخلاص کومضبوطی کے ساتھ اپنائیں ۔ آج طاغوتی طاقتیں آلِ ابراہیم کو چیلنج کر رہی ہیں،اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت ابراہیم کے نام لیوا بیدار ہوں اور طاغوتی طاقتوں کی پروا کیے بغیر اپنے فرائض کی ادائیگی میں دل وجان سےمصروف ہوجائیں۔کیوںکہ ؎
آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
ک
یا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں