Hazrat Imam Hussain

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Nov-2015Jahangir Hasan Misbahi                                      Download_Pdf 


حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو انجام تک پہنچادیاجس کی ابتداحضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ہوئی تھی

ولادت باسعادت
 حضرت امام حسین کی ولادت ۵؍شعبان سنہ چار ہجری مطابق ۶۲۴ عیسوی میں بمقام مدینہ منورہ ہوئی۔
حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین کے کان میں اذان دی۔
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
 رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحُسَيْنِ حِيْنَ وَلَدَتْهٗ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا۔ (مستدرک،باب فضائل الحسین،حدیث:۴۸۲۷ )
ترجمہ:میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ نے امام حسین کے کان میں اذان کہی جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے امام حسین کو جنم دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدائش کے ساتویں دن امام حسین کی جانب سے عقیقہ کیا ۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں:
 عَقَّ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَسَنٍ شَاتَيْنِ وَ عَنْ حُسَيْنٍ شَاتَيْنِ ذَبَحَہُمَايَوْمَ السَّابِعِ۔ (مصنف عبدالرزاق،باب العقیقہ،حدیث:۷۹۶۳)
 ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں دن حسن وحسین (رضی اللہ عنہما)کاعقیقہ کیااورہر ایک کی جانب سے دو دو بکرے ذبح کیے۔
حلیہ مبارک
 حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نہ زیادہ لمبے تھے نہ زیادہ چھوٹے، پیشانی کشادہ اورداڑھی گھنی تھی،جب کہ سینہ چوڑاتھا،آواز بڑی پیاری اوراچھی تھی،بولتے تو ایسا معلوم ہوتا تھاکہ کانوں میں رس گھول رہے ہوں۔آپ کی ہتھیلیاں اور قدم مبارک کشادہ تھے۔
امام حسین،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کافی مشابہت رکھتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
 اَلْحَسَنُ أَشْبَہُ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَابَیْنَ الصَّدْرِ إِلَی الرَّأْسِ، وَالْحُسَیْنُ أَشْبَہُ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا کَانَ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِکَ۔ (سنن ترمذی،باب مناقب الحسن والحسین،حدیث: ۳۷۷۹)
ترجمہ:حسن سر سے لے کر سینہ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے اورحسین سینے سے لے کرنیچے تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔
محمد بن ضحاک بن عثمان حزامی بیان کرتے ہیں :
کَانَ جَسَدُ الْحُسَیْنِ شِبْہَ جَسَدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔(معجم طبرانی،باب الحسین بن علی،حدیث:۲۸۴۵)
ترجمہ:حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا جسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے مشابہ تھا۔
تعلیم وتربیت
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ان خوش قسمت افراد میں ہیں جن کی تعلیم وتربیت بڑے نازونعم سے ہوئی۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسین کی تعلیم وتربیت فرمائی ہے ۔
 اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ جس ذات کی پرورش فخردوعالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ہوئی ہو وہ کس قدر کرامت وعظمت اورشرافت وبزرگی والاہوگا۔
مزیدامام حسین، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان ایمانی،نورانی،عرفانی اور قرآنی ماحول میں پلے بڑھے جو انبیاو مرسلین کے بعد سب سے بہتر مخلوق ہیں۔
امام حسین کی پرورش کس طریقے پر ہوئی۔اس سلسلے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ مَعَہٗ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ، ہٰذَاعَلٰی عاَتِقِہٖ وَہٰذَاعَلٰی عَاتِقِہٖ وَہُوَ یَلْثِمُ ہٰذَامَرَّۃً وَہٰذَامَرَّۃً حَتّٰی اِنْتَہٰی إِلَیْنَا،فَقَالَ لَهٗ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّكَ تُحِبُّهُمَا، فَقَالَ: مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي۔ (مسنداحمد،مسندابوہریرہ،حدیث:۹۶۷۳)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن اورحسین کے ساتھ باہرنکلے،حسن ایک کاندھے پرتھے اور حسین دوسرے کاندھےپر،آپ کبھی حسن کو پیارکرتے تو کبھی حسین کو،یہاں تک کہ آپ ہم تک پہنچ گئے۔اتنے میں کسی شخص نےدریافت کیاکہ یارسول اللہ! کیاآپ اِن دونوںسے محبت کرتےہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جس نےان دونوں سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے دشمنی رکھی اُس نے مجھ سے دشمنی رکھی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْجُدُ فَیَجِیءُ الْحَسَنُ أَوِ الْحُسَیْنُ فَیَرْکَبُ عَلٰی ظَہْرِہٖ، فَیُطِیْلُ السُّجُوْدَ۔ (مجمع الزوائد،ج:۹،ص:۱۱۱)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ادا کررہے ہوتے تو حسن یاحسین(رضی اللہ عنہما) آتےاورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک پیٹھ پر سوار ہوجاتےتوآپ اُس وقت اپنا سجدہ لمبا فرما لیتے۔
 امتیازات وخصوصیات
حضرت امام حسین حسن تدبر،صبروتحمل،علم وحلم، شجاعت و جواںمردی، فہم و فراست،غیرت مندی، سخاوت و ذکاوت، صداقت اور اخلاق حسنہ جیسی اعلیٰ صفات سے متصف تھے، بلکہ اگر سچ کہاجائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سچے اورحقیقی جانشین و نائب تھے۔

ذوق عبادت
جملہ فرائض اورواجبات کی بروقت ادائیگی تو کرتے ہی تھے ، قرآن کریم کی تلاوت بھی بڑے انہماک اور خلوص کے ساتھ فرماتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ تلاوت میں مشغول رہتےتواُن کے دل پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی اوروہ اِس قدر گریہ وزاری کرتےکہ آنسوؤںسے چہرہ اور داڑھی تربتر ہوجاتی تھی۔
 اس کے علاوہ رات بھر عبادت وریاضت میں مشغول رہتے اوراللہ کی بارگاہ میںتوبہ واستغفارکرتے رہتے ۔

تواضع وانکساری
 امام حسین رضی اللہ عنہ دوسرے کریمانہ اخلاق سے متصف ہونے کے ساتھ بڑے منکسرالمزاج بھی تھے۔
 ایک بار آپ ایک ایسی جگہ سے گزرے جہاں پر کچھ مسکین زمین پر بیٹھ کر کھانا کھارہے تھے، ان لوگوں نے آپ کو سلام کیا اورکہا:یا ابن رسول اللہ!تشریف لائیں۔ آپ سواری سے یہ کہتے ہوئے اترآئے کہ اللہ گھمنڈ کو پسند نہیں فرماتااوراُن کے ساتھ بیٹھ کر کھاناکھانے لگے۔ جب فارغ ہوئے توکہاکہ تم لوگوں نے مجھے بلایامیں آگیا،اب میں تم سب کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتاہوں اُسے بھی قبول کرو۔

مشیت الٰہی اورشہادت حسین
 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں:
حضرت جبرئیل،حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے،اسی درمیان حسین ابن علی آپ کے پاس آئے اور کاندھے پر سوارہوکرکھیلنے لگے۔ حضرت جبرئیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ یامحمد!آپ حسین سے محبت کرتے ہیں؟ نبی کریم نے فرمایاکہ اے جبرئیل !اپنے بیٹے سے محبت کیوں نہ کروں؟یہ سن کرحضرت جبرئیل نے کہاکہ آپ کی اُمت ہی حسین کو شہیدکردے گی،اوراپنا ہاتھ بڑھاکرکچھ سفید مٹی لائے،پھرکہاکہ یامحمد!مقام طف میں آپ کے بیٹے شہیدکردیے جائیں گے۔ جب جبرئیل، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے گئے توآپ اپنے ہاتھ میں وہی مٹی لے کر روتے ہوئے نکلےاورفرمایا:
يَا عَائِشَةُ! إِنَّ جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَخْبَرَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ ابْنِي مَقْتُوْلٌ فِي أَرْضِ الطَّفِّ،وَأَنَّ أُمَّتِي سَتُفْتَتَنُ بَعْدِيْ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهٖ فِيْهِمْ عَلِيٌّ ، وَأَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ ، وَحُذَيْفَةُ،وَعَمَّارٌ،وَأَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰى عَنْهُمْ وَهُوَ يَبْكِي، فَقَالُوْا:مَا یُبْکِیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ فَقَالَ:أَخْبَرَنِی جِبْرِیْلٌ أَنَّ ابْنِی الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بَعْدِیْ بِأَرْضِ الطَّفِّ، وَجَاء نِیْ بِہٰذِہِ التُّرْبَۃِ۔ (معجم طبرانی،باب الحسین بن علی ، حدیث:۲۸۱۴)
ترجمہ: اے عائشہ!جبرئیل نے مجھے خبردی ہے کہ میرا بٹیا حسین مقام ’’طف‘‘ (کربلا) میں شہید کردیا جائےگا،پھر اپنےاصحاب علی، ابوبکر، عمر، حذیفہ،عمار،ابوذرغفاری رضی اللہ عنہم کے پاس روتےہوئےگئے۔ جب صحابۂ کرام نےآپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھاتو اُنھوں نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ!آپ کوکس چیز نے رلایاہے؟فرمایاکہ جبرئیل نے مجھے خبردی ہے کہ میرا بیٹاحسین میرے بعد مقام ’’طف‘‘میں شہیدکردیاجائے گااوریہ مٹی لائے ہیں۔
 چنانچہ مشیت الٰہی کے مطابق ۱۰؍محرم ،۶۱ہجری مطابق ۶۸۱ عیسوی میں شہیدکردیے گئے اور قیامت تک کے لیے اُمت مسلمہ کے لیے نشان راہ چھوڑگئے۔
گویا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو انجام تک پہنچادیاجس کی ابتداحضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ہوئی تھی، بلکہ وہ خواب سچ کردکھایاجوحضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھاتھا۔ڈاکٹراقبال اس کی بڑی اچھی ترجمانی کرتے ہیں:
 غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسمٰعیل
تعلیمات وفرمودات
 ذیل میں ان کی تعلیمات کے کچھ منتخب حصے پیش ہیں:

جان لوکہ بھلائی کے ذریعے ہی بڑائی اوربدلہ ملتا ہے، اگرلوگوں میں کوئی بھلا انسان دیکھوتواُس سے اپنی نگاہ کو ٹھنڈک پہنچاؤاوراگرکسی ملامتی انسان کو دیکھوتواُس سے اپنے دل کو دور کرلو۔
بے شک دنیابدلنے والی ہے اور اس کی بھلائیاں آخرت میں کام آنے والی ہیں،مومن کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کو محبوب رکھے ۔
مجھے بھلائی کی موت پسندہےکیوں کہ یہ نیک بختی ہے ، اور ظالموں کے ساتھ جینامجھے پسند نہیں کیوں کہ یہ جرم ہے۔
جس چیز کی تمھیں طاقت نہیں اُس کا ذمہ نہ لواورجو چیز تم نہیں جانتے اس کا تدارک نہ کرو۔
جو چیز تیرے مقدرمیں نہیں اُس کو شمارنہ کرواوراپنی قدرت کے مطابق خرچ کرواوراپنے عمل کے مطابق ہی بدلہ طلب کرو۔
جوکچھ بھی اللہ کی اطاعت سے ملے اُس پر خوشی مناؤ، اور وہی کھاؤ جس کا اہل تم اپنے آپ کو پاؤ۔
جس نے سخاوت کی وہ شاد ہوا،جس نے بخل سے کام لیا وہ رسواہوا،اور جس نے اپنے بھائی کے ساتھ بھلائی کی، قیامت میں اُس کا بدلہ وہ اپنے رب کے پاس پائے گا۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0