Hikayaat-e-Mashaikh

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Nov-2015➤ Shaikh Muhammad Bin Munawwar                 Download_Pdf 


حکایات مشائخ

سلطان طریقت،برہان حقیقت شیخ ابو سعیدفضل اللہبن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی قدس اللہ سرہٗ یکتائے روزگار شخصیت ، عارف ربانی اورعظیم صوفی تھے۔ان کی پیدائش’خراسان‘ کے ’میہنہ‘گائوں میں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ آپ نے وفات پائی۔ ’’اسرارالتوحید فی مقامات ابی سعید‘‘موسوم بہ’مقامات خواجہ‘ ان کے مخصوص احوال واقوال پر مشتمل ہے جسے آپ کےپر پوتے شیخ محمد بن منور قدس سرہٗ نے ترتیب دی ہے۔یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔ مولاناامام الدین سعیدی(ا ستاذ جامعہ عارفیہ ) نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے۔۱۵ویں قسط سےاُنھیں کاترجمہ مسلسل ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

حکایت
 خواجہ ابوالفتح پیرموسیٰ سےبیان کرتے ہیں کہ ایک دن شیخ ابوسعید نےنیشاپورمیں مجھ سے فرمایا کہ موسی!آگے بڑھو اور دورکعت نماز کی امامت کرو،ہم لوگ تمہاری اقتدا کریں گے۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ قرآن کریم کے اندر جتنی بھی آیاتِ حمد ہیں سب کی تلاوت کرنا۔
 پیر موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں حواس باختہ ہو گیا کہ یہ کام میں کیسے انجام دے سکتا ہوں ؟بہر کیف! میں حکم کی تعمیل کے لیے آگے بڑھا اور جیسے ہی کھڑا ہوابے ساختہ قرآن کریم کی آیاتِ حمد میری زبان پر جاری ہو گئیں۔
جب نماز پوری ہو گئی تو شیخ ابوسعیدنے مجھ سے فرمایاکہ اے موسیٰ ! ہم لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے عاجز تھے، یہ اعزاز اللہ نے تمھیں عطا کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ تمھیں اوربھی اچھائیاں عطا کرے ۔(آمین)

 حکایت
ابو بکر مکرم بیان کرتے ہیں کہ نیشاپور میں ایک حاکم تھا جو ہمیشہ شیخ کی خانقاہ پر نظر رکھتا تھا۔ایک دن کسی نے عود کا قیمتی ٹکڑا اور ایک ہزار دینار نذر پیش کیا ۔شیخ نے حسن مؤدب کو حکم دیا کہ اس دینار سے زیرہ والےحلوہ تیار کرو اور عود کے پورے حصے کو ایک ہی بار میں آگ میں ڈال دو، تاکہ پڑوس والے بھی اس خوشبو سے محظوظ ہو ں۔
 اس طرح نہایت پُر تکلف کھانے کا اہتمام کیا گیا۔ اسی درمیان وہ حاکم بھی جائزہ لینے کے لیےآگیا ۔ جب اس نے یہ اہتمام دیکھا تو شیخ سے حاکمانہ اندازمیں کہنے لگا کہ اس قدر تنگی اور سختی کی حالت میں یہ کیسی فضول خرچی ہے ؟مزید اس نے زجر و توبیخ کر نے سے بھی گریز نہیں کیا، مگر شیخ اس کی گستاخی و جرأت پر خاموش رہے۔ شیخ نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایاکہ اندر آجا۔وہ دو قدم چلا، شیخ نے فرمایااور نزدیک آ ، پھر وہ دو قدم چلا مگر اس کے آگے چلنے کی طاقت نہ رہی،وہ نہایت تکلیف کے عالم میں واپس ہو گیا اور خانقاہ کے پڑوس میں واقع مسجد میں داخل ہو کربیٹھ گیا۔ شیخ نے ایک مرید کو اس کے پاس مدد کے لیے روانہ فرمایا، وہ حاکم اسی طرح ڈھائی سال تک مریض رہا، پھر وفات پا گیا ۔
 اسی وجہ سے مشائخ عظام نے فرمایا ہے کہ صاحب احوال اور مشائخ کی شان میں گستاخی و دلیری سے بچنا چاہیے اور اُن کے پاس نہایت ادب و احترام اور خطرات کو محفوظ رکھتے ہوئے حاضری دینی چاہیے، اس لیے کہ ان کے اوپر احوال طاری ہوتے ہیں۔ بالفرض قبض کی حالت میں کسی پر غضب کی نظر پڑ گئی تو اس پر مصیبت نازل ہو جاتی ہے ۔( نعوذ باللہ)

حکایت
 خواجہ اسمٰعیل مکرم بیان کرتے ہیں کہ میںنیشاپور میں کسی راستے سے گذر رہا تھا کہ اتنے میں شیخ ابو سعید میرے سامنے آگئے۔ میں نےدست بستہ سلام پیش کیا، انھوں نے بخوشی جواب سے نوازا، پھر میں ان کے پیچھے چلنے لگا اور اُن کے قدم مبارک اور رِکاب کو دیکھنے لگا۔ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کاش ! شیخ مجھے اجازت دیتے تومیں قدم بوسی کا شرف حاصل کرلیتا، ٹھیک اسی وقت شیخ نے گھوڑے کو ایڑ لگایا، تاکہ میں ان کے قریب پہنچ جاؤں ،پھر اُنھوں نے قدم مبارک رِکاب سے باہر کر کےمیرے سامنے کر دیا۔میں نے والہانہ انداز میںقدم مبارک کوبوسہ دیا،پھراس کے بعد گھوڑا چل دیااور میں بھی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

 حکایت
 رشید الطائفہ عبد الجلیل بیان کرتے ہیں کہ نیشاپور کے اندر ایک درویش ،شیخ کے عاشق تھے،ان کے پاس دنیاوی دولت کے طورپر ایک انگو رکا باغ تھا۔ایک دن وہ شیخ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کیا کہ حضور ! میری خواہش ہے کہ اپنے احباب و اصحاب کے ہمراہ اس باغ میں قدم رنجہ فرمائیں۔ شیخ نے فرمایا مجھے منظور نہیں ،وہ درویش کئی بار آیا اور عرضی لگا تا رہا مگر شیخ نے قبول نہیں فرمایا۔بالآخر بڑے اصرار کے بعد شیخ اپنے احباب کے ساتھ جانے کے لیے راضی ہو گئے ،اس کا باغ چھوٹا تھا اور لوگ زیادہ تھے۔ بہر کیف! لوگوں نے پورا اَنگور تناول کیااورایک درویش نے انگور کےدو خوشے باغ کے ایک گوشے میں سجادے میں لپیٹ کرایسے رکھ دیاکہ کسی کو پتا نہ چلے۔جب سارے احباب واصحاب چلے گئے تواُس نے تمام باغ کا جائزہ لیا،مگروہ ایک بھی انگور نہیں پایا۔پھر جب شیخ بھی چلے گئےتوانگور نہ ملنے کی وجہ سے وہ انتہائی غصے کے عالم میں اپنی جگہ سےاٹھا،باغ سےباہرنکلااورباغ کا دروازہ بندکردیا اورپھر اپنےاسی غصے کی وجہ سے نہ تو وہ موسم سرما میں باغ کے اندر گیا اور نہ ہی حضرت شیخ کی خدمت میں حاضری دی ۔
جب کا شت کا دوسرا سال آیا ،لوگ اپنے اپنے باغ میں انگور لگانے لگے تواُس شخص نے سوچا کہ میں بھی اس کام میں مشغول ہو جاؤں ۔ غصے کی وجہ سے کاشت نہ کرنا بے فائدہ اور بےسود ہے۔ چنانچہ یہ سوچ کر وہ اٹھا اور باغ کی طرف نکل پڑا ۔باغ میں جیسے ہی داخل ہواتو ایک کنارے نیا مصلیٰ رکھا ہوا دیکھا، اسے اٹھا کر جھاڑا تو انگور کے دو تازہ خوشے نظر آئے،وہ بہت خوش ہوا اور دل میں سوچا کہ اسے بادشاہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہیے تاکہ ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے کچھ انعام عطا کرے ۔ بالآخر اس نے انگور کو ایک طبق میں ر کھا اور بادشاہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ بادشاہ خوش ہوا اور حکم دیاکہ اس طبق کو سونے سے بھرکے اُسے دےدو۔وہ آدمی بہت خوش ہوا اور سمجھ گیا کہ یہ شیخ ابو سعید کے قدم مبارک کی برکت ہے۔شیخ اور اُن کے احباب سے ناراضگی پر شرمندہ ہوا، اور اس سونے کی طشتری سے دس دینار لے کر شیخ کی بارگاہ میں پہنچا،تاکہ اپنے کیے ہوئے پر معذرت کر سکے۔
 جب شیخ کی نگاہ اس پرپڑی تو ارشاد فرمایا کہ اگر بادشاہ اسے نہ کھاتے تو یہ سب چیزیں تمھیں نہیں ملتیں۔ وہ درویش شرمندہ ہوا، تو بہ کیااور پھراپنا سر شیخ کے قدموں پر رکھ دیا۔ (اس حکایت کے اول حصے میں نسخوں کا اختلاف ہے)

حکایت
 یہ اس زمانے کی بات ہے جب شیخ نیشاپور میں مقیم تھے اورپرُتکلف دسترخوان کا اہتمام کر تے تھے۔ ایک قاری جو شیخ کے حاسدوں میں سے تھا۔ ایک دن شیخ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کے ساتھ چلہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا مقصد شیخ کو بھوک سے پریشان کر کے لوگوں کے سامنے رسوا کرنا تھا، مگر اُس بیچارے کو شیخ کی ابتدائی ریاضتوں کا علم نہیں تھا ۔وہ موجودہ حالت پر قیاس کرکے شیخ کو تنگ کرنا چاہ رہا تھا۔شیخ نے اس کی درخواست قبول فرمالی اور اپنا مصلیٰ لے کر خانقاہ کے ایک گوشے میں بیٹھ گئے ،وہ قاری بھی شیخ کے بغل میں بیٹھ گیا۔ قاری چلہ کے درمیان کچھ نہ کچھ کھا لیاکر تا تھا مگر شیخ تھوڑا یازیادہ کچھ بھی نہیں کھاتے تھے ۔حالاںکہ اپنے سامنے پُرتکلف کھانا لگواتے تھے۔ اس چلّے میں شیخ بدستور تازہ دم اور تندرست تھے مگر وہ قاری دن بدن کمزور ہوتا گیا۔ مزیداپنے سامنے پُر تکلف کھانا دیکھتا تھا اور اپنے آپ کو کوستا تھا۔ اس کی حالت یہ ہو گئی کہ اب اس کے لیے نماز ادا کرنا بھی مشکل ہوگیا، وہ اپنی اس حرکت پر شرمندہ تھا۔
جب چالیس دن مکمل ہو گئے تو شیخ نے فرمایا کہ جو تم نے چاہا وہ میں نے کر دکھایا، اب جو میں چاہوں گا تمھیں کر نا ہوگا، اس نے کہا کہ شیخ! حکم ہو۔ شیخ نے فرمایاکہ اب پھر چالیس دن اعتکاف کریں گے اور ہر دن کچھ نہ کچھ ضرور کھائیں گے مگر رفع حاجت کے لیے بیت الخلا ءنہیں جائیں گے۔چنانچہ اس شرط کے ساتھ چلہ شروع ہوا، شیخ نے عمدہ اور لذیذ کھانا منگوایا وہ بھوکا قاری کھانے پرٹوٹ پڑا اور بے تحاشہ کھا لیا،کچھ دیر بعد اُسے حاجت محسوس ہوئی، ادھر شیخ اس کی حالت دیکھ رہے تھے۔ اس قاری کے لیے ایک گھڑی بھی برداشت کرنا مشکل ہو گیا،وہ فوراً شیخ کے قدموں میں گرپڑا اور اپنے کیے ہوئے دعویٰ سے توبہ کیا۔
شیخ نے فرمایاکہ اب تم اپنی حاجت پوری کرو اورپھرجو چاہو کرو، لیکن اس کے بعد ہمارے ساتھ ہی بیٹھنا تاکہ جو میں نے کہا ہے وہ بھی پورا ہو جائے۔ قاری نےچالیس دن شیخ کے ساتھ گذارا،وہ جب چاہتا رفع حاجت کر تا مگر شیخ اس چلہ کے درمیان ایک بار بھی بیت الخلا ء نہیں گئے ،حالاں کہ شیخ بھی حسب معمول کھانا کھاتے ،سماع سنتے،رقص کرتے۔ قاری نے شیخ کی اس حالت کا مشاہدہ کیا تو اپنے کیے پر معذرت کرنے لگا اور شیخ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہو گیا۔

 حکایت
 نیشاپور میں ابو عبد اللہ کرام کے ساتھیوں میں ایک حاکم تھا۔وہ شیخ کا زبردست مخالف تھا ۔ایک دن وہ کچھ کپڑا لےکر دھوبی کے پاس جا رہاتھاکہ راستے میں وہ شیخ کی مجلس وعظ سے گزرا،اس وقت شیخ وعظ فرما رہے تھے ۔حاکم نے دل میں سوچا کہ کپڑے دےکر جب اس طرف سےواپسی کروںگا تو اُن کوبتاؤں گا کہ انھیں کیا کرنا چاہیے،وہ وہاں چلا گیا اور کپڑے دھوبی کو دے دیااور بطور اُجرت ایک درہم اس کے ہاتھ میں تھمادیا ۔
دھوبی نے کہا کہ کچھ اور دیجیے ،یہ تو صابون اور غسل کی قیمت بھی نہ ہوگی، میری دھلائی کی مزدری تو دور کی بات ہے۔ حاکم نے اسے چند کوڑے لگادیے، بوڑھا دھوبی رونے لگا۔ جب حاکم واپس ہواتو دیکھا کہ شیخ ابھی بھی وعظ کر رہے ہیں، وہ خانقاہ میں داخل ہوا اور کہنے لگاکہ اے شیخ! یہ مکرو فریب کب تک کرتے رہو گے ؟
شیخ نے سنجیدگی کے ساتھ فرمایا کہ حاکم صاحب!آپ ہی بتائیں کیا کرنا چاہیے؟
 حاکم نے کہاکہ مجلس میں وعظ نہیں کرنا چاہیےاور اشعار نہیں پڑھنا چاہیے۔
 شیخ نے فرمایاکہ جیساآپ چاہتے ہیں ہم ویساہی کریںگے لیکن آپ کوبھی ایسانہیں کرنا چاہیے کہ صبح کپڑے لے کر دھوبی کے پاس جاتے ہیں اور اس کو ایک درہم دیتے ہیں تودھوبی کہتاہے کہ کم از کم صابن اور دھلائی کی پوری قیمت تو دیجیے، میری مزدوری نہ سہی، پھر اس کو دُرّہ لگاتے ہیں اور وہ بیچارہ درد کا مارا روتا ہوا جنگل چلا جا تاہے، آپ کو اُس ضعیف کی آہ سے ڈر نہیں لگتا؟ اگر آپ کو کپڑا ہی دھلوانا ہے تو لائیے اور حسن کو دیجیے ، بہترین طریقے سے دھل کر اورعطر و گلاب لگاکر آپ کے پاس پہنچا دیا جائے گاتاکہ آپ سے کسی مسلمان کا دل نہ دکھے اور معصیت کاا رتکاب نہ ہو۔
 حاکم نے جب یہ ماجرا سنا تووہ شرمندہ ہوا،اور شیخ کے قدموں پرگرپڑ ااور ہر طرح کی مخالفت و حسد سے توبہ کرلیا۔

حکایت 
خواجہ ابو الفتوح عیاض بیان کرتےہیں کہ میں نے خواجہ حسین عباد سے سنا، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نیشاپور میں شیخ ابوسعیدکی مجلس میں تھا اور شیخ وعظ فرما رہے تھے، وعظ کے دوران مجھے ’’سر خس‘‘ اور اپنی والدہ کا خیال آیا۔
 اس وقت شیخ نےمیری طرف متوجہ ہو کر ایک شعر پڑھا ، جس کا ترجمہ یہ ہے:
 اپنی ماں سے ملاقات کرنے میں جلدی کرو، کیوںکہ وہ تیری جدائی میں بیمارہو گئی ہے اور آہ و بکا کر رہی ہے ۔
میں فوراًمجلس سے باہر نکلااور سرخس کی طرف روانہ ہوگیا،وہاں اپنی ماں کو مرض الموت میںمبتلا پایا،مجھے سخت تکلیف ہوئی۔
 دوسرے ہی دن اُن کی وفات ہو گئی، تب میں نے سمجھا کہ شیخ کے فرمان ’’جلدی کرو‘‘ کی وجہ یہی تھی۔

حکایت
 ایک دن نیشاپور میں شیخ وعظ فرما رہے تھے،ایک تاجرکے دل میں خیال گذراکہ شیخ کو گھر لے جائیں گے اور زیرہ با اور حلوہ پیش کریں گے۔ دوران وعظ شیخ اس تاجر کی طرف متوجہ ہو ئے اور فرمایا:
اے جوان مرد! جو حلوہ اور زیرہ با ہمارے لیے تیار کیا ہے اُسے کسی بار بردار کےسرپررکھ دو، راستے میں وہ جہاں تھک جائے اُسے وہیں رکھ دینا ۔
 وہ شخص گھر پہنچا اور کھانےکا برتن بار بردار کے سر پر رکھا، پھر اس کے ساتھ چلتا رہا ،یہاںتک کہ ایک گھر کے دروازے پر وہ بار بردار تھک گیا،تاجرنے گھر والے کو آواز دی، گھر سے ایک بوڑھا شخص نکلا اور کہنے لگا کہ اگر زیرہ با اور شکر آلود حلوہ تمہارے پاس ہے تو اندر آجا۔
 تاجر بیان کرتے ہیں کہ یہ شیخ ابوسعیدکی عجیب ترین کرامت تھی۔
 بہر کیف !تاجر نےاُس بوڑھے شخص سے دریافت کیا کہ تمھیں کیسے معلوم کہ ہمارے پاس شکر آلود حلوہ اور زیرہ با ہے؟
بوڑھےنے بتایا کہ کئی دن ہو گئے ہمیں کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا،میراایک بچہ ہے جو ابھی گودمیں ہے ،اس نے دعا کی تھی کہ مولیٰ! ہمارے ماںباپ کو اور بھائیوں کو زیرہ با اور حلوہ عطا کر ،اُس کی دعا قبول ہو گئی۔
 شیخ ابو سعید کو اُس کی حالت کی خبر ہوگئی اور اُنھوں نے یہ زیرہ بااور حلوہ بھیج دیا ۔ (جاری)

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0