Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-Sep-2015➤
Shaikh Muhammad Bin Munawwar Download_Pdf
حکایات مشائخ
حکایت
حضرت حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن خواجہ ذکرہٗ اللہ بالخیر نے مجھے اپنے پاس بلایا اور حکم دیا کہ خانقاہ کے دروازے سے باہر جا کر اپنے دائیں جانب سے واپسی کرنا، اس درمیان جو بھی تمھیں ملے اس کے سامنے اپنا ہاتھ دراز کر دینا اور کہنا جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے میرے ہاتھ میں رکھ دو۔
حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ حسب ارشاد جب میں خانقاہ سے باہرآیاتو ایک آتش پرست کو دیکھا ۔ میں نےاپنا ہاتھ اس کے آگے دراز کر دیا ۔
اس آتش پرست نے کہا کہ پہلے میں مسلمان ہو جاؤں، پھر اس کے بعد سارا مال لے لینا، لہٰذا مجھے شیخ کے پاس لے چلو ۔حسن مؤدب ان کو شیخ کی بارگاہ میں لے کر آئے۔ اس نے شیخ سے اسلام پیش کرنے کی درخواست کی، پھر وہ مسلمان ہو گیااور اپناتمام اثاثہ شیخ کے قدموں میں ڈال دیا ۔
حکایت
شیخ ابوسعید قدس سرہٗ جب نیشاپور میں تھے ۔ ایک دن حسن مؤدب کو بلاکر ارشاد فرمایا کہ حسن! تمھیں آج شہر کے کوتوال کے پاس جانا ہے اور اُس سے کہنا ہے کہ آج درویشوں کے کھانے کا انتظام کرے ، حالاں کہ وہ کوتوال صوفیا ئےکرام کا مخالف تھا۔
حسن بیان کرتے ہیں کہ حکم کے مطابق میں کوتوال کے پاس جانے کے لیے نکلا،اور راستہ بھر یہی سوچتا رہا کہ نیشاپور کے اندر اِس کوتوال سے بڑا ظالم اور شیخ قدس سرہٗ کا مخالف کوئی نہیں ہے ،پھر یہ کیسے ہو سکتاہے کہ وہ شیخ کے رفقا کے لیے کھانے کا اہتمام کرے ۔
بہر کیف!جب میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ کسی کو ڈنڈے سے پیٹ رہا ہے اور لوگ دور سے محو نظارہ ہیں ۔ میں اس منظر کو دیکھ کر حیران تھا کہ اچانک اس کوتوال کی نظر مجھ پر پڑی ۔اس نے کسی سے کہا کہ جاؤ،اس صوفی سے پوچھو کہ یہاں کیوں کھڑا ہے ؟ وہ آدمی میرے پاس آیا اور پوچھا کہ یہاں کس کام سے کھڑے ہو؟ میں فوراً کوتوال کے پاس پہنچا اور شیخ کا سلام پیش کیا، پھر شیخ کے ارشاد کے مطابق اس سے درویشوں کے کھانے کا انتظام کرنے لیے کہا۔
وہ از راہِ تمسخر کچھ دیر مجھے تکتا رہا، پھر ہاتھ اُٹھاکر روپیہ کی ایک تھیلی میری جانب پھینکا ،اور کہنے لگا کہ ٹھیک ہے، اِسے لے لو ، مگر اپنے شیخ سے پوچھنا کہ کیا وہ حرام پیسے سے اپنا دسترخوان آلودہ کرنا پسند کریں گے، کیوںکہ یہ روپیہ میں نے اُس شخص سے ڈنڈے کے زور پر غصب کیا ہے ۔
حضرت حسن مؤدب پیسے کی تھیلی لے کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا سنا نے کے بعدوہ تھیلی پیش کیا ، شیخ ابوسعیدنے ارشاد فرمایاکہ حسن !اسے اٹھاؤ اور جو بھی کھانے کے لوازمات ہیں اس پیسےسے ان کا اہتمام کرو۔ خانقاہ میں موجود درویشوں کو شیخ ابوسعیدکی یہ بات ناگوار لگی۔
حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ میں تعمیل حکم کرتے ہوئے بازار سے کھانے کی ساری چیزیں لے آیا، جب کھانے کا وقت ہو اتومیں نے دسترخوان سجادیا ۔ شیخ مع احباب تشریف لائے،سب سے پہلے شیخ نے ہاتھ بلند فرمایا او رکھانے کا آغاز کیا ،سارے احباب بھی ناپسندیدگی کے ساتھ شیخ ابوسعید کی موافقت میں کھانے لگے ۔
دوسرے ہی دن کا واقعہ ہے کہ شیخ جب مجلس میں وعظ فرمارہے تھے کہ ایک نوجوان بیچ مجلس میں سے اٹھاا ور شیخ کے پاس آکر رونا شروع کر دیا ،پھر شیخ کی قدم بوسی کرتے ہوئے یوں عرض گذار ہوا: اے شیخ ! مجھے معاف فرمائیں، میں نے آپ کے ساتھ خیانت کی ہے میں نے آپ کی چیز کھالی ہے ۔
شیخ ابوسعیدفرمانے لگےکہ تم نے کس طرح خیانت کی ہے؟اِن درویشوں کے سامنے بیان کرو۔
پھر وہ نوجوان یوں گویا ہو اکہ جب میرے والدقریب الموت تھے تو اُنھوں نے مجھے بلا کر روپیے کی دو تھیلی میرے حولالے کی اور وصیت فرمائی کہ میری وفات کے بعد یہ روپیے شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کی بارگاہ میں پہنچادینا، تاکہ وہ درویشوں کے خرچ میں استعمال کرلیں مگر میں نے وصیت کا لحاظ نہیں کیااور یہ سوچ کر کہ یہ میرے باپ کی میراث ہے، لامحالہ میرے لیے حلال ہے میں نے شیخ کو دینے کے بجائے اسے اپنے مصرف کے لیے رکھ لیا۔
ایک دن کوتوال شہرنے مجھے دروغ گوئی کے الزام میں گرفتار کرلیااور ڈنڈےمارنے لگا، پھر روپے کی ایک تھیلی بھی مجھ سےبطورتاوان لے لی،ٹھیک اسی وقت آپ کا خادم آپ کا پیغام لے کر وہا ںپہنچا تھا، میں بھی وہیں پر موجود تھا ،اس لیے جو پیسہ اس کو توال نے آپ کےپاس بھیجا تھا وہ آپ ہی کا تھا اور اس کی دوسری تھیلی میں اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں، اِسے بھی قبول فرمالیں، یہ بھی آپ ہی کاہے ، پھر وہ نوجوان انتہائی انکساری کے ساتھ شیخ ابوسعیدسے کہنے لگا کہ حضور!
میں نے جوبھی کیا ہے اسے معاف فرما دیں ۔
شیخ ابوسعید نے از راہِ شفقت اس سے فرمایا کہ دل پر بوجھ مت ڈالو، جو میرا تھا وہ مجھے مل گیااورجو تیرا حق تھا وہ تجھے مل گیا۔اس کےبعدشیخ ابوسعیدنےاپنا چہرۂ مبارک حاضرین کی طرف متوجہ کر کے ارشاد فرمایا کہ جان لو! جو کچھ اس پاک جماعت کے لیے آتا ہے وہ حلال کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
یہ بات جب کوتوال کو معلوم ہو ئی تو اُسی وقت خدمت میںحاضرہوکر توبہ کیا اورشیخ ابوسعیدکا گرویدہ ہو گیا۔ساتھ ہی جماعت صوفیا کا زبردست معتقد ہو گیا اور اِس طرح لوگ بھی اس کے مظالم سے محفوظ و مامون ہو گئے ۔
حکایت
لوگوں نے بیان کیا ہے کہ خواجہ ذکر اللہ بالخیر ایک بار نہایت کمزور ہو گئے تھے، مریدوں نے ڈاکٹر کو بلوایا،تاکہ مرض کی تشخیص کر کے علاج ومعالجہ کرے ،مگر وہ ڈاکٹر اتفاق سے آتش پرست تھا ۔جب وہ طبیب شیخ ابوسعیدکے پاس پہنچا اور اُن کی نبض کو ٹٹولنا چاہاتو اُنھوںنے حسن مودب سے فرمایاکہ حسن !جاؤ، ناخن تراش لے کر آؤ ، پھرناخن کو کسی کاغذمیں لپیٹ کر اُسےدےدو، اس لیے کہ یہ لوگ اسے پھینکتے نہیں ہیں،اس کے بعد پانی لے آؤ تاکہ وہ ہاتھ دھولے۔ وہ طبیب یہ سب حیرت زدہ نظروں سے دیکھتا رہا، خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔
حسن مودب کہتے ہیں کہ میں نے ارشاد کے مطابق سارے امور بجا لائے ۔اس کےبعد جیسے ہی طبیب نے اپنا ہاتھ شیخ ابوسعیدکے ہاتھ پر رکھاتواُنھوںنے اپنے ہاتھ کو گردش دےکرطبیب کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر تھوڑی دیر اس پر نظر ڈالی اور چھوڑ دیا ۔وہ اُٹھا اور خانقاہ سے باہرنکل گیا ،مگر وہ نکلتے وقت مڑ مڑ کر دیکھ بھی رہا تھا۔
شیخ ابوسعید نے کہا کہ کتنی بار پلٹ کر دیکھو گے؟ تم جہاں بھی جاؤ ہماری نظر تمہارا تعاقب کرتی رہے گی ۔ یہ سن کر وہ واپس پلٹا اور شیخ ا بوسعید کے مبارک ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ساتھ ہی اس کے سارے متعلقین بھی ایمان کی دولت سے سرفراز ہو گئے ۔
حکایت
پیر ابو صالح دندانی جو شیخ ابوسعید کے مرید خاص اور خادم خاص تھے۔کھانے کے بعد شیخ کوخلال دینااور موئے لب سنوارنااُن کی ذمہ داری تھی۔ایک بار کسی درویش نے پیر ابوصالح دندانی سے کہا کہ مجھے بھی موئے لب سنوارنے کا ہنر سکھادو۔
یہ سن کر پیر ابوصالح مسکرائے اور اُن سے فرمایاکہ کسی درویش کے موئے لب کو درست کرنے کے لیے پہلے ستر دانشمندوں کا علم ہونا چاہیے،یہ ہنر اتنی آسانی سے نہیں حاصل ہوتا۔
وہی پیر ابو صالح فرماتے ہیں کہ اخیر عمرمیں شیخ ابوسعید کے سارے دانت ٹوٹ چکے تھے مگر حال یہ تھا کہ ہر رات کھانے سے فراغت کے بعد مجھ سے خلال طلب فرماتے اور اسے دانتوں کے حلقوں میں پھیرتے، پھر ہاتھ دھوتے وقت اس خلال پر پانی بہاتے ۔
ایک رات معمول کے مطابق شیخ ابوسعید نے مجھ سے خلال طلب فرمایا، میں نے پیش کر دیا مگر جیسا کہ آدمی کی فطرت ہے کسی پر اعتراض کرنا،میرے دل میں بھی یہ اعتراض پیدا ہو اکہ شیخ کے پاس جب دانت نہیں ہے تو اُن کو خلال کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟ ابھی میرے دل میں یہ اعتراض پیدا ہی ہوا تھا کہ شیخ نے اپنے چہرے کو اوپر اٹھایا، پھرمیری جانب نظر ڈالی اور فرمایا:
میرا یہ فعل محض اتباع سنت اور اپنے رب سے طلب رحمت کے لیے ہے ،اس لیے کہ رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
حکایت
لوگوں کا بیان ہے کہ جس وقت شیخ ابوسعید نیشاپور میں مقیم تھے،خواجہ علیک (جوشیخ کے مرید خاص تھے) ان کو اور حسن مؤدب کو کسی مہم کے لیے’’ میہنہ‘‘ روانہ کیا۔
خواجہ علیک بیان کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ مقام ’’نوقان‘‘پہنچے تو حسن نے مجھ سے کہاکہ آؤ چلیں حضرت خواجہ مظفر کی زیارت کرتے ہیں،سنا ہے کہ وہ عظیم بزرگ ہیں ۔ میں نے کہا کہ شیخ ابوسعید نے ہمیں میہنہ کے لیے روانہ کیا ہے یہ کیسے ہو سکتاہے ؟ہم اس راہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جائیں ، حسن مؤدب نے بہت اصرار کیا مگر میں راضی نہ ہوا۔
بالآخر ہم میہنہ پہنچے اور شیخ کے مہم کو سر انجام دیا۔جب واپسی میں’’ نوقان‘‘ پہنچے تو حسن مؤدب مجھ سے پھر کہنے لگے کہ میں خواجہ مظفر سے شرف لقا حاصل کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا تمھیں بھی موافقت کرنی چاہیے،اگر نہیں کرو گے تومیں تنہا ہی چلا جاؤںگا۔ میں نے اس بارحامی بھر لی اور ہم خواجہ مظفر کی مجلس میں پہنچے ۔اما م مظفر نے جب گفتگو کا آغاز کیاتو حسن مودب ان کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کے دل میں وہاں قیام کرنے کی چاہت پیداہوئی۔ خواجہ اما م مظفر جب اپنی گفتگو مکمل کر چکے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے جس بات کو اختتام میں بیان کیا ہے ہمارے شیخ اس کو ابتدا ہی میں بیان فرمادیتے ہیں۔
یہ سن کر امام مظفر کا چہرہ زردہوگیا،وہ شکستہ ہو گئےاور میں حسن مودب کو لے کر وہاں سے باہر نکل آیا۔راستے میں حسن مودب مجھ سے کہنے لگے کہ جس طرح تم نے ان سے گفتگو کی ہے مجھے لگتا ہے کہ وہ درست نہیں ہے۔
بہر کیف!جب ہم دونوں نیشاپور پہنچے اور خانقاہ میں داخل ہوئے اورشیخ ابوسعید نے ہمیں دیکھا ،تو حسن مؤدب کو متوجہ کر کے ارشادفرمایا کہ اگر علیک اُسے شرمسار نہ کرتا تو وہ شخص تمھیں اپنی سحربیانی کے فریب میں پھنسا لیا ہوتا۔
حسن مودب یہ سن کر شیخ ابوسعیدکے قدموں پر گر گئے اور معذرت طلب کرنے لگے۔
حکایت
یہ اس وقت کی بات ہے جب شیخ ابوسعید نیشاپور میں رہائش پذیر تھے ، خواجہ ابو منصور و رقانی جو سلطان طغرل کے وزیر تھے بیمار ہو گئے ۔جب معاملہ نہایت نازک ہو گیا تو اُس نے شیخ ابو سعید قدس سرہٗ اور استاذ اما م قشیری کو اپنے یہاں بلوایا اور کہنے لگاکہ آپ حضرات میرے نہایت عزیز ہیں، میں نے آپ لوگوں کے اوپر بہت روپے خرچ کیا ہے مگر اِس وقت میں آپ لوگوں سے ایک ضروری عریضہ پیش کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ جب میں پردہ کر جاؤں تو آپ دونوں بزرگ میرے مدفن پر آکر میرے سرہانے تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جائیں، تاکہ آپ کی مدد سے نکیرین کے سوال سے بری الذمہ ہو جاؤں۔ان دونوں بزرگوں نے وزیر ابومنصورورقانی کی اس درخواست کو قبول فرمالیا۔
چنانچہ جب خواجہ ابو منصور رحمت حق سے جا ملے تو شیخ ابوسعیداور استاذ قشیری اس وصیت کو پوری کرنے کے لیے قبرستان پہنچے ،دیکھا کہ ابھی لوگ مٹی برابر کر رہے ہیں۔ استاذ نے شیخ ابوسعید سے کہا کہ ابھی لوگ مٹی ہموار کر رہے ہیں ، سورج بھی گرم ہے، آپ یہیں قیام فرمائیں جب تک میں لوگوں کو رخصت کرآؤں۔
شیخ ابوسعید لحد کے سرہانے اپنا مصلی بچھاکر بیٹھ گئےاور جب لوگوں نے خواجہ ابومنصور کو دفن کر کے مٹی برابر کردی تو شیخ تمام شد( کا م پوراہو گیا)کہتےہوئے اُٹھے اور چل دیے ۔ شیخ ابوسعید جب امام قشیری کے پاس پہنچے تو استاذ نے کہاکہ شیخ ! مرحوم کی وصیت کا کیا ہوا؟شیخ ابوسعیدنے ارشاد فرمایاکہ اب کسی چیز کی ضرورت نہیں،اسی بیچ لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ وہ وصیت کیا تھی اورکیسی تھی؟
پھر استاذ نے شیخ ابوسعید سے استفسار کیاکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم مرحوم کی وصیت پوری کیے بغیر چلے جائیں، تب اُنھوں نے اس راز کو یوں واضح کیا اور فرمایاکہ استاذ !ابھی ابھی دو فرشتے آئے اور سوال کرنے لگے،اتنے میں ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم نہیں دیکھتے کہ ان کے سرہانے کون بیٹھا ہے ،چنانچہ وہ دونوں صرف اتنا بولے اور چلے گئے۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو ہم بھی چل دیے ۔
حکایت
ابراہیم ینال جو کہ سلطان طغرل کا برادر اصغر تھا،نہایت ظالم و جابر شخص تھا، اس وقت نیشاپور کا کوتوال وہی تھا ۔نیشاپور کے باشندے شیخ ابوسعیدسے ہر مجلس میں اس کے لیے دعا کی درخواست کرتے مگر شیخ صرف اتنا کہتے کہ ٹھیک ہو جائے گا۔
جمعہ کے دن کا واقعہ ہے کہ شیخ ابوسعیدوعظ میں مشغول تھے ، اتنے میں ابراہیم ینال بھی مجلس میں آگیا اور دوران وعظ بہت رویا۔جب مجلس ختم ہو ئی تو ابراہیم ،شیخ ابوسعیدکے تخت کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ شیخ نے پوچھاکہ بولو ! کیا کام ہے؟
ابراہیم ینال نے عرض کیاکہ حضور! مجھ گنہ گار کو اپنے دامن میں پنا ہ دیجیے ۔ یہ سن کر شیخ ابوسعیدنے فرمایاکہ ہرگزایسا نہیں ہو سکتا۔
ابراہیم ینال نے شیخ ابوسعیدسے روتے ہوئے پھر فریاد کیا کہ حضور ! مجھے قبول فرما لیں ۔شیخ نے پھر فرمایا کہ جاؤ ، میرے پاس تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ پھر تیسری بار ابراہیم نے وہی التجا دہرائی ۔ اس مرتبہ شیخ نے تیز نظر سے اس کی جانب دیکھااور فرمایاکہ ٹھیک ہے مگر دولت و ثروت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس نے کہا قبول ہے سرکار!
پھر شیخ ابوسعید نے کہا کہ جان بھی جائے گی ۔اس پربھی اس نے کہاکہ قبول ہے ۔پھر شیخ نے فرمایاکہ امارت و حکومت بھی ختم ہو جائے گی ۔ اس نے کہاکہ یہ بھی قبول ہے ۔
اس کے بعد شیخ ابوسعید نے حسن مودب سے دوات اور کاغذ منگوایا او ریہ الفاظ تحریر کیے:
ابراہیم ینال نے قید خانہ سے سلطان کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میں جانتا ہوں کہ تو مجھے مار ڈالے گا مگر تجھ سے میری ایک التجا ہے وہ یہ کہ جب تو مجھے قتل کر کے میرے جسم کو سپرد خاک کرنا تو شیخ ابو سعید کی وہ نورانی تحریر جو میرے پاس ہے، میرے ہاتھ میں ضروررکھ دینا، اس لیے کہ انھوں نے مجھے اس واقعہ سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا اور مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ تحریر میری نجات کے لیے دستگیر ومددگارثابت ہوگی۔ (جاری)
حکایات مشائخ
سلطان طریقت،برہان حقیقت شیخ ابو سعیدفضل اللہبن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی قدس اللہ سرہٗ یکتائے روزگار شخصیت ، عارف ربانی اورعظیم صوفی تھے۔ان کی پیدائش’خراسان‘ کے ’میہنہ‘گائوں میں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ آپ نے وفات پائی۔ ’’اسرارالتوحید فی مقامات ابی سعید‘‘موسوم بہ’مقامات خواجہ‘ ان کے مخصوص احوال واقوال پر مشتمل ہے جسے آپ کےپر پوتے شیخ محمد بن منور قدس سرہٗ نے ترتیب دی ہے۔
یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔ مولاناامام الدین سعیدی(ا ستاذ جامعہ عارفیہ ) نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے۔۱۵ویںقسط سےاُنھیں کاترجمہ مسلسل ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔ مولاناامام الدین سعیدی(ا ستاذ جامعہ عارفیہ ) نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے۔۱۵ویںقسط سےاُنھیں کاترجمہ مسلسل ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
حکایت
حضرت حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن خواجہ ذکرہٗ اللہ بالخیر نے مجھے اپنے پاس بلایا اور حکم دیا کہ خانقاہ کے دروازے سے باہر جا کر اپنے دائیں جانب سے واپسی کرنا، اس درمیان جو بھی تمھیں ملے اس کے سامنے اپنا ہاتھ دراز کر دینا اور کہنا جو کچھ بھی تمہارے پاس ہے میرے ہاتھ میں رکھ دو۔
حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ حسب ارشاد جب میں خانقاہ سے باہرآیاتو ایک آتش پرست کو دیکھا ۔ میں نےاپنا ہاتھ اس کے آگے دراز کر دیا ۔
اس آتش پرست نے کہا کہ پہلے میں مسلمان ہو جاؤں، پھر اس کے بعد سارا مال لے لینا، لہٰذا مجھے شیخ کے پاس لے چلو ۔حسن مؤدب ان کو شیخ کی بارگاہ میں لے کر آئے۔ اس نے شیخ سے اسلام پیش کرنے کی درخواست کی، پھر وہ مسلمان ہو گیااور اپناتمام اثاثہ شیخ کے قدموں میں ڈال دیا ۔
حکایت
شیخ ابوسعید قدس سرہٗ جب نیشاپور میں تھے ۔ ایک دن حسن مؤدب کو بلاکر ارشاد فرمایا کہ حسن! تمھیں آج شہر کے کوتوال کے پاس جانا ہے اور اُس سے کہنا ہے کہ آج درویشوں کے کھانے کا انتظام کرے ، حالاں کہ وہ کوتوال صوفیا ئےکرام کا مخالف تھا۔
حسن بیان کرتے ہیں کہ حکم کے مطابق میں کوتوال کے پاس جانے کے لیے نکلا،اور راستہ بھر یہی سوچتا رہا کہ نیشاپور کے اندر اِس کوتوال سے بڑا ظالم اور شیخ قدس سرہٗ کا مخالف کوئی نہیں ہے ،پھر یہ کیسے ہو سکتاہے کہ وہ شیخ کے رفقا کے لیے کھانے کا اہتمام کرے ۔
بہر کیف!جب میں اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ کسی کو ڈنڈے سے پیٹ رہا ہے اور لوگ دور سے محو نظارہ ہیں ۔ میں اس منظر کو دیکھ کر حیران تھا کہ اچانک اس کوتوال کی نظر مجھ پر پڑی ۔اس نے کسی سے کہا کہ جاؤ،اس صوفی سے پوچھو کہ یہاں کیوں کھڑا ہے ؟ وہ آدمی میرے پاس آیا اور پوچھا کہ یہاں کس کام سے کھڑے ہو؟ میں فوراً کوتوال کے پاس پہنچا اور شیخ کا سلام پیش کیا، پھر شیخ کے ارشاد کے مطابق اس سے درویشوں کے کھانے کا انتظام کرنے لیے کہا۔
وہ از راہِ تمسخر کچھ دیر مجھے تکتا رہا، پھر ہاتھ اُٹھاکر روپیہ کی ایک تھیلی میری جانب پھینکا ،اور کہنے لگا کہ ٹھیک ہے، اِسے لے لو ، مگر اپنے شیخ سے پوچھنا کہ کیا وہ حرام پیسے سے اپنا دسترخوان آلودہ کرنا پسند کریں گے، کیوںکہ یہ روپیہ میں نے اُس شخص سے ڈنڈے کے زور پر غصب کیا ہے ۔
حضرت حسن مؤدب پیسے کی تھیلی لے کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا سنا نے کے بعدوہ تھیلی پیش کیا ، شیخ ابوسعیدنے ارشاد فرمایاکہ حسن !اسے اٹھاؤ اور جو بھی کھانے کے لوازمات ہیں اس پیسےسے ان کا اہتمام کرو۔ خانقاہ میں موجود درویشوں کو شیخ ابوسعیدکی یہ بات ناگوار لگی۔
حسن مؤدب بیان کرتے ہیں کہ میں تعمیل حکم کرتے ہوئے بازار سے کھانے کی ساری چیزیں لے آیا، جب کھانے کا وقت ہو اتومیں نے دسترخوان سجادیا ۔ شیخ مع احباب تشریف لائے،سب سے پہلے شیخ نے ہاتھ بلند فرمایا او رکھانے کا آغاز کیا ،سارے احباب بھی ناپسندیدگی کے ساتھ شیخ ابوسعید کی موافقت میں کھانے لگے ۔
دوسرے ہی دن کا واقعہ ہے کہ شیخ جب مجلس میں وعظ فرمارہے تھے کہ ایک نوجوان بیچ مجلس میں سے اٹھاا ور شیخ کے پاس آکر رونا شروع کر دیا ،پھر شیخ کی قدم بوسی کرتے ہوئے یوں عرض گذار ہوا: اے شیخ ! مجھے معاف فرمائیں، میں نے آپ کے ساتھ خیانت کی ہے میں نے آپ کی چیز کھالی ہے ۔
شیخ ابوسعیدفرمانے لگےکہ تم نے کس طرح خیانت کی ہے؟اِن درویشوں کے سامنے بیان کرو۔
پھر وہ نوجوان یوں گویا ہو اکہ جب میرے والدقریب الموت تھے تو اُنھوں نے مجھے بلا کر روپیے کی دو تھیلی میرے حولالے کی اور وصیت فرمائی کہ میری وفات کے بعد یہ روپیے شیخ ابو سعید قدس سرہٗ کی بارگاہ میں پہنچادینا، تاکہ وہ درویشوں کے خرچ میں استعمال کرلیں مگر میں نے وصیت کا لحاظ نہیں کیااور یہ سوچ کر کہ یہ میرے باپ کی میراث ہے، لامحالہ میرے لیے حلال ہے میں نے شیخ کو دینے کے بجائے اسے اپنے مصرف کے لیے رکھ لیا۔
ایک دن کوتوال شہرنے مجھے دروغ گوئی کے الزام میں گرفتار کرلیااور ڈنڈےمارنے لگا، پھر روپے کی ایک تھیلی بھی مجھ سےبطورتاوان لے لی،ٹھیک اسی وقت آپ کا خادم آپ کا پیغام لے کر وہا ںپہنچا تھا، میں بھی وہیں پر موجود تھا ،اس لیے جو پیسہ اس کو توال نے آپ کےپاس بھیجا تھا وہ آپ ہی کا تھا اور اس کی دوسری تھیلی میں اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں، اِسے بھی قبول فرمالیں، یہ بھی آپ ہی کاہے ، پھر وہ نوجوان انتہائی انکساری کے ساتھ شیخ ابوسعیدسے کہنے لگا کہ حضور!
میں نے جوبھی کیا ہے اسے معاف فرما دیں ۔
شیخ ابوسعید نے از راہِ شفقت اس سے فرمایا کہ دل پر بوجھ مت ڈالو، جو میرا تھا وہ مجھے مل گیااورجو تیرا حق تھا وہ تجھے مل گیا۔اس کےبعدشیخ ابوسعیدنےاپنا چہرۂ مبارک حاضرین کی طرف متوجہ کر کے ارشاد فرمایا کہ جان لو! جو کچھ اس پاک جماعت کے لیے آتا ہے وہ حلال کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
یہ بات جب کوتوال کو معلوم ہو ئی تو اُسی وقت خدمت میںحاضرہوکر توبہ کیا اورشیخ ابوسعیدکا گرویدہ ہو گیا۔ساتھ ہی جماعت صوفیا کا زبردست معتقد ہو گیا اور اِس طرح لوگ بھی اس کے مظالم سے محفوظ و مامون ہو گئے ۔
حکایت
لوگوں نے بیان کیا ہے کہ خواجہ ذکر اللہ بالخیر ایک بار نہایت کمزور ہو گئے تھے، مریدوں نے ڈاکٹر کو بلوایا،تاکہ مرض کی تشخیص کر کے علاج ومعالجہ کرے ،مگر وہ ڈاکٹر اتفاق سے آتش پرست تھا ۔جب وہ طبیب شیخ ابوسعیدکے پاس پہنچا اور اُن کی نبض کو ٹٹولنا چاہاتو اُنھوںنے حسن مودب سے فرمایاکہ حسن !جاؤ، ناخن تراش لے کر آؤ ، پھرناخن کو کسی کاغذمیں لپیٹ کر اُسےدےدو، اس لیے کہ یہ لوگ اسے پھینکتے نہیں ہیں،اس کے بعد پانی لے آؤ تاکہ وہ ہاتھ دھولے۔ وہ طبیب یہ سب حیرت زدہ نظروں سے دیکھتا رہا، خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔
حسن مودب کہتے ہیں کہ میں نے ارشاد کے مطابق سارے امور بجا لائے ۔اس کےبعد جیسے ہی طبیب نے اپنا ہاتھ شیخ ابوسعیدکے ہاتھ پر رکھاتواُنھوںنے اپنے ہاتھ کو گردش دےکرطبیب کا ہاتھ پکڑ لیا، پھر تھوڑی دیر اس پر نظر ڈالی اور چھوڑ دیا ۔وہ اُٹھا اور خانقاہ سے باہرنکل گیا ،مگر وہ نکلتے وقت مڑ مڑ کر دیکھ بھی رہا تھا۔
شیخ ابوسعید نے کہا کہ کتنی بار پلٹ کر دیکھو گے؟ تم جہاں بھی جاؤ ہماری نظر تمہارا تعاقب کرتی رہے گی ۔ یہ سن کر وہ واپس پلٹا اور شیخ ا بوسعید کے مبارک ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ساتھ ہی اس کے سارے متعلقین بھی ایمان کی دولت سے سرفراز ہو گئے ۔
حکایت
پیر ابو صالح دندانی جو شیخ ابوسعید کے مرید خاص اور خادم خاص تھے۔کھانے کے بعد شیخ کوخلال دینااور موئے لب سنوارنااُن کی ذمہ داری تھی۔ایک بار کسی درویش نے پیر ابوصالح دندانی سے کہا کہ مجھے بھی موئے لب سنوارنے کا ہنر سکھادو۔
یہ سن کر پیر ابوصالح مسکرائے اور اُن سے فرمایاکہ کسی درویش کے موئے لب کو درست کرنے کے لیے پہلے ستر دانشمندوں کا علم ہونا چاہیے،یہ ہنر اتنی آسانی سے نہیں حاصل ہوتا۔
وہی پیر ابو صالح فرماتے ہیں کہ اخیر عمرمیں شیخ ابوسعید کے سارے دانت ٹوٹ چکے تھے مگر حال یہ تھا کہ ہر رات کھانے سے فراغت کے بعد مجھ سے خلال طلب فرماتے اور اسے دانتوں کے حلقوں میں پھیرتے، پھر ہاتھ دھوتے وقت اس خلال پر پانی بہاتے ۔
ایک رات معمول کے مطابق شیخ ابوسعید نے مجھ سے خلال طلب فرمایا، میں نے پیش کر دیا مگر جیسا کہ آدمی کی فطرت ہے کسی پر اعتراض کرنا،میرے دل میں بھی یہ اعتراض پیدا ہو اکہ شیخ کے پاس جب دانت نہیں ہے تو اُن کو خلال کی ضرورت کیوں پڑی ہے؟ ابھی میرے دل میں یہ اعتراض پیدا ہی ہوا تھا کہ شیخ نے اپنے چہرے کو اوپر اٹھایا، پھرمیری جانب نظر ڈالی اور فرمایا:
میرا یہ فعل محض اتباع سنت اور اپنے رب سے طلب رحمت کے لیے ہے ،اس لیے کہ رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
رَحِمَ اللہُ الْمُخَلِّلِیْنَ مِنْ اُمَّتِی فیِ الْوَضُوْءِ وَالطَّعَامِ۔پیر ابو صالح فرماتے ہیں کہ میں شرمند ہ ہوگیااوراپنے دل سے اعتراض کو باہر نکال کرپھینک دیا۔
ترجمہ: اللہ میری اُمت کے ایسے لوگوں پرخاص رحم فرماتا ہے جو کھانے اور وضو میں خلال کرنا پسند کرتے ہیں۔
حکایت
لوگوں کا بیان ہے کہ جس وقت شیخ ابوسعید نیشاپور میں مقیم تھے،خواجہ علیک (جوشیخ کے مرید خاص تھے) ان کو اور حسن مؤدب کو کسی مہم کے لیے’’ میہنہ‘‘ روانہ کیا۔
خواجہ علیک بیان کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ مقام ’’نوقان‘‘پہنچے تو حسن نے مجھ سے کہاکہ آؤ چلیں حضرت خواجہ مظفر کی زیارت کرتے ہیں،سنا ہے کہ وہ عظیم بزرگ ہیں ۔ میں نے کہا کہ شیخ ابوسعید نے ہمیں میہنہ کے لیے روانہ کیا ہے یہ کیسے ہو سکتاہے ؟ہم اس راہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جائیں ، حسن مؤدب نے بہت اصرار کیا مگر میں راضی نہ ہوا۔
بالآخر ہم میہنہ پہنچے اور شیخ کے مہم کو سر انجام دیا۔جب واپسی میں’’ نوقان‘‘ پہنچے تو حسن مؤدب مجھ سے پھر کہنے لگے کہ میں خواجہ مظفر سے شرف لقا حاصل کرنا چاہتا ہوں، لہٰذا تمھیں بھی موافقت کرنی چاہیے،اگر نہیں کرو گے تومیں تنہا ہی چلا جاؤںگا۔ میں نے اس بارحامی بھر لی اور ہم خواجہ مظفر کی مجلس میں پہنچے ۔اما م مظفر نے جب گفتگو کا آغاز کیاتو حسن مودب ان کی گفتگو سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کے دل میں وہاں قیام کرنے کی چاہت پیداہوئی۔ خواجہ اما م مظفر جب اپنی گفتگو مکمل کر چکے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے جس بات کو اختتام میں بیان کیا ہے ہمارے شیخ اس کو ابتدا ہی میں بیان فرمادیتے ہیں۔
یہ سن کر امام مظفر کا چہرہ زردہوگیا،وہ شکستہ ہو گئےاور میں حسن مودب کو لے کر وہاں سے باہر نکل آیا۔راستے میں حسن مودب مجھ سے کہنے لگے کہ جس طرح تم نے ان سے گفتگو کی ہے مجھے لگتا ہے کہ وہ درست نہیں ہے۔
بہر کیف!جب ہم دونوں نیشاپور پہنچے اور خانقاہ میں داخل ہوئے اورشیخ ابوسعید نے ہمیں دیکھا ،تو حسن مؤدب کو متوجہ کر کے ارشادفرمایا کہ اگر علیک اُسے شرمسار نہ کرتا تو وہ شخص تمھیں اپنی سحربیانی کے فریب میں پھنسا لیا ہوتا۔
حسن مودب یہ سن کر شیخ ابوسعیدکے قدموں پر گر گئے اور معذرت طلب کرنے لگے۔
حکایت
یہ اس وقت کی بات ہے جب شیخ ابوسعید نیشاپور میں رہائش پذیر تھے ، خواجہ ابو منصور و رقانی جو سلطان طغرل کے وزیر تھے بیمار ہو گئے ۔جب معاملہ نہایت نازک ہو گیا تو اُس نے شیخ ابو سعید قدس سرہٗ اور استاذ اما م قشیری کو اپنے یہاں بلوایا اور کہنے لگاکہ آپ حضرات میرے نہایت عزیز ہیں، میں نے آپ لوگوں کے اوپر بہت روپے خرچ کیا ہے مگر اِس وقت میں آپ لوگوں سے ایک ضروری عریضہ پیش کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ جب میں پردہ کر جاؤں تو آپ دونوں بزرگ میرے مدفن پر آکر میرے سرہانے تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جائیں، تاکہ آپ کی مدد سے نکیرین کے سوال سے بری الذمہ ہو جاؤں۔ان دونوں بزرگوں نے وزیر ابومنصورورقانی کی اس درخواست کو قبول فرمالیا۔
چنانچہ جب خواجہ ابو منصور رحمت حق سے جا ملے تو شیخ ابوسعیداور استاذ قشیری اس وصیت کو پوری کرنے کے لیے قبرستان پہنچے ،دیکھا کہ ابھی لوگ مٹی برابر کر رہے ہیں۔ استاذ نے شیخ ابوسعید سے کہا کہ ابھی لوگ مٹی ہموار کر رہے ہیں ، سورج بھی گرم ہے، آپ یہیں قیام فرمائیں جب تک میں لوگوں کو رخصت کرآؤں۔
شیخ ابوسعید لحد کے سرہانے اپنا مصلی بچھاکر بیٹھ گئےاور جب لوگوں نے خواجہ ابومنصور کو دفن کر کے مٹی برابر کردی تو شیخ تمام شد( کا م پوراہو گیا)کہتےہوئے اُٹھے اور چل دیے ۔ شیخ ابوسعید جب امام قشیری کے پاس پہنچے تو استاذ نے کہاکہ شیخ ! مرحوم کی وصیت کا کیا ہوا؟شیخ ابوسعیدنے ارشاد فرمایاکہ اب کسی چیز کی ضرورت نہیں،اسی بیچ لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ وہ وصیت کیا تھی اورکیسی تھی؟
پھر استاذ نے شیخ ابوسعید سے استفسار کیاکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم مرحوم کی وصیت پوری کیے بغیر چلے جائیں، تب اُنھوں نے اس راز کو یوں واضح کیا اور فرمایاکہ استاذ !ابھی ابھی دو فرشتے آئے اور سوال کرنے لگے،اتنے میں ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم نہیں دیکھتے کہ ان کے سرہانے کون بیٹھا ہے ،چنانچہ وہ دونوں صرف اتنا بولے اور چلے گئے۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو ہم بھی چل دیے ۔
حکایت
ابراہیم ینال جو کہ سلطان طغرل کا برادر اصغر تھا،نہایت ظالم و جابر شخص تھا، اس وقت نیشاپور کا کوتوال وہی تھا ۔نیشاپور کے باشندے شیخ ابوسعیدسے ہر مجلس میں اس کے لیے دعا کی درخواست کرتے مگر شیخ صرف اتنا کہتے کہ ٹھیک ہو جائے گا۔
جمعہ کے دن کا واقعہ ہے کہ شیخ ابوسعیدوعظ میں مشغول تھے ، اتنے میں ابراہیم ینال بھی مجلس میں آگیا اور دوران وعظ بہت رویا۔جب مجلس ختم ہو ئی تو ابراہیم ،شیخ ابوسعیدکے تخت کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ شیخ نے پوچھاکہ بولو ! کیا کام ہے؟
ابراہیم ینال نے عرض کیاکہ حضور! مجھ گنہ گار کو اپنے دامن میں پنا ہ دیجیے ۔ یہ سن کر شیخ ابوسعیدنے فرمایاکہ ہرگزایسا نہیں ہو سکتا۔
ابراہیم ینال نے شیخ ابوسعیدسے روتے ہوئے پھر فریاد کیا کہ حضور ! مجھے قبول فرما لیں ۔شیخ نے پھر فرمایا کہ جاؤ ، میرے پاس تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ پھر تیسری بار ابراہیم نے وہی التجا دہرائی ۔ اس مرتبہ شیخ نے تیز نظر سے اس کی جانب دیکھااور فرمایاکہ ٹھیک ہے مگر دولت و ثروت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس نے کہا قبول ہے سرکار!
پھر شیخ ابوسعید نے کہا کہ جان بھی جائے گی ۔اس پربھی اس نے کہاکہ قبول ہے ۔پھر شیخ نے فرمایاکہ امارت و حکومت بھی ختم ہو جائے گی ۔ اس نے کہاکہ یہ بھی قبول ہے ۔
اس کے بعد شیخ ابوسعید نے حسن مودب سے دوات اور کاغذ منگوایا او ریہ الفاظ تحریر کیے:
إبْرَاہِیْمُ مِنَّا ،کَتَبَہٗ فَضْلُ اللہِ۔ابراہیم نے اس تحریر کو لے کر آنکھوں سے لگایا، بوسہ دیا اور اپنی تھیلی میں محفوظ کر لیا، پھروہاں سے اسی رات عراق کے لیے روانہ ہو گیا ۔جب ’’ہمدان ‘‘ میں قیام پذیر تھا تو بادشاہ کے خلاف اس نے بغاوت کا اعلان کر دیا،چنانچہ سلطان طغرل سے جنگ ہوئی او روہ سلطان طغرل کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا ۔
ابراہیم ینال نے قید خانہ سے سلطان کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میں جانتا ہوں کہ تو مجھے مار ڈالے گا مگر تجھ سے میری ایک التجا ہے وہ یہ کہ جب تو مجھے قتل کر کے میرے جسم کو سپرد خاک کرنا تو شیخ ابو سعید کی وہ نورانی تحریر جو میرے پاس ہے، میرے ہاتھ میں ضروررکھ دینا، اس لیے کہ انھوں نے مجھے اس واقعہ سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا اور مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ تحریر میری نجات کے لیے دستگیر ومددگارثابت ہوگی۔ (جاری)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں