Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-Nov-2015➤
Shaikh Ahmad Zarooqui Maliki Download_Pdf
حضرت شیخ احمد زروق فاسی مالکی (۸۴۶-۸۹۹ھ)اپنے عہدمیںشریعت وطریقت کے امام گزرے ہیں،آپ کی تصنیفات میںعدۃ المریدالصادق اورقواعدالتصوف امتیازی شان رکھتی ہیں۔خاص طورسے ’’قواعد التصوف‘‘ فقہ و تصوف کے باہمی رشتوں کی وضاحت اورتصوف کے اصول وضوابط کے بیان پر بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔
مولاناضیاء الرحمن علیمی (ا ستاذ جامعہ عارفیہ) اس کا ترجمہ کررہے ہیں۔عوام وخواص کے علمی افادے کی غرض سےیہ ترجمہ ترتیب وار پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
۲۳۔قاعدہ
کسی بھی شئے کو اُس کے صحیح راستے سے طلب کرنا اور اُس کے صحیح مقام میں تلاش کرنا اُس کے حصول کی سب سے زیادہ قریبی راہ ہو تی ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ علوم صوفیا کےدقائق ربانی عطا اورخصوصی فیض ہوتے ہیں جو طلب علم کے عام طریقے سے حاصل نہیں ہوتے ہیں۔اس لیے علوم صوفیہ کے دقائق کی تحصیل کے لیے اس کےصحیح طریقے کی رعایت ضروری ہے،اور وہ درج ذیل تین طریقے ہیں:
۱۔ بقدر استطاعت اپنے علم پر عمل کرے۔
۲۔بقدرِہمت وحوصلہ فتوحات ربانیہ کے حصول کے لیے رب تعالیٰ کی آغوش میں پناہ لے۔
۳۔اصل سنت کی طرف رجوع کرتے وقت معانی میں اچھی طرح غوروفکر کرے تاکہ نصوصِ سنت کی فہم حاصل ہو، خطا کی نفی ہوجائے اور فتوحات کا حصول آسان ہوجائے۔
امام جنید قدس اللہ سرہٗ نے دقائق صوفیاکی تحصیل کےان طریقوں کی جانب اپنے اس فرمان میں اشارہ کیاہے کہ ہم نے تصوف کو قیل وقال اور مجادلہ ومباحثہ سے حاصل نہیں کیابلکہ ہم نے اُسے بھوک ، شب بیداری اور استقامت کے ساتھ عمل کے ذریعے حاصل کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
جب طبیعتوں میں ترک گناہ کی عادت راسخ ہو جاتی ہے تو وہ عالم ملکوت میں سیر کرتی ہیں اور ایسی صالح طبیعت والے لوگوں کو کسی عالم کی تعلیم کے بغیر انوکھے علوم ومعارف حاصل ہوتے ہیں۔
۲۴۔قاعدہ
جب بھی کوئی حقیقت ظاہر ہوتی ہے تو اُس کے مقابلے میں اسی طرح کی دوسری حقیقت کا دعویٰ کیا جاتا ہے اوراس میںوہ چیز داخل کردی جاتی ہے جس کا اصل حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور اس حقیقت کی تکذیب کی جاتی ہے،یہ ساری باتیں اس پہلی حقیقت کے خاص ہونےاوراس کی فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں اوراُس کے مخالف چیزوں کی نفی کرکے اس کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
جو جتنا دین دار ہوتا ہے اسی قدر اس کی آزمائش ہوتی ہے اوراسی قدر وہ بلاؤں میں گرفتارہوتاہے۔اسی وجہ سے اس راہ میںدین داروں کوپہلےتو اُن پرمخلوق کو مسلط کرکے آزمایا جاتاہے پھر اُن کی تعظیم کے ذریعے اور پھر اخیر میں دونوں کے ذریعے۔بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ایسا اس لیےہوتا ہے تاکہ لوگوں کی جانب سے ملنے والی تعریف وتوصیف پر وہ شکر ضرور اداکریں اور لوگوں کی مذمت پر صبرکریں ۔
چنانچہ جو راہ طریقت کا ارادہ رکھنے والا ہو اُسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو بلاؤں اور مصیبتوں کے لیے راضی اور مطمئن کرلے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
۲۵۔قاعدہ
شارع یا اس کے نائب کی تعلیم کے بغیر کوئی علم نہیں ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
مولاناضیاء الرحمن علیمی (ا ستاذ جامعہ عارفیہ) اس کا ترجمہ کررہے ہیں۔عوام وخواص کے علمی افادے کی غرض سےیہ ترجمہ ترتیب وار پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
۲۳۔قاعدہ
کسی بھی شئے کو اُس کے صحیح راستے سے طلب کرنا اور اُس کے صحیح مقام میں تلاش کرنا اُس کے حصول کی سب سے زیادہ قریبی راہ ہو تی ہے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ علوم صوفیا کےدقائق ربانی عطا اورخصوصی فیض ہوتے ہیں جو طلب علم کے عام طریقے سے حاصل نہیں ہوتے ہیں۔اس لیے علوم صوفیہ کے دقائق کی تحصیل کے لیے اس کےصحیح طریقے کی رعایت ضروری ہے،اور وہ درج ذیل تین طریقے ہیں:
۱۔ بقدر استطاعت اپنے علم پر عمل کرے۔
۲۔بقدرِہمت وحوصلہ فتوحات ربانیہ کے حصول کے لیے رب تعالیٰ کی آغوش میں پناہ لے۔
۳۔اصل سنت کی طرف رجوع کرتے وقت معانی میں اچھی طرح غوروفکر کرے تاکہ نصوصِ سنت کی فہم حاصل ہو، خطا کی نفی ہوجائے اور فتوحات کا حصول آسان ہوجائے۔
امام جنید قدس اللہ سرہٗ نے دقائق صوفیاکی تحصیل کےان طریقوں کی جانب اپنے اس فرمان میں اشارہ کیاہے کہ ہم نے تصوف کو قیل وقال اور مجادلہ ومباحثہ سے حاصل نہیں کیابلکہ ہم نے اُسے بھوک ، شب بیداری اور استقامت کے ساتھ عمل کے ذریعے حاصل کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَرَّثَہُ اللہُ عِلْمَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔ (بحرالفوائدالمسمی بمعانی الاخبارللکلاباذی،باب:حدیث آخر)حضرت ابوسلیمان دارانی قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں:
ترجمہ:جو شخص اپنے علم پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو وہ علم بھی عطا فرماتاہے جو اُس کو حاصل نہیں۔
جب طبیعتوں میں ترک گناہ کی عادت راسخ ہو جاتی ہے تو وہ عالم ملکوت میں سیر کرتی ہیں اور ایسی صالح طبیعت والے لوگوں کو کسی عالم کی تعلیم کے بغیر انوکھے علوم ومعارف حاصل ہوتے ہیں۔
۲۴۔قاعدہ
جب بھی کوئی حقیقت ظاہر ہوتی ہے تو اُس کے مقابلے میں اسی طرح کی دوسری حقیقت کا دعویٰ کیا جاتا ہے اوراس میںوہ چیز داخل کردی جاتی ہے جس کا اصل حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور اس حقیقت کی تکذیب کی جاتی ہے،یہ ساری باتیں اس پہلی حقیقت کے خاص ہونےاوراس کی فضیلت کو ظاہر کرتی ہیں اوراُس کے مخالف چیزوں کی نفی کرکے اس کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّااِذَا تَمَنّٰی اَلْقَی الشَّیْطٰنُ فِیْ اُمْنِیَّتِهٖ فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(حج ۵۲)وارث کو اپنےمورث سے نسبت ہوتی ہے اور سب سے زیادہ بلائیں انبیانے برداشت کی ہیں پھر اولیانے پھراُن کے بعدجو لوگ صالح رہے،اورپھر اُن کے بعد جو لوگ صالح اور بہتر تھے۔
ترجمہ:ہم نے آپ سے پہلے کوئی بھی رسول اورنبی بھیجا تواُن کے ساتھ یہ ہواکہ جب اُنھوںنے کلام الٰہی پڑھاتو شیطان نے ان کی تلاوت میں ملاوٹ کردیا،چنانچہ شیطان جو وسوسے ڈالتاہے اللہ تعالیٰ اُسے دورکردیتاہے ، پھر اللہ اپنی آیتوںکو محکم وواضح بنادیتا ہے اور اللہ تعالیٰ خوب علم رکھنے والا بڑی حکمت والا ہے۔
جو جتنا دین دار ہوتا ہے اسی قدر اس کی آزمائش ہوتی ہے اوراسی قدر وہ بلاؤں میں گرفتارہوتاہے۔اسی وجہ سے اس راہ میںدین داروں کوپہلےتو اُن پرمخلوق کو مسلط کرکے آزمایا جاتاہے پھر اُن کی تعظیم کے ذریعے اور پھر اخیر میں دونوں کے ذریعے۔بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ایسا اس لیےہوتا ہے تاکہ لوگوں کی جانب سے ملنے والی تعریف وتوصیف پر وہ شکر ضرور اداکریں اور لوگوں کی مذمت پر صبرکریں ۔
چنانچہ جو راہ طریقت کا ارادہ رکھنے والا ہو اُسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو بلاؤں اور مصیبتوں کے لیے راضی اور مطمئن کرلے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اِنَّ اللهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِيْنَ آمَنُوْاِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ(حج ۳۸)مزید اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
ترجمہ:اللہ تعالیٰ ایمان و الوں سے مکروشر کودور فرماتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کسی بھی خیانت کرنے والے ناشکرےکو محبوب نہیں رکھتا۔
وَيَرْزُقْهٗ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُہٗ(طلاق۳)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوںکو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں کا اُسے گمان بھی نہیں ہوتا،اور جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ اُس کے لیے کافی ہوتا ہے۔
۲۵۔قاعدہ
شارع یا اس کے نائب کی تعلیم کے بغیر کوئی علم نہیں ، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ،وَإِنَّمَا الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ،وَمَنْ يَّطْلُبِ الْخَيْرَ يُوْتَهٗ، وَمَنْ يَتَّقِ الشَّرَّ يُوْقَهٗ۔ (شعب الایمان،فصل فیما بلغنا عن الصحابۃ)عبادت وتقویٰ کےنتیجے میں جو نعمت حاصل ہوتی ہے وہ دین کی ایک خاص فہم ہے جو اصول شریعت کے موافق ہوتی ہے،جس سے شرح صدر حاصل ہوتا ہے اور عقلوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ان میں کچھ علم وفہم کا تعلق دائرۂ احکام سے ہوتا ہے جن کو الفاظ کا جامہ پہنادیاجاتاہے ،لیکن کچھ علوم کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایاجاسکتا،اگرچہ اس کی جانب اشارہ کردیا جاتا ہےاور کچھ علوم ایسے ہوتےہیں کہ قلب وضمیر اس کا ادراک نہیں کرپاتے،لیکن ان کی جانب حقائق کا اشارہ ہوتا ہے اور مشاہدہ کرنے کرنے والے کے نزدیک وہ علوم واضح ہوتے ہیںاور جن کو وہ علوم حاصل ہوتے ہیں ان کے نزدیک وہ علوم ثابت شدہ حقیقت ہوتے ہیں اورہمارا اِن علوم پر گفتگو کرنا اس کی اصل وبنیادکوثابت کرنے کی ایک ممکنہ فہم ہےاس کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس اشارے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
ترجمہ: علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور حلم وبردباری اختیارکرنے سے حاصل ہوتاہے،جو خیر کا طالب ہوتا ہے اُسے خیر عطا کیا جاتا ہے اورجو شر سےبچنے کی کوشش کرتا ہے اُسے شر سے بچا لیا جاتا ہے۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں