Khanqah-e-Alia-Arifia

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Sep-2015Hasan Saeed Safawi                                                        Download_Pdf 


خانقاہِ عالیہ عارفیہ کے اکابر

ایک مختصر تعارف

سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاسے چشتیت کے جو کئی ایک دھارے ملک کے مختلف خطوں میں پہنچے، انہیں میں سے ایک مخدوم شاہ مینا لکھنوی اور مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی سے ہوتا ہوا صفی پور پہنچا اور صفی پور دسویں صدی ہجری/سولہویں صدی عیسوی میں چشتی نظامی مرکز کے طور پر سامنے آیا ۔ اودھ اور اطراف میں جتنے چشتی میخانے قائم ہیں تقریباً سب براہ راست یا بالواسطہ اسی مرکزی بارگاہ سے مستفید و مستفیض ہیں۔
 انیسویں صدی عیسوی میں اسی کی ایک شاخ سید سراواں (الٰہ آباد) میں قائم ہوئی، جو فی زماننا دعوت وتبلیغ اور احیائے تصوف و روایت میں بہت ہی متحرک وفعال ہے۔ اپنی دینی، علمی ،روحانی اور دعوتی وتبلیغی سر گرمیوں اور خدمات کے سبب اس وقت یہ خانقاہ ملک و بیرون ملک خبروں اور چرچوں میں ہے۔ اس لیے عوام و خواص کی واقفیت کے لیے اس خانقاہ کے سجادگان کا اجمالی تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

(۱) عارف باللہ داعیٔ اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی أدامہ اللہ تعالیٰ فینا:
 آپ کی ولادت با سعادت ۵؍محرم الحرام ۱۳۷۷ھ مطابق۲؍اگست ۱۹۵۷ء بروز جمعہ اپنے آبائی وطن سید سراواں شریف میں ہوئی۔ والد ماجد حضرت حکیم شاہ آفاق احمد بن محتسب العارفین شاہ صفی اللہ محمدی بن سلطان العارفین شاہ عارف صفی محمدی قدست ارواحہم نے ولادت کےقریب خواب دیکھا کہ خواجۂ خواجگان سیدنا معین الدین چشتی اجمیری قد س اللہ سرہ کی ذات مبارکہ سے ایک نور نکل کر آپ کے صاحبزادےمیں آگیا ۔ مثل مشہور ہے کہ ’’بالائے سرش ز ہوش مندی، می تافت ستارۂ بلندی بچپن ہی سے اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے حامل رہے ۔۳؍سال کی عمر میں خالہ کے پاس رہنے لگے۔ خالو محترم شکیل احمد عثمانی رحمہ اللہ (۱۹۱۷-۲۰۱۵ء) لا ولد تھے، لہٰذانہوں نے آپ کی پرورش و کفالت کی ذمہ داری لے لی۔
ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی ۔ فارسی اور انگریزی محترم علی ظہیر عثمانی علیگ (۱۹۰۸-۱۹۸۱) سے پڑھی۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہاں سے فارسی زبان وادب میں بی ۔اے کرنے لگے۔ بی- اے کے آخری سال ہی خانقاہ عالیہ عارفیہ کے زیب سجادہ، آپ کے والد ماجد کے عم محترم حضرت مخدوم شاہ احمد صفی محمدی عرف شاہ ریاض احمد قدس اللہ سرہ نے عرس کے موقع پر ۱۸؍ذیقعدہ ۱۳۹۸ھ مطابق۲۱؍اکتوبر۱۹۷۸ء کو بیعت فرما کر خلافت و جانشینی سے نوازا۔ ۲۲؍سال کی عمر میں یہ بار گراں آپ کے دوش پُر ہمت پر آپڑا، جسے آپ نے بحمدہٖ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ حسن و خوبی سے انجام دیا جس کی آپ کے مشائخ نے آپ سے توقع فرمائی ہوگی۔
خانقاہ کاظمیہ کا کوری شریف کے گل سر سبد حضرت مولانا حافظ شاہ مجتبیٰ حیدر قلندر قدس سرہ ( ف:۱۴۳۱ھ) نے بھی آپ کو سلاسل سبعہ کی اجازت و خلافت مرحمت فرمائی۔
طالبین و سالکین کی رہنمائی کے لیے آپ کی مثنوی ’’نغمات الاسرار فی مقامات الابرار‘‘ سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ علاوہ ازیں عرفان و معارف سے لبریز فارسی، اردو او ر ہندی کا دیوان بھی طباعت کے مرحلے میں ہے۔
حق تبارک و تعالیٰ آپ کا سایہ دراز فرمائے اور محبین و متوسلین کو فیضیاب فرماتا رہے ۔

 (۲) بقیۃ السلف حجۃ الخلف حضرت مخدوم شاہ احمد صفی خادم محمد صفوی محمدی عرف شاہ ریاض احمد قدس اللہ روحہ: 
آپ سلطان العارفین مخدوم شاہ عارف صفی محمد ی قدس سرہ کےخلف اصغر تھے۔۱۸۹۲ء/۱۸۹۳ءمیں ولادت ہوئی۔ والد ماجد کی آغوش میں پرورش ہوئی اور آپ ہی سے شرف بیعت حاصل کیا۔ سات سال کی عمر میں والد بزرگوار، استاذ اور پیرومرشد کی ظاہری مفارقت کے صدمے سے دوچار ہوئے۔ پھر حضرت مخدوم شاہ غلام صفی قدس سرہٗ (خلف اصغر قطب العالم صاحب سِرِّ قل ہو اللہ قدس سرہٗ) اور برادر گرامی نے تعلیم وتربیت فرمائی۔
آپ اسلاف والا تبار کی سیرت کے آئینہ دار اور ان کے عادات و خصائل کے پاسدار تھے۔اپنے بزرگوں کی روش سے سرِمو تجاوز گوارا نہیں تھا۔ سنن ونوافل کے آخر وقت تک ایسے پابند تھے جیسا عام لوگ فرائض کے بھی نہیں ہو پاتے۔ غرباپروری، ایثار، توکل اور عجزو انکساری کا یہ عالم تھا کہ اپنی کسی بھی چیز کے کبھی دعوے دار نہ تھے او رنہ ہی فتوحات کو اپنے پاس رکھتے، کسی معتمد کے حوالے کر دیتے بلکہ اکثر اس کی بھی نوبت نہ آتی اُسی وقت کسی حاجتمند کے سپرد فرما دیتے۔ سادگی و پرکاری اور خوش خوئی ، خوش روئی ایسی کہ جو ایک مرتبہ دیکھ لیتا کبھی بھول نہ پاتا اور ع ’’ہر گزم نقشِ تو ازلوحِ دل و جاں نہ رود‘‘ کا حال ہو جاتا۔
ہر بات میں خدا و رسول کی رضا ملحوظ خاطر رہتی۔ مسجدوں کی تعمیر، کنویں تیار کرانا، یتیموں او ربیواؤں کی کفالت او رغریب و نادار بچیوں کی شادیاں کرانے کے سیکڑوں واقعات ہیں۔
 ۱۹۵۰ء میں برادر گرامی کے پاکستان ہجرت فرمانے کے بعد خانقاہ شریف کا انتظام و انصرام آپ کے ہاتھوں میں آیا، آپ نے اپنے برادر زادے حضرت حکیم آفاق احمد صاحب رحمہ اللہ (۱۹۰۸-۲۰۰۱ء ) کو خلافت واجازت سے سرفراز فرما کر اپنا معاون اور دست و بازو بنایا ۔ خود تو ہمیشہ خلق خدا کی ہدایت میں مصروف رہے ۔خانقاہ شریف کے جملہ انتظامات آپ کی نگرانی میں قبلہ حکیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ انجام دیتے رہے ۔
عمر مبارک جب زیادہ ہو گئی تو مختلف امراض کی شکایت رہنے لگی۔ مزاج شریف میں استغراقی کیفیت کا غلبہ رہنے لگا یہاں تک کہ بسا اوقات ایک وقت کی نماز متعدد دفعہ ادا کر لیتے، عرض کرنے پر فرماتے کہ’’ کیا معلوم، ادا کی ہےکہ نہیں؟‘‘۔
خاموش مزاج شروع سے تھے ،فضول ولایعنی گفتگو پہلے بھی نہ فرماتے تھے ، اب اور زیادہ سکوت طاری رہتا ،کوئی کچھ عرض کرتا تو مختصراًجواب عنایت فرما دیتے ورنہ خاموش ہی رہتے ۔ غذا جو پہلے بھی بہت مختصر تھی اب اور بھی کم ہوگئی۔ ضعف و نقاہت دن بدن بڑھتا چلا گیا لیکن معمولات میں فرق نہ آیا۔ نماز کے اوقات پوری مستعدی سے نماز ادا فرما تے۔ بالآخرسلطان العارفین مخدوم شاہ عارف صفی محمدی قدس اللہ روحہ کے عرس مبارک کے موقع پر اپنے برادر زادے و خلیفہ مخدوم حکیم شاہ آفاق احمد صاحب رحمہ اللہ کے صاحبزادے مخدو منا و مولانا عارف باللہ شاہ احسان اللہ محمدی صفوی معروف بہ شیخ ابو سعید حفظہ اللہ ورعاہ کو خلافت و جانشینی سے سرفراز فرمایا ۔ آپ نےآخر عمر میں ایسا چراغ روشن فرمایا جس سے شرقاً و غرباً خلق خدا مستفیض ہو رہی ہے۔ اللّٰھُمَّ مَتِّعِ الْمُسْلِمِیْنَ بِطُوْلِ بَقَائِہِ ۔ آمِیْن
بالآخر ۱۵؍ محرم الحرام ۱۴۰۰ھ/۶؍دسمبر۱۹۷۹ء بروز جمعرات بوقت صبح صادق داعئ اجل کو لبیک کہا اور اس عالم سے روپوش ہو گئے۔ اسی روز خانقاہ شریف میں اپنے برادر بزرگ کے پہلو میں محو استراحت ہوئے۔

 (۳) محتسب العارفین مخدوم شاہ صفی اللہ محمدی صفوی عرف شاہ نیاز احمد عثمانی قدس اللہ روحہٗ:
آپ سلطان العارفین قدس سرہ کے خلف اکبر ہیں۔ ولادت باسعادت ۲۸؍ رمضان المبارک ۱۳۰۵ھ/۹؍جون ۱۸۸۸ء بروز شنبہ کو ہوئی ۔ پرورش ناز و نعم میں ہوئی۔ دادی ، دادا کے پہلے پوتے تھے لہٰذا ان کے بہت عزیز تھے۔ حضرت سلطان العارفین قدس سرہ کی آغوش تربیت میں  پروان چڑھے۔ فارسی کی تعلیم سلطان العارفین قدس سرہ سے ہوہی رہی تھی کہ اس اثنا میں آپ کی علالت کا سلسلہ شروع ہو ا۔لہٰذا تعلیم آپ کے برادر طریقت حضرت مولانا حاجی شاہ نعمت اللہ محمدی عرف سید محمد امین بخاری قدس سرہ کے سپر د ہوئی۔ چنانچہ ان کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ابھی تعلیم سے کما حقہ فراغ حاصل نہیں ہوپایا تھا کہ حضرت سلطان العارفین قدس سرہ کی سخت علالت کا دور آگیا ۔ اور بالآخر وہ دن بھی آگیا جو مریدین و منتسبین اور اہل خانہ کے لیے قیامت خیز تھا ۔یعنی ۱۸؍ذیقعدہ ۱۳۲۰ھ کو حضرت سلطان العارفین نے سرائے فانی سے عالم باقی کی جانب کوچ فرما یا۔ اس وقت محتسب العارفین مخدومنا شاہ صفی اللہ محمدی قدس سرہ کی عمر شریف پندرہ سال کی تھی۔
 وصال سے کچھ روز قبل سلطان العارفین نے تمام خلفاو مریدین کے رو برو آپ کو خلافت و سجادگی سے سرفراز فرمایا۔ اس کم عمری میں ذمے داریوں کا ایک پہاڑ آپ پر آپڑا، جسے آپ نے جس ہمت و استقلال سے انجام دیا، وہ خاصان حق ہی کا خاصہ ہے۔ چونکہ ابھی آپ کے دادا پیر، قطب العالم صاحب سر قل ہوا للہ قدس سرہ حیات ظاہری سے تھے، لہٰذا آپ نے خود کو ان کی اطاعت وفرمانبرداری کے لیے وقف کر دیا۔ ظاہری و باطنی ہر معاملے میں ان کی مرضی و منشاء ملحوظ خاطر رہتی۔ حضرت قطب العالم نے بھی بکمال لطف و عنایت آپ کی ظاہری و باطنی ہر طور سے مدد فرمائی اور مرتبۂ کمال پر فائز فرمایا۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادگان قدست اسرارہم سے بھی ویسی ہی نسبت قائم رہی ۔ ان بزرگوں کے الطاف و نوازش آپ پر بے حد تھے۔ آپ خود فرماتے ہیں ع
کرم بے حد ہے مرشد کا ، صفی اللہ سے سن لو
 تعلیم ظاہری سے فراغت کے بعد اورادو اشغال کی طرف طبیعت مائل ہوئی۔ اپنے بزرگوں کی ہدایات کے مطابق ایسے ایسے مجاہدے کیے جو آج کے اس مادی دور میں عنقا ہیں۔ غرض کہ ظاہری و باطنی تعلیم ایسے کاملین سے فرمائی جو اپنے وقت کے جنید و شبلی تھے۔ اسی وجہ سے سلسلے کے اکابر نے آپ کو اپنے خانوادے کا ’’شیر نر‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ۔
 آپ نہایت حق گو اور حق پسند تھے، حق بات کہنے میں کسی سے خائف نہیں ہوتے تھے۔تملق و چاپلوسی سے بہت بے زار رہتے تھے ۔ دل و زبان کے اتحاد کو سراہتے تھے۔ ظاہر کے آراستہ پیراستہ کرنے اور باطن کثافت و غلاظت سے پر ہونے کو ’’گندم نمائی‘‘ اور ’’جو فروشی‘‘ سے تعبیر فرماتے تھے۔ لباس میں سادگی پسند خاطر تھی۔ سماع سے بے حد ذوق تھا ۔ عالم وجد میں ٹہلا کرتے تھےاور ’’اُف‘‘ کی آوازنکلتی تھی۔

 اولاد و اخلاف:
آپ کے چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی مخدومہ مرحومہ نعمۃ النساء زوجہ سید مجیب احمد صاحب مرحوم (مدفون کراچی) یاد گار ہوئے۔
 (۱) حضرت حکیم شاہ آفاق احمد صاحب رحمہٗ اللہ (۱۹۰۸ء-۲۰۰۱ءمدفون خانقاہ شریف)
(۲) حضرت شاہ صابر حسین صاحب رحمہٗ اللہ (۱۹۱۷ء-۱۹۸۲ءمدفون کراچی ،پاکستان)
 (۳) حضرت شاہ الہام صفی محمدی عرف شاہ امتیاز احمد عثمانی رحمہٗ اللہ (۱۹۲۸ء-۲۰۱۱ء مدفون کراچی ،پاکستان)
(۴) حضرت مخدومی انیس احمد عثمانی مد ظلہ (ولادت: ۱۹۳۲،ساکن کراچی)

تصنیفات:
دو عربی منظوم کلام، شجرۂ فارسی منظوم، ایک فارسی نظم، اور چند فارسی ، اردو اور ہندی غزلیات آپ کی تصانیف سے باقی رہیں۔

ہجرت و واپسیٔ وطن:
آپ نے ۱۹۵۰ء میں برادر اصغر کو خانقاہ کامتولی و جانشین بنایااور اپنے خلف اکبر کو ان کا دست و بازو مقرر فرمایا اور خود مع تینوں صاحبزادگان و صاحبزادی صاحبہ پاکستان ہجرت فرمائی۔

 وصال:
۱۹۵۴ء میں جب دوبارہ واپس تشریف لائے تو آنے والے واقع کی نسبت وقتاً فوقتاً اشارے فرماتے۔ سر میں درد کی شکایت رہنے لگی، دو چار گھنٹہ سخت تکلیف رہتی پھر از خود دور ہو جاتی ۔سخت تکلیف میں ’’اُف‘‘ تک کی آواز نہ نکلتی۔ علاج و معالجہ چلتا رہا لیکن خاطر خواہ افاقہ نہیں ہوپاتا۔ آخر کار ۲۸؍شعبان المعظم ۱۳۷۴ھ/۲۲؍اپریل ۱۹۵۵ء جمعہ کے روز بعد نماز عصر وصال فرمایا۔ دوسرے روز خانقاہ شریف میں حضرت سلطان العارفین قد س سرہ ٗکے روضے کے پائیں تدفین عمل میں آئی۔

 نوٹ:
 سلطان العارفین مخدوم شاہ عارف صفی محمدی قدس سرہ کے مختصر حالات کے لیے محب گرامی مولانا مجیب الرحمن علیمی صاحب کا رسالہ ’’ خانقاہ صفویہ ؛تاریخ وخدمات کا اجمالی جائزہ ‘‘ ملاحظہ ہو۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0