Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-oct-2015➤
Akhtar Tabish Saeedi Download_Pdf
پیغام عیدین
عیدین ہمیں یہ ترغیب دیتی ہیں کہ ہم اپنےظاہروباطن دونوں کوہرطرح کی گندگیوں سے پاک و صاف رکھیں
عیدالفطراورعیدقرباں کے موقع پرتمام مسلمان بطور شکرانہ ایک جگہ جمع ہو کردو رکعت نماز ادا کرتے ہیں ،اور اِس دن ایک دوسرے کو مبارکبادی بھی پیش کرتے ہیں۔
عیدالفطرمیں ایک ماہ روزے رکھنےپربطورشکرانہ دوگانہ اداکیاجاتا ہے جب کہ عید قرباںمیں دوگانہ بھی اداکرتے ہیں اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار اور اُن کی سنت کے طورپرقربانی بھی پیش کرتے ہیں۔
ان دونوں عیدوں کے تعلق سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوںعیدیں ہمیں درج ذیل اہم پیغام دیتی ہیں:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْ۱۰۳(آل عمران)
ترجمہ:اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اورآپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فر ماتے ہیں:
لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَجَسَّسُوا، وَلَاتَحَسَّسُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا۔ (مسلم،باب:تحریم الظن)
ترجمہ:آپس میں حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، ٹوہ میں نہ پڑو، بُرا گمان نہ رکھو۔اللہ کے بندو!بھائی بھائی ہو جاؤ۔
اس طرح دونوں عیدیں ہمارے ذہن کواِس بات کی طرف بھی متوجہ کرتی ہیں کہ ہم فجراورعیدین کی طرح دیگر فرائض کی بھی پابندی کریں ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ۲(کوثر)
ترجمہ:اپنے رب کے لیے نمازاداکریںاوراپنے رب کے لیےقربانی پیش کریں۔
معلوم ہواکہ فرائض کی پابندی بھی کرنی ہے اور قربانی بھی پیش کرنی ہے۔ہم صرف قربانی پیش کرتے ہیں اور نمازوں کی پابندی نہیں کرتے تویہ جان لیں کہ ہم کماحقہ اللہ ورسول کے احکام کے تابع اور پیروکارنہیں۔
اللہ رب العزت ارشاد فر ماتا ہے:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ۳۷(حج)
ترجمہ:اللہ کی بارگاہ میں نہ قربانی کا گوشت پہنچتاہے اور نہ خون،بلکہ تمہارا تقوی پہنچتاہے۔
اس آیت کے مطابق قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں صرف رب کی رضا اور اُس کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کرنی چاہیے،گوشت کھانے کے لیے نہیں۔
اس کے علاوہ بھی ہم زندگی کے ہر موڑ پر قربانی پیش کرسکتے ہیں،اس کی صورت یہ ہوگی کہ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے ہم اپنی مرضی کو اللہ رب العزت کی مرضی پر قربان کردیں۔اس طرح قربانی کی کئی صورتیں ہوگئیں:
۱۔جان کی قربانی ۲۔ مال کی قربانی ۳۔اولاد کی قربانی ۴۔نفس کی قربانی
جان کی قربانی یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کواللہ کے دین کی ترویج واشاعت میں لگائے اور اُس کی خاطر تمام طرح کی مشقتیں اوردقتیں برداشت کریں ۔
مال کی قربانی یہ ہےکہ اُس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میںخرچ کیاجائے۔
اولاد کی قربانی یہ ہے کہ کلمۂ حق کی سربلندی کی خاطر اُنھیں اللہ کی راہ میں لگادیا جائے۔
نفس کی قربانی یہ ہے کہ انسان اپنی ہرمرضی اوراپنی ہرخواہش اللہ ورسول کی مرضی کے تابع کردے اور اپنے دل و دماغ کوہرطرح کی آلودگیوں سے پاک وصاف رکھے،اور اس میں مزیدجِلابخشنے کے لیے نیکوں کی صحبت میں جائے۔
اس طرف اللہ تعالیٰ نے یوں اشارہ فرما یا ہے:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۱۱۹ (سورۂ توبہ)
ترجمہ:اے مومنو!اللہ رب العزت سے ڈرواور نیکوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
دوسری جگہ یو ں ارشاد فر مایاہے:
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ۲۸(کہف) ت
رجمہ:خودکواُن لوگوں کے ساتھ جمائے رکھوجو صبح وشام اپنے رب کا نام لیتے ہیں اور اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں۔
گو یا عید قرباں ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی باطنی دنیا کوہرطرح کی گندگیوں اور غلاظتوں سے پاک و صاف رکھیں ۔
حاصل کلام یہ کہ اگر ہم واقعی رب کی رضا حاصل کرنا چاہتےہیں اور اپنی دنیا وآخرت کو کامیاب بنا نا چاہتےہیں تو ہمیں چاہیے کہ عیدین کےان پیغامات کی روشنی میں اپنی زندگی کے شب وروزگزارنے کی کوشش کریں،ہر لمحہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرتےرہیں اوراللہ ورسول کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہیں اورکسی بھی طرح کی سستی وکاہلی سے کام نہ لیں۔
کیوں کہ اللہ رب العزت کا فرمان عالیشان ہے :
فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَایَسْتَقْدِمُوْنَ۳۴ (اعراف)
ترجمہ:جب لوگوںکی موت آتی ہے تو نہ ایک لمحہ پیچھے ہٹتی ہے اور ایک لمحہ نہ آگے بڑھتی ہے۔
عیدالفطرمیں ایک ماہ روزے رکھنےپربطورشکرانہ دوگانہ اداکیاجاتا ہے جب کہ عید قرباںمیں دوگانہ بھی اداکرتے ہیں اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار اور اُن کی سنت کے طورپرقربانی بھی پیش کرتے ہیں۔
ان دونوں عیدوں کے تعلق سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ دونوںعیدیں ہمیں درج ذیل اہم پیغام دیتی ہیں:
امیر کی اطاعت
نماز عید الفطر اور عید الاضحی کے تعلق سے غور کریں تونماز عید الفطر کی ادائیگی کے لیے سارے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ساتھ مل کر ایک امام و امیرکی اقتدامیں نمازیں ادا کرتے ہیں۔ گویا عیدالفطراورعیدقرباںہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمیں کسی نہ کسی کی امارت قبول کرنی ہوگی ،کیوں کہ اس کے بغیر ہماری زندگی نہ دنیوی اعتبارسے پُرسکون ہوگی اور نہ دینی اعتبارسے مطمئن ۔چنانچہ جس طرح عیدین میں ہم ایک معتمد اور کامل شخص کو اپناامام وامیر بناتے ہیں ہیں اورآغازِنماز سے انجامِ نمازتک اُن کی اقتداسے بال برابربھی انحراف نہیں کرتے ہیں،اسی طرح عام زندگی میں بھی ایک ایسےمعتمداور کامل انسان کی اتباع وپیروی لازم وضروری ہے جس کی پوری زندگی قرآن وسنت کی کسوٹی پرکھری اترتی ہو، اور جس کا ہر عمل اسوئہ حسنہ کے مطابق ہو ،اور یہ بھی لازم ہے کہ جس کو ہم اپناامام وامیر تسلیم کریں اُن کی تعلیمات واحکام سے زندگی کے کسی بھی لمحے میں بھی منحرف نہ ہوں،ورنہ ہم اتحادواتفاق کے بجائے انتشارواختلافات کے شکار ہوں گےاور زندگی میں غیرمطمئن تورہیں گے ہی آخرت میں بھی ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
اتحاد واتفاق
عید الفطراورعیدقرباں کے موقع پرہم گھر گھر جاتے ہیں اورآپس میں خوشیاں بانٹتے ہیں ،ایک دوسرے کو مبارکبادی پیش کرتےہیں۔گویاعیدالفطر اور عیدقرباں ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم آپسی نفرت کوبھلاکرایک ہوجائیںاورآپس میں مل جل کرخوشیاں بانٹیں، مصائب وآلام میں ایک دوسرے کےیارو مدد گار بنیں،اخوت ومحبت کو بڑھاوا دیں اور آپس میںاتحاد واتفاق پیدا کریں۔جیساکہ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے:
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْ۱۰۳(آل عمران)
ترجمہ:اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اورآپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فر ماتے ہیں:
لَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَجَسَّسُوا، وَلَاتَحَسَّسُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا۔ (مسلم،باب:تحریم الظن)
ترجمہ:آپس میں حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، ٹوہ میں نہ پڑو، بُرا گمان نہ رکھو۔اللہ کے بندو!بھائی بھائی ہو جاؤ۔
فرائض باجماعت کی پابندی
جب عیدین کے دن آتے ہیں تو یہ بات عام طورپر دیکھنے کو ملتی ہے کہ صبح فجر سے لے کردوگانہ کی ادائیگی تک مسجدیں بھری رہتی ہیں، عیدگاہوںمیں لوگوں کی کثرت ہوتی ہے، لیکن جیسے ہی دوسرا دن آتا ہے،بلکہ اسی دن دوسری نمازوںکا وقت ہوتا ہے تو مسجدیں خالی ہوجاتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ صرف فجر اور عیدین کی نمازیں ہی ہم پر فرض ہوئی ہیں۔
اس طرح دونوں عیدیں ہمارے ذہن کواِس بات کی طرف بھی متوجہ کرتی ہیں کہ ہم فجراورعیدین کی طرح دیگر فرائض کی بھی پابندی کریں ۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ۲(کوثر)
ترجمہ:اپنے رب کے لیے نمازاداکریںاوراپنے رب کے لیےقربانی پیش کریں۔
معلوم ہواکہ فرائض کی پابندی بھی کرنی ہے اور قربانی بھی پیش کرنی ہے۔ہم صرف قربانی پیش کرتے ہیں اور نمازوں کی پابندی نہیں کرتے تویہ جان لیں کہ ہم کماحقہ اللہ ورسول کے احکام کے تابع اور پیروکارنہیں۔
قربانی
عید قرباں کے موقع پر تمام مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ادا کرتے ہیں، یعنی لوگ حلال جانوروں کی قربانیاں پیش کرتے ہیں،جس کاایک ہی مقصدہوتاہے تقویٰ حاصل کرنا۔
اللہ رب العزت ارشاد فر ماتا ہے:
لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ۳۷(حج)
ترجمہ:اللہ کی بارگاہ میں نہ قربانی کا گوشت پہنچتاہے اور نہ خون،بلکہ تمہارا تقوی پہنچتاہے۔
اس آیت کے مطابق قربانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں صرف رب کی رضا اور اُس کا قرب حاصل کرنے کے لیے قربانی کرنی چاہیے،گوشت کھانے کے لیے نہیں۔
اس کے علاوہ بھی ہم زندگی کے ہر موڑ پر قربانی پیش کرسکتے ہیں،اس کی صورت یہ ہوگی کہ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے ہم اپنی مرضی کو اللہ رب العزت کی مرضی پر قربان کردیں۔اس طرح قربانی کی کئی صورتیں ہوگئیں:
۱۔جان کی قربانی ۲۔ مال کی قربانی ۳۔اولاد کی قربانی ۴۔نفس کی قربانی
جان کی قربانی یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کواللہ کے دین کی ترویج واشاعت میں لگائے اور اُس کی خاطر تمام طرح کی مشقتیں اوردقتیں برداشت کریں ۔
مال کی قربانی یہ ہےکہ اُس کو اللہ تعالیٰ کی راہ میںخرچ کیاجائے۔
اولاد کی قربانی یہ ہے کہ کلمۂ حق کی سربلندی کی خاطر اُنھیں اللہ کی راہ میں لگادیا جائے۔
نفس کی قربانی یہ ہے کہ انسان اپنی ہرمرضی اوراپنی ہرخواہش اللہ ورسول کی مرضی کے تابع کردے اور اپنے دل و دماغ کوہرطرح کی آلودگیوں سے پاک وصاف رکھے،اور اس میں مزیدجِلابخشنے کے لیے نیکوں کی صحبت میں جائے۔
اس طرف اللہ تعالیٰ نے یوں اشارہ فرما یا ہے:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ۱۱۹ (سورۂ توبہ)
ترجمہ:اے مومنو!اللہ رب العزت سے ڈرواور نیکوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
دوسری جگہ یو ں ارشاد فر مایاہے:
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ۲۸(کہف) ت
رجمہ:خودکواُن لوگوں کے ساتھ جمائے رکھوجو صبح وشام اپنے رب کا نام لیتے ہیں اور اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں۔
گو یا عید قرباں ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی باطنی دنیا کوہرطرح کی گندگیوں اور غلاظتوں سے پاک و صاف رکھیں ۔
حاصل کلام یہ کہ اگر ہم واقعی رب کی رضا حاصل کرنا چاہتےہیں اور اپنی دنیا وآخرت کو کامیاب بنا نا چاہتےہیں تو ہمیں چاہیے کہ عیدین کےان پیغامات کی روشنی میں اپنی زندگی کے شب وروزگزارنے کی کوشش کریں،ہر لمحہ اپنی زندگی کا محاسبہ کرتےرہیں اوراللہ ورسول کی رضا وخوشنودی حاصل کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہیں اورکسی بھی طرح کی سستی وکاہلی سے کام نہ لیں۔
کیوں کہ اللہ رب العزت کا فرمان عالیشان ہے :
فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَایَسْتَقْدِمُوْنَ۳۴ (اعراف)
ترجمہ:جب لوگوںکی موت آتی ہے تو نہ ایک لمحہ پیچھے ہٹتی ہے اور ایک لمحہ نہ آگے بڑھتی ہے۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں