Qawa'id al-Tasawwuf 07

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-oct-2015➤ Shaykh Ahmed Zarruq Maliki                                       Download_Pdf 

علم،عمل کا امام ہے
حضرت شیخ احمد زروق فاسی مالکی (۸۴۶-۸۹۹ھ)اپنے عہدمیں شریعت وطریقت کے امام گزرے ہیں،آپ کی تصنیفات میں عدۃ المریدالصادق اورقواعدالتصوف امتیازی شان رکھتی ہیں۔خاص طورسے ’’قواعد التصوف‘‘ فقہ و تصوف کے باہمی رشتوں کی وضاحت اورتصوف کے اصول وضوابط کے بیان پر بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔
مولاناضیاء الرحمن علیمی (ا ستاذ جامعہ عارفیہ) اس کا ترجمہ کررہے ہیں۔عوام وخواص کے علمی افادے کی غرض سےیہ ترجمہ ترتیب وار پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
۱۹۔قاعدہ
درحقیقت نسبتوں اورحیثیتوں کے اعتبارکی وجہ سے حکم عام ہونے کے بجائے خاص ہوجاتا ہے۔انہی حیثیتوں میں سے ایک یہ غیرت بھی ہے کہ کہیں کوئی صوفیا ئے کرام کے علوم کا انکارنہ کربیٹھے۔یوں ہی صوفیائے کرام کی خاص باتوں سے عوام کو دوررکھنے کے ارادے کی وجہ سے بھی اُن کے علوم کو خاص رکھاجاتا ہے،اور صوفیائے کرام کے علوم میں بہت سی باتیں خاص ہوتی ہیں۔نیز علم وعمل اور دعویٰ وغیرہ میں غلطی کی راہیں اوراُس کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ اس بات کوذہن نشیں کرلیں اورہر حکم کو اُس کے حقیقی مقام پررکھیں۔چنانچہ اعمال عام لوگوں کے لیے،احوال مریدین کے لیے،فوائد عابدوں کے لیےاورحقائق عارفین کے لیے ہوتے ہیں۔
 صوفیائے کرام کی عبارتیں،سننے والوں کے لیے غذاکی طرح ہیں اورہرآدمی اسی سطح کی غذااستعمال کرتا ہےجس کا وہ عادی ہوتاہے۔
 ۲۰۔قاعدہ
کسی اصل میں اشتراک، حکم میں بھی اشتراک کا تقاضا کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے احکام اور اُس کے حقوق پر دلالت کے سلسلے میں فقہ وتصوف دونوںحقیقی بھائی کی طرح ہیں۔ چنانچہ کمی اورخوبی کے معاملے میں دونوں پر ایک ہی اصل کےحکم کااطلاق ہوگا، کیوںکہ مدلول پردلالت کےحوالے سے ان میں کسی کو دوسرے پر اولویت اور فضیلت حاصل نہیں ہے۔یہ بات صحیح ہے کہ فقہ اورتصوف دونوں میں کمال علم کے لیے عمل شرط ہےصحت علم کے لیے نہیں،کیوں کہ عمل کی نفی کی وجہ سے علم کی نفی نہیں ہوتی۔وجہ یہ ہے کہ علم ،عمل کا امام ہے اور وجود کے معاملے میں حکم اورحکمت دونوں لحاظ سے عمل پر علم مقدم ہے،بلکہ اگر علم،عمل کے اتصال کی شرط لگادی جائے تو تحصیل علم باطل ہوکر رہ جائے گا،یوں ہی اگر اوامرونواہی میں عمل کی شرط لگادی جائے توفسادِزمانہ کی وجہ سے اوامرونواہی کا ارتفاع لازم آجائے گااوریہ بات نہ شرعی طورپردرست ہے اور نہ ہی یہ بات مجموعی طورپر پسندیدہ ہے۔
 اللہ تعالیٰ نےاپناخوف رکھنے والوں کے لیے علم کو ثابت کیاہےاور اس کو عالم کہا ہے ،لیکن خوف وخشیت نہ رکھنے والوں سے علم کی نفی بھی نہیں کی ہے۔
یوں ہی غیرمفیدعلم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہےاور فرمایاہے:
أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَالِمٌ لَمْ یَنْفَعْہُ اللہُ بِعِلْمِہٖ۔(شعب الایمان،باب:وینبغی لطالب العلم ان یکون تعلمہ) 
ترجمہ:قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب اس عالم کو ہوگا جس کو اللہ نے اس کے علم سے کچھ نفع نہیں دیا۔ چنانچہ یہاں بھی نفع نہ اٹھانے کے باوجود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عالم قراردیاہے۔
 لہٰذاجو بھی حقیقت میں علم رکھتاہواور علم کے میدان میں مقام تحقیق پر فائز ہواُس سے استفادہ ضروری ہےاوربے عمل عالم کےپڑھانے کی وجہ سے جو نقصان ہے وہ علم نہ حاصل کرنے کی صورت میںہونے والے نقصان کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے،لہٰذااِس نکتے کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔
 ۲۱۔قاعدہ
جو چیز عام طورپر کسی شئے کے ساتھ ظاہر ہوتی ہواُس شئےکے اظہار کے وقت اس کا اظہاربھی ضروری ہے،اورعلم تصوف عمل کے ساتھ ہی پہچاناجاتاہے،اس لیےعمل کے بغیر تصوف کا اظہار تدلیس ہے،اگر چہ عمل صرف کمال تصوف کے لیے شرط ہے۔
 کہاگیاہے کہ علم،عمل پراُبھارتا ہے۔چنانچہ اگر عمل پالیا گیا تو ٹھیک،ورنہ نورِعلم رخصت ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ عمل سے خالی علم سے ہمیں محفوظ رکھے۔
۲۲۔قاعدہ
کسی شئے کے حکم اور اُس کی صورت کو جاننے کے بعد ہی اس پر عمل صحیح ہوتاہے،چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہتاہے کہ میں جب تک عمل نہیں کروںگااس وقت تک علم حاصل نہیں کروںگاتواُس کا یہ کہناایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ جب تک میری بیماری ختم نہیں ہوگی اس وقت تک علاج نہیں کراؤںگا،چنانچہ نہ وہ علاج کرائے گااور نہ اس کی بیماری دور ہوگی۔صحیح یہ ہے کہ پہلے علم ہے پھرعمل ،اوراُس کےبعد اُس کا افادہ اوراُس کی نشر واشاعت۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0