Qurbani Kya Hai

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-oct-2015Iftikhar Alam Saeedi                                                      Download_Pdf 
قربانی کیاہے؟
اللہ رب العزت اپنے بندوں سے ایسی ہی قربانی چاہتاہے جو صرف اور صرف اُس کی رضا کے لیے ہو
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا :
یَا رَسُوْلَ اللہِ!مَا ہٰذِہِ الأَضَاحِیُّ؟ قَالَ:سُنَّۃُ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ۔ (مسند احمد ،مسند زید بن ارقم) 
یا رسول اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم) یہ قربا نی کیا ہے ؟
 آپ نے ارشادفرمایا کہ یہ قربانی، تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔
 اس حدیث پاک سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےبندوں کو قربا نی کے ذریعے اپنے محبوب پیغمبرکی زندگی کے واقعات سے روشناس کرایاہے ، تاکہ بندہ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلا م کی سنت کو زندہ رکھے ۔ اُن کی زندگی کے معمولات ،صبر و تحمل،عاجزی وانکساری اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی فوراً تعمیل جیسی صفتوںسے اپنی زندگی کوسجا نے کی کوشش کرے،اوراِس طرح بندۂ مومن بھی حضرت ابراہیم کی ایثارو محبت کے رنگ میں رنگ جائے۔
 اصلِ قربانی
 قربانی کی اصل یہ ہے کہ ایک مومن اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا و خوشنودی کی خاطراپنا سب کچھ قربان کر دے ، جس قدر بھی ہو سکے یا جو کچھ بھی اس کے پاس ہو ،جیسے جان ومال، آل اولاد ، عزت وشہرت ،علم و ہنر اور شجاعت و بہادری وغیرہ،کیوںکہ حضرت ابراہیم نے بھی ایسا ہی کیا تھاکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اپنے عزیز ترین بیٹے حضرت اسمٰعیل کو جنھیں حضرت ابراہیم نے ہزار ارمانوں کے بعد بڑھاپے میں پایا تھا ،قربان کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی ،جب کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹے کی قربانی کا واضح حکم بھی نہیں ہوا تھابلکہ صرف ایک اشارہ ملاتھا ۔
اوراُسی ایک اشارےپر حضرت ابراہیم اپنے عزیز بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے نام پرقربان کرنے کے لیے تیا ر ہو گئے  
اَصل میں یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک امتحان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابراہیم جب امتحان میں کامیاب ہو گئے تواللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل کی جگہ ایک جنتی دنبہ بھیج دیا اور وہ دنبہ فدیے کے طورپر ذبح ہو ا۔
 اس تعلق سےاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
 إِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلَائُ الْمُبِیْنُ ۝۱۰۶وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۝۱۰۷ (سورۂ صافات)
 ترجمہ : بےشک یہ ایک روشن آزمائش تھی اور ہم نے اُس کے بدلے ایک بڑا ذبیحہ صدقے میں دیا ۔
 روحِ قربانی
 قربانی سے پہلے جویہ دعا پڑھی جاتی ہے :
 إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ۝۷۹إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۹(انعام)
ترجمہ: میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوںاورزمین کوپیدا کیا اور میں مشرک نہیں،یقیناً میری نماز، میری قربانی،میرا مرنا اورمیرا جیناسب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔
 یہی دعا اصل میں قربانی کی روح ہے،کیوں کہ بندہ قربانی کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کرتاہے، گویاکہ وہ اللہ تعالیٰ سے کہہ رہاہوتا ہے:یااللہ! میرا کچھ بھی نہیں ہے،جو کچھ بھی ہے وہ سب تیرا ہی ہےاوریہ قربانی بھی تیرے ہی لیے ہے،تواِس قربانی کو قبول فرمالے ۔
 بندے کے اندرجب یہ صفت آجا تی ہے تو بدنی عمل ہویامالی عمل، یعنی روزہ اورنماز،یازکاۃاور قربانی،وہ یہی تصور کرتا ہے کہ یااللہ! یہ سب تیرے ہی لیےہے ا ورہم یہ قربانی بھی تیرے ہی لیے کررہےہیںنہ کہ اپنی بڑائی یا تعریف و ستائش کے لیے ۔
ظاہری وباطنی مفہوم
 اِس آیت کریمہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مومن کا دل ہر عمل کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف مائل رہنا چاہیے۔ اس سے قربانی کے دو مفہوم سمجھ میں آتے ہیں: ۱۔ظاہری ۲۔ باطنی ۔
ظاہری مفہوم یہ ہے کہ انسان قربانی کے دنوں میں کوئی جانور مثلاًگائے ، بیل ، بھینس یا دنبہ وغیرہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربان کرے ۔
 باطنی مفہوم یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربان کر دے ۔
 خود کو قربان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی خواہش کو اللہ تعالیٰ کی محبت و الفت میں جلا کر راکھ کر دے اور صرف اس کے حکم کے مطابق عمل کرے ، جیسا کہ مذکورہ آیت کریمہ میں ذکر ہواکہ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝۱۶۹(انعام)
یعنی میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ کے لیے ہے ۔
 اورایک انسان کا مرنا اور جینا اسی وقت اللہ رب العزت کے لیے ہوسکتا ہے،جب وہ احکام الٰہی کی پابندی کرےاور منع کی ہوئی چیزوں سے اجتناب کرے ۔
 اس طرح عمل کرنے سے بندے کے اندر اخلاص پیدا ہو تاہے اور اخلاص کے نتیجے میں اس کے اندر عاجزی و انکساری، صبر و تحمل اورعبادت وبندگی ادا کرنے کی صفتیں پیدا ہوتی ہیں۔پھربندہ جب بھی قربانی پیش کرتا ہےاُس کی قربانی میں روحانیت کاغلبہ رہتا ہے۔چنانچہ اس صورت میں اللہ کی رضاکے لیے مال و دولت خرچ کرنے میں وہ نہ توکوئی دشواری محسوس کرتا ہے اورنہ ہی نام ونمود کی چاہت اپنے دل میں رکھ پاتا ہے۔
 اللہ رب العزت اپنےبندوں سے ایسی ہی قربانی چاہتا ہےجو صرف اورصرف اللہ کی رضا کے لیے ہو،کیوں کہ اللہ کی بارگاہ میں وہی قربانی مقبول ہوگی جوکبر،ریااورنام ونمودسے پاک وصاف ہو۔ قرآن کریم میں ارشادہے :
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہٗ التَّقْوَیٰ مِنْکُمْ۝۳۷(حج)
 ترجمہ : اللہ رب العزت کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اُس کا خون مگر اُس کی بارگاہ میں تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے ۔
 اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تقویٰ محبوب ہے جو کرامت وبزرگی کا معیاربھی ہے۔ اس کی وضاحت اس آیت کریمہ سے ہوتی ہے :
إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰکُمْ۝۱۳ (حجرات)
 ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز ومحترم وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے ۔
لہٰذاجس بندے کے اندر جتنازیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگااورجس کا دل اللہ کے ذکرسے جتنازیادہ معمورومنور ہوگا،اس کے دل میں اتنا ہی زیادہ تقویٰ پیدا ہوگا،پھروہ اُسی قدر اپنی قربانی پیش کرے گا جس کی وجہ سے نہ صرف اس کی قربانی مقبول ہوگی،بلکہ اُسی اعتبارسے اُس کے درجات بھی بلند ہوں گے ۔
 اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا باطنی مفہوم،یعنی روحانیت والی قربانی مقصود ہے،جب کہ آج لوگوں نے محض ظاہری مفہوم کوقربانی سمجھ لیااوراُسی کو اپنا شعار بھی بنالیاہے۔یہ اکثر دیکھا جاتاہے کہ عوام میں ان لوگوں کی تعریف ہوتی ہے جن کا جانور قیمتی ہو ،یاجنھوں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی دعوت کی ہو، اور طرح طرح کےکھانے بنوائے ہوں،حالاںکہ اس سےانسان کے اندر غروراور تکبر پیدا ہوجاتاہے،قربانی کی روحانیت ختم ہوجاتی ہے اورپھراس کی وجہ سے نیکیوں کو تباہ و برباد ہونے میں ذرا بھی دیرنہیں لگتی ۔
 لیکن اگریہی تمام چیزیں صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اوراُس کی رضاکےلیے ہو تو یہ عبادت ہے اوراسلام اِسی طرح کی قربانی چاہتا ہے،کیوںکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی اصل قربانی ہے،چنانچہ جس وقت ہمارے دلوں میںایثار وقربانی کا یہ جذبہ پیداہوجائے گا،اس وقت ہماری قربانی کاپھل بھی نظرآئےگا،قربانی کی تمام شرطیں پوری بھی ہوںگی اورہماری قربانی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مظہربھی بنے گی :
 إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۝۱۰۵ (صافات)
 یعنی ہم اچھا کام کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ۔
 آج مسلم معاشرے میں ہونے والی قربانیوں کودیکھ کر ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں اوراپناپنامحاسبہ بھی کرسکتے ہیں کہ کیا واقعی ہماری قربانی محسنوں اورمتقیوں کے عمل کے مطابق ہے؟ یاپھرہم ظالموں کے زمرے میں شامل ہونے کے لائق ہیں۔ کیوں کہ ارشادباری تعالیٰ ہے:
 وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ مُبِینٌ۝۱۱۳(صافات)
 ترجمہ :ان کی اولاد میں کوئی محسن ( اچھا کام کرنے والے) اور کوئی اپنی جان پر صریح ظلم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ابراہیم علیہ السلام کی سنت زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0