Saadate Sufia Aur Tasawwuf

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-July-2015➤ Abu Abdurrahman Muhammad Bin Hussain Sullami


سادات صوفیااورتصوف

فرشتے اس شخص کے لیے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں جس کا دسترخوان دوسروں کے لیے ہمیشہ بچھارہتاہے
امام ابو عبد الرحمن محمد بن حسین سلمی جہاں بہت بڑے صوفی تھے وہیں ایک عظیم محدث بھی تھے ۔آپ کی ولادت سنہ۳۳۰ ہجری میں ہوئی،جب کہ وفات سنہ۴۱۲ہجری میں ۔آپ کو بیک وقت تفسیر ،حدیث،سیر وتاریخ اور تصوف میں یدطولی حاصل تھا،آپ نے چند نمایاں اور مایۂ ناز کتابیں بھی یادگار چھوڑی ہیں،ان میں سے ایک کتاب ’’الاربعون فی التصوف ‘‘ہے۔ یہ سادات صوفیا اور تصوف کے موضوع پر ایک مفید کتاب ہے ،اس کی تخریج محترم ڈاکٹر کمال حوت نے کی ہے جب کہ اس کا ترجمہ مولانا اصغر علی مصباحی استاذ جامعہ عارفیہ ،سیدسراواں ،الہ آبادنے کیا ہے۔(ادارہ)

عام لنگر کا ثبوت
 ۲۱ ۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 لَا تَزَالُ الْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلٰى أَحَدِكُمْ مَا دَامَتْ مَائِدَتُهٗ مَوْضُوعَةً۔
ترجمہ:فرشتے اس شخص کے لیےہمیشہ دعائے مغفرت کرتے رہتےہیں جس کا دسترخوان دوسروں کے لیےہمیشہ بچھارہتا ہے ۔

دینے والے ہاتھ کی فضیلت
۲۲ ۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِّنَ الْيَدِ السُّفْلٰى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا الْمُتَعَفِّفَةُ، وَالْيَدُ السُّفْلَى السَّائِلَة۔
ترجمہ:اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئےحضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اوپر والاہاتھ اس لیے بہترہے کہ وہ سوال کی ذلت سے محفوظ رہتا ہے،جب کہ نیچے والاہاتھ سوال کی ذلت میں مبتلا رہتا ہے۔

 سرّی عبادت کی جزا
 ۲۳ ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذَاکَانَ یَوْمُ الْقَیَامَۃِ بَعَثَ اللہُ قَوْمًا عَلَیْہِمْ ثِیَابٌ خضرٌ بِأجْنِحَۃٍ خُضْرٍفَیَسْقُطُوْنَ عَلٰی حِیْطَانِ الْجَنَّۃِ فَتُشْرِفُ عَلَیْہِمْ خَزَنَۃُ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُوْنَ لَہُمْ:مَنْ أنْتُمْ أَمَاشَہِدْتُمُ الْحِسَابَ وَمَاشَہِدْتُمُ الْوَقُوْفَ بَیْنَ یَدَيِ اللہِ عَزَّوَجَلَّ،فَقَالُوْا:لَا،نَحْنُ قَوْمٌ عَبَدْنَا اللہَ سِرًّا فَأحَبَّ أن یُّدْخِلَنَاالْجَنَّۃَ سِرًّا۔
ترجمہ:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہرےپَروالے سبز کپڑے میں ملبوس کچھ لوگوں کو مبعوث فرمائے گا جو جنت کے دروازے پر اتریں گے،داروغۂ جنت اُنھیں دیکھ کراُن سے پوچھے گاکہ تم لوگ کون ہو؟کیا تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حساب وکتاب کے لیے نہیں ٹھہروگے ؟
 وہ لوگ جواب دیں گے کہ نہیں،ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سرّی طورپرکی ہے،اس لیے اللہ عزوجل کو یہی پسند ہے وہ ہمیں بھی جنت میں سرّی طور پر داخل کرے۔

 قناعت،شفقت اورحسن سلوک
 ۲۴ ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
يَا أَبَا هُرَيْرَةَ!كُنْ وَرِعًا،تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَكُنْ قَنِعًا تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ،وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، تَكُنْ مُؤْمِنًا، وَأَحْسِنْ مُجَاوَرَةَ مَنْ جَاوَرَكَ، تَكُنْ مُسْلِمًا، وَأَقِلَّ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ۔ ترجمہ:اے ابو ہریرہ!حرام چیزوں سے بچو،سب لوگوں سےبڑے عابد بن جا ؤگے،قناعت اختیار کرو سب سے بڑے شکر گزار بن جاؤگے ،اورلوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتےہومومن ہو جاؤگے۔
پھراپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے معاملات رکھومسلم ہوجاؤگے اورکم ہنساکرو،کیوں کہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتا ہے۔

 فقیری اختیار کرنا
 ۲۵۔حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
 عَرَضَ عَلَيَّ رَبِّي أَنْ يَّجْعَلَ بَطْحَاءَ مَكَّةَ ذَهَبًا، فَقُلْتُ: لَا،يَارَبِّ! وَلَكِنْ أَشْبَعُ يَوْمًاوَأَجُوعُ يَوْمًا، فَإِذَا جُعْتُ تَضَرَّعْتُ، وَإِذَا شَبِعْتُ حَمِدْتُكَ وَذَكَرْتُكَ۔
ترجمہ: میرے رب نے یہ تجویز رکھی کہ میرے لیے سرزمین مکہ کو سونا بنا دیا جائے،اس پرمیں نے عرض کیا کہ اے میرے رب !نہیں۔ بلکہ میں تویہ چاہتا ہوں کہ ایک دن کھاؤںاورایک دن بھوکا رہوں،کیوں کہ جب میں بھوکا رہوں گا توتیری بارگاہ میں گریہ وزاری کروں گا اور شکم سیر ہوجاؤں گا تو تیری حمداور تیرا ذکر کروں گا۔

 اہل و عیال پرصالحین کو ترجیح دینا
 ۲۶ ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے فرمایا:
لَا أُعْطِيْكُمْ وَأَدَعُ أَهْلَ الصُّفَّةِ تُطْوَى بُطُونُهُمْ مِنَ الْجُوعِ۔
ترجمہ: اے فاطمہ !تجھے مال دےکر میں اہل صفہ کو بھوکے نہیں رہنے دوں گا ۔
یعنی ایسا ہرگزنہیں ہوسکتا کہ اللہ والے بھوکے رہیں اور میری بیٹی آسودہ،گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اولاد پر اللہ والوں کو ترجیح دی ۔

اظہارِحق
 ۲۷ ۔حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیںکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیاتو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور منبرپرکھڑے ہوکراللہ رب العزت کی حمدو ثنا بیان کی ،پھرآپ نے فرمایا :
إنْ کَانَ مُحَمَّدٌ إلٰہُکُمُ الَّذِی تَعْبُدُوْنَ فَإنَّ إلٰہَکُمْ قَدْ مَاتَ ،وَإنْ کَانَ إلٰہُکُمُ الَّذِی فِی السَّمَاءِ،فَإنَّ إلٰہُکُمْ حَیٌّ لَایَمُوْتُ ثُمَّ تَلَا:وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران۱۴۴)
ترجمہ: اگر تمہارا معبود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )تھے جن کی تم عبادت کرتے تھے، تو سن لو کہ وہ وفات پا چکےہیںاور اگر تمہارا معبود وہ ذات ہے جو آسمانوں میں ہے تو وہ ذات زندہ ہے،اُسے کبھی موت نہیں آسکتی،پھر آپ نےیہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ(محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہیںاورآپ سے پہلے بھی بہت سےانبیاورسل رحلت فرماچکے ہیں) ۔

امام الانبیاءاور تعظیم مہمان
 ۲۸۔حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب شاہ نجاشی کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیاتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کی خدمت کے لیے آگے بڑھے ۔یہ دیکھ کر صحابۂ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم اس کی خدمت کے لیے کافی ہیں ،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إنَّہُمْ کَانُوْا لَأصْحَابِی مُکْرِمِیْنَ وَأنَا أحِبُّ أنْ أکَافِئَہُمْ۔
ترجمہ:ان لوگوں نےمیرے اصحاب کی عزت اور ان کی اچھی خدمت کی تھی،اس لیےمیں چاہتا ہوں کہ انھیں اس عمل کا صلہ دوں ۔

کپڑے میں پیوند لگا کر پہننا
۲۹ ۔ حضرت اُم حصین رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے گھرموجود تھی،اس وقت حضرت عائشہ اپنی قمیص میں مختلف رنگ کے سیاہ وسفید پیوند لگا رہی تھیں،اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورارشادفرمایا :
مَاہٰذَایَاعَائِشَۃُ!قَالَتْ:قَمِیْصٌ لِی أرْقَعُہٗ، فَقَالَ: أحْسَنْتِ لَاتَضَعِی ثَوْبًا حَتّٰی تَرْقِعِیْہِ فَإنَّہٗ لَاجَدِیْدَ لِمَنْ خَلَقَ لَہٗ۔
 ترجمہ:اے عائشہ! یہ کیا ہے ؟انھوںنےجواب دیاکہ میں اپنے کپڑے میں پیوند لگا رہی ہو ں۔آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ تونےبہت اچھا کیا،جب تک کپڑے میں پیوند لگانے کی گنجائش ہو اُس وقت تک اُسےنہ چھوڑو،کیوں کہ جس کا کپڑا پرانانہیں ہوتااُس کے پاس نیا کپڑانہیں آتا۔

سفر میں چھوٹا برتن ساتھ رکھنا
 ۳۰۔جعفر بن محمد کے جدکریم بیان کرتے ہیں :
خَرَجَ النَّبِیُّ لِلْبَرَازِ فَأخَذْتُ رَکْوَۃً فَخَرَجْتُ فِی أثَرِہٖ۔
ترجمہ:ایک بارنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استنجا کے لیے نکلے تو میں بھی آپ کے پیچھے ایک چھوٹا ڈول لے کرپہنچ گیا۔
تاکہ سفر میں بھی پاکی حاصل کرنے میں کوئی دقت نہ ہو اور استنجاوغیرہ کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ 

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0