Shab-e-Qadr: Surah Qadr Ki Roshni Mein

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-July-2015Ishtiyaq Alam Misbahi


شب قدر:سورۂ قدر کی روشنی میں

فرشتے اور حضرت جبرئیل اس رات میں اترتے ہیں اور صالحین بندوں کو بشارت دیتے ہیں

اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتاہے:
اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فیِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ(۱)وَماَاَدْرٰکَ ماَلَیْلَۃُ الْقَدْرِ(۲)لَیْلَۃُ الْقَدْرِ،خَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(۳)تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ(۴)سَلَامٌ ھِیَ حَتیّٰ مَطْلَعِ الْفَجْر(سورۂ قدر ۵)
ترجمہ:بے شک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں اتارا، تمھیں کیا معلوم کہ شب قدر کیاہے؟شب قدر ہزارمہینوں سے بہترہے ،اس رات میں فرشتے اورجبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے ،سلامتی ہے صبح ہونے تک۔
اس سورہ کے نزول کے تعلق سے دو اقوال ہیں:

۱۔ مکہ مکرمہ میں نازل ہوا۔
۲۔ مدینہ منورہ میں نازل ہوا۔

 سورہ ٔ قدرمیں جن امور کا ذکرکیاگیا ہے وہ یہ ہیں:

۱۔ قرآن مقدس کا نازل ہونا۔
۲۔شب قدرکا ہزارمہینوںسے بہترہونا۔
۳۔شب قدر میں فرشتے اور جبرئیل کااترنا۔
۴۔ صبح ہونے تک سلامتی کی دعا واستغفارکرنا۔

نزول قرآن 
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
حٰم(۱)وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ(۲)اِنَّااَنْزَلْنٰہُ فِی لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ (سورۂ دخان ۳)
ترجمہ:کتاب مبین کی قسم! بے شک ہم نے قرآن کریم کو برکت والی رات میں نازل کیا۔
اس میں’’ کتاب مبین ‘‘سے مراد قرآن مقدس ہے۔
تفسیر حسینی میں ہے:
 قرآن کریم کے نزول کی ابتدا شب قدر میں ہوئی،یا یہ کہ مکمل کلام الٰہی کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیاپر شب قدر میں ہوا،اوراسے بیت العزت میں رکھ دیاگیا اور پھر حضرت جبرئیل ضرورت کے مطابق ایک ایک آیت یا ایک ایک سورہ۲۳؍سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دنیا میں لاتے رہے۔ (تفسیر زیرآیت مذکور)

لیلۃالقدر
 ’’لیل‘‘کا معنی ہے رات اور’’قدر‘‘کا معنی ہے عزت و عظمت ا ورشرف وبزرگی، تو اَب ’’لیلۃ القدر‘‘کے معنی ہوئے عزت وعظمت اور شرف والی رات۔
 اس رات کی فضیلت کے لیے اتناہی کافی ہے کہ اس رات میں قرآن مقدس جیسی عظیم کتاب انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کی گئی، پھراس مبارک رات میں کثرت سے تجلیات الٰہی کا نزول اس کی عظمت وبزرگی اوربرتری میں اضافہ کرتا ہے۔
عارف باللہ شیخ صدرالدین روزبہان بقلی فرماتے ہیں:
تِلْکَ اللَّیْلَۃُ مِنْ کَشْفِ جَمَالِہٖ لِلْعَارِفِیْنَ،وَاَھْلِ شُھُودِہٖ مِنَ الْمُقَرِّبِیْنَ،قَدَّرَمَنَازِلَھُمْ فِی مَقَامِ الْمَعَارِفِ وَالْکَوَاشِفِ،وَقَدَّرَمَقَادِیْرَ الْغُیُوبِ،وَاَبْرَزَاَنْوَارَمَلَکُوْتِہٖ وَجَبَرُوتِہٖ لِاَھْلِ الْقُلُوبِ،لِذٰ لِکَ تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِی تِلْکَ اللَّیْلَۃِ،یُبَشِّرُوْنَھُمْ بِالْوِصَالِ، وَکَشْفِ الْجَمَالِ اَبَداً۔ (عرائس البیان فی حقائق القرآن،تفسیر زیرآیت مذکور)
ترجمہ:اس مبارک رات میں عارفین باللہ اور مقربین بارگاہِ الٰہی پر اللہ رب العزت کی خاص تجلی ہوتی ہے، کشف و معرفت کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ان کے منازل متعین فرماتا ہے،اوراُن پر بہت ساری پوشیدہ باتیں کھول دیتا ہے،نیزاہل دل پر اللہ تعالیٰ کی عظمت وقدرت کے انوار ظاہر ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ فرشتے اور حضرت جبرئیل اس رات میں اترتے ہیں اور ان صالح بندوں کو وصال اور ہمیشگی کے جمال کی بشارت دیتے ہیں۔
فرشتوں کا اترنا
امام فخرالدین رازی بیان فرماتے ہیں:
تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ
سے معلوم ہوا کہ حضرت جبرئیل کے ساتھ تمام فرشتے اللہ رب العزت سے اجازت طلب کرتے ہیں اور جب انھیں اجازت مل جاتی ہے تو قطاردرقطارصف باندھے ہوئے زمین پراترتے ہیں، فرشتوں کایہ عمل مومنین سے ان کی محبت کو ظاہرکرتاہے۔
فرشتوں کے اترنے کی حکمتیں تو بہت ہیں لیکن ان میں جو اہم معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے ،بقول امام رازی:
انسان کی عادت ہے کہ وہ علما اور صالحین کے سامنے زیادہ خشوع اورخضوع سے عمل کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس رات فرشتوںکو بھیجتا ہے کہ اے انسانو!
تم عبادت گزاروں کی مجلس میں زیادہ عبادت کرتے ہو،آؤ!اب فرشتوں کی مجلس میں خشوع وخضوع اورعاجزی وانکساری کے ساتھ عبادت کرو۔ ( تبیان القرآن،تفسیر زیرآیت مذکور)

 ہر امر کے لیے سلامتی
مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلَامٌ کی تفسیرکرتے ہوئے عارف باللہ شیخ صدرالدین روزبہان بقلی فرماتے ہیں:
لَمَّا بَشَّرَھُمْ بِاَعَالِی الدَّرَجَاتِ وَسِنِيٍ الْکَرَامَاتِ وَسَلاَمَتِھِمْ مِنْ جَمِیْعِ الْبَنِیَّاتِ،یُسَلِّمُ عَلَیْھِمْ وَ یُصَافِحُھُمْ، لِتَصِلَ بَرَکَاتُ بَعْضِھِمْ اِلٰی بَعْضٍ۔ (عرائس البیان فی حقائق القرآن،تفسیر زیرآیت مذکور)
یعنی چوں کہ مومنین کو بلند رتبے اور عظیم بزرگی اورتمام نقصان دہ چیزوں سے سلامتی کی بشارت دی جاتی ہے ، اس لیے فرشتے مومنین کوسلام کرتے ہیں اور اُن سے مصافحہ کرتے ہیں تاکہ اس رات کی برکتیں ایک دوسرے تک بخوبی پہنچ جائیں۔
امام فخرالدین رازی بیان فرماتے ہیں:
فرشتوں کا سلام کرنا،سلامتی کا ضامن ہے،چوں کہ سات فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام کو سلام کیا تھا تو اُن پر نمرودکی جلائی ہوئی آگ سلامتی کا باغ بن گئی تھی،تو اَب جب کہ شب قدر کے عابدین کو انگنت فرشتے آکر سلام کرتے ہیں،تویہ امید کیسے نہ کی جائے کہ جہنم کی آگ مومنین پر بھی سلامتی کا باغ بن جائے گی۔ (تبیان القرآن،تفسیر زیرآیت مذکور)
 مزید یہ کہ شب قدرسراپا سلامتی والی ہے ،اس موقع پر فرشتے رات بھراللہ کےبندوں پر سلام بھیجتے رہتے ہیں، مثلاً فرشتوں کی ایک فوج جاتی ہے تو دوسری آتی ہے، اِس طرح فرشتوں کے آنے جانے کاایک تانتا سابندھا رہتا ہے،اور یہ عمل فجرطلوع ہونے تک جاری وساری رہتاہے،اسی بات کو ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاہے:
 ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔
پھرایسابھی نہیں ہے کہ شب قدرکے ایک حصے میں فرشتےآتے ہیں اور چلے جانے کے بعد پھر دوبارہ نہیں آتے، بلکہ ان فرشتوں کا شب قدرکےہر حصے میںآناجانا لگارہتا ہے،اور صبح ہونےتک بندوں کے حق میں رحمت وسلامتی کی دعا ہوتی رہتی ہے۔
چنانچہ ہم تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ رمضان کے مہینے میں آنے والی شب قدر کی نہ صرف قدر کریں بلکہ اس کی تلاش بھی کریں اور اس میں ملنے والی رحمت وسلامتی سے بھرپور حصہ بھی حاصل کریں،تاکہ ہماری دنیا بھی بہتر ہو اور ہماری آخرت بھی سنورجائے۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0