Shahdat Hai Matloob-o-Maqsood-e-Momin

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Nov-2015Rifat Raza Noori


شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن

ہر سطح پر ہم سےحسینی کردار،اوریزید وقت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے، نیزقربانی پیش کرنےکا جذبہ مطلوب ہے

شہید کے مختلف معانی ہیں ۔شہید کی اصل’’ شہود ‘‘کو مانیں تو اس کا معنی ہے’’حاضر ہونا‘‘۔ارشاد باری ہے ۔
 اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ (بقرہ۱۳۳)
 ترجمہ:جب یعقوب کو موت آئی توکیا تم (بنی اسرائیل ) موجود تھے۔
شہیدکا ایک معنی ہے ’’کسی چیز کو پالینے والا‘‘قرآن پاک میں ہے:
فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهٗ(بقرہ۱۸۵)
 ترجمہ:تم میں سے جو رمضان کے مہینے کو پائے تو چاہیے کہ روزے رکھے۔ 
شَھِدَ یَشْھَدُ کا ایک تیسرا معنی علامہ راغب اصفہانی نے بیان فرمایاہے:
اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاہَدَۃِ إِمَّابِالْبَصَرِأَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ ۔
یعنی موجودگی مشاہدےکے ساتھ ہوتاہے،خواہ یہ مشاہدہ سر کی آنکھوں سے ہو خواہ دل کی آنکھوں سے۔ اس معنی کے اعتبار سے شہید کا معنی ہوا مشاہد ہ کرنے والا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :
 عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ(رحمٰن۲۲)
 اسی سے مشاہدحج بھی آیا ہے ،یعنی وہ مقامات متبرکہ جن کی زیارت کے لیے نیک لوگ اور فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
شَھِدَ یَشْھَدُکا ایک معنی ’’گواہی دینا‘‘ بھی ہے،اس معنی کے اعتبار سے شہید کا مطلب ہوا ’’گواہی دینے والا ‘‘۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
 وَ اَشْهِدُوْا اِذَا تَبَایَعْتُمْ(بقرہ۲۸۲)
 یعنی جب آپس میں خریدو فروخت کروتوکسی کو گواہ بنالو۔ ایک دو سری آیت کریمہ ہے :
قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللّٰه شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ(انعام۱۹)
 ترجمہ:اےمحبوب!آپ پوچھئے کہ سب سے بڑی شہادت کس کی ہے ،پھرآپ فرمادیجئے کہ اللہ ہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔
شَھِدَ یَشْھَدُکا ایک معنی معاونت اور مددگاری کابھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
وَادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (بقرہ۲۳)
 یعنی اپنے حمایتیوں اور مددگاروں کو بلاؤاگر تم سچے ہو ۔ مزید ارشادباری تعالیٰ ہے:
كَفٰى بِاللهِ شَهِيدًا(اسرا۹۶)
 یعنی اللہ مددگار ہونے کے لیے کافی ہے ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کے بقول ان آیتوں میں شَہِیْدٌ وَ شُھْدَاءُ کا معنی’’ معاون و مددگار‘‘ ہے۔
اوراصطلاح شرع میں شہید اُس پاکیزہ نفس کو کہتے ہیں جو جہاد میں لڑتے ہوئے اللہ کی راہ میں قتل کر دیا گیاہو،یعنی مقتول کو شہید کہتے ہیں۔(تعریفات للجرجانی)
 گویا واضح ہو گیا کہ شہید کے مختلف معانی ہیں اور ان تمام معانی کا اپنا مصداق ہے اور وہ پاکیزہ جان جو اللہ کی راہ میں قتل کردی جاتی ہے،اس میں یہ تمام معانی بطور خاص موجود ہوتےہیں ،اس اعتبارسے اگر امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا جائزہ لیں توایسا لگتا ہے کہ ہر معنی کی تکمیل آپ کی ذات میں ہورہی ہے ۔ بقول داعی اسلام:؎
ہونے کو تو شہید ہوئے ہیں بہت مگر
 تکمیل شہادت ہے شہادت حسین کی
 شہید کی اصل اگرشہود کو مانیں جس کا معنی حاضر ہونا ہے تواس کی اہمیت ہماری نگاہ میں اور بھی دو دوچار کی طرح اجاگرہو جاتی ہے ،کیوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی سب سے بڑی تمنا اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے اور اس ذات مقدس سے رضاوخوشنودی کے ساتھ ملاقات کی ہوتی ہے،اور یہ صرف جہاد میں جام شہادت نوش کرنے والے شہید کی ہی نہیں بلکہ ہر مومن کا مل کی آخری آرزو ہوتی ہے ۔
 اگرشہید کامعنی ہے’’ کسی چیز کوپا لینا‘‘تواس معنی کے اعتبار سے اللہ کی راہ میں دل و جان بچھانے اورہمہ وقت دین کی سر بلندی کے لیے کوششوں کا مطلب صرف یہ ہے کہ اللہ کا وصال مل جائے،محبوب سے ملاقات ہو جائے ۔ظاہر ہے کہ نہ اس سے بڑھ کر کوئی آرزو ہوسکتی ہے اور نہ اس سے بڑھ کر کوئی ملاقات ہو سکتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(عنکبوت۶۹)
 ترجمہ: جنھوں نے ہمارے راستے میں جہاد کیا ،کوشش کی ہم اُنھیں ضرور اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے اور بےشک اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے:؎
 میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں
رگ رگ میں دوڑی پھرتی ہے نشتر لیے ہوئے
 شہید کا وہ مطلب جو علامہ راغب اصفہانی نے فرمایا ہے اس کے اعتبار سے شہید، اللہ کے دین کی سر بلندی کے لیے اس لیے ہمہ تن مصروف رہتاہےکہ اسے اللہ کے ساتھ حضور ی حاصل ہوتی ہے،ایسی حضوری جس میں وہ جمال مطلق کا مشاہدہ کررہا ہوتاہے،ایسی شہادت جس میں خود وہ ذات روبروہو جس کی خوشی کے لیے سب کچھ قربان کیا جا رہا ہو، بھلا اس نعمت سے بھی بڑھ کر کوئی نعمت حاصل ہو سکتی ہے:؎
 ترا جمال ہے تیرا خیال ہے تو ہے
مجھے یہ فرصت کاوش کہاں کہ کیا ہوں میں
اس لیے کہ یہ ایسی لازوال لذت ہے جس کے متعلق حدیث پاک میں ہےکہ کل قیامت کے دن میں شہیدوں کو جنت کی ایسی عظیم نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عنایات بے پایاں دیکھ کر بار با رمرنے کی اور شہید ہونے کی تمنا کریں گے ۔
 اگرشہید کامعنی ہے’’گواہی دینے والا ‘‘تواس کے اعتبار سے شہیدنےجب اللہ کے موجودحقیقی ہونے کی گواہی دی اور یہی بات اس کے دل ودماغ میں راسخ ہوگئی اورپورے وجود پر چھا گئی تو یہی اپنی ذات کی نفی اورذات باری کے وجود کی شہادت کی لذت اسے حق تعالیٰ کی طرف اس طرح کھینچ لیتی ہےکہ تلواروں کے سائے تلے بھی وہ یہی شہادت دیتاہے، اوراسی شہادت پراس کی وفات ہو جاتی ہے۔
 شَھِدَ یَشْھَدُکا ایک معنی ’’معاونت و مددگار ی‘‘بھی بیان کیا گیا ہے۔آپ اگرغور کریں تو شہید دین کی نصرت و حمایت کے جذبے ہی سے سرشار ہو کر میدان جنگ تک پہنچتا ہے ،اوراسلام و ایمان کی سر بلندی کے لیے، کلمۂ حق کو غالب کر نے کے لیے، برائیوں کومٹانے کے لیے ،فسق وفجور کا خاتمہ کرنے کے لیے، فاسقوں اور کافروں سے لڑنے مرنے تک کے لیے تیار ہو جاتاہے۔
اس معنی کے اعتبار سے یہ تمناتو ہر مومن کی ہونی چاہیے اور ہوتی بھی ہے، کیوں کہ دین کی نصرت و حمایت تنہا کسی مومن کا فریضہ نہیں ہے،بلکہ یہ انفرادی اور اجتماعی دونوں ذمہ داریوں کا نام ہے،اس معنی کے اعتبار سے اگر مومن نے دین کی نصرت و حمایت میں اپنی جان بھی اللہ کے حوالے کر دی اور اپنی گردن بھی کٹادی تو وہ مقتول شہید ہے ،اوراگر اس نے دوسروں تک دین پہنچایا اور اسی پر لوگوں کو قائم و دائم کر دیا تو وہ صدیق ہے ۔
شہادت کے اس معنی کے اعتبارسے اگررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دیکھیں تو ہماری ناقص فہم کے مطابق حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نمونہ اُمت کے لیے چھوڑاہےاس کا ایک ایک پہلو انتہائی روشن ہے۔ظاہر ہے کہ انفرادی ،اجتماعی اور عالمی زندگی گذارنے کے لیے تفصیلی اصول و قوانین کوبنانے اور عملی طور پر کرکے دکھانے کا جو منصب ہے وہ منصب رسالت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی متلو (قرآن) اور وحی غیر متلو( حدیث) کے ذریعے شریعت اور دین کوجہاں ایک طرف تفصیلی طور پر متعارف کرایا وہیں ا پنے عمل کے ذریعے اس کو نافذ کرنے اور لوگوں کے دلوں میں اتارنے کی انتھک کوشش کی اور اتاربھی دیا، جس کے ثمرات و نتائج عالم پر ثبت ہوگئے ۔اس معنی کے اعتبارسے کائنات میں منصب رسالت سے بڑھ کر کوئی منصب نہیں جو دین کی معاونت اور نصرت و حمایت میں ہمہ تن اور ہمہ وقت مصروف ہے، اس لیے آپ کو جو مرتبۂ شہادت حاصل ہے وہ مقتول شہید اور صدیق کو بھی حاصل نہیں،کیوںکہ آپ میں صفت صداقت وشہادت کا کمال موجو دہے۔
اسی اُ سوۂ رسالت کی تعمیل میں شبیہ رسول جگر گوشۂ بتول کی پوری زندگی گزری اور جب جان واقارب کی قربانی کے ذریعے دین کی نصرت وحمایت کی بات آئی توکربلاتک پہنچے اور اپنے تمام جاں نثاروں کے ساتھ خود کو بھی اللہ کی راہ میں قربان کردیا۔ اگر ہم اس معنی کے اعتبارسے اللہ کے رسول کی شہادت کی تعریف کریں تو اس میں کسی قدر تاویل اور شبہے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ آپ کےظاہری مرتبۂ شہادت کی تکمیل حسنین کریمین کی شہادت کے ذریعےہوئی، بلکہ مشابہ ہونے کی وجہ سے خود حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی شہادت کوجو کمال حاصل ہے وہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہی حاصل ہے۔
مذکورہ معانی کےاعتبارسے سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا مطالعہ کریں تو ہمارے سامنے یہ بات روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ تمام معانی کے بیک وقت جامع تھے۔جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں یااللہ! تو بھی ان سے محبت فرما۔جواُن سے بغض رکھے توبھی اُن سے بغض رکھ،بھلا اس ذات اقدس کی شہادت ،اللہ کی ذات و صفات کی گواہی کا کیا عالم ہوگا؟ ہماشما اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے ۔ اللہ کے ساتھ اُن کے حضور ی کی کیفیت کا اندازہ کون لگا سکتاہے جن کی عبادت کی کیفیت اور شوق بندگی کا حال یہ تھا کہ کربلا کے میدان میں آخری لمحے میں بھی آپ نے شوق عبادت اور مشاہدۂ حق میں شہادت کا جام نوش فرمایا۔ان کی ذات سے نہ صرف شہادت کےمعانی کوحسن و جمال کا لباس مل گیا ہے بلکہ ان کی ہر ادا عاشقوں کےلیے نمونہ بن گئی۔
شہید کا معنی اما م وپیشوابھی ہے، اس میں امامت اور پیشوائی آپ کو حاصل ہے ،آپ مومنین کے دلوں کی دھڑکن اور کاملوں کے رہنمااور جمال الٰہی کا عکس جمیل ہیں۔
 آئینۂ جمال الٰہی ست و صورتش
 زاں او شد ست قبلۂ ایمان اولیا
ترجمہ:چوںکہ آپ اورآپ کی صورت جمال الٰہی کا آئینہ ہے،اس لیے آپ کی ذات بابرکت ایمانِ اولیاکا قبلہ بنی ہوئی ہے۔
شہادت کے ان تمام معانی سے جو نتیجہ نکلتاہے وہ یہ ہے کہ قیامت تک ایک طرف حسینی فکر و مزاج اور حسینی نصب العین رکھنے والے ہوں گے ،تودوسری طرف باطل کی جو بھی طاقت ہوگی وہ یزید یت کی مثال ہوگی ۔یزیدیت کو شکست ہوگی اورحسینیت کو زندگی ملے گی۔دین کی نصرت وحمایت کے معاملے میںاللہ تعالیٰ کو ہر سطح پر اور ہر مرحلے میں حسینی کردار مطلوب ہے،یزید وقت کے جبروظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اورقربانی پیش کرنےکا جذبہ ہم سے مطلوب ہے۔اس کردارکا نتیجہ دنیا میں سر خروئی اور آخرت میں سرفرازی ہےاور ایک مومن کو اس کے علاوہ اور کیا چاہیے۔
شہادت ہے مطلو ب و مقصود مومن 
 نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0