Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-Sep-2015➤
Imamuddin Saeedi Download_Pdf
سلطان العارفین مخدوم شاہ عارف صفی محمدی کی تعلیمات
ولادت باسعادت
سید سراواں ضلع الہ آباد کا ایک مشہور اور قدیم قصبہ ہے جہاں سلطان العارفین حضرت مخدوم شاہ عارف صفی محمدی قدس اللہ سرہٗ کی ولادت باسعادت تقریباً ۱۲۷۸ہجری مطابق ۱۸۶۱ عیسوی میں ہوئی۔
خاندان و نسب
آپ نسباً شیخ عثمانی ہیں۔ آپ کے آباو اجداد میں شیخ بہاء الدین عثمانی غزنوی قدس اللہ سرہٗ ’’غزنی‘‘کے رہنے والے واردِ ہندوستان ہوئےتھے۔آپ کی والدہ سادات بخاری سے تھیں۔
تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی اورسولہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تمام علوم ظاہری سے فراغت حاصل کرلی۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پرشفقت آپ کا خاص جوہر تھا۔
بیعت وخلافت
جب بیس سال کے ہوئے تو بیعت کی غرض سے صاحبِ سر قل ھواللہ شاہ قاضی محمد عبدالغفورمحمدی بارہ بنکوی قدس سرہٗ (ف:۱۳۲۴ھ) کی بارگاہ میں حاضری دی۔بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے اور دین کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہوگئے۔پھر جب تک زندہ رہے انسان دوستی، ہمدردی اور خلوص وللہیت اورخدمت خلق کی شمع روشن کیے رہے۔
انتقال پُرملال
بالآخر ۱۸؍ذی قعدہ۱۳۲۰ہجری مطابق۱۶؍فروری ۱۹۰۳ ء میں بروز منگل بیالیس سال کی عمر پاکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اِنَّالِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
سلطان العارفین حضرت مخدوم شاہ عارف صفی محمدی قدس سرہٗ نےچند تصانیف بھی یادگار چھوڑی ہیں،مثلاً:
۱۔مثنوی معرفت(فارسی)
۲۔دیوان عارف(فارسی،اردو،ہندی)
۳۔مرآۃ الاسرار(اردو)
۴۔گنجینۂ اسرار(فارسی)
تعلیمات وارشادات
سلطان العارفین قدس سرہٗ ہمیشہ عوام و خواص کی ہدایت ورہنمائی کرتے رہے اورجب جیسی ضرورت پڑی اپنی تعلیمات سے اُن کے تاریک دلوں کو منور ومجلیٰ فرماتے رہے۔اُن میں سے کچھ منتخب تعلیمات پیش ہیں:
جہنمی کی پہچان:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اصحاب کے اوصاف قرآن کریم میں موجود ہیں۔نبی دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں دوست رکھنے والے کو اپنا دوست اور اُنھیں دشمن رکھنے والے کو اپنا دشمن بتایاہے۔جس کے دل میں اُن کی محبت نہیں وہ بدنصیب،ظالم اور جہنمی ہے۔
والد ین کی محبت:
والدین کی خدمت کو ترک کرنا اللہ رب العزت کے قہر کاسبب ہوتا ہے۔تمامی اللہ والوںنے ماؤں کی محبت ہی سے بلندمقامات حاصل کیے ہیں۔ جو شخص اللہ کی رضامندی چاہتا ہے اُسے سب سے پہلے اپنی ماں کی خدمت کرنی چاہیے۔
کل جنتیں ماں کے قدم کے نیچے ہیںاوردین وایمان کا دارومدار ماں کی رضا و خوشنودی پر ہے۔
خود پسندی
خود پسندی اور خود نمائی اہل دین کا طریقہ نہیں ہے،بلکہ یہ ملعون نفس کا شیوہ ہوتا ہے۔راہِ مولیٰ میں یہ سخت مذموم ہے۔ غرور کرنا شیطانی کام ہے۔ انسان کا کام عاجزی اور انکساری کرناہے ۔
بے عمل علماکی صحبت:
علمائے با عمل اور مشائخ کی وجہ سے دین میں خلل واقع نہیں ہوتا،وہ اول احکام شریعت پر عمل کرتے ہیں اور پھر طریقت پر قائم رہتے ہیں، اگر دونوں میں سے ایک پر عمل نہ ہو تو فتنے پیدا ہو کر ایمان میں خلل پڑتا ہے۔ جو علمایا فقرا بےعمل ہوں اُن کی صحبت سے دور رہنا چاہیے ۔
آخرت کی لذت:
طالب آخرت دنیاوی لذات کے پیچھے نہیں پڑتے، آخرت کے مزے اور لذتیں دنیاوی لذتوں سے بہت اعلیٰ و افضل ہیں ۔
ہوش وحواس کی نگرانی:
اگر کسی مجلس یا محفل میں جانا ہو تو خود کو ناچیز سمجھے اور خاموش رہے۔ اپنے ہوش و حواس پر نگراں رہے تاکہ لوگ غیبت نہ کریںاور جب تک بیٹھا رہے کسی پر بوجھ نہ بنے ۔
حاجت روائی:
دوسروں کی حاجت پوری کرے مگر اپنی حاجت دوسروں کے سامنے پیش نہ کرے ۔
ریاکاری:
ریاکاروں سے دور رہنا چاہیے جو انانیت کا دم تو بھرتے ہیں اور دنیا کی حرص ولالچ کے لیے در بدر مارے مارے پھرتے ہیںاور احکام شرعیہ سے رو گرداں رہتے ہیں ۔
مرشدکی خدمت:
جو شخص کسی پیرکے ہاتھ پر بیعت کرے تواس کو چاہیے کہ پیر کی خدمت کے لیے ہر طرح مستعدرہے، مگریہ دنیوی رسم کے طورپر نہ ہو،بلکہ دل وجان سے ہونی چاہیے۔
چاراہم چیزیں:
دنیاوالوں کے لیے چارچیزیں ضروری ہیں۔ پہلی چیز صدق نیت ہے۔دوسری آخرت کی فکر ہے ۔ تیسری یادالٰہی اورچوتھی اگربال بچے والاہے تو اُن کی کفالت۔اُن کے لیے روزی کی تلاش کرنی چاہیے لیکن اعتمادِ کلّی اللہ بزرگ و برترپر رکھنا چاہیے۔
طالب مولیٰ کے اوصاف:
۱۔ طالب مولیٰ کوچاہیے کہ وہ نہایت بلند حوصلہ اور بڑی ہمت والا ہو، تا کہ اس راہ میں سر بلند ہو۔ ایسی ہمت اور حوصلہ والا ہو کہ وہ دنیوی لذات ومراتب تو درکنا ر، مراتب اخروی پر بھی نظر نہ ڈالے اور صرف ذات واحد(اللہ) ہی اس کا مقصود مطلوب اور محبوب ہو ،اُسے فضائل ومراتب کی تمنا تک نہ ہو ۔
۲۔ نماز میں نہایت خشوع و خضوع اور عجز ونیاز کے ساتھ مولیٰ کی بارگاہ میں سر بہ سجود ہو ،یعنی حدیث احسان کے مطابق یہ سمجھوکہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو یا کم ازکم اتناہوکہ اللہ تم کو دیکھ رہا ہے اِس تصور کے ساتھ نماز ادا کی جائے ۔
۳۔ اپنے نفس کو اللہ کی راہ میں ہلاک کرے اور اپنے دل کو تعلقات ما سوا سے پاک رکھے۔ (پہلی بات سے مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا۔مرجائو قبل اس کے کہ موت آئے، کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے حصے سے وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا۔ کی طرف )
۴۔ دوسروں کی غیبت ہر گزنہ کرے بلکہ اپنی ہی غیبت خود پر کرے ۔
۵۔ غفلت اور جہالت کی بلائو ں سے دور رہے ۔
۶۔ دین نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت قدم رہے۔
۷۔ ہر شخص کو اپنے سے افضل جانے۔ اپنے عیبوں کو دیکھے، دوسروں کے عیوب پر نگاہ نہ رکھے ۔
۸۔ کسی سے اپنی عزت کی خواہش نہ رکھے تاکہ دل پر نورالٰہی وارد ہو ۔
۹۔ حرص وہوس کے پھندے سے آزاد رہے اور مالک کی رضا پر قائم رہے ۔
۱۰۔ کوئی لمحہ اللہ کی یاد سے خالی نہ رکھے اورغلط خیالوں سے دل کو پاک رکھے۔
۱۱۔ دھن اور دولت کی طرف متوجہ نہ ہو ،رزّاق دوعالم (اللہ) پر نگاہ رکھے۔
۱۲۔ بلاؤںپرصابررہے اورہمیشہ اللہ کی رضا پر شکر گزار رہے ۔
۱۳۔ اگر کوئی روپیہ پیسہ دے تو اُس کو خرچ کرکے اپنے سے دور کردے ۔(جمع نہ رکھے)
اللہ ہم سب کو اِن تعلیمات پردل وجان سے عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین)
سلطان العارفین مخدوم شاہ عارف صفی محمدی کی تعلیمات
ہر شخص کو اپنے سے افضل جانےاور اپنے عیبوں کو دیکھے، دوسروں کے عیوب پر نگاہ نہ رکھے
ولادت باسعادت
سید سراواں ضلع الہ آباد کا ایک مشہور اور قدیم قصبہ ہے جہاں سلطان العارفین حضرت مخدوم شاہ عارف صفی محمدی قدس اللہ سرہٗ کی ولادت باسعادت تقریباً ۱۲۷۸ہجری مطابق ۱۸۶۱ عیسوی میں ہوئی۔
خاندان و نسب
آپ نسباً شیخ عثمانی ہیں۔ آپ کے آباو اجداد میں شیخ بہاء الدین عثمانی غزنوی قدس اللہ سرہٗ ’’غزنی‘‘کے رہنے والے واردِ ہندوستان ہوئےتھے۔آپ کی والدہ سادات بخاری سے تھیں۔
تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی اورسولہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تمام علوم ظاہری سے فراغت حاصل کرلی۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پرشفقت آپ کا خاص جوہر تھا۔
بیعت وخلافت
جب بیس سال کے ہوئے تو بیعت کی غرض سے صاحبِ سر قل ھواللہ شاہ قاضی محمد عبدالغفورمحمدی بارہ بنکوی قدس سرہٗ (ف:۱۳۲۴ھ) کی بارگاہ میں حاضری دی۔بیعت و خلافت سے سرفراز ہوئے اور دین کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہوگئے۔پھر جب تک زندہ رہے انسان دوستی، ہمدردی اور خلوص وللہیت اورخدمت خلق کی شمع روشن کیے رہے۔
انتقال پُرملال
بالآخر ۱۸؍ذی قعدہ۱۳۲۰ہجری مطابق۱۶؍فروری ۱۹۰۳ ء میں بروز منگل بیالیس سال کی عمر پاکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اِنَّالِلہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
سلطان العارفین حضرت مخدوم شاہ عارف صفی محمدی قدس سرہٗ نےچند تصانیف بھی یادگار چھوڑی ہیں،مثلاً:
۱۔مثنوی معرفت(فارسی)
۲۔دیوان عارف(فارسی،اردو،ہندی)
۳۔مرآۃ الاسرار(اردو)
۴۔گنجینۂ اسرار(فارسی)
تعلیمات وارشادات
سلطان العارفین قدس سرہٗ ہمیشہ عوام و خواص کی ہدایت ورہنمائی کرتے رہے اورجب جیسی ضرورت پڑی اپنی تعلیمات سے اُن کے تاریک دلوں کو منور ومجلیٰ فرماتے رہے۔اُن میں سے کچھ منتخب تعلیمات پیش ہیں:
جہنمی کی پہچان:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اصحاب کے اوصاف قرآن کریم میں موجود ہیں۔نبی دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں دوست رکھنے والے کو اپنا دوست اور اُنھیں دشمن رکھنے والے کو اپنا دشمن بتایاہے۔جس کے دل میں اُن کی محبت نہیں وہ بدنصیب،ظالم اور جہنمی ہے۔
والد ین کی محبت:
والدین کی خدمت کو ترک کرنا اللہ رب العزت کے قہر کاسبب ہوتا ہے۔تمامی اللہ والوںنے ماؤں کی محبت ہی سے بلندمقامات حاصل کیے ہیں۔ جو شخص اللہ کی رضامندی چاہتا ہے اُسے سب سے پہلے اپنی ماں کی خدمت کرنی چاہیے۔
کل جنتیں ماں کے قدم کے نیچے ہیںاوردین وایمان کا دارومدار ماں کی رضا و خوشنودی پر ہے۔
خود پسندی
خود پسندی اور خود نمائی اہل دین کا طریقہ نہیں ہے،بلکہ یہ ملعون نفس کا شیوہ ہوتا ہے۔راہِ مولیٰ میں یہ سخت مذموم ہے۔ غرور کرنا شیطانی کام ہے۔ انسان کا کام عاجزی اور انکساری کرناہے ۔
بے عمل علماکی صحبت:
علمائے با عمل اور مشائخ کی وجہ سے دین میں خلل واقع نہیں ہوتا،وہ اول احکام شریعت پر عمل کرتے ہیں اور پھر طریقت پر قائم رہتے ہیں، اگر دونوں میں سے ایک پر عمل نہ ہو تو فتنے پیدا ہو کر ایمان میں خلل پڑتا ہے۔ جو علمایا فقرا بےعمل ہوں اُن کی صحبت سے دور رہنا چاہیے ۔
آخرت کی لذت:
طالب آخرت دنیاوی لذات کے پیچھے نہیں پڑتے، آخرت کے مزے اور لذتیں دنیاوی لذتوں سے بہت اعلیٰ و افضل ہیں ۔
ہوش وحواس کی نگرانی:
اگر کسی مجلس یا محفل میں جانا ہو تو خود کو ناچیز سمجھے اور خاموش رہے۔ اپنے ہوش و حواس پر نگراں رہے تاکہ لوگ غیبت نہ کریںاور جب تک بیٹھا رہے کسی پر بوجھ نہ بنے ۔
حاجت روائی:
دوسروں کی حاجت پوری کرے مگر اپنی حاجت دوسروں کے سامنے پیش نہ کرے ۔
ریاکاری:
ریاکاروں سے دور رہنا چاہیے جو انانیت کا دم تو بھرتے ہیں اور دنیا کی حرص ولالچ کے لیے در بدر مارے مارے پھرتے ہیںاور احکام شرعیہ سے رو گرداں رہتے ہیں ۔
مرشدکی خدمت:
جو شخص کسی پیرکے ہاتھ پر بیعت کرے تواس کو چاہیے کہ پیر کی خدمت کے لیے ہر طرح مستعدرہے، مگریہ دنیوی رسم کے طورپر نہ ہو،بلکہ دل وجان سے ہونی چاہیے۔
چاراہم چیزیں:
دنیاوالوں کے لیے چارچیزیں ضروری ہیں۔ پہلی چیز صدق نیت ہے۔دوسری آخرت کی فکر ہے ۔ تیسری یادالٰہی اورچوتھی اگربال بچے والاہے تو اُن کی کفالت۔اُن کے لیے روزی کی تلاش کرنی چاہیے لیکن اعتمادِ کلّی اللہ بزرگ و برترپر رکھنا چاہیے۔
طالب مولیٰ کے اوصاف:
۱۔ طالب مولیٰ کوچاہیے کہ وہ نہایت بلند حوصلہ اور بڑی ہمت والا ہو، تا کہ اس راہ میں سر بلند ہو۔ ایسی ہمت اور حوصلہ والا ہو کہ وہ دنیوی لذات ومراتب تو درکنا ر، مراتب اخروی پر بھی نظر نہ ڈالے اور صرف ذات واحد(اللہ) ہی اس کا مقصود مطلوب اور محبوب ہو ،اُسے فضائل ومراتب کی تمنا تک نہ ہو ۔
۲۔ نماز میں نہایت خشوع و خضوع اور عجز ونیاز کے ساتھ مولیٰ کی بارگاہ میں سر بہ سجود ہو ،یعنی حدیث احسان کے مطابق یہ سمجھوکہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو یا کم ازکم اتناہوکہ اللہ تم کو دیکھ رہا ہے اِس تصور کے ساتھ نماز ادا کی جائے ۔
۳۔ اپنے نفس کو اللہ کی راہ میں ہلاک کرے اور اپنے دل کو تعلقات ما سوا سے پاک رکھے۔ (پہلی بات سے مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا۔مرجائو قبل اس کے کہ موت آئے، کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے حصے سے وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا۔ کی طرف )
۴۔ دوسروں کی غیبت ہر گزنہ کرے بلکہ اپنی ہی غیبت خود پر کرے ۔
۵۔ غفلت اور جہالت کی بلائو ں سے دور رہے ۔
۶۔ دین نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت قدم رہے۔
۷۔ ہر شخص کو اپنے سے افضل جانے۔ اپنے عیبوں کو دیکھے، دوسروں کے عیوب پر نگاہ نہ رکھے ۔
۸۔ کسی سے اپنی عزت کی خواہش نہ رکھے تاکہ دل پر نورالٰہی وارد ہو ۔
۹۔ حرص وہوس کے پھندے سے آزاد رہے اور مالک کی رضا پر قائم رہے ۔
۱۰۔ کوئی لمحہ اللہ کی یاد سے خالی نہ رکھے اورغلط خیالوں سے دل کو پاک رکھے۔
۱۱۔ دھن اور دولت کی طرف متوجہ نہ ہو ،رزّاق دوعالم (اللہ) پر نگاہ رکھے۔
۱۲۔ بلاؤںپرصابررہے اورہمیشہ اللہ کی رضا پر شکر گزار رہے ۔
۱۳۔ اگر کوئی روپیہ پیسہ دے تو اُس کو خرچ کرکے اپنے سے دور کردے ۔(جمع نہ رکھے)
اللہ ہم سب کو اِن تعلیمات پردل وجان سے عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ (آمین بجاہ سیدالمرسلین)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں