Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-Nov-2015➤
Makhdoom Sheikh Saad Khairabadi Download_Pdf
جامع شریعت وطریقت حضرت مخدوم شیخ سعدخیرآبادی(۹۲۲ھ)مریدوخلیفہ حضرت مخدوم شاہ مینالکھنوی (۸۸۴ھ) دسویں صدی ہجری کے عظیم فقیہ اور اعلیٰ صفت درویش گزرے ہیں۔اُنھوں نےآٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف متن تصوف ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ ازعلامہ قطب الدین دمشقی (۷۸۰ھ)کی عالمانہ وعارفانہ شرح لکھی اور اُس کا نام ’’مجمع السلوک‘‘ رکھا جو شریعت و طریقت کا عطرمجموعہ اور سالکین و طالبین کے لیے دستورالعمل ہے ۔
مولانا ضیاء الرحمن علیمی استاذجامعہ عارفیہ نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے،ان شاء اللہ بہت جلد شاہ صفی اکیڈمی سے شائع ہوگا۔اس کتاب سےاصول تصوف پرمشتمل چندایمان افروزاقتباسات پیش ہیں ۔ ( ادارہ)
پہلااصول:اتباع قرآن
امرے است حکم شرع تو،ذوبال بے خلاف
تمہاری بارگاہِ لطف کامقبول ہادی ومقتداہے، اور تمہارے آستانۂ مقبول کا مردود،گمراہ اورگمراہ گرہوگا۔
خواجہ ابوسعید ابوالخیر کااتباع:
خواجہ ابوسعید ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوبھی افعال و احکام پڑھے ہیں اُن سب پرعمل کیاہے،اورمیں نےجوبھی فرشتے کے افعال سنے ہیں اُن سب کومیں نے انجام دیا ہے، کیوںکہ تمام مشائخ کی سیرت یہی رہی ہے کہ وہ حتی الوسع واجب ،سنت اورنوافل کواپنے لیے لازم شمار کرتے ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ اس جماعت کے لوگوں کاکوئی عمل کتاب وسنت کے خلاف نہیں ہوناچاہیے تاکہ دین کی راہ معلوم ہوجائے اورمقصودیقین حاصل ہوجائے۔
خواجہ سنائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کیوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک اورقلب اطہرسے ہٹ کرکہیں اوراسرارکے خزانوں کی گِرہیں کھلنے والی نہیں ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تیسرااصول:حلال رزق
اس کامطلب یہ ہے کہ جوبھی چیزکھائی جائےوہ حلال ہو،حرام اورمشکوک چیزوں سے دورہو۔
حلال رزق کی تعریف وفضیلت
شریعت میں حلال اس چیزکوکہتے ہیں جسے کتاب و سنت نے جائزومباح اسباب کے تحت مباح کیاہو اور طریقت میں حلال ہونے کے لیے یقین کاپایاجانااورشبہات سے پاک ہونا ضروری ہے۔
بادشاہ وسلاطین کے ہدیے اورتحائف جب تک کہ ان کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو،بعض علمائے شریعت کے نزدیک جائزاورحلال ہیں،لیکن علمائے طریقت اسے ممنوع قرار دیتے ہیں جب تک کہ حلال ہونے کایقین نہ ہوجائے۔ اسی وجہ سے بعض اسلاف کرام نے فرمایاہے:
مجھے اللہ رب العزت سے شرم آتی ہے کہ میں دوصدی گزرنے کے بعد حلال روزی کاسوال کروں،لیکن میں اس سے یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھے ایسی روزی عطافرمائےجس پر مجھے عذاب نہ دے ۔
اے عزیز!جہاں تک ہوسکے حلال کھانے کی کوشش کرو،حرام اورمشکوک کھانے سے بچو،کیوںکہ جب تک حلال کھانااورصدق مقال نہ ہو، نماز اور روزے سے کچھ حاصل ہونے والانہیں ۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
فوائدالفواد میں لکھاہے کہ ایک جوان خواجہ ابراہیم بن ادہم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مرید ہوگیا۔ وہ جوان بڑاطاعت گزارتھا۔ خواجہ ابراہیم بن ادہم کواُس کی کثرت طاعت و عبادت پرتعجب ہوا۔آپ نے اپنے نفس کوملامت کیاکہ یہ نوجوان جوتمہارے دروازے پرآیاہے،اتنی عبادت کرتا ہے جتنی تمہاری عبادت وطاعت نہیں ہے،پھر آپ کے اوپر نورِباطن سے یہ واضح ہواکہ یہ حرام لقمہ کھاتاہے،اس لیے شیطان نے اس کواطاعت میں لگا رکھاہے۔
خواجہ ابراہیم بن ادہم نے اس نوجوان سے کہاکہ جو کھانا میں کھاتاہوں وہی کھاناتم بھی کھائو،اس نوجوان نے ویسا ہی کیا۔وہ درویشانہ کھاناجوابراہیم ادہم کھاتے تھے وہ لکڑی بیچ کر حاصل کرتے تھے،وہ جوان بھی اسی میں سے کھانے لگا۔ بےبنیاد اطاعت کی کثرت جاتی رہی اورتھوڑی عبادت پر واپس آگیا،یہاںتک کہ اس نے بہانے سے فرض نماز بھی چھوڑناشروع کردیااورنوبت یہ آگئی کہ اس نوجوان کاسارا کام ختم ہوگیا،اس کے بعد وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آیا۔
مستجاب الدعوات بننے کا نسخہ:
منقول ہے کہ حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خواہش کااظہار فرمایاکہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں کہ میں جودعاکروں وہ قبول ہوجائے۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بیت المقدس پررب تعالیٰ کاایک فرشتہ ہے جونداکرتا ہے اورہررات آواز لگاتارہتاہے کہ جوشخص حرام کھاتاہے نہ اس کاکوئی فرض قبول ہوگااورنہ نفل۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کی کمائی کادو دھ پی لیا،پھرآپ نے غلام سے پوچھا کہ اسے کہاں سے حاصل کیاتھا؟اس نے جواب دیا کہ ایک جماعت کے لیے کہانت کی خدمت انجام دی تواُنھوں نے مجھ کو بدلے میں یہ دودھ دیاتھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی انگلی حلق میں ڈال کر زبردستی قے کردیا،یہاں تک کہ لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا کہ کہیں ان کی جان نہ نکل جائے،اس کے بعد حضرت صدیق نے یہ دعاکی:
یااللہ!مجھے دودھ کے اس حصے کے بدلے معذور رکھنا جو میری رگوں میں پہنچ گیااور جسے باہر نہیں نکالا جاسکتا۔
بعض روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر کے اس عمل کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی نے دی،اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اصحاب ورع کا مقام:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا:
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃاللہ علیہ نے فرمایاکہ جوشخص اس بات پردھیان دیتاہے کہ وہ اپنے پیٹ میں کیا ڈال رہاہے،حق تعالیٰ اس کو صدیقین میں سے لکھ لیتاہے، اوراُسےاُنھیں میں سے بنادیتاہے۔
حضرت یحی معاذنے فرمایاکہ اطاعت الٰہی خزانۂ ربانی میںسے ایک خزانہ ہے، جس کی کلید دعاہے اورحلال لقمہ اس کا دندانہ ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
۱۔فرض وسنت
۲۔زہد اورورع کے ساتھ حلال کھانا
۳۔ظاہروباطن میں ممنوع چیزوںسےپرہیز
۴۔زندگی بھر اسی پرقائم رہنا۔
امام سہل بن عبداللہ تستری نے یہ بھی فرمایاہےکہ جوشخص اس بات کوپسند کرتا ہے کہ صدیقین کی نشانیاں اس پر کھل جائیں تواُسے چاہیے کہ حلال کے سوا کچھ بھی نہ کھائے، اور ضرورت کے سواکچھ کام نہ کرے۔
بزرگوں نے فرمایاہے: جوشخص چالیس دنوں تک شکوک وشبہات والا کھانا کھاتا ہے اس کا دل تاریک ہوجاتاہے۔(جاری)
پہلااصول:اتباع قرآن
وَقَالَ السَّہْلُ التُّسْتَرِیُّ رَحِمَہُ اللہِ تَعَالٰی:أُصُوْلُنَا سَبْعَۃُأَشْیَاءَ:اَلتَّمَسُّکُ بِکِتَابِ اللہِ تَعَالٰی۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے :
ترجمہ:امام سہل تستری رحمۃاللہ علیہ نے فرمایاکہ ہمارے اصول سات ہیں،اُن میں سےایک یہ ہے کہ قرآن کریم کومضبوطی سے پکڑکررکھاجائے اورکتاب الٰہی کے خلاف کوئی کام نہ کیا جائے۔
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا (آل عمران۱۰۳)حدیث پاک میں ہے :
ترجمہ: اللہ کی رسی کوتم مضبوطی سے پکڑلو۔
إِنَّ هٰذَا الْقُرْآنَ ھُوَحَبْلُ اللهِ الْمَتِیْنُ، وَالنُّورُ الْمُبِيْنُ، وَالشِّفَاءُ النَّافِعُ، عِصْمَةٌ لِّمَنْ تَمَسَّكَ بِهٖ، وَنَجَاةٌ لِمَنْ تَبِعَهٗ۔(مستدرک،اخبارفی فضائل القرآن جملۃ،حدیث:۲۰۴۰ )دوسرااصول:اتباع سنت
ترجمہ: یہ قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے،یہ کھلانور،نفع بخش شفاہے،جواِس کو پکڑے رہتاہے وہ غلطیوںسے محفوظ رہتا ہے اورجو اِس کی پیروی کرتاہے وہ نجات پاجاتاہے۔
وَالْاِقْتِدَاءُ بِرَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔اس کا مطلب ہے کہ کوئی کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل کے خلاف نہ کیاجائے،اورایسا اس لیے ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ،محبت الٰہی کے لیے شرط ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
ترجمہ:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (سورۂ آل عمران۳۱)چنانچہ جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واقتدا کیے بغیر محبت الٰہی کادعوی کرے گا وہ جھوٹا ہوگا اوروہ راہِ راست سے دور ہوگا۔
ترجمہ:اے رسول!آپ کہہ دیجئےکہ اگرتم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے کادعوی کرتےہوتو میری پیروی کرو،اللہ تعالیٰ تم کو محبوب بنالےگا۔
امرے است حکم شرع تو،ذوبال بے خلاف
ذوبال را خلاف ریاضت بودوبال
مقبول باب لطف تو ہادی ومقتدا
مردود آستان قبولت مضل وضال
ترجمہ:ہرعقل والے کے لیےتمہاری شریعت کی پیروی کا حکم ہے۔جو شخص بھی تمہارے راستے سے ہٹ کرریاضت کرے گااُس کے لیے وبال ومصیبت ہوگا۔
تمہاری بارگاہِ لطف کامقبول ہادی ومقتداہے، اور تمہارے آستانۂ مقبول کا مردود،گمراہ اورگمراہ گرہوگا۔
خواجہ ابوسعید ابوالخیر کااتباع:
خواجہ ابوسعید ابوالخیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوبھی افعال و احکام پڑھے ہیں اُن سب پرعمل کیاہے،اورمیں نےجوبھی فرشتے کے افعال سنے ہیں اُن سب کومیں نے انجام دیا ہے، کیوںکہ تمام مشائخ کی سیرت یہی رہی ہے کہ وہ حتی الوسع واجب ،سنت اورنوافل کواپنے لیے لازم شمار کرتے ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ اس جماعت کے لوگوں کاکوئی عمل کتاب وسنت کے خلاف نہیں ہوناچاہیے تاکہ دین کی راہ معلوم ہوجائے اورمقصودیقین حاصل ہوجائے۔
خواجہ سنائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قائد و سابق صراط اللہ
بہ ز قرآن بدان و از اخبار
جز بدست و دل محمد نیست
حل عقد خزانۂ اسرار
ترجمہ: راہِ حق کے قائد ورہنمانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن و احادیث سے بہترجانو۔
کیوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک اورقلب اطہرسے ہٹ کرکہیں اوراسرارکے خزانوں کی گِرہیں کھلنے والی نہیں ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَاہٰذَا مَا لَيْسَ فِيْهِ فَهُوَ رَدٌّ۔ (سنن ابی داؤد،باب فی لزوم السنۃ،حدیث:۴۶۰۴)یعنی بدعت ایجادکرنے والا مردود ہے، اس کی اقتدا نہیں کی جائے گی،یایہ مطلب ہے کہ بدعت مردودہے، اور بدعت پرعمل نہیں کیاجائے گا۔
ترجمہ:جس نے ہماری شریعت میںکوئی نئی چیز ایجاد کی جس کاشریعت سے کوئی تعلق نہیں تو وہ مردودہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ ،وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ،وَشَرُّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا،وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ۔ (مسلم،باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ،حدیث:۸۶۷)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ترجمہ:یہ ذہن نشین کرلوکہ بہترین کلام کتاب الٰہی ہے اور بہترین طریقہ، محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کاطریقہ ہے ،بری باتیں بدعتیں ہیں،ہرنئی بات بدعت ہے اورہر بدعت گمراہی ہے۔
خَطَّ لَنَارَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا ثُمَّ قَالَ:هٰذَا سَبِيْلُ اللهِ ثُمَّ خَطَّ خُطُوْطًا عَنْ يَمِيْنِهٖ وَعَنْ شِمَالِهٖ ثُمَّ قَالَ:وَهٰذِهٖ سُبُلٌ، عَلٰى كُلِّ سَبِيْلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُوْ إِلَي اللہِ وَقَرَأَ:وَأَنَّ هٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيماً (انعام۱۵۳) (صحیح ابن حبان،باب ذکرالاخبارعما یجب علی المرءمن لزوم السنن)اللہ تعالیٰ تمام طالبین اورتمام مسلمانوں کواپنے احسان اوراپنے بے پایاں کرم سے کتاب وسنت کی پیروی پرقائم رکھے اورنفس وشیطان کے بہکاوے سے محفوظ فرمائے۔ (آمین )
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکیر کھینچی اور فرمایاکہ یہ اللہ کی راہ ہے ،پھر آپ نے اس کے دائیں بائیں چند لکیریں کھینچیں اورفرمایاکہ یہ مختلف راہیںہیں،ان میں سے ہرراہ پرشیطان بیٹھا اللہ کی جانب بلارہاہے اور یہ تلاوت فرمائی: اَنَّ هٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِيْمًا۔یعنی یہ میری سیدھی راہ ہے۔
تیسرااصول:حلال رزق
اس کامطلب یہ ہے کہ جوبھی چیزکھائی جائےوہ حلال ہو،حرام اورمشکوک چیزوں سے دورہو۔
حلال رزق کی تعریف وفضیلت
شریعت میں حلال اس چیزکوکہتے ہیں جسے کتاب و سنت نے جائزومباح اسباب کے تحت مباح کیاہو اور طریقت میں حلال ہونے کے لیے یقین کاپایاجانااورشبہات سے پاک ہونا ضروری ہے۔
بادشاہ وسلاطین کے ہدیے اورتحائف جب تک کہ ان کے حرام ہونے کا یقین نہ ہو،بعض علمائے شریعت کے نزدیک جائزاورحلال ہیں،لیکن علمائے طریقت اسے ممنوع قرار دیتے ہیں جب تک کہ حلال ہونے کایقین نہ ہوجائے۔ اسی وجہ سے بعض اسلاف کرام نے فرمایاہے:
مجھے اللہ رب العزت سے شرم آتی ہے کہ میں دوصدی گزرنے کے بعد حلال روزی کاسوال کروں،لیکن میں اس سے یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھے ایسی روزی عطافرمائےجس پر مجھے عذاب نہ دے ۔
اے عزیز!جہاں تک ہوسکے حلال کھانے کی کوشش کرو،حرام اورمشکوک کھانے سے بچو،کیوںکہ جب تک حلال کھانااورصدق مقال نہ ہو، نماز اور روزے سے کچھ حاصل ہونے والانہیں ۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا(مومنون۵۱)دیکھو!اللہ تعالیٰ نے حلال کھانےکوعمل صالح پرمقدم رکھا ہے،اس لیے حلال کھاناپہلے ہوگااس کے بعدعمل صالح ہوگا۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:حلال چیزیں کھائواورنیک عمل کرو۔
طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ ۔ (شعب الایمان،باب حقوق الاولاد والاہلین،حدیث:۸۳۶۷)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
ترجمہ:حلال روزی طلب کرنافرض ہے۔
مَنْ أَکَلَ الْحَلَالَ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا نَوَّرَاللہُ قَلْبَہٗ وَأَجْرٰی یَنَابِیْعَ الْحِکْمَۃِمِنْ قَلْبِہٖ عَلٰی لِسَانِہٖ۔(احیاء العلوم، كتاب الحلال والحرام، الباب الاول)پیردستگیر قطب عالم نے فرمایا:
ترجمہ:جوشخص چالیس دن تک حلال رزق کھائے گا اللہ اس کے دل کومنور فرمادے گا اور اس کے دل سے اس کی زبان پرحکمت کےچشمے جاری فرمادے گا۔
فوائدالفواد میں لکھاہے کہ ایک جوان خواجہ ابراہیم بن ادہم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مرید ہوگیا۔ وہ جوان بڑاطاعت گزارتھا۔ خواجہ ابراہیم بن ادہم کواُس کی کثرت طاعت و عبادت پرتعجب ہوا۔آپ نے اپنے نفس کوملامت کیاکہ یہ نوجوان جوتمہارے دروازے پرآیاہے،اتنی عبادت کرتا ہے جتنی تمہاری عبادت وطاعت نہیں ہے،پھر آپ کے اوپر نورِباطن سے یہ واضح ہواکہ یہ حرام لقمہ کھاتاہے،اس لیے شیطان نے اس کواطاعت میں لگا رکھاہے۔
خواجہ ابراہیم بن ادہم نے اس نوجوان سے کہاکہ جو کھانا میں کھاتاہوں وہی کھاناتم بھی کھائو،اس نوجوان نے ویسا ہی کیا۔وہ درویشانہ کھاناجوابراہیم ادہم کھاتے تھے وہ لکڑی بیچ کر حاصل کرتے تھے،وہ جوان بھی اسی میں سے کھانے لگا۔ بےبنیاد اطاعت کی کثرت جاتی رہی اورتھوڑی عبادت پر واپس آگیا،یہاںتک کہ اس نے بہانے سے فرض نماز بھی چھوڑناشروع کردیااورنوبت یہ آگئی کہ اس نوجوان کاسارا کام ختم ہوگیا،اس کے بعد وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آیا۔
مستجاب الدعوات بننے کا نسخہ:
منقول ہے کہ حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خواہش کااظہار فرمایاکہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں کہ میں جودعاکروں وہ قبول ہوجائے۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَطِبْ طَعَامَکَ یُسْتَجَبْ دَعْوَتُکَ۔(معجم الاوسط،باب من اسمہ محمد،حدیث:۶۴۹۵)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
یعنی حلال کھاناکھاؤ تمہاری دعامستجاب ومقبول ہوگی۔
بیت المقدس پررب تعالیٰ کاایک فرشتہ ہے جونداکرتا ہے اورہررات آواز لگاتارہتاہے کہ جوشخص حرام کھاتاہے نہ اس کاکوئی فرض قبول ہوگااورنہ نفل۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
کُلُّ لَحْمٍ نَبَتَ مِنَ الْحَرَامِ فَالنَّارُ أَوْلٰی بِہٖ۔ (کنزالعمال،جلد:۴،حدیث:۹۲۶۶)حضرت صدیق اکبرکی حکایت:
ترجمہ:ہروہ گوشت جوحرام کےذریعے سے حاصل ہووہ جہنم کے لائق ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کی کمائی کادو دھ پی لیا،پھرآپ نے غلام سے پوچھا کہ اسے کہاں سے حاصل کیاتھا؟اس نے جواب دیا کہ ایک جماعت کے لیے کہانت کی خدمت انجام دی تواُنھوں نے مجھ کو بدلے میں یہ دودھ دیاتھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی انگلی حلق میں ڈال کر زبردستی قے کردیا،یہاں تک کہ لوگوں کو یہ گمان ہونے لگا کہ کہیں ان کی جان نہ نکل جائے،اس کے بعد حضرت صدیق نے یہ دعاکی:
یااللہ!مجھے دودھ کے اس حصے کے بدلے معذور رکھنا جو میری رگوں میں پہنچ گیااور جسے باہر نہیں نکالا جاسکتا۔
بعض روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر کے اس عمل کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی نے دی،اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَوَمَاعَلِمْتَ أنَّ الصِّدِّیْقَ لَایُدْخِلُ فِي جَوْفِہٖ إِلَّاطِیِّبًا۔(احیاء العلوم ،کتاب الحلال والحرام،الباب الاول)ایک بارحضرت عمررضی اللہ عنہ نے بھی صدقے کے اونٹ کا دودھ غلطی سے پی لیاتوآپ نے اپنے حلق میں انگلی ڈال کرقے کردیا۔
ترجمہ:کیاتم کوپتا نہیں کہ صدیق اپنے شکم میں صرف پاک چیز ہی ڈالتاہے۔
اصحاب ورع کا مقام:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ عَنْ أَفْضَلِ الْعِبَادَۃِ وَھُوَالْوَرَعُ ۔یعنی تم افضل عبادت کے بارے میں جانتے ہوکہ وہ زہد اورورع ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا:
لَوْصَلَّیْتُمْ حَتّٰی تَکُوْنُوْا کَالْحَنَایَاوَلَوْصُمْتُمْ حَتّٰی تَکُوْنُوْا کَالْاَوْتَارِمَایُقْبَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ إِلَّا بِوَرَعٍ حَاجِزٍ۔حضرت ابراہیم بن ادہم نے فرمایاکہ کوئی بھی شخص اس راہ میںاپنے مقصود کونہیں پہنچاسوائے اس شخص کے جس نے اس بات کا خیال رکھاکہ وہ اپنے پیٹ میں کیا ڈال رہاہے۔
ترجمہ:تم نماز پڑھتے پڑھتے کمان کی طرح خمیدہ کمر ہوجائو اورروزہ رکھتے رکھتے تار کی طرح دبلےپتلے ہوجائو، تب بھی تمہاری یہ عبادتیں شکوک وشبہات سے روکنے والےزہد و ورع کے بغیر مقبول نہیں ہوںگی۔
حضرت فضیل بن عیاض رحمۃاللہ علیہ نے فرمایاکہ جوشخص اس بات پردھیان دیتاہے کہ وہ اپنے پیٹ میں کیا ڈال رہاہے،حق تعالیٰ اس کو صدیقین میں سے لکھ لیتاہے، اوراُسےاُنھیں میں سے بنادیتاہے۔
حضرت یحی معاذنے فرمایاکہ اطاعت الٰہی خزانۂ ربانی میںسے ایک خزانہ ہے، جس کی کلید دعاہے اورحلال لقمہ اس کا دندانہ ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
لَایَقْبَلُ اللہُ صَلَاۃَامْرَءٍ فِي جَوْفِہٖ حَرَامٌ۔امام سہل بن عبداللہ تستری علیہ الرحمہ نے فرمایاکہ بندہ چار چیزوں کے بغیر حقیقت ایمان تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا:
ترجمہ: جب تک کسی شخص کے شکم میں حرام شئے ہو،اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی نماز قبول نہیں فرماتا۔
۱۔فرض وسنت
۲۔زہد اورورع کے ساتھ حلال کھانا
۳۔ظاہروباطن میں ممنوع چیزوںسےپرہیز
۴۔زندگی بھر اسی پرقائم رہنا۔
امام سہل بن عبداللہ تستری نے یہ بھی فرمایاہےکہ جوشخص اس بات کوپسند کرتا ہے کہ صدیقین کی نشانیاں اس پر کھل جائیں تواُسے چاہیے کہ حلال کے سوا کچھ بھی نہ کھائے، اور ضرورت کے سواکچھ کام نہ کرے۔
بزرگوں نے فرمایاہے: جوشخص چالیس دنوں تک شکوک وشبہات والا کھانا کھاتا ہے اس کا دل تاریک ہوجاتاہے۔(جاری)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں