Tasawwuf Ki Haqeeqat

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-Sep-2015➤ Sheikh Ahmad Zarruq Maliki                                          Download_Pdf 


تصوف کی حقیقت

حضرت شیخ احمد زروق فاسی مالکی (۸۴۶-۸۹۹ھ)اپنے عہدمیںشریعت وطریقت کے امام گزرے ہیں،آپ کی تصنیفات میںعدۃ المریدالصادق اورقواعدالتصوف امتیازی شان رکھتی ہیں۔خاص طورسے ’’قواعد التصوف‘‘ فقہ و تصوف کے باہمی رشتوں کی وضاحت اورتصوف کے اصول وضوابط کے بیان پر بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔
 مولاناضیاء الرحمن علیمی (ا ستاذ جامعہ عارفیہ) اس کا ترجمہ کررہے ہیں۔عوام وخواص کے علمی افادے کی غرض سےیہ ترجمہ ترتیب وار پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

۱۶۔ قاعدہ
کون نعمت تصوف کا مستحق ہے اور کون نہیں،اس کا پتا بندے کے احوال سے چلتا ہے،اور کبھی کبھی یہ معاملہ مشتبہ بھی ہوجاتا ہے توایسی صورت میں موجودہ حالت کی بناپر احتیاط کا دامن تھامنازیادہ بہترومناسب ہے۔کبھی کبھی مستحق اور غیر مستحق دونوں اس نعمت کے حصول کے لیے باہمی رسہ کشی کررہے ہوتے ہیں،اگر معاملہ ایساہوتو ایک کو وہ نعمت دی جائے گی دوسرےکو نہیں۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری قدس سرہٗ نے اس اصل و قاعدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
 دوسری صدی ہجری کے بعد جس کے پاس اس جماعت صوفیاکی باتیں موجود ہیں انھیں دفن کردے،کیوں کہ اب تو لوگوں کا زہد اُن کی زبان تک رہ گیاہے اور شکم پروری نے معبود کی جگہ لے لی ہے۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری قدس سرہٗ نےان چیزوں کو شمارکرایاہے جن کی بناپر معاملے میں فسادپیداہوجاتاہے اور ایسی صورت میں علم تصوف کو پھیلانا حرام ہے ،کیوںکہ مقصود سے ہٹ کر علم تصوف کودوسرے معنی پر محمول کرلیا گیا ہے اور ایسی صورت میں اس کی تعلیم دینے والا ایسے ہی ہے جیسے کوئی قاتل کے ہاتھوں تلواربیچے۔
 موجود ہ زمانے میں اکثر لوگوں کا یہی حال ہے کہ انھوں نے علم تصوف اور علم دقائق وحقائق کو عوام کے دلوں کو موہنے ، ظالموں کا مال حاصل کرنے،مسکینوں کو حقیرسمجھنے،صریح حرام اورکھلی بدعتوں کاارتکاب کرنےکا ذریعہ بنالیاہے،یہاں تک کہ بعض لوگ تو دین سے ہی خارج ہوگئےلیکن لوگوں نے اس بات کو بھی یہ کہہ کرقبول کرلیاکہ یہ ان کی خاندانی دولت ہے اوراُن کو اُس فن میں اختصاص حاصل ہے۔رب تعالیٰ ہمیں اپنے فضل وکرم سے محفوظ رکھے۔

۱۷۔ قاعدہ
 ہر علم میں کچھ باتیں خاص ہوتی ہیں اور کچھ عام،عموم و خصوص کے معاملے میں تصوف دوسرے علوم سے مختلف نہیں ، چنانچہ بندے کےمعاملات سے متعلق احکام الٰہیہ ہر شخص کو سکھائے جائیں گے، ان کے علاوہ دوسرے علوم ہر شخص کی صلاحیت اور اس کی عقلی سطح کے مطابق بیان کیے جائیں گے، بیان کرنے والے کی صلاحیت اور اس کے معیار کے مطابق نہیں،کیوں کہ حدیث شریف میں آیاہے:
حَدِّثُوا النَّاسَ، بِمَا يَعْرِفُونَ أَتُحِبُّوْنَ أَنْ يُكَذَّبَ، اللهُ وَرَسُوْلُهٗ ۔ (بخاری،باب من خص بالعلم)
 ترجمہ:لوگوں کو معروف باتیں بتاو،کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے؟
حضرت جنید بغدادی قدس سرہٗ سے پوچھاگیاکہ دولوگ آپ سے ایک ہی سوال کرتے ہیں لیکن آپ دونوں کو مختلف جواب دیتے ہیں،آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
آپ نے فرمایا کہ جواب سائل کے حساب سے ہوتا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
 أمِرْنَاأنْ نُخَاطِبَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِعُقُوْلِہِمْ۔
 ترجمہ:ہمیں لوگوں کی عقلی سطح کے مطابق گفتگو کرنے کا حکم دیاگیاہے۔

 ۱۸۔ قاعدہ
 ہر معاملے میں صالحین کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اہم کام کا اعتبارکرتے ہیں اور اسی کو مقدم رکھتے ہیں۔چنانچہ جو شخص مجموعی طورپر عبودیت کے احکام کی تحصیل سے پہلےمشائخ عظام اورصوفیائے کرام کے علوم ودقائق کی طلب میں لگاہو،اور واضح وجلی احکام کو چھوڑ کر پوشیدہ احکام میں مشغول ہو، وہ نفس پرستی میں گرفتار ہے۔حضوصاً اگر عبادات سے متعلق ظاہری فقہی احکام میں پختگی حاصل کیے بغیر وہ احوال میں سنت و بدعت کی تفریق میں لگا ہو، اوربُرے اخلاق سے پاک ہوئے بغیراچھے اخلاق سے آراستہ ہونے کی کوشش کررہا ہو، یا اس بات کا دعویدار ہوتو وہ نفس پرست ہے۔
حضرت سری سقطی قدس سرہٗ نے بڑی پیاری بات بیان فرمائی ہے:
مَنْ عَرَفَ اللہَ عَاشَ
 وَمَنْ مَالَ إلَی الدُّنْیَا طَاشَ 
وَالْاَحْمَقُ یَعْدُوْ وَ یَرُوْحُ فِی لَاشَ
 وَالْعَاقِلُ عَنْ مَحْبُوْبِہٖ فَتَّاشَ
۱۔جس کو اللہ رب العزت کی معرفت حاصل ہوگئی اسی کے لیے حقیقی عیش وعشرت ہےاور جو دنیا کی طرف مائل ہوگیا وہ برباد ہوگیا۔
 ۲۔بے وقوف لایعنی کاموں میں دوڑ دھوپ کرتا ہے جب کہ عقل مند انسان اپنے عیب کی تلاش وجستجو میں مشغول رہتا ہے۔
الحکم العطائیہ میں لکھاہے کہ تمہارے اندر جو عیب چھپے ہیں ان میں غوروفکر کرنا لوگوں کے پوشیدہ معاملات کوکُریدنے سے بہتر ہے ۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0