Akhlaq-e-Hasnah Aur Uski Nauiyatein

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-June-2015➤ مخدوم شیخ سعد خیرآبادی                              Download_Pdf 


اخلاق حسنہ اوراس کی نوعیتیں

جامع شریعت وطریقت حضرت مخدوم شیخ سعدخیرآبادی(۹۲۲ھ)مریدوخلیفہ حضرت مخدوم شاہ مینالکھنوی (۸۸۴ھ) دسویں صدی ہجری کے عظیم فقیہ اور اعلیٰ صفت درویش گزرے ہیں۔اُنھوں نےآٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف متن تصوف ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ ازعلامہ قطب الدین دمشقی (۷۸۰ھ)کی عالمانہ وعارفانہ شرح لکھی اور اُس کا نام ’’مجمع السلوک‘‘ رکھا جو شریعت و طریقت کا عطرمجموعہ اور سالکین و طالبین کے لیے دستورالعمل ہے ۔
 مولانا ضیاء الرحمن علیمی استاذجامعہ عارفیہ نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے،ان شاء اللہ بہت جلد شاہ صفی اکیڈمی سے شائع ہوگا۔اس کتاب سےچندایمان افروزاقتباسات پیش ہیں ۔ ( ادارہ)

۳۔نصیحت
 نصیحت یہ ہے کہ سب کے ساتھ خیرخواہی کی جائے اور جوچیز اپنے لیے پسند کی جائے وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کی جائے،اورجوچیز اپنے لیےپسندنہ کی جائے اسے دوسروں کے لیے بھی پسندنہ کی جائے۔

۴۔شفقت
 شفقت یہ ہے کہ ہرمخلوق کے ساتھ مہربانی کی جائے خواہ وہ مخلوق عالم ہو،جاہل ہو،مطیع وفرماں بردارہو یانافرمان۔مطیع و فرماںبردارکے ساتھ اس کی اطاعت اورفرماں برداری کے احترام میں شفقت کامعاملہ کیا جائے،اورگنہگارکے ساتھ اس نیت سےشفقت کامعاملہ کیاجائے کہ وہ اس شفقت کی برکت سے نیکی کی طرف پلٹ آئے گا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احدکے روزظالموں کی جفائوں پر دعادی اور فرمایا:
اَللّٰھُمَّ إھْدِقَوْمِی فَإنَّھُمْ ضَالُّوْنَ۔
 یعنی یااللہ! میری قوم کوہدایت عطافرما،کیوں کہ وہ راہ سے بھٹکی ہوئی ہے۔
بعض مشائخ نے کہاہےکہ شفقت نصیحت میں داخل ہے،نصیحت عام ہے اورشفقت خاص،جیسے کوئی شخص کسی بھی شخص سے خیر خواہی کی کوئی بات کہے یہ نصیحت ہے، لیکن اگریہی بات وہ اپنے دوست،اپنے بھائی یااپنے لڑکے سے کہے تویہ شفقت ہوگی۔

۵۔صبر
 صبریہ ہے کہ بدلے کی قوت کے باوجوداللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے لوگوں کی تکلیفوں کوبرداشت کیاجائےاوران کی جفاؤں کو سہاجائے۔
خواجہ ابراہیم بن ادہم رحمۃاللہ علیہ سے پوچھاگیاکہ کبھی دنیا میں آپ کوخوشی حاصل ہوئی ہے؟انھوں نے جواب دیاکہ ہاں! دوبار مجھے خوشی حاصل ہوئی ہے:
 ایک بار اس وقت جب کہ میں بیٹھا ہواتھا،ایک شخص آیااوراس نے میرے سرپرپیشاب کردیا۔
 دوسری باراُس وقت جب کہ میں ایک دن بیٹھا ہوا تھا،ایک شخص آیااوراس نے میرے سرپرپتھرماردیا۔
حدیث پاک میں آیاہے کہ جوشخص برابھلا کہنے کی قدرت کے باوجود غصے کوپی جاتاہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کوتمام مخلوق کےسامنےبلائے گااوراُسےیہ اختیار دےگاکہ وہ حوروں میں سےجس کوچاہے خودلے لے۔
شرح السنہ میں ہےکہ غلبۂ اسلام اورمسلسل فتوحات کی وجہ سے غزوات میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومال غنیمت حاصل ہوا، بعض اجنبی حضرات جوحسن ادب سے ناواقف تھے: أعطنی أعطنی کہتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، کثرت حرص ،غلبۂ غضب، معاش کی تنگی اور علم وعقل کی کمی کی وجہ سے انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سخت اوروحشت آمیز باتیں کہیں،مگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےنہ صرف اپنے فطری حلم کی وجہ سے ان کی تمام بے ادبیوں کوبرداشت کیااوراپنے عفوودرگزر والے مزاج کی وجہ سے انھیں معاف کردیا،بلکہ اپنی طبعی سخاوت کی بنا پرآپ نے ہرایک کی گزارش بھی قبول فرمالی۔

 ۶۔موافقت
 موافقت یہ ہے کہ جس کام میں کوئی مرید لگاہو،اس میں مشروع ومباح کی حدتک موافقت کی جائے،البتہ! کسی شخص کی موافقت کی اصلیت اس وقت واضح ہوگی جب اس کی موافقت میں کوئی ضرراورکوئی مشقت ظاہرہورہی ہو، کیوں کہ
 اَلْاَخَاءُ عَلَی الرُّخَاءِکَثِیْرَۃٌ بَلْ یُعْرَفُ الْأخْوَانُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ۔
یعنی خوشحالی میں دوستی توبہت ہوتی ہے،لیکن دوستوں کی پہچان مصیبتوں کے وقت ہوتی ہے۔

 احسان کیاہے؟
احسان یہ ہے کہ حد شرع میں رہتے ہوئے مخلوق کے ساتھ نیکی کابرتاؤ کیاجائےاس شرط پر کہ جس پر تم احسان کررہے ہواُس کاتم پر پہلے سے کوئی احسان نہ ہو۔
حضرت سفیان ثوری کہتے ہیں:احسان یہ ہے کہ تم اس کے ساتھ بھی بھلائی کروجوتمہارے ساتھ بدسلوکی کرے۔
اس لیے کہ احسان کرنے والے کے ساتھ احسان کرنا تجارت ہے،اوربازار کے نقد سودے کی طرح ہےکہ کچھ لو، اور کچھ دو۔حضرت حسن نے فرمایاہے کہ احسان یہ ہے کہ عام ہو ، خاص نہ ہو ،جیسے سورج کی روشنی ،ہوااوربارش۔

مدارات کیا ہے؟
مدارات یہ ہے کہ حد شرع کے مطابق مخلوق کے ساتھ نرمی اورآسانی سے پیش آیاجائے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےمدارات کے بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں،ان میں سے ایک یہ ہے کہ کسی بھی وقت آپ نے کسی کھانے کے بارے میں یہ نہیں فرمایاکہ یہ اچھا نہیں ہے،اگرپسند آتا تو کھالیتے اوراگر ناپسندہوتاتونہیں کھاتے،کبھی بھی کسی کام میں خادم کوآواز نہیں دیتے۔حضرت انس بن مالک کابیان ہے کہ میںنے بارہ سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ،اس بیچ آپ نے کبھی بھی کسی کام کے بارے میں یہ نہیں فرمایاکہ اسے کیوں نہیں کیا؟یااسے کیوں کیا؟ اگر میں کوئی کام کرتااور آپ کوپسندآتاتودعادیتے،اوراگر میں کوئی کام کرتا اورآپ کو پسند نہیں آتاتوآپ فرماتے:
کَانَ أمْرُاللہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرًا۔
 ترجمہ: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ شدہ امرتھا۔
حضرت ابودردارضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس شخص کونرمی سے حصہ عطاکیا گیااُسے یقیناً خیرکا حصہ ملا اور جوشخص نرمی سے محروم رہاوہ یقینی طورپر خیرسے محروم رہا۔
حدیث پاک میں یہ بھی ہے کہ ایک اجنبی حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا،اس وقت لوگوں کی کافی بھیڑ تھی جس کی وجہ سےاس شخص نے آپ کے قدم مبارک کوکچل دیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میںکوڑا تھا،آپ نے اس کو اس کوڑے سے متنبہ کیا اورفرمایا:
بِسْمِ اللہِ أوْجَعْتَنِی۔
یعنی اللہ کے نام سے ،تم نے مجھ کو تکلیف دی۔
وہ شخص پوری رات اپنے آپ کوملامت کرتارہا کہ میں نے آپ کوتکلیف دی ،پوری رات اس نے اسی حالت میں گزاری، صبح ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر تشریف لے گئے اوراس کے بارے میں معلوم کیا،وہ شخص ڈرتے ڈرتے باہرنکلا،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ کل تم نے میراپاؤں کچل دیاتھا،اوراس کی وجہ سے میں نےتم کوکوڑے سےمتنبہ کیاتھا،اس لیے تم بھی مجھ سے اسی کوڑے سے بدلہ لے لو۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
أمِرْتُ بِمَدَارَاۃِ النَّاسِ کَمَاأمِرْتُ بِأدَاءِ الْفَرَائِضِ۔
ترجمہ:مجھےفرائض ہی کی ادائیگی کی طرح لوگوں کی مدارات اوردل جوئی کابھی حکم دیاگیاہے ۔

 ایثارکیاہے؟
 ایثار یہ ہے کہ حاجت مندہونے کے باوجود کوئی چیز دوسرے کودے دی جائے۔حضرت ذوالنون مصری نے فرمایا ہے کہ وہ زاہد جس کاسینہ کشادہ ہواُس کی تین علامتیں ہیں:
 تَفْرِیْقُ الْمَجْمُوْعِ،تَرَکُ طَلَبِ الْمَفْقُوْدِ،وَالْإیْثَارُ عِنْدَ الْقُوْتِ۔
یعنی جوجمع ہواُس کوخرچ کرے،جونہ ہواُس کی طلب نہ کرے،اورحاجت کے وقت دوسروں کوترجیح دے۔
 حضرت ابویزیدبسطامی نے فرمایاہے کہ جس طرح بلخ کےایک نوجوان نےمجھ کولا جواب کردیااس طرح کسی نے مجھے لاجواب نہیں کیا،ا س نے مجھ سے پوچھاکہ آپ کے نزدیک زہدکیاہے؟میں نے جواب دیاکہ ہمارے نزدیک زہدیہ ہے کہ جب ہم کو مل جاتاہے توکھالیتے ہیں اورجب نہیں ملتاتوصبر کرتے ہیں۔اس پراس جوان نے جواب دیاکہ ہمارے یہاں بلخ کے کتے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔
میں نے کہاکہ تمہارے نزدیک زہدکی تعریف کیا ہے؟
 اس جوان نے جواب دیا: ہمارے نزدیک زہدیہ ہے کہ نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں اورملتاہے تودوسروں کودے دیتے ہیں۔
بعض صوفیائے کرام علیہم الرحمہ نے ایثار کی حقیقت یہ بیان کی ہے کہ جب آدمی اپنے دوست کے ساتھ ہوتواس کے حق کی حفاظت کرے،اس کے آرام کے لیے اپنا حصہ بھی اس کے حصے میں ڈال دے،بلکہ اس کی حفاظت کے لیے اپنی جان بھی اس پر نثار کردے۔
 جس دن بنو نضیر سےمال غنیمت حاصل ہوا،تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایاکہ اگرچاہوتومیں تمہارے مال تمہارے گھروں میں تقسیم کرکے فقرائے مہاجرین کودے دوں اورتم اس مال غنیمت میں شریک ہوجائو،اوراگرکہوتوتمہارے گھراور مال کو چھوڑکرمال غنیمت فقراکے مابین تقسیم کردیاجائے۔
 انصار نے عرض کیاکہ یارسول اللہ!ہمارے مال اور گھروں کواُن کے مابین تقسیم فرمادیں اورمال غنیمت میں بھی ہم ان ہی کوترجیح دیتے ہیں، ہم مال غنیمت میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔اس پراللہ تعالیٰ نے ان کی مدح وتعریف میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْكَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ(۹)(حشر)
یعنی وہ مہمانوں کواپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں،اگرچہ اُنھیں خوداِس کی شدید حاجت ہوتی ہے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیااوربولاکہ میں بھوکاہوں،مجھے کھانا کھلائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کوازواج مطہرات کے پاس یہ پتا لگانے کے لیے بھیجاکہ ان کے پاس کھانے کے لیے کوئی چیز موجودہےیا نہیں،ازواج مطہرات نے جواب دیاکہ واللہ! ہمارے پاس پانی کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاکہ جواس شخص کو آج رات مہمان بنائےگا اس پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمت ناز ل فرمائے گا،چنانچہ ایک انصاری اٹھے اورانھوں نے کہاکہ یارسول اللہ! میں اس شخص کو مہمان بناؤں گا،اوروہ اسے اپنے گھرلے گئے،انھوں نے اپنی بیوی سے کہاکہ یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامہمان ہے، اس کی تعظیم وتکریم کرو،اورکوئی بھی چیز ذخیر ہ کرکے مت رکھو۔
 یہ سن کر اس انصاری خاتون نے کہاکہ بچوں کے کھانے کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے،اس نے کہاکہ ٹھیک ہے،بچوں کوکھانے سے غافل کیے رہو،یہاں تک کہ وہ سوجائیں،پھرچراغ روشن کرکے کھانا پکاؤ اورجب مہمان کھانے کے لیے بیٹھیں توتم اس طرح اٹھوگویاچراغ درست کرنے جارہی ہواورپھر چراغ بجھادو،اور ہم دونوں صرف منھ چلاتے رہیں گے،یوں مہمان سیرہوکرکھاناکھالیں گے۔
انھوں نے ویساہی کیاکہ بچوں کوبغیرکھلائے سلادیا، جب کھانالگ گیاتووہ چراغ کوروشن کرنے کے لیے اُٹھی اور اُسے بجھادیا،وہ انصاری اوراس کی بیوی دونوں نے مہمان کے سامنے کھانا لگایا،مہمان کھاتارہااوروہ دونوں منھ چلاتے رہے تاکہ مہمان یہ سمجھے کہ وہ دونوں بھی کھارہے ہیں،جب کہ انھوں نے کچھ بھی نہیں کھایا،پھرجب صبح ہوئی تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے ،آپ ان کو دیکھ کر مسکرائے اورفرمایاکہ اللہ تعالیٰ کواس انصاری اوراس کی بیوی کاعمل پسند آیااوروہ ان سے راضی ہوگیا، اوریہ آیت کریمہ ان کے حق میں نازل فرمائی کہ
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ(۹)(حشر)
ایک روایت میں ہےکہ ایک شخص نےبکری کاسربھون کر کسی صحابی رسول کے لیے بھیجاجوبھوکے تھے،انھوں نے اپنےپڑوسی کو دے دیا،وہ بھی بھوکا تھا،انھوں نے اپنے دوسرے بھوکے پڑوسی کودے دیا،یہاں تک وہ سرسات لوگوں تک پہنچااورسب نے دوسرے کوبھیج دیا،اورآخرمیں بکری کاوہ سر پھراسی شخص کے پاس آیاجس کے پاس پہلے آیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف میںمذکورہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔ (جاری)

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0