Akhlaqe Hasna Aur Uski Nauiyatein

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-July-2015➤ Makhdoom Sheikh Saad Khairabadi                              Download_Pdf 


اخلاق حسنہ اوراس کی نوعیتیں

جامع شریعت وطریقت حضرت مخدوم شیخ سعدخیرآبادی(۹۲۲ھ)مریدوخلیفہ حضرت مخدوم شاہ مینالکھنوی (۸۸۴ھ) دسویں صدی ہجری کے عظیم فقیہ اور اعلیٰ صفت درویش گزرے ہیں۔اُنھوں نےآٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف متن تصوف ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ ازعلامہ قطب الدین دمشقی (۷۸۰ھ)کی عالمانہ وعارفانہ شرح لکھی اور اُس کا نام ’’مجمع السلوک‘‘ رکھا جو شریعت و طریقت کا عطرمجموعہ اور سالکین و طالبین کے لیے دستورالعمل ہے ۔
 مولانا ضیاء الرحمن علیمی استاذجامعہ عارفیہ نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے،ان شاء اللہ بہت جلد شاہ صفی اکیڈمی سے شائع ہوگا۔اس کتاب سےچندایمان افروزاقتباسات پیش ہیں ۔ ( ادارہ)

پیردستگیرقطب عالم فرماتے تھے کہ میں جس زمانے میں خواجہ قوام الدین عباسی رحمۃاللہ علیہ کے روضے پرمقیم تھا، مجھے ظاہری اضطراب بہت زیادہ ہوتاتھا،بعض اوقات ایسا ہوتاکہ مسافرآجاتے،کھاناتھوڑاساہوتا،میں کھانا سامنے لےکر آتا،چراغ کی اصلاح کے بہانے چراغ بجھادیتا اور اندھیرے میں کھانے میں مشغول ہوجاتا،میں بھی کھانے میں ہاتھ ڈالتا لیکن کھانا نہیں کھاتا،تاکہ یہ لوگ سیرہوکر کھالیں، اوران کے ساتھ ہاتھ لگا کرشریک ہونے میں مصلحت یہ ہوتی کہ وہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں بھی ان کے ساتھ کھارہاہوں۔
پیردستگیرنےیہ بھی فرمایاہےکہ ایک روزحضرت خواجہ قوام الدین عباسی رحمۃاللہ علیہ کے روضے پرچند مہمان آگئے، والدہ محترمہ اس وقت باحیات تھیں،میں نے جاکر عرض کیاکہ چند مہمان آگئے ہیں،ان کے لیے کچھ کھانا چاہیے، والدہ صاحبہ نے کہاکہ کھانامل جائےگا،جائواوراپنے کام میں مشغول ہوجائو،جب رات بہت زیادہ گزرگئی اورکچھ نہیں آیا تومیں کھانے کی تلاش میں گیا،دیکھاکہ تھوڑا ساآٹا خمیر ہورہا ہے، میں نے پوچھا کہ جب آٹا اتنا تھا تواس قدر تاخیر کیوں ہوئی؟ والدہ نے فرمایاکہ بیٹے !آٹا اتناہی تھااورکوئی دوسری تدبیر بھی نہیں تھی، تمہاری ساری بہنیں بیدارتھیں میں ان کو بہلاتی رہی یہاں تک کہ وہ سوگئیں،اس کے بعد میں نے آٹا گوندھا ہے، اگراُن کے سامنے گوندھتی اورپکاتی تویہ اپنا حصہ لے لیتیں اور مہمانوں کے لیے اتناساکھانا کافی نہیں ہوتا، اسی لیےپکانے میں تاخیر ہوئی،جب کھانا تیار ہوگیاتو میں کھانا لے کرآیا اور مہمانوں کوکھلادیا،البتہ!بچوں کے بھوکے رہنے کی وجہ سے دل بہت رنجیدہ ہوا۔
قطب عالم بارہایہ فرماتے تھے کہ ان دنوں مجھ کو جو کشادگی حاصل ہے،میراگمان یہ کہتاہے کہ وہ اسی رات کا صدقہ ہے اورفقرکی یہ روشنی والدہ ماجدہ کی خدمت کی بدولت ہے۔
منقول ہے کہ حضرت ابوالحسن کے ساتھ تیس سے زائد لوگ تھے،اورصرف چند روٹیاں موجود تھیں جن سے پانچ لوگ بھی سیر نہیں ہوسکتے تھے،ان لوگوں نے روٹیوں کے ٹکڑے کردیے،چراغ گل کردیااوراندھیرے میں کھانے کے لیے بیٹھ گئے،ہاتھ کھانے میں ڈالتے اورخالی نکال لیتے، کسی نے بھی کھانانہیں کھایا،ایک دوسرے کوترجیح دیتے رہے اورجب کھانا اٹھایاگیاتومعلوم ہواکہ روٹی کے ٹکڑے اپنی حالت پرموجود تھے۔
یہ بھی مروی ہے کہ حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما بیمار تھے،امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ،سیدۃ النساء فاطمہ زہرارضی اللہ عنہااوران کی کنیز فضہ نے نذرمانی کہ اگر اللہ نے ان کوصحت عطافرمائی تووہ تین روزے رکھیں گے،اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرمائی،تینوں نے نذرپوری کرنے کے لیے نذرکی ادائیگی کی نیت سے روزہ رکھ لیا،امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں افطارکے لیے کچھ نہیں تھا،دل میں یہ آیاکہ قرض لے لیاجائے، ایک یہودی سے تھوڑاساجَوقرض لے کرآئے،حضرت فاطمہ نے جَوکاآٹا تیار کرکے اس کی تین روٹیاں اوربعض کے مطابق پانچ روٹیاں پکائیں اورافطار کے لیے سامنے رکھا،اچانک ایک مسکین پہنچا اوراس نے بھوک کاشکوہ کیا،انھوں نے اپناہاتھ کھانے سے روک لیااورروٹیاں مسکین کودے دیں، انھوں نے مسکین کو اپنے نفس پرترجیح دیااورخود اس رات پانی کے سواکچھ بھی نہ کھایا،نذرکے مطابق انھوںنے دوسرے دن بھی روزہ رکھ لیا،پھر کسی تدبیر سے افطارکے وقت کھانے کاانتظام کیا،پھر افطار کے وقت ایک یتیم نےآواز لگائی،افطارکے وقت ایک یتیم کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی توانھوں نے پھردل پر جبر کیااورافطار کاکھانایتیم کودے دیا،تیسرے دن انھوںنے پھرنذرپوری کرنے کا ارادہ کرلیا،دودن متواترروزہ رکھنے کے بعدتیسرے روزے کی مشقت بھی انھوںنے برداشت کی،افطار کے وقت ایک قیدی نے بھوک کی فریاد کی، اس نے اپنی اسیری اوربے چارگی کاتذکرہ کیا،خاندان نبوت کی طبعی سخاوت اورفطری کرم نے ایثار پر ابھارا، اور
وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ
کی پسندیدہ صفت کا ظہور ہوا،انھوں نے اپنے جسم کوبھوک کی مشقت کے حوالے کیا اور افطار کاکھانا اس قیدی کودے دیا، ان کی شان میں آیت کریمہ یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ... نازل ہوئی اور اِس طرح یہ نذر مکمل ہوئی۔
اس آیت کریمہ کےمعنی یہ ہیں کہ واجبات کی تکمیل کے بعدشفااوربلائوں کوٹالنے کے لیے نذرپوری کرتے ہیں، اور اس دن سے ڈرتے ہیںجس دن کی خوفناکی عام اورجس دن کا خوف مشہورہوگا،یعنی قیامت کے دن حال یہ ہوگاکہ
 یَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّااَرْضَعَتْ (۲)(حج) (جس دن دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے بھی بے پرواہ ہوگی۔)

اور

یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ(۳۴) وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِ(۳۵) وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِ(۳۶)  (عبس)
(جس دن انسان اپنے بھائی، ماں،باپ،بیوی اور اولاد سے بھاگے گا۔)یہ لوگ دوسروں کو دکھانے اوربتانے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی محبت کے لیے اپنا کھانا دوسروں کودے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمھیں صرف اللہ کی رضااوراس کی خوشنودی کے لیے کھانا دے رہے ہیں،تم سے کوئی بدلہ اور جزانہیں چاہتے ۔

سوال اول:
اس مقام پرسوال ہوتاہے کہ مذکورہ قصے سے معلوم ہوتاہے کہ نذرسے شفاحاصل ہوتی ہے اور بلادور ہوجاتی ہے ، جب کہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث ہے:
لَا تَنْذِرُوْا، فَإِنَّ النَّذْرَ لَا يُغْنِي مِنَ الْقَدَرِ شَيْئًا،وَإِنَّمَا يُسْتَخْرَجُ بِهٖ مِنَ الْبَخِيلِ (باب النہی عن النذر)
یہ حدیث اس قصے کے مخالف اور معارض معلوم ہوتی ہے۔

جواب:
نذرکے بارے میں جوممانعت واردہے وہ اس صورت میں ہے جب شفاکااعتقادرکھاجائے اوربلاکے دور ہونے کا یقین رکھاجائے،البتہ!اگر
اَلصَّدَقَۃُ تَرُدُّالْبَلَاءِ۔ (صدقہ بلا کوردکردیتاہے)
پرعمل کرتے ہوئے شفااور مصیبت کے دورہونے کی امیدسے نذرمانی جائے تویہ جائز ہے، کیوں کہ اگرمطلقاًنذرکی ممانعت ہوتی تویہ حدیث
اَلصَّدَقَۃُ تَرُدُّالْبَلَاءِ
اوریہ آیت
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ...
بھی معارض ہوتی۔

سوال دوم:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چالیس ہزاردینار صدقہ کیا توحق تعالیٰ نے ان کے حق میں یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ
وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَی(۱۷) الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰی(۱۸) (لیل)
(عن قریب جہنم سے بچایا جائےگا وہ جو اپنے مال کوپاکیزہ کرنے کے لیے دیتا ہے)
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جَوکی تین روٹیاں مسکین یتیم اور اسیرکو دے دیں،تواتنی تھوڑی سی بات پرآپ کی اتنی مدح کی گئی ، اور
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ
 آپ کی صفت بیان کی گئی؟

جواب:
اُنھوں نے کم خرچ کیااوراُن کی زیادہ مدح بیان ہوئی،اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قلیل ان کاکل مال اورکل اثاثہ تھا،اس لیے اس کوکثیرکی رونق وزیبائش عطاکی گئی، دوسری بات یہ کہ حضرت علی، فاطمہ اوراُن کی کنیزفضہ رضی اللہ عنہم نے شدید حاجت کے وقت میں صدقہ کیا،اس لیے تھوڑا دینے پر اُن کوزیادہ درجہ ملا۔
حضرت حذیفہ رحمۃاللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک روز شام میں یرموک کے مقام پر امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ ہورہی تھی میں اپنے برادر زادے کی تلاش میں گیا،میرے پاس تھوڑا ساپانی تھا،میں نے اپنے دل میں کہاکہ اگرمیں اس کو زندہ پالوں گا اورزندگی کی کوئی سانس بچی ہوگی تومیں اسے یہ پانی پلادوںگا،اوراس کاچہرہ دھودوں گا، اچانک میں اپنے برادر زادے کے پاس پہنچ گیا، میں نے کہاکہ میں تم کوپانی پلادوں؟اس نے اشارےسے کہاکہ ہاں !پلادو،اچانک میں نے ایک شخص کودیکھاکہ وہ کراہ رہا تھا اورآہ آہ کی صدابلند کررہاتھا، میرے برادر زادے نے کہاکہ یہ پانی اس کودے دو،میں نےدیکھاکہ یہ ہشام بن عاص ہیں۔میں نے اس سے کہاکہ میں تم کوپانی پلائوں؟ ہشام نے ایک دوسرے شخص کوآہ آہ کرتے ہوئے سنا، اس نے کہاکہ یہ پانی اس کو دے دو، میں پانی لے کراس کے پاس آیاتو دیکھاکہ وہ مرچکاتھا،میںہشام کی طرف پلٹاتو دیکھاکہ وہ بھی وفات پاچکاہے،پھرمیں اپنے برادرزادے کی طرف پلٹ کر آیاتودیکھاکہ اس کی بھی وفات ہوچکی ہے۔
 قطب عالم فرماتے تھے کہ غلام الخلیل نامی ایک شخص تھاجوصوفیاسے اچھااعتقادنہیں رکھتاتھا، صوفیاکو ایذا پہنچانے کے لیے اس نے خلیفۂ وقت کی قربت حاصل کی، یہاں تک کہ وہ وزیربن گیا،ہمہ وقت خلیفہ کے سامنے صوفیا کی برائی کرتااورکہتاکہ یہ صوفیا عجیب وغریب باتیں کہتے ہیں، یہ لوگ زندیقوں کی راہ دکھاتے ہیں،شیخ نوریؔورقام ؔاور ابوحمزہؔ کوپکڑ کردارالخلافہ لے جایاگیا،غلام الخلیل نے کہاکہ یہ لوگ زندیق ہیں،امیرالمومنین اگران کے قتل کافرمان صادر فرمادیں توزندیقیت کی بیخ کنی ہوجائے گی ،کیوں کہ یہ اس گروہ کے سردارہیں،اورجس شخص کے ہاتھوں یہ کارخیر انجام پائے گا،میں اس کی مردانگی اوربزرگی کاضامن ہوں،خلیفہ نے فوراًحکم دےدیاکہ ان کی گردن ماردی جائے،جلّادنے جب رقامؔ کے قتل کاارادہ کیاتونوریؔ اٹھے اوررقام ؔکی جگہ جلّاد کی دستگاہ کے پاس شوق و طرب کے ساتھ آکربیٹھ گئے،یہ دیکھ کرلوگوں کوتعجب ہوا،جلّادنے کہاکہ اے جواں مرد!تلوار ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے سامنے اتنی رضاورغبت کے ساتھ آیاجائے جس طرح تم آئے ہو،جب کہ ابھی تمہاری باری نہیں آئی ہے،انھوں نے جواب دیا:
سنو!میرے طریقے کی بنیاد ایثارپرہےاورمیرے لیے دنیاکی عزیزترین چیز میری جان ہے،میں چاہتاہوں کہ اپنی ان چند سانسوں کواُن بھائیوں کے لیے خرچ کردوں،کیوں کہ ایک سانس کی خدمت ہے،یہ خدمت قربت الٰہی کے لیے ہےاورقربت الٰہی خدمت سے ہی حاصل ہوتی ہے،مُخبرنے یہ خبرخلیفہ تک پہنچائی اوراس نے ساراماجراکہہ سنایا،اس حالت میں ان کی ایسی گفتگوسے خلیفہ کوتعجب ہوا، اورایک شخص کویہ کہلا بھیجاکہ ان کے معاملے میں توقف کیاجائے،اس وقت قاضی القضاۃ ابوالعباس بن علی تھے، ان کے حال کی تفتیش کامعاملہ ان کے سپردکردیا،وہ ان تینوں حضرات کولے کراپنے گھرگئےاورشریعت وطریقت کے جو بھی احکام پوچھے، انھوںنے ان تینوں کوان میں کامل پایااور اپنی سابقہ غفلت پرپشیمان ہوئے،اس وقت حضرت نوریؔ نے فرمایا:اے قاضی!ابھی تم نے کچھ بھی نہیں پوچھا ہے،اس لیے کہ اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جواللہ تعالیٰ کی معیت میں کھاتے ہیں،اس کی معیت میں پیتے ہیں،اس کی صحبت میں بیٹھتے ہیں، اور اس کے ساتھ قیام کرتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہیں جن کاقیام دوست کے ساتھ ، جن کااٹھنا بیٹھنا، حرکت وسکون سب دوست کی ذات کے ساتھ ہوتاہے، وہ اس کی ذات سے زندہ ہوتے ہیںاوراس کے مشاہدے سے قائم ودائم رہتے ہیں،اگرایک پل کے لیے بھی یہ مشاہدۂ حق سے محروم کردیے جاتے ہیں توان کی عقل جاتی رہتی ہے۔ قاضی کو ان کے کلام کی لطافت اوران کے حال کی صحت ودرستگی پرتعجب ہوا،اوراس نے خلیفہ کولکھ کربھیجاکہ اگر یہ جماعت مُلْحِد ہے تومیں گواہی دیتا ہوں کہ اس روئے زمین پر کوئی مُوَحِّد نہیں۔
خلیفہ نے ان حضرات کوبلایااوراُن سے کہاکہ اپنی حاجت طلب کرو،انھوں نے کہاکہ تم سے میری حاجت صرف یہ ہے کہ تم مجھ کو فراموش کردو،نہ تواپنامقبول بناکر اپنامقرب بنائو اورنہ اپنےسے دورکرکےہم کوذلیل ورسوا کرو،تمہارے در کی ذلت ہمارے لیے تمہاری قبولیت کی طرح ہےاور تمہاری قبولیت ہمارے لیےذلت کی طرح ہے،یہ سن کر خلیفہ روپڑا،اورمکمل عزت واحترام کے ساتھ ان کوواپس کردیا۔
واضح رہے کہ صاحب ایثار وہ شخص ہے جواپنےاور بیگانے،آشنااورناآشناکے مابین کوئی فرق نہ کرے،ایساایثار درجات و ثواب میں مزید ترقی کاباعث بنتاہے۔
روایت ہےکہ ایک روز ایک بادشاہ نے ایک بوڑھے کو قید میں ڈال دیا ، وزیروں اوردربانوںنے اس کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کی لیکن اس کورہاکرنے کے لیے وہ راضی نہیں ہوا۔ایک بزرگ کواس بات کاپتہ چلاتووہ اس بادشاہ کے پاس گئے اورکہاکہ اس شخص کے اندر ایک اچھی عادت تھی۔بادشاہ نے پوچھاکہ وہ عادت کون سی تھی؟
 انھوں نے جواب دیاکہ ایثار!بادشاہ نے پوچھا کہ وہ اپنے اوربیگانے،آشنااورناآشناکے مابین تفریق نہیں کرتا ہے، اس بزرگ نے جواب دیا: ہاں! ایسا ہی ہے،بادشاہ نے وزیروں کوبلاکرکہاکہ اس شخص کے اندر ایک اچھی عادت تھی جائواس کو رہاکردو۔(جاری)

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0