Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-July-2015➤
Sheikh Muhammad Bin Munawwar Download_Pdf
حکایات مشائخ
حکایت
روایت ہے کہ نیشاپور کا ایک تاجر ایک مرتبہ شیخ ابوسعید کے پاس بطورہدیہ ایک گدھے پر خشب العودلایا اور ایک ہزار نیشاپوری دینار نذر پیش کیا ،شیخ ابوسعیدنے حسن مؤدب کو ایک دعوت کرنےکا حکم فرمایا،جناب حسن نے ایک دعوت کا اہتمام کیا،اورشیخ ابوسعیدکے معمول کے مطابق پورے ایک ہزار دینار دعوت کے انتظام پر خرچ ہوگئے ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک بڑی سی انگیٹھی سلگائی گئی، شیخ ابوسعیدکے فرمان کےمطابق تمام خشب العود اُس انگیٹھی میں ڈال دی گئی اور سب کو جلا دیا گیا۔
شیخ ابوسعیدکا کہنایہ تھاکہ میں اس لیے ایسا کرتا ہوں، تاکہ ہمارے پڑوسیوں کو بھی عود کی خوشبو سونگھنے کاشرف حاصل ہو۔ شیخ نے اتنی زیادہ شمعیں روشن کروائیں کہ لوگوں کو رات اور دن کا فرق نہ رہا، اتفاق سے اس وقت کا کوتوال سخت مزاج،شدت پسند اورزورآور تھا ،ساتھ ہی شیخ ابوسعیداور تمام صوفیائے کرام کا بہت بڑا منکر بھی تھا۔
وہ کوتوال خانقاہ میں آیا اورشیخ ابوسعیدسے یوںمخاطب ہو اکہ یہ جو کچھ تم کر رہے ہو، کیاہے ؟دن دہاڑے شمعیں روشن کرنا اور بڑے تنور میں ایک گدھے کے بوجھ کے برابرعود جیسی نہایت قیمتی دھونی کو جلانا جائز نہیں ۔ مسلمانوں میں سے کسی نے یہ بُرا عمل نہیں کیا ۔
شیخ ابوسعید نے جواب دیاکہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ یہ جائز نہیں ہے ، تم جاؤ اور اُن تمام شمعوں کو بجھادو ۔
کوتوال ایک شمع کے قریب گیااوربجھانے کی غرض سے جیسے ہی پھونک ماری، آگ نےکوتوال کے چہرے ،بال اور کپڑوں کواپنی لپیٹ میں لےلیاجس کے نتیجے میں اس کے جسم کااکثر حصہ جھلس گیا۔
یہ دیکھ کر شیخ ابوسعیدنے فرمایاکہ تو نہیں جانتا:
کوتوال اپنی اس نازیباحرکت پربڑا پشیماں ہوا، اور شرمندگی کے ساتھ شیخ ابوسعیدکے قدموں میں گرگیا اور کسی توقف کے بغیر توبہ کرلی ۔
حکایت
نیشاپور میں ایک درویش تھا جس کو دنیا میںبڑی رغبت تھی،وہ دنیا کے مال و اسباب کو اکٹھا کر کے اس کا ذخیرہ کرنے پر بڑاہی حریص تھا۔
ایک رات چور اُس کے گھر میں گھس گیا ،گھر میں جو کچھ تھا سب کچھ لےکربھاگ گیا،لیکن وہ گدڑی جس میں درویش کا زرہ و نقد ومال تھا وہ گھر ہی میں رہ گیا۔اگلے دن درویش نہایت غمگین و شکستہ دل شیخ ابوسعید کی مجلس میں آیا ۔
لیکن اپنے او پر بیتی ہوئی کہانی کسی کو بھی نہ سنائی، شیخ ابوسعیدنے دوران وعظ اس درویش کی طرف رخ کیااور یوں ارشادفرمایا:
اتنا سنتے ہی اس درویش کی چیخ نکل گئی ،پھرشیخ ابوسعیدکی تعظیم میں سرتاپاخم ہوگیا اورجو بھی زرو نقداُس کے پاس باقی بچا تھا،وہ سب شیخ ابوسعیدکے سامنے لاکر رکھ دیا۔ شیخ ابوسعیدنے فرمایاکہ اسی طرح کرنا چاہیے،یعنی تمام مال واسباب درویشوں کی خدمت میںحاضرکر دینا چاہیے ۔
حکایت
نیشاپور میں شیخ ابو القاسم روباہی تھے، ان کاشمار بزرگ صوفیا میں ہوتا تھا،یہ نامور دس صوفیائے کرام پر مشتمل ایک جماعت کے سر براہ تھے ،اوراِن سب کو امام ابو القاسم قشیری کی مریدی کا شرف حاصل تھا۔
شیخ ابوسعید قدس اللہ سرہٗ جب نیشاپور جلوہ فگن ہوئے تووہ دسوںصوفیائے کرام شیخ ابوسعیدکی مجلس میں حاضر ہوئے اوراُن کی تعظیم میں کھڑے رہے۔اس کےبعد سبھی حضرات اُن کے مریدین میں شامل ہوگئے۔
حضرت ابو القاسم روباہی کا بیان ہے کہ میں ایک مدت تک اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا رہا کہ اے مولیٰ! مجھے شیخ ابو سعید کا درجہ و مرتبہ دکھادے ،اوراس مقصد کے حصول کے لیےان گنت راتیں گریہ وزاری میں بسرکرتا رہا ،یہاں تک کہ مجھے ایک رات خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا شرف حاصل ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی ، فیروزی رنگ کا ایک نگینہ اس میں جڑا ہوا تھا۔
پھرمجھ سے جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ کیاتم ابو سعید کا درجہ و مرتبہ دیکھنا چاہتے ہو؟
میں نے عرض کیا:ہاں!میری خواہش یہی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انگوٹھی مجھے دکھائی اور فرمایاکہ دیکھو،ابوسعید انگوٹھی میں نگینے کی طرح ہے ۔
یہ دیکھتے ہی مجھ پر کپ کپی طاری ہو گئی،میں نیند سے بیدار ہوا، اور اگلے روز شیخ ابوسعیدکی مجلس وعظ میں جاکر بیٹھ گیا۔
شیخ ابوسعید نےمیری طرف توجہ کی اور فرمایا:
اس انگوٹھی کی بات کیسی رہی ؟
شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ کی زبان سےجیسے ہی میں نے یہ سنا، میںان کے قدموں میں گر گیا۔
حکایت
میں نےخواجہ ابو البرکات کے خط میں دیکھا۔خواجہ اسمٰعیل عباس بیان کرتے ہیں کہ ابوعثمان حیری نیشاپور کے مشائخ میں سے تھے ،ان کی نشست ملقی باد نامی محلہ میں تھی ، وہ بھی شیخ ابو سعید کے مرید تھے ،ملقی باد میں تعمیر شدہ اپنی خانقاہ کے اندر انھوں نے شیخ ابوسعیدکے لیے مجلس وعظ کا انتظام فرمایا اور شیخ ابوسعیدسے درخواست کی کہ ہفتہ میں ایک بار خانقاہ’’ ملقی بادی‘‘ میں وعظ فرمانا منظور کر لیں،شیخ ابوسعیدنے منظو ری دےدی۔
حضرت ابو عثمان کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ شیخ ابوسعیدمیری خانقاہ کے اندر وعظ فرما رہے ہیں،اور جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس وعظ میں جلوہ فرما ہیں۔ مگرشیخ ابوسعید نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ نہ کی،میرے دل میں خیال آیا کہ عجیب بات ہے کہ شیخ ابوسعید،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھتے ۔
شیخ ابو سعید نے اسی وقت اپنا رخ میری طرف کیا اور یہ فرمایا :
جب مجلس ختم کر دی،تب شیخ ابوسعیدنے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ کی اور عرض کیا:
حکایت
ابو بکر محمد واعظ سرخسی بیان کرتے ہیں: شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ کی وفات کے بعد میں نے اُن کی شا ن میں ایک قصیدہ تیار کیا اور اُس کو اُن کے مزار مقدس میں نصب کر دیا۔ اسی قصیدے میں یہ دونوں اشعار بھی درج ہیں:
پھر انھوں نے مجھ سے یہ ارشاد فرمایا کہ میرے لیے نہ تو مکان ہے ،نہ تحت نہ فوق، نہ یمین نہ یسار اور نہ کوئی طرف وجہت ،اور یہ جو تم مجھے مکان میں بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہو در اصل یہ لوگوں کی مصلحتوں اور اُن کی ضرورتوں کے سبب بیٹھاہوں، تاکہ ان کی ضرورتوں کو پورا کروں اور انھیں کاموں کی وجہ سے میں باہر نکلا ہوں۔ میں اس خواب سے بیدار ہوا،اور وظائف میں مشغول ہو گیا ، پھرصبح سویرے جب میں شیخ کی مجلس میں بیٹھا تھاکہ شیخ ابوسعید اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور اسی تخت پر بیٹھے جہاں بیٹھتے تھے ۔ تھوڑی دیر کے لیےسرکو نیچے جھکایا، پھر اوپر اٹھا لیا اور ارشاد فرمایا کہ جو خواب تم نے گذشتہ رات دیکھاہے ،اس کی حکایت بیان کرو۔ میں یہ سن کر حیران رہ گیا، اس لیے کہ ہم نے اس خواب کو ابھی کسی سے بھی بیان نہیں کیا تھا ۔ میں اپنا سر شیخ ابوسعید کے کان کے قریب لے گیااور اس خواب کو بیان کر نا شروع کیا ،کیوں کہ میری یہ کوشش تھی کہ یہ خواب کوئی دوسرا شخص نہ سن سکے ،لہٰذامیں نےابھی اس خواب کو بیان کرنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ شیخ ابوسعید نے بلند آواز میں فرمایا کہ تم اس واقعے کو سب کے سامنے بیان کرو، تاکہ یہاں پرموجود لوگ بھی سن لیں،اس لیے کہ ہم لوگ یہاں اسی وجہ سے بیٹھے ہوئےہیں، ورنہ ہم کو کسی مکان کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سن کر مجھ پر گریہ و لرزہ جیسی حالت طار ی ہوگئی اور میںنے اس خواب کو سب لوگوں کے سامنے بیان کردیا، پھر اس کے بعد میرے اندر ایک اچھی حالت پیداہوگئی۔ چنانچہ ان کی وفات کے بعداَب یہ دو اشعار تمہاری زبان سے ظاہر ہوئے ہیں ۔ (جاری)
حکایات مشائخ
سلطان طریقت،برہان حقیقت شیخ ابو سعیدفضل اللہبن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی قدس اللہ سرہٗ یکتائے روزگار شخصیت ، عارف ربانی اورعظیم صوفی تھے۔ان کی پیدائش’خراسان‘ کے ’میہنہ‘گائوں میں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ آپ نے وفات پائی۔ ’’اسرارالتوحید فی مقامات ابی سعید‘‘موسوم بہ’مقامات خواجہ‘ ان کے مخصوص احوال واقوال پر مشتمل ہے جسے آپ کےپر پوتے شیخ محمد بن منور قدس سرہٗ نے ترتیب دی ہے۔یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔
مولاناامام الدین سعیدی(ا ستاذ جامعہ عارفیہ ) نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے۔۱۵ویںقسط سےاُنھیں کاترجمہ مسلسل ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
مولاناامام الدین سعیدی(ا ستاذ جامعہ عارفیہ ) نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے۔۱۵ویںقسط سےاُنھیں کاترجمہ مسلسل ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
حکایت
روایت ہے کہ نیشاپور کا ایک تاجر ایک مرتبہ شیخ ابوسعید کے پاس بطورہدیہ ایک گدھے پر خشب العودلایا اور ایک ہزار نیشاپوری دینار نذر پیش کیا ،شیخ ابوسعیدنے حسن مؤدب کو ایک دعوت کرنےکا حکم فرمایا،جناب حسن نے ایک دعوت کا اہتمام کیا،اورشیخ ابوسعیدکے معمول کے مطابق پورے ایک ہزار دینار دعوت کے انتظام پر خرچ ہوگئے ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک بڑی سی انگیٹھی سلگائی گئی، شیخ ابوسعیدکے فرمان کےمطابق تمام خشب العود اُس انگیٹھی میں ڈال دی گئی اور سب کو جلا دیا گیا۔
شیخ ابوسعیدکا کہنایہ تھاکہ میں اس لیے ایسا کرتا ہوں، تاکہ ہمارے پڑوسیوں کو بھی عود کی خوشبو سونگھنے کاشرف حاصل ہو۔ شیخ نے اتنی زیادہ شمعیں روشن کروائیں کہ لوگوں کو رات اور دن کا فرق نہ رہا، اتفاق سے اس وقت کا کوتوال سخت مزاج،شدت پسند اورزورآور تھا ،ساتھ ہی شیخ ابوسعیداور تمام صوفیائے کرام کا بہت بڑا منکر بھی تھا۔
وہ کوتوال خانقاہ میں آیا اورشیخ ابوسعیدسے یوںمخاطب ہو اکہ یہ جو کچھ تم کر رہے ہو، کیاہے ؟دن دہاڑے شمعیں روشن کرنا اور بڑے تنور میں ایک گدھے کے بوجھ کے برابرعود جیسی نہایت قیمتی دھونی کو جلانا جائز نہیں ۔ مسلمانوں میں سے کسی نے یہ بُرا عمل نہیں کیا ۔
شیخ ابوسعید نے جواب دیاکہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ یہ جائز نہیں ہے ، تم جاؤ اور اُن تمام شمعوں کو بجھادو ۔
کوتوال ایک شمع کے قریب گیااوربجھانے کی غرض سے جیسے ہی پھونک ماری، آگ نےکوتوال کے چہرے ،بال اور کپڑوں کواپنی لپیٹ میں لےلیاجس کے نتیجے میں اس کے جسم کااکثر حصہ جھلس گیا۔
یہ دیکھ کر شیخ ابوسعیدنے فرمایاکہ تو نہیں جانتا:
ہر آں شمعے کہ ایزد بر فروزد
کسے کش پف کند سبلت بسوزد
ترجمہ: ہر وہ شمع جسے اللہ رب العالمین روشن فرماتاہے ، اُسے بجھانے کے لیےجو بھی پھونک مارتاہے اُس کی مونچھیں جل کر خاک میں مل جاتی ہیں۔
کوتوال اپنی اس نازیباحرکت پربڑا پشیماں ہوا، اور شرمندگی کے ساتھ شیخ ابوسعیدکے قدموں میں گرگیا اور کسی توقف کے بغیر توبہ کرلی ۔
حکایت
نیشاپور میں ایک درویش تھا جس کو دنیا میںبڑی رغبت تھی،وہ دنیا کے مال و اسباب کو اکٹھا کر کے اس کا ذخیرہ کرنے پر بڑاہی حریص تھا۔
ایک رات چور اُس کے گھر میں گھس گیا ،گھر میں جو کچھ تھا سب کچھ لےکربھاگ گیا،لیکن وہ گدڑی جس میں درویش کا زرہ و نقد ومال تھا وہ گھر ہی میں رہ گیا۔اگلے دن درویش نہایت غمگین و شکستہ دل شیخ ابوسعید کی مجلس میں آیا ۔
لیکن اپنے او پر بیتی ہوئی کہانی کسی کو بھی نہ سنائی، شیخ ابوسعیدنے دوران وعظ اس درویش کی طرف رخ کیااور یوں ارشادفرمایا:
اے جانا دوش ببامت بودم
گفتی دزدست دزد نہ بُد من بودم
یعنی اے عزیز!کل رات تمہارے چھت پر میں تھا ، تم کہہ رہے تھے کہ چور ہے چور ہے،وہ چور نہیں تھابلکہ میں تھا ۔ اتنا سنتے ہی اس درویش کی چیخ نکل گئی ،پھرشیخ ابوسعیدکی تعظیم میں سرتاپاخم ہوگیا اورجو بھی زرو نقداُس کے پاس باقی بچا تھا،وہ سب شیخ ابوسعیدکے سامنے لاکر رکھ دیا۔ شیخ ابوسعیدنے فرمایاکہ اسی طرح کرنا چاہیے،یعنی تمام مال واسباب درویشوں کی خدمت میںحاضرکر دینا چاہیے ۔
حکایت
نیشاپور میں شیخ ابو القاسم روباہی تھے، ان کاشمار بزرگ صوفیا میں ہوتا تھا،یہ نامور دس صوفیائے کرام پر مشتمل ایک جماعت کے سر براہ تھے ،اوراِن سب کو امام ابو القاسم قشیری کی مریدی کا شرف حاصل تھا۔
شیخ ابوسعید قدس اللہ سرہٗ جب نیشاپور جلوہ فگن ہوئے تووہ دسوںصوفیائے کرام شیخ ابوسعیدکی مجلس میں حاضر ہوئے اوراُن کی تعظیم میں کھڑے رہے۔اس کےبعد سبھی حضرات اُن کے مریدین میں شامل ہوگئے۔
حضرت ابو القاسم روباہی کا بیان ہے کہ میں ایک مدت تک اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا رہا کہ اے مولیٰ! مجھے شیخ ابو سعید کا درجہ و مرتبہ دکھادے ،اوراس مقصد کے حصول کے لیےان گنت راتیں گریہ وزاری میں بسرکرتا رہا ،یہاں تک کہ مجھے ایک رات خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا شرف حاصل ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی ، فیروزی رنگ کا ایک نگینہ اس میں جڑا ہوا تھا۔
پھرمجھ سے جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایاکہ کیاتم ابو سعید کا درجہ و مرتبہ دیکھنا چاہتے ہو؟
میں نے عرض کیا:ہاں!میری خواہش یہی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انگوٹھی مجھے دکھائی اور فرمایاکہ دیکھو،ابوسعید انگوٹھی میں نگینے کی طرح ہے ۔
یہ دیکھتے ہی مجھ پر کپ کپی طاری ہو گئی،میں نیند سے بیدار ہوا، اور اگلے روز شیخ ابوسعیدکی مجلس وعظ میں جاکر بیٹھ گیا۔
شیخ ابوسعید نےمیری طرف توجہ کی اور فرمایا:
اس انگوٹھی کی بات کیسی رہی ؟
شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ کی زبان سےجیسے ہی میں نے یہ سنا، میںان کے قدموں میں گر گیا۔
حکایت
میں نےخواجہ ابو البرکات کے خط میں دیکھا۔خواجہ اسمٰعیل عباس بیان کرتے ہیں کہ ابوعثمان حیری نیشاپور کے مشائخ میں سے تھے ،ان کی نشست ملقی باد نامی محلہ میں تھی ، وہ بھی شیخ ابو سعید کے مرید تھے ،ملقی باد میں تعمیر شدہ اپنی خانقاہ کے اندر انھوں نے شیخ ابوسعیدکے لیے مجلس وعظ کا انتظام فرمایا اور شیخ ابوسعیدسے درخواست کی کہ ہفتہ میں ایک بار خانقاہ’’ ملقی بادی‘‘ میں وعظ فرمانا منظور کر لیں،شیخ ابوسعیدنے منظو ری دےدی۔
حضرت ابو عثمان کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ شیخ ابوسعیدمیری خانقاہ کے اندر وعظ فرما رہے ہیں،اور جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس وعظ میں جلوہ فرما ہیں۔ مگرشیخ ابوسعید نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ نہ کی،میرے دل میں خیال آیا کہ عجیب بات ہے کہ شیخ ابوسعید،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں دیکھتے ۔
شیخ ابو سعید نے اسی وقت اپنا رخ میری طرف کیا اور یہ فرمایا :
لَیْسَ ھٰذَاوَقْتُ النَّظْرِ إلَی الْأغْیَارِ،ھٰذَاوَقْتُ الْکَشْفِ وَالْمُکَاشَفَۃِ۔یعنی یہ اغیار کی طرف نظر ڈالنے کا وقت نہیں ہے،یہ کشف و مکاشفہ کا وقت ہے ۔
جب مجلس ختم کر دی،تب شیخ ابوسعیدنے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نگاہ کی اور عرض کیا:
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ (۶۵) (زمر)پھراپناہاتھ اپنے چہرےپر پھیرا،اورمنبر سے اترآئے، میں اتنے میں بیدار ہو گیا اور حیرت زدہ رہ گیا ۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ سے پہلے لوگوں کی طرف وحی کی جاچکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا توتمہارے اعمال برباد وبیکار ہوجائیں گے ۔
حکایت
ابو بکر محمد واعظ سرخسی بیان کرتے ہیں: شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ کی وفات کے بعد میں نے اُن کی شا ن میں ایک قصیدہ تیار کیا اور اُس کو اُن کے مزار مقدس میں نصب کر دیا۔ اسی قصیدے میں یہ دونوں اشعار بھی درج ہیں:
زاں گفت آں کہ گفت کہ حق را مکان بود
شبہت بدش کہ تو بمکان مکیں دری
از بہر خلق ایزدت اندر مکاں نمود
زیرا کہ خلق را بروں نیست قادری
یعنی تیر ایہ شبہ برا ہے کہ مکین مکاں کے اندر ہے، مخلوق کے لیے رب کائنات نے تیرے مکان کے اندر اپنا جلوہ ظاہر کیا، اس لیے کہ مخلوق کے اندریہ طاقت وقوت نہیں کہ وہ اللہ کو بے حجاب دیکھ سکے ۔
جب میں نے اس قصیدے کو شیخ ابوسعیدکے مریدوں کی موجودگی میں ان کے مزار مقدس کے پاس پڑھا تو شیخ عبدالصمد بن حسن صوفی سرخسی جواُن کے مرید خاص اور اُن کے دس رفیقوں میں سے ایک تھے ،وہ کہنے لگے کہ ان دو اشعار کے پس منظر کی ایک حکایت سنو،پھر اُنھوں نے صوفیائے کرام کی موجودگی میں شیخ ابوسعیدکے آستانۂ مقدسہ کے پاس یہ حکایت بیان کی کہ میں ایک مرتبہ نیشاپور میں شیخ ابو سعید ابوالخیر قدس اللہ سرہٗ کی خدمت میں تھا،ایک رات میں نے خواب دیکھاکہ شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ ایسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں جہاں ان کے بیٹھنے کا معمول نہ تھا ،جب میں نے اُن سے عرض کیا کہ حضور!آپ حسب معمول اپنی جگہ پر کیوں نہیں بیٹھےہیں؟
شیخ ابوسعیدنے ارشاد فرمایا کہ میں جس جگہ ہوں وہ میری اپنی ہی جگہ ہے، پھر دوبارہ میں نے یہ جملے دہرائے کہ حضور!آپ اپنی جگہ پرکیوں نہیں بیٹھے ؟پھر انھوں نے مجھ سے یہ ارشاد فرمایا کہ میرے لیے نہ تو مکان ہے ،نہ تحت نہ فوق، نہ یمین نہ یسار اور نہ کوئی طرف وجہت ،اور یہ جو تم مجھے مکان میں بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہو در اصل یہ لوگوں کی مصلحتوں اور اُن کی ضرورتوں کے سبب بیٹھاہوں، تاکہ ان کی ضرورتوں کو پورا کروں اور انھیں کاموں کی وجہ سے میں باہر نکلا ہوں۔ میں اس خواب سے بیدار ہوا،اور وظائف میں مشغول ہو گیا ، پھرصبح سویرے جب میں شیخ کی مجلس میں بیٹھا تھاکہ شیخ ابوسعید اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور اسی تخت پر بیٹھے جہاں بیٹھتے تھے ۔ تھوڑی دیر کے لیےسرکو نیچے جھکایا، پھر اوپر اٹھا لیا اور ارشاد فرمایا کہ جو خواب تم نے گذشتہ رات دیکھاہے ،اس کی حکایت بیان کرو۔ میں یہ سن کر حیران رہ گیا، اس لیے کہ ہم نے اس خواب کو ابھی کسی سے بھی بیان نہیں کیا تھا ۔ میں اپنا سر شیخ ابوسعید کے کان کے قریب لے گیااور اس خواب کو بیان کر نا شروع کیا ،کیوں کہ میری یہ کوشش تھی کہ یہ خواب کوئی دوسرا شخص نہ سن سکے ،لہٰذامیں نےابھی اس خواب کو بیان کرنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ شیخ ابوسعید نے بلند آواز میں فرمایا کہ تم اس واقعے کو سب کے سامنے بیان کرو، تاکہ یہاں پرموجود لوگ بھی سن لیں،اس لیے کہ ہم لوگ یہاں اسی وجہ سے بیٹھے ہوئےہیں، ورنہ ہم کو کسی مکان کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سن کر مجھ پر گریہ و لرزہ جیسی حالت طار ی ہوگئی اور میںنے اس خواب کو سب لوگوں کے سامنے بیان کردیا، پھر اس کے بعد میرے اندر ایک اچھی حالت پیداہوگئی۔ چنانچہ ان کی وفات کے بعداَب یہ دو اشعار تمہاری زبان سے ظاہر ہوئے ہیں ۔ (جاری)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں