Hikayt-e-Mashaikh

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-June-2015➤ شیخ محمد بن منور                                    Download_Pdf 


حکایات مشائخ

سلطان طریقت،برہان حقیقت شیخ ابو سعیدفضل اللہبن ابی الخیر محمد بن احمد میہنی قدس اللہ سرہٗ یکتائے روزگار شخصیت ، عارف ربانی اورعظیم صوفی تھے۔ان کی پیدائش’خراسان‘ کے ’میہنہ‘گائوں میں۳۵۷ ہجری کو ہوئی اور ۴۴۰ ہجری میں اسی جگہ آپ نے وفات پائی۔ ’’اسرارالتوحید فی مقامات ابی سعید‘‘موسوم بہ’مقامات خواجہ‘ ان کے مخصوص احوال واقوال پر مشتمل ہے جسے آپ کےپر پوتے شیخ محمد بن منور قدس سرہٗ نے ترتیب دی ہے۔یہ کتاب دنیائے تصوف کی مستند کتابوں میں سے ایک ہے۔
مولاناامام الدین سعیدی(ا ستاذ جامعہ عارفیہ ) نے اس کاترجمہ مکمل کرلیاہے۔۱۵ویں قسط سےاُنھیں کاترجمہ مسلسل ترتیب کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

حکایت
 شیخ ابوسعید قدس اللہ سرہٗ جن دنوں نیشاپور میں مقیم تھے ، وہاں ان دنوں آپ کے بہت سارے مریدین ہو گئے تھے ، اور مریدین میں ہرطرح کے لوگ تھے ،کچھ مریدین مہذّب و تربیت یافتہ تھے ،جب کہ بہت سے غیر مہذّب بھی تھے ۔
 ایک دیہاتی اپنی طرز زندگی سے بیزار ہو کر خانقاہ میں مقیم تھا ،وہ آہنی نعل والا جوتا پہناکرتا تھا ،وہ جب بھی خانقاہ کے اندر چلتاتواس کے جوتے سےایک ایسی آواز نکلتی جس سے خانقاہ کے درویشوں کوبڑی دقت ہوتی تھی ،ایک بار شیخ ابوسعید نے اس کو بلوایا اور اُسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
تم کو ’بدرمیون ‘جانا چاہیے (یہ ایک درہ ہے جونیشاپور اور طوس کے درمیان سرراہ واقع ہے ، اس درہ سے ایک طرح کا پانی ابلتا ہے جو نیشاپور والوں کی ضروریات کا حصہ بن جاتا ہے ۔)
شیخ ابوسعیدنے فرمایا:سنو! تم جب اس درہ میں پہنچوگے تووہاں تمھیں پہاڑی پتھر کا ایک ٹکڑا ملے گا ،تمھیں چاہیے کہ اس پتھر پر دو رکعات نماز ادا کرو اور منتظر رہو، وہاں ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست تمہارے پاس آئے گا ، اُسے ہماری طرف سے ہمارا سلام پہنچا دینا،اس کے علاوہ چند باتیں اور شیخ نے اس سے کہیں اور تاکید فرمائی کہ یہ سب باتیں اس سے کہہ دینا، اس لیے کہ وہ ہمارا عزیز ترین دوست ہے ،کیوں کہ وہ سات سال تک مسلسل ہمارے ہمراہ اورہماری صحبت میں رہا ہے۔
 یہ سن کر وہ بڑی بیتابی کے عالم میں اس درّے کی جانب چل پڑا ،اورتمام راستے یہی سوچتا رہا کہ میں اولیائے حق میں سے ایک بر حق ولی کی زیارت کروں گا،یا ان چالیس رجال الغیب میں سے کسی ایک کی زیارت سے مشرف ہو ں گا جو لوگوں کےاعمال اور نظام عالم کے نگراں ہیں ،اور اس ولی بر حق، مرد حق آگاہ یا مردان غیب کی مجھ پر نظر پڑتے ہی دین ودنیا میں ہمارے کام بن جائیں گے ۔
غرض کہ جب وہ اس مقام پر پہنچاجہاںجانے کا اسے اشارہ ملا تھا،وہ ایک پل وہاں ٹھہراہی تھا کہ پہاڑ کے اندرسے خطرناک آواز بلند ہونے لگی ،ایسا لگتا تھا کہ اس کی خوف سے پوراپہاڑ لرز اٹھے گا،اس نے جیسے ہی پیچھےمڑ کردیکھا ایک بڑا کالاسا اژدہا نظرآیا ،اس سے خوفناک اژدہا اس نے شاید ہی کبھی دیکھا ہوگا ،پہاڑ کے بیچ کی پوری وادی اس اکیلے اژدہے کی جسامت سے بھر گئی تھی۔ جیسے ہی اس کی نظراس اژدہے پر پڑی ،اس کی روح فناہوگئی ،اس کے تمام اعضا اس طرح ڈھیلے پڑ گئے کہ ہلانے کے باوجود اُن میں ہلنے کی طاقت نہ تھی،اژدہا اس پتھر کے پاس آیا جس پر شیخ ابو سعید نے اس کو نماز دو گانہ ادا کرنے کی تلقین کی تھی ،اژدہے نے پتھر پر اپناسر رکھ دیا ، پھر اس کی طرف اپنارخ کیا اور نہایت عاجزی کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
 کافی دیر بعد جب وہ ہوش میں آیاتو اس نے دیکھا کہ اژدہا انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنا سر پتھر پر رکھے ہوئے ہے ، اس کے سوا کوئی حرکت نہیں کر رہا ہے ،وہ خوف اوربدحواسی کے عالم میںبول اٹھاکہ شیخ ابوسعیدنے سلام پیش کیا ہے۔
 یہ سنتے ہی اژدہا زمین پر اپنا چہرہ ملنے لگا ،وہ انتہائی خاکسارتھا، اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب اٹھا اور بہنے لگا،اس نے جب اژدہے کی گریہ و زاری اور اس کے تواضع کودیکھا تو سمجھ گیاکہ اژدہا اس کوگزندپہنچانے کاارادہ نہیں کر رہا ہے ،اور دل ہی دل میں یہ سوچنے لگا کہ شیخ ابوسعیدنے میرے آنے سے پہلے ہی اژدہا کو پیغام پہنچوادیا تھا، تبھی وہ یہاں آیا ہے ،چنانچہ اس نے انتہائی اطمینان وسکون سے وہ تمام باتیں اژدھا کے سامنے بیان کردیں جو شیخ ابوسعیدنے فرمائی تھیں۔ اژدہا یہ باتیں سن کر زمین پر بچھا جا رہا تھا ،جیسے ہی اس کی بات پوری ہوئی اژدہا جدھر سے آیا تھا اسی سمت واپس چلا گیا ۔
 اژدہا جیسے ہی اس کی نظرسے اوجھل ہوا،وہ بڑی تیزی سےاس پہاڑ سے نیچے اترا،اور ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ وہ بیٹھ گیا، غالباًاپنےآہنی نعلوں کی خوفناک آواز سے وہ متنبہ ہوچکا تھا ، پھرکیا تھا اس نے ایک پتھر کا ٹکڑا اٹھایا اور لوہے کے وہ تمام کیلیں جو نعل کی شکل میں اس کے جوتے میں پیوست تھے ، سب کو اکھاڑ ڈالا، پھروہاں سے نہایت آہستگی کے ساتھ خانقاہ واپس آیا ،اوروہ جس وقت خانقاہ پہنچاکسی کو بھی خبر نہ ہوئی کہ آہنی نعل والا آگیا ہے ،اس نےسلام بھی اس انداز سےکیا کہ لوگوں نے بڑی مشکل سے اس کی آواز سنی ۔
درویشوں نے جب دیکھا کہ وہ بالکل ہی الگ تھلگ اور انقلابی حالت میں واپس آیا ہے توسب نے چاہا کہ اس سے اس تبدیلی کے اسباب معلوم کریں ،ان کے ذہن میں آیا کہ آخروہ کون سے بزرگ پیر تھے جن کے آدھے دن کی خدمت و صحبت نے اس کے اندر اس قدر اثر ڈال دیا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک ریاضت و مجاہدہ کرنے کے باوجود ایسی شائستگی اور ادب و تہذیب حاصل نہیں ہوپاتی۔
درویشوں نے اس سے سوال کیا کہ اے درویش! شیخ ابوسعیدنے تم کو کس ہستی کی خدمت میں بھیجا تھا جس کی صحبت و خدمت نے تم کو اس قدر بدل کر رکھ دیا ہے ؟ ا
س نے اپنے رو برو پیش آنے والے واقعے کی روداد اُن کو سنا دی ،درویشوں نے حیرت و استعجاب کا مظاہرہ کیا اور شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ سے اس کے بارے میں دریافت کیا ،شیخ ابو سعید نے فرمایاکہ یہ اژدہا سات سال تک مسلسل ہمارا رفیق و ساتھی رہا ہے، ہم دونوں کو ایک دوسرے سے راحت ملتی تھی ۔
 حاصل کلام یہ ہے کہ اس دن کے بعد سے کسی نے بھی اس درویش کی طرف سے کسی ایسی حرکت کا مشاہدہ نہیں کیا جو پریشان کن اور تکلیف پہنچانے والی ہو ، نہ ہی اس کی اونچی آواز سننے میں آئی بلکہ اس سے پہلےجن حرکتوں کی وجہ سے وہ تکلیف کا باعث بنا ہوا تھا ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہی ،اب وہ شیخ ابوسعید قدس اللہ سرہٗ کی صرف ایک نگاہ کے طفیل کا مل و مکمل طورپر باادب ہو گیا تھا ۔

 حکایت
 استاذ عبد الرحمن جو ہمارے شیخ کے قاری تھے، ان کا بیان ہے کہ ایک دن شیخ ابوسعیدنیشاپورمیں وعظ فرما رہے تھے، شیخ کی مجلس میں ایک علوی بیٹھا ہوا تھا ،اس علوی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ نسب کے اعتبار سے ہم اعلیٰ ہیں مگر عزت و دولت شیخ ابوسعیدکے قدموں میں ہے ۔
 شیخ ابوسعیدنے کسی توقف کے بغیر اپنا رخ اس علوی کی طرف کیا اورفرمایا:سید صاحب! اس سے برتروبہتر ہونے کی ضرورت ہے ۔
 پھرشیخ ابوسعیدنے مجمع عام کی طرف رخ کیااور فرمایا:
لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ یہ سید صاحب کیا کہہ رہے ہیں ؟یہ کہتے ہیں کہ نسب کے ہم دھنی ہیں لیکن عزت و بزرگی شیخ ابوسعید کے پاس ہے ۔یہ بات جان لو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ پایا ہے سب نسبت حق و تعلق باللہ سے پایا ہے ،نسب و حسب سے کچھ بھی نہیں پایا ، اس لیے کہ ابو جہل اور ابو لہب بھی اسی نسب سے تعلق رکھتا تھاجو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب تھا، اے علویو! تم لوگوں نے اس عظیم ہستی کے نسب پر قناعت کر لی ہے،جب کہ ہم نے اپنا سب کچھ اس رسول عظیم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور تعلق کے ساتھ جوڑدیا ہے ،پھر بھی ہم اتنے ہی پر قناعت نہیں کر سکتے،یہاں تک کہ ہر وہ تدبیر اور شرافت و عزت ہمیں حاصل ہوجائےجو اس عظیم ہستی کو حاصل تھی ۔مزید انھوں نے فرمایا کہ ہماری جناب میں نسبت کی قدر ہے نہ کہ نسب کی۔

حکایت
 ایک دن شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ ’’نیشاپور‘‘میں وعظ فرمارہے تھے، ایک عظیم دانشوربھی محفل وعظ میں موجود تھا، اس نے دل ہی دل سوچا کہ یہ بات جو شیخ ابوسعید فرمارہے ہیں، قرآن کی ہفت گانہ منازل میں سے کسی بھی منزل میں نہیں ہے ۔
 شیخ ابوسعید نےاسی وقت اس کی طرف رخ کیااو رفرمایا :
 اے دانشور ! یہ بات جسے ہم محفل وعظ میں بیان کر رہے ہیں قرآن کریم کے سبع ہشتم میں ہے، یعنی قرآن کریم کے ہشت گانہ منازل کے ساتویں حصے میں ہے ،اس دانشور نے دریافت کیا کہ شیخ! یہ سبع ہشتم کیا ہے ؟ قرآن کریم میں کل سات ہی منازل ہیں، شیخ نے فرمایاکہ سبع یعنی قرآن کریم کی ساتویں منزل یہ ہے کہ
یٰایُّھَاالرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ (۹) (مائدہ)
اور آٹھویں کا ساتویں منزل یہ ہے کہ
فَاَوْحیٰ اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحیٰ(۱۰)(نجم)
اےدانشور ! تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ رب العزت کی بات محدود و معدود ہے ؟ کلام اللہ بے انتہا عظمت رکھتا ہے اوریہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیاہے ،یہ اس کلام الٰہی کی سات منزلیں ہیں ،یہ سبع کا مصداق ہے، رہی اس کی بات جسے اللہ عزو جل بندوں کے دلوں میں پہنچاتا ہے اس کا شمار و جائزہ تقریبا ًمحال ہے اور دلوں میں اس کے پہنچا ئے جانے کا سلسلہ بندنہ ہوگا۔
ہر لمحہ اللہ عزو جل کی طرف سے ایک رسول بندوں کے دلوں میں پہنچتا ہے ،اسی طرف اشارہ کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
اِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُؤمِنِ فَإنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِاللہِ۔
 ترجمہ:مومن کی فراست سے ڈرو ،کیوں کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔
 اےدانشور ! میرے لیے راحت جان اور اطمینان قلب عینی مشاہدے میں ہے ،خبرسن کر مجھے اطمینان نصیب نہیں ہوتا،خبر کی مشاہدے جیسی اہمیت نہیں ہے ،اس لیے خبر مشاہدے کے بالمقابل کیا سو دمند ہوگی ؟
اسی موقع پرشیخ ابوسعیدنے فرمایا: حدیث پاک میں آیا ہے کہ لوح محفو ظ کی وسعت اس قدر ہے کہ چار ہزارسال تک ایک آزاد اورنہایت ہی تندرست اچھے نسل کےگھوڑے کو دوڑایا جائے تب بھی وہ سر کے ایک بال کے برابر بھی لوح محفوظ کو طے نہ کر سکے گا۔ یاد رکھو!حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک وہ تمام مخلوقات جو ظہورمیں آئےہیں ، سب لوح محفوظ میں بشکل مکتوب موجود تھے ،لیکن ہم دوسروں سے سن کر یہ خبر نشر نہیں کرتے بلکہ معائنےو مشاہدے کے بعدبیان کرتے ہیں ۔
 اس دور میںجب شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ نیشاپور میں اقامت پذیر تھے ، وہاں آپ کے بہت سے منکرین و مخالفین بھی تھے ، منکرین میں سے ایک صاحب کا نام قاضی صاعد تھاجن کا ذکر اس کتاب میں پہلےآچکا ہے ،قاضی صاعد اگرچہ بہ ظاہر انکار نہیں کیاکرتے تھے ،لیکن انکار و مخالفت ان کے باطن سے نہیں نکلی تھی۔وجہ یہ تھی کہ اصحاب الرائے اولیا کی کرامات کاعلی الاعلان انکار کرتے تھے ، جب کہ قاضی صاعد اس طبقے کے امام تھے ۔
 ایک دن لوگوں نے قاضی صاعد سے کہا کہ شیخ ابوسعید دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر تمام عالم خون کی تہہ جمی ہوئی ابرک کی شکل اختیار کر لے ،تب بھی ہم حلال کےسواکچھ نہ کھائیں گے ۔
 قاضی صاعد نے یہ سن کر کہا کہ میں آج ہی حضرت شیخ ابوسعیدکو آزماتاہوں۔
 قاضی صاعدنےبرابرقد کا ٹھی کے دوبکرے لانے کا حکم دیا ،لوگ ایک ہی طرح موٹا اور ایک جیسی شکل کے دو بکرے لے کرآئے ،دونوں کی قیمت اداکر دی گئی ،ایک کی قیمت مال حلال سے ادا کی گئی اور دوسرے کی مال حرام سے ، دونوں کو ایک ہی انداز میں پکایا گیا، ایک ہی رنگ میں بریان کیا گیا،اور دو بڑے بڑے گملےجیسے طشتوں میں رکھوا دیا گیا۔
قاضی صاعد نے اپنے مقربین و مصاحبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا: میرے دوستو! میں شیخ ابوسعیدکے پاس پیشگی سلام عرض کرنےکے لیے جارہا ہوں ،میں جب وہاں پہنچ جاؤں اور مجھے خانقاہ کے اندر ایک گھنٹہ گزر جائے تب تم میرے پیچھے ان بریانیوں کو لے کر خانقاہ آجانااور شیخ ابو سعید کے سامنے رکھ دینا تاکہ میں یہ دیکھ سکوں کہ وہ کرامت کے بل پر حلال و حرام کو پہنچاننے میں تمیز سے کام لیتے ہیں یا نہیں۔
قاضی صاعد جب شیخ ابوسعیدکے پاس گئے، ان کے بعدان کےخدمت گاروں نے بریانی اٹھالی اور خانقاہ کے راستے پر چل پڑے ،جیسے ہی وہ چورا ہے کے کنارے پر پہنچے ، چندبد مست ترکی غلاموں نے ان کے سروں سے لے کر ایک بریانی کو کھالیا اور قاضی صاعد کے حوالیوں موالیوں کی خوب جم کر پٹائی کردی اور بریان کیا ہوا وہ بکرا جو حرام مال سے قیمت دے کر خرید ا گیا تھا اسے اچک لے گئے ،قاضی کے خدام لٹے پٹے خانقاہ میں داخل ہوئے اورایک ہی بریان کیاہوابکرا شیخ ابوسعیدکی خدمت میں پیش کیے۔
قاضی صاعد نے صورت حال میں غیر معمولی نقص و خلل دیکھ کر خدام کو قہر آلود نظروں سے دیکھا ،قاضی صاعد پریشاں حالی کی وجہ سے دیوانہ نظر آرہے تھے ،شیخ ابو سعید قدس اللہ سرہٗ نے اسی وقت ان کی طرف رخ کیااورمخاطب کرتےہوئےفرمایا: اے قاضی !مردار کو کتے کھاتے ہیں ، مردار کتوں کے لیے ہیں اور کتے مرداروں کے لیے ہیں، حرام حرام خور کے پاس پہنچتاہے اور حلال حلال خور کے پاس پہنچتاہے ،تم پیچ و تاب مت کھاؤ ، دیوانہ مت بنو۔
قاضی صاعد خود بہ خود شکستہ ہو گئے اور جو انکارانھوں نے اپنے دل میں بسا رکھا تھا ،باہر پھینک دیا ،توبہ کی ،معذرت خواہ ہوئے اور پھر شیخ ابوسعیدکی تعظیم و عزت کے خوب معتقد ہو گئے ۔ (جاری)

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0