I'tikaf: Qurbe Ilahi ka Anokha Ehsas

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-July-2015Imamuddin Saeedi                              Download_Pdf 


اعتکاف :قرب الٰہی کا انوکھا احساس

معتکف اپنےمکمل وجود کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مصروف ہو تا ہےجو انسان کا مقصد تخلیق ہے

اللہ رب العزت نے اپنے مومن بندو ں کو بے شمار شرف و خصوصیت سے نوازا ہے،اُنھیں میں ایک یہ بھی ہے کہ مومن بندہ جہاں چاہے جب چاہے اپنے رب کو یا د کرسکتا ہے ،اس سے مناجا ت کرسکتا ہے ،کیوں کہ
وَہُوَمَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ
مگر بعض اوقات کو خو د اللہ رب العزت نے شرف و فضیلت کے ساتھ خاص فرما دیا ہے،اوراس میں خاص نعمتیں رکھی ہیں، یوں تو سارے ایام اور ماہ وسال اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں مگر رمضان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایتوں اور رحمتو ں کے لیے منتخب فرمایا ہے،اس پربہار مہینےمیں وہ فضل و انعام ہے جو عام دنو ں میں نہیں ،اور دنوں کی نماز و تلاوت ،اورذکر و قیام میں وہ بات نہیں جو رمضان کے ایام میں ہے ،جیسے اور مسجدوں میں اداکی ہو ئی نماز مسجد حرام میں اداکی ہو ئی نماز کے برابر نہیں ہو سکتی، اسی طرح رمضان میں اداکی ہوئی نمازیں،تلاوت ،صدقہ و خیرات دیگر مہینوں کی بہ نسبت زیادہ افضل و اعلیٰ ہے ۔
چنانچہ رمضان کی عظیم نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت اعتکاف بھی ہے، اعتکاف بظاہر چند روز مسجد میں اقامت کرنے کا نام ہے مگر اس کی معنویت و حکمت میں ایک ایسی نعمت عظمیٰ پوشیدہ ہے جوہر طالب مولیٰ کامطلوب و مقصود ہے، جس کی لذت آشنائی میں اس جہان رنگ وبو سے بیزاری و بیگانگی حاصل ہو تی ہے ۔
فقہا و ائمہ نے اس کی جو عام تعریف فرمائی ہے وہ یہ ہے :
لُزُوْمُ الْمَسْجِدِ بِنِیَّۃٍ مَخْصُوْصَۃٍ لِطَاعَۃِ اللہِ تَعَالٰی ۔
یعنی طاعت الٰہی کے لیے ایک خاص نیت سے مسجد میں خلوت گزیں ہو نا ۔
 لغوی اعتبار سے ’رکنے ‘کے معنی میں آتا ہے ۔ بہر کیف! اس کی تعریف سے جو بات کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اعتکاف اللہ کے لیے اللہ کے گھر میں اللہ کی قربت پانے کی غرض سے سب سے الگ ہو کرصرف اسی کو یاد کرنے کا نام ہے،گویا کہ یہ ایک اعلیٰ شغل ہے جوبندہ کو قربت الٰہی کا احساس دلاتی ہے ۔ اس کا ثبوت خو د نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمدینہ آنے کے بعد تا حیات کسی بھی رمضان میں اعتکاف کو ترک نہیں فرمایا۔ آپ ہمیشہ رمضان کے اخیر عشرےمیں معتکف ہوجاتے تھے ۔
 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَعْتَكِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰى تَوَفَّاهُ اللهُ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهٗ مِنْ بَعْدِهٖ۔ ( بخاری،باب الاعتکاف فی العشرالاواخر)۔
ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اخیر عشرےمیں اعتکاف فرمایاکرتے تھے،یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی،پھر اس کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرنے لگیں ۔
ایک دوسری روایت میں ہے :
 فِي العَامِ الَّذِي قُبِضَ فِيْهِ اعْتَكَفَ عِشْرِيْنَ یَوْمًا۔ ( بخاری ،باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی
ﷺ)
ترجمہ:وفات کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےبیس دن اعتکاف کیا۔ ( یعنی دو عشرہ )
 ازروئے شرع اعتکاف سنت مؤکدہ کفایہ ہے،اگر کسی مسجد میں ایک شخص بھی اعتکاف نہیں کرتا تو سارے لو گ گنہگار ہو ں گے، ہاں!کسی ایک کے کرلینے سے بھی یہ سنت سب کی طرف سے ادا ہو جاتی ہے۔

اعتکاف کے فوا ئد
 عبادتو ں اور طاعتوں میں اللہ رب العزت نے بے شمار فوائد و مقاصد رکھے ہیں،ہر طاعت و عمل سے بندے کے قلب کی پاکیزہ وصفائی مقصود ہو تی ہے، کیوںکہ اس دنیامیں چاروںطرف ایسی لغویات و منہیات کی کمی نہیں جن کی گندگی ایک بندہ ٔ مومن کے دل کو پراگندہ نہ کرتی ہو۔کھانے پینے کی شہوتیں ،نکاح و جماع کی لذتیں ،فضول گو ئی ،زیادہ سونا، بیہودہ صحبتیں وغیرہ ایسے امور ہیں جو طاعت و عبادت کے جذبے کو کمزور کر دیتے ہیں اور روحانی کیف و سرور سے محروم کردیتے ہیں،اسی لیے اللہ رب العزت نے اعمال و عبادات کی صورت میں اس ہلاکت سے محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ و نسخہ عطا فرمایا،مثلاًروزہ ہی کو دیکھئےکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو بندے کو صبح صادق سےلےکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے روکتاہے۔یہ حقیقت میں جسمانی لذتوں کو کمزور کرنے کا عمل ہے جس کا اثر روحانی قوت میں پختگی و اضافے کی صورت میں نمایا ں ہو تا ہے،شہوتوں کی قید سے رہائی ملتی ہے اور سیر الی اللہ کی راہ ہموار ہو تی ہے ۔
اعتکاف میں انسان بہت سی ایسی چیزوں سے محفوظ رہتا ہے جو لا یعنی و بے ہودہ ہو تی ہیں، جیسے فضول گفتگو اور فحش کلامی وغیرہ اور اس کا زیادہ وقت ذکر و تلاوت میں گزرتا ہے اوردنیوی علائق سے الگ ہونے کی وجہ سے اسے فکرو مراقبے میں یکسوئی حاصل ہوتی ہے ۔
 اعتکاف کی حالت میں بندہ اس آیت کے مصداق ہوجاتاہے جس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًا(۸) (مزمل)
یعنی سب سے الگ ہو کر اللہ کا ہو جاؤ۔
گو یا بندہ اپنا سب کچھ ترک کرکے محض اللہ کی رضا کے لیے اس کی بارگاہ میں حاضرہو تا ہے۔ایک طرح سے معتکف ملکوتی صفت کا حامل ہوتا ہے، جیسے ملائکہ ہمہ وقت اللہ کی بارگاہ اور اس کی بندگی میں مصروف ہو تے ہیں اسی طرح اعتکاف کرنے والے کی بھی حالت ہو تی ہے۔

 اعتکاف کےآداب
 جب تک اعتکاف کو اُس کے جملہ شرائط و آداب کے ساتھ ادا نہیں کریں گے یہ بے فائدہ و بے نتیجہ ثابت ہو گا، اسی لیے اس کومفید اور نتیجہ خیز بنانے کے لیےاس کے ظاہری و باطنی آداب دو نوں کی رعایت ضروری ہے ،مثلاً:
سب سے پہلا ادب تو یہ ہے کہ اعتکاف کی نیت صرف قرب مولیٰ کی طلب ہو،اور کو ئی دوسرا مقصد نہ ہو، وقت گذاری یا کسی دنیوی مقصد کی طلب کے لیے نہ ہو،اسی طرح اپنے اوقات کو عمومی طور سے نوافل اداکرنے، تلاوت کرنے یاپھر دین کی باتیں سننے ، سنانے میں گذارے ،غیر ضروری بات ، فحش گوئی اوربحث و تکرار سے پرہیز کرے ۔
اسی طرح بہت زیادہ نہ سوئے،عام طور سے دیکھا جاتا ہے لوگ اعتکاف میں عادت سے زیادہ سوتے ہیں،یہ بھی آداب اعتکاف کے خلاف ہے۔اعتکاف کی حالت میں مشائخ کرام نے زیادہ سونے کی مذمت فرمائی ہے۔اسی طرح موبائل فون پر طویل گفتگو کرنےاورعبث و بے کار کاموں سے دور رہے اگر چہ وہ مباح ہی کیوں نہ ہوں۔
 حدیث پاک میں ارشادہے :
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهٗ مَا لَا يَعْنِيْهِ۔ (شعب الایمان )
 ترجمہ: آدمی کے اسلام کا حسن اس میں ہے کہ وہ بیکار کامو ں کو چھوڑ دے ۔

 اعتکاف کےتربیتی پہلو
 اعتکاف ایک مکمل تربیتی عمل ہے جس میں روحا نی ترقی کے اسباب پیدا ہوتے ہیں،اورروحانی تربیت کے اعتبارسے اس کے درج ذیل پہلو سامنے آتے ہیں :

۱۔معتکف پرمکمل طور سے عبادت کا تصور صادق آتا ہے، وہ اپنا وقت اوراپنا وجود سب کچھ اللہ کے لیے وقف کردیتا ہے اور اس کے دل دماغ میں صرف رضائے الٰہی کی طلب ہوتی ہے، اس طرح وہ اپنے سارے وجود کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مصروف ہو تا ہےجو انسان کا مقصد تخلیق ہے ، نیزاس ریاضت سے اعتکاف کرنے والےپر عام دنو ں کی عبادت اور خاص دنوں کی عبادت کا راز کھل جاتا ہے ۔

۲۔شب قدر کی تلا ش کے تعلق سے جو بات آئی ہے وہ یہ کہ شب قدر کو اخیر عشرےکی طاق راتوں میں تلا ش کرو ،اس اعتبارسے بھی معتکف اپنے اس عمل کے ذریعے شب قدر کو پانے کی کو شش کرتا ہے،اعتکاف کا یہ بنیادی مقصد بھی ہے ۔

۳۔مسجد سے مانوسیت ہوتی ہے،چوں کہ عمومی طورسے انسان مسجد میں زیادہ دیر ٹھہرنا پسند نہیںکرتااوریہ عام طبیعتوں پر شاق گذرتا ہے،اعتکاف سے کافی حدتک قلبی لگاؤپیداہوتا ہے،دس دن رہنے کی وجہ سے وہ مسجد سے مانوس ہو جا تا ہے اوروہ دل سے اس کی قدرکرنے لگتا ہے ۔

۴۔ معتکف کو ایک نماز کے بعددوسری نما ز کا انتظار کرنے کا ثواب بغیر کسی محنت کے مل جاتا ہے ۔

 ۵۔ دنیوی عیش و آرام سے بے رغبتی پیدا ہو تی ہے،زہد کا غلبہ ہوجا تا ہے،اوروہ دنیا میںاپنے آپ کو اجنبی محسوس کرنے لگتا ہے،اوراس حدیث پاک کے مصداق ہوجاتا ہےکہ
کُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ (دنیا میں اجنبی کی طرح ہوجاؤ)
نہ اس کے پا س کو ئی رفیق ہےاور نہ وہ آرام دہ خواب گاہ،صرف وہ ہوتا ہے اوراس کا رب،اس طرح اس پر آخرت کا تصور غالب ہو تا ہے ۔

۶۔ اعتکاف حقیقی طمانیت و سکون کا بھی با عث ہے، چوں کہ اعتکاف کرنے والے کے اکثر اوقات ذکر میں بسر ہوتے ہیں اور ذکر الٰہی ہی حقیقی سکون فراہم کرتا ہے ،اس لیے دنیوی جھمیلوں اور ہنگاموں سے دوری اختیارکرنے کی وجہ سے وہ پُرسکون دکھائی دیتا ہے ۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0