Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-July-2015➤
Ghulam Mstafa Azhari Download_Pdf
کیاتائب کے لیےقضائے عمری ضروری ہے؟
نماز قضا ہونے کی تین صورتیں ہیں :
۱۔ نیند، نسیان یا کسی شدید مجبور ی کی وجہ سے قضا ہو ۔
۲۔نماز کی توہین واستخفاف یا اس کی فرضیت کے انکار کی وجہ سے ترک کرنا۔
۳۔سستی یاکاہلی کی وجہ سے قضا ہو۔
بھول سے نماز ترک کرنے والے کا حکم
اس صورت میںکسی کا اختلاف نہیں ہے ، کیوں کہ اس کا حکم قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
منکر صلاۃ کا حکم
جو مسلمان نمازکی فرضیت کا انکار کرے ،اس کی عظمت واہمیت سے منھ موڑلے،اس کی توہین کرے،ایسے شخص کی تکفیر پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے،کیوں کہ نماز کی فرضیت ضروریات دین سے ہے ،گویا اس کا منکر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والا ہے، اس کے دل میں ذرہ برابر ایمان نہیں ہے ، اس کی یہ حالت ایسی ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے کہا:
عہد صحابہ میں کاہلی سے تارک صلاۃ کا حکم
تیسری صورت کے تعلق سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد اختلاف ہوا ہے، کیوں کہ یہ صورت حال یعنی سستی و کاہلی کی وجہ سے ترک نماز کا اس عہد میں تصور ہی نہیں تھا، نماز وہی ترک کرتا جو مسلمان نہیں ہوتا ،اسی لیے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےعہد تک تارک صلاۃ کو کافر ہی شمار کیا جاتا تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
گویا کہ اس عہد بابرکت تک ترک صلاۃ خواہ استخفاف کی نیت سے ہو یا سستی کی وجہ سے ،یہ کفر سمجھاجاتا تھا ، اس پر توبہ واجب ہے اور توبہ ہی اس کے لیے کافی ہے، اورتوبہ کے بعد تائب پر قضا نمازوں کے اعادہ کی حاجت نہیں ۔
عہد صحابہ کے بعدکاہلی سے تارک صلاۃ کا حکم
عہدصحابہ کے بعد لوگ نماز میں سستی کرنے لگے ، بادشاہوں، افسروں اور اُن کے مصاحب کی نمازیں عام طور سے ترک ہونے لگیں،زمانۂ نبوی سے جیسے جیسے لوگ دور ہوتے گئے، نماز سے کوتاہی عام ہوتی گئی اور عوام و خواص سب اس صف میں شامل ہوتےگئے۔(العیاذ باللہ)
اسی لیے علمائے دین کی ایک جماعت نے اس مسئلے میں تخفیف کا رخ اپنایا،اس طرح سستی اور کاہلی سے ترک صلاۃ کرنے والوں کے سلسلے میںعلمائے اسلام کے تین گروہ ہوگئے :
۱۔ جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والا کافر ہے ، دین کا دشمن ہے ، اس کا قتل واجب ہے ، اس کی نجات کا واحد ذریعہ توبہ ،اللہ کی طرف رجوع اوراللہ کی رحمت و مغفرت ہی ہے۔
یہ امام احمد بن حنبل کا مشہور مذ ہب ہے جو صحابۂ کرام کے مذہب کے عین موافق ہے،جیسا کہ اس کی تفصیل مذکور ہوئی،
اس کے علاوہ اشارات قرآنیہ اورظاہر سنت ثابتہ بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
کیاتائب کے لیےقضائے عمری ضروری ہے؟
نماز قضا ہونے کی تین صورتیں ہیں :
۱۔ نیند، نسیان یا کسی شدید مجبور ی کی وجہ سے قضا ہو ۔
۲۔نماز کی توہین واستخفاف یا اس کی فرضیت کے انکار کی وجہ سے ترک کرنا۔
۳۔سستی یاکاہلی کی وجہ سے قضا ہو۔
بھول سے نماز ترک کرنے والے کا حکم
اس صورت میںکسی کا اختلاف نہیں ہے ، کیوں کہ اس کا حکم قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ(۱۴) (طہ)حضرت ابو ہریرہ او رحضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
ترجمہ:(سونے یا بھولنے کی وجہ سے اگر تمہاری نماز چھوٹ جائےتو) جس وقت یاد آجائے اسی وقت نماز قائم کرو۔
مَنْ نَسِيَ صَلاَةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذٰلِكَ {وَأَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِكْرِي}(صحیح بخاری،باب من نسي صلاة فليصل اذا ذكر۔ صحیح مسلم،باب قضاء الصلاة الفائتة)اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی :
ترجمہ:جو شخص نماز ادا کرنا بھول جائےتو جب اُسے یاد آئے اسی وقت نماز ادا کرے ، اس بھولی ہوئی نماز کا کفارہ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ۔
منکر صلاۃ کا حکم
جو مسلمان نمازکی فرضیت کا انکار کرے ،اس کی عظمت واہمیت سے منھ موڑلے،اس کی توہین کرے،ایسے شخص کی تکفیر پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے،کیوں کہ نماز کی فرضیت ضروریات دین سے ہے ،گویا اس کا منکر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والا ہے، اس کے دل میں ذرہ برابر ایمان نہیں ہے ، اس کی یہ حالت ایسی ہی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے کہا:
وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ(۵۸) (مائدة)
ترجمہ:جب تم اُنھیں نماز کے لیے بلاتےہو،اوراذان دیتے ہوتووہ اس کو ہنسی اور کھیل سمجھتےہیں، کیوں کہ یہ لوگ انتہائی بے عقل ہیں۔
عہد صحابہ میں کاہلی سے تارک صلاۃ کا حکم
تیسری صورت کے تعلق سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد اختلاف ہوا ہے، کیوں کہ یہ صورت حال یعنی سستی و کاہلی کی وجہ سے ترک نماز کا اس عہد میں تصور ہی نہیں تھا، نماز وہی ترک کرتا جو مسلمان نہیں ہوتا ،اسی لیے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےعہد تک تارک صلاۃ کو کافر ہی شمار کیا جاتا تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِّنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهٗ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلاَةِ۔ (سنن ترمذی، باب الایمان،باب ما جاء في ترك الصلاة )حضرت علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:
ترجمہ: حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب نماز کے علاوہ کسی عمل کے ترک کو کفر نہ جانتےتھے۔
مَنْ لَمْ يُصَلِّ فَهُوَ كَافِرٌ ۔ (مصنف ابن ابي شيبة، كتاب الايمان والرؤيا)حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
ترجمہ: جو نماز نہ پڑھے وہ کافر ہے۔
وَلَا حَظَّ فِي الْإِسْلَامِ لِمَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:
ترجمہ:بے نمازی کے لیے اسلام میں کوئی جگہ نہیں۔ (موطاامام مالك،کتاب الطہارۃ ، باب العمل فيمن غلبه الدم من جرح اَو رُعاف)
مَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ فَقَدْ كَفَرَ ۔ (تعظيم قدر الصلاة،باب ذكر اكفار تارك الصلاة ازمحمد بن نصر مروزي ۲۹۴ھ)حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:
ترجمہ:جس نے نماز ترک کی یقیناً وہ کافر ہوگیا۔
لَا دِينَ لِمَنْ لَا صَلَاةَ لَهٗ۔ (تعظيم قدر الصلاة،باب من حقوق الصلاة وآدابها ازمحمد بن نصر مروزي ۲۹۴ھ)اس کے علاوہ سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوسرےبہت سارے اصحاب سے صحیح سندکے ساتھ ثابت ہے کہ تارک صلاۃ کافر ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے علما کی یہی رائے ہے کہ جو شخص قصداً بے عذر نماز ترک کرے،یہاں تک کہ وقت نکل جائے وہ کافر ہے۔ (الترغیب و الترہیب از منذری، کتاب الصلاۃ، الترهيب من ترك الصلاة تعمدا وإخراجها عن وقتها تهاونا۔ )
ترجمہ:جس نے نماز ترک کی وہ بے دین ہے۔
گویا کہ اس عہد بابرکت تک ترک صلاۃ خواہ استخفاف کی نیت سے ہو یا سستی کی وجہ سے ،یہ کفر سمجھاجاتا تھا ، اس پر توبہ واجب ہے اور توبہ ہی اس کے لیے کافی ہے، اورتوبہ کے بعد تائب پر قضا نمازوں کے اعادہ کی حاجت نہیں ۔
عہد صحابہ کے بعدکاہلی سے تارک صلاۃ کا حکم
عہدصحابہ کے بعد لوگ نماز میں سستی کرنے لگے ، بادشاہوں، افسروں اور اُن کے مصاحب کی نمازیں عام طور سے ترک ہونے لگیں،زمانۂ نبوی سے جیسے جیسے لوگ دور ہوتے گئے، نماز سے کوتاہی عام ہوتی گئی اور عوام و خواص سب اس صف میں شامل ہوتےگئے۔(العیاذ باللہ)
اسی لیے علمائے دین کی ایک جماعت نے اس مسئلے میں تخفیف کا رخ اپنایا،اس طرح سستی اور کاہلی سے ترک صلاۃ کرنے والوں کے سلسلے میںعلمائے اسلام کے تین گروہ ہوگئے :
۱۔ جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والا کافر ہے ، دین کا دشمن ہے ، اس کا قتل واجب ہے ، اس کی نجات کا واحد ذریعہ توبہ ،اللہ کی طرف رجوع اوراللہ کی رحمت و مغفرت ہی ہے۔
یہ امام احمد بن حنبل کا مشہور مذ ہب ہے جو صحابۂ کرام کے مذہب کے عین موافق ہے،جیسا کہ اس کی تفصیل مذکور ہوئی،
اس کے علاوہ اشارات قرآنیہ اورظاہر سنت ثابتہ بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ، الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ سَاهُونَ (۵)(ماعون)
ترجمہ:ان نمازیوں کے لیےخرابی ہے جو اپنی نماز چھوڑے بیٹھے ہیں ۔
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا(۵۹)(مريم)اسی طرح قرآن میں کئی مقامات پرترک صلاۃ کو کفار کے خصائص سے شمار کیا گیا ہے :
ترجمہ:اُن کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئےجنھوں نے نمازیں گنوائیں اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی توجلدہی اُنھیں دوزخ کے وادی غَی میں ڈال دیا جائےگا ۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لا يَرْكَعُونَ(۴۸)(مرسلات)
ترجمہ:جب اُنھیں رکوع کرنے کا حکم دیاجاتاہے وہ رکوع نہیں کرتے۔
يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلا يَسْتَطِيعُونَ خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ(۴۳) (قلم:۴۲، ۴۳)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ:جس دن ایک ساق کھولی جائے گی ( جس کے معنی اللہ ہی جانتا ہے) اورکفار کو سجدے کے لیے کہا جائے گا تواس دن وہ سجدہ نہ کرسکیں گے، ذلت و خواری کی وجہ سے نگاہیں نیچے کیے ہوئے ہوں گے۔حالاں کہ جب دنیا میں وہ تندرست و تواناتھے سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا (توسجدہ نہ کرتے تھے اسی وجہ سے قیامت کے دن وہ سجدے سے محروم رہیں گے۔ )
إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ۔ (صحيح مسلم ، کتاب الایمان، بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة)اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے :
ترجمہ:کسی شخص اور کفر و شرک کے درمیان نماز حائل ہے (گویا جس نے نماز ترک کردی وہ کفر و شرک کی وادی میں داخل ہوگیا ) ۔
الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ۔ (سنن الترمذي ، کتاب الایمان،باب ما جاء في ترك الصلاة)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خاندان والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ترجمہ:ہمارے اور کافروں کے درمیان نماز عہدہے جس نے نماز ترک کیا اس نے کفر کیا۔
لاتَتْرُكِ الصَّلاةَ مُتَعَمِّدًا،فَإِنَّهُ مَنْ تَرَكَ الصَّلاةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللهِ وَرَسُولِهِ(مسند احمد، از ام ایمن ۶/۴۲۱، رقم:۲۷۴۰۴۔ هيثمى نے اس حدیث کے بارے میں کہا کہ اس کے سارے راوی صحیح ہیں مگر مکحون کی اُم ایمن سے سماعت نہیں ہے، ۱/۲۹۵) (جاری)
ترجمہ:جان بوجھ کر نماز ترک نہ کرو، کیوں کہ جس نے ایسا کیا اس سے اللہ اور اس کے رسول بَری ہیں ۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں