Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-July-2015➤
Akhtar Tabish Saeedi Download_Pdf
معمولاتِ رمضان
رمضان شریف ایک باعظمت اور مقدس مہینہ ہے، اس مہینے کے دنوں کی عظمت ورفعت عام دنوں سے بڑھ کرہوتی ہے، کیوںکہ ان دنوں میں کثرت سےخیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے اور ہمہ وقت رحمت الٰہی کی بارشیں ہوتی رہتی ہیں،اگر کوئی روزے کو اس کے تقاضے کے مطابق ادا کرتاہے تو اُس کا ہر عمل عبادت لکھا جاتا ہے ۔
رمضان کے مہینے میں روزہ دارکس طرح وقت بسر کرے اور اس کے معمولات کیا ہوں ؟ ذیل میں ان کاایک جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
نمازفجر میں سبقت اور اذان سننا
نمازفجرمیں سبقت اوراَذان سننےکی بڑی فضیلتیں اور برکتیں ہیں ،روزہ دار کو اِس میں حریص ہو نا چاہیے اور ان برکتوں اور فضیلتوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ آج زیادہ تر لوگ مسجد کی طرف سبقت نہیں کرتےسوائےاُن ضعیفوں کےجو اپنی زندگی کےآخری ایام میںہوتے ہیں۔ جمعہ کے دن بھی لوگ مسجدوں میںاس وقت آتے ہیں جب خطبہ ہونے میں کچھ لمحہ باقی رہ جا تا ہے ،اورپھر مسجد کے دروازہ پر ہی بیٹھ جاتے ہیں تاکہ جیسے ہی امام خطبہ ختم کرے وہ تیزی سےمسجدمیں داخل ہوںاورنمازسے سلام پھیرتے ہی گھر کی طرف روانہ ہو جائیں،جب کہ مسجد میں پہلے جانے اور مسجد میں نماز کے لیے انتظار کرنے کے بہت سارے فوائدہیں، مثلاً:
۱۔تکبیر تحریمہ کی حفاظت ہو تی ہے۔
۲۔نمازی اذان کا جواب دیتا ہے اور اس کے بعد دعا کرتا ہے۔
۳۔نماز باجماعت کی حفاظت ہو تی ہے ۔
۴۔صف اول میں جگہ ملتی ہےجو برکت کی وجہ ہے۔
۵۔صف میں داہنی جانب کھڑے ہونے کا موقع ملتا ہے،جس کی وجہ سےاللہ اور فرشتے اس پرسلام بھیجتے ہیں۔
۶۔جہری نماز وں(فجر،مغرب،عشا)میں امام کے پیچھے آمین کہنے کاموقعہ ملتا ہے۔
۷۔اذان اور اقا مت کے درمیان نوافل ادا کرنے کا وقت ملتا ہےجو قرب الٰہی کا ذریعہ ہے ۔
۸۔نماز کے لیے جلدی کرنےوالے کواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائےگا۔
۹۔نمازی اذان و اقامت کے درمیان قرآن کریم کی تلاوت اوردعا کرسکتاہے۔
۱۰۔ نماز کے لیے جلدی جانے والے کو وقار و اطمینان اور سکون حاصل ہو تا ہے۔
یہ عمل ہر نماز کے وقت کیا جاسکتاہے لیکن اس کو فجر اور مغرب کے ساتھ اس لیے خاص کیا گیا ہے تا کہ لوگوں کو فجر کے وقت بیدار ہونے اور شام کے وقت تجارت سے جلد فارغ ہو نے کی ترغیب دلائی جائے اور کوئی بھی عمل کیا جائے تو اللہ ہی کے لیے کیا جائے غیر اللہ کے لیے نہ کیا جائے ۔
فجر کے بعد سےطلوع آفتاب تک
نمازفجرسے فارغ ہونے کے بعد سورج نکلنے تک حسب ذیل معمولات پربھی عمل کیا جاسکتاہے،مثلاً:
۱۔صبح کے جو ذکرواذکار ہیں اُن کاورد کرے، کیوںکہ ذکر واذکار سے انسان کا دل اللہ رب العزت کی جانب متوجہ رہتاہے۔
۲۔ قرآن کریم کی تلاوت کرے،اوربہتر یہ ہے کہ ترجمہ والا قرآن کریم تلاوت کرے ،کیوںکہ اس سے قرآن کریم کا ترجمہ بھی یاد ہو گا اور علم میں اضافہ بھی ،نیز روزہ دار کی محبت قرآن کریم سے بڑھتی جائے گی۔
۳۔اس کے بعد یہ پانچ انمول معمولات بھی اپنے اوپر نافذ کرنے کی کوشش کرے ،مثلاً:
مشارطہ :مشارطہ یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس پریہ شرط رکھے کہ تجھے وہی کرنا ہے جو میں کہوں ،اگرمیری بات مانو تو اس کا بدلہ جنت ہے اور اگرمیری بات نہ مانوتواس کا بدلہ جہنم ہے،پھر نفس سے یہ کہے کہ اے نفس!میرا اصل مال عمر ہے ، میرے آلات اعضا و جوارح ہیں اور میری تجارت کا نفع جنت ہے،پس اے نفس! اگرتو استطاعت رکھتا ہے تو میرا اصل مال اور میرے آلات لے لے ،تاکہ مجھے جنت مل جائے ۔
مراقبہ :یعنی نفس کی نگہبانی کرے تاکہ وہ عمل میں کوئی رخنہ نہ ڈال پائے،اورنفس کی نگہبانی ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چھوڑے، اگرکبھی مسجد سے باہر جاناہواور کسی بے پردہ عورت پر نظر پڑ جائے توفوراً نفس سے مجاہدہ کرے ،نگاہیں پھیرلے اور نفس سے یہ کہے کہ کیا میں نے تیرے لیے جنت کی شرط نہیں لگائی ہے ؟
مجاہدہ :یعنی نفس سے جہاد کرے،اور اس پر پورا پورا کنٹرول رکھے تاکہ وہ عبادت وریاضت سے دورنہ کردے، اور جہنم کی طرف نہ لے جائے ۔
محاسبہ :یعنی نفس کا محاسبہ کرےاوریہ دیکھے کہ اس کا عمل صحیح ہے یاغلط۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
غرض کہ روزہ دار اپنے روزے کی اُن تمام باتوں سے حفاظت کرے جن سے شریعت نے روکا ہے۔
بعض لوگ روزہ صرف اس لیے رکھتے ہیں کہ انھیں رات کو زیادہ کھانا ملے گا اور وہ پیٹ بھر کے کھائیں گے ، حالاںکہ اللہ تعالیٰ نے رو زے کا حکم اس لیے دیاہےتاکہ بندہ متقی ہو جائے اور بندہ متقی اسی وقت ہوگاجب وہ اپنے پیٹ کو بھو کا رکھےگا،چنانچہ روزے میں صبح سے شام تک جو کھانے پینے سے رکنے کا حکم دیا گیا ہے وہ اسی حکمت کے تحت ہے، تاکہ بندہ اپنے نفس کو مقہور کرنے کا عادی ہوجائے۔
اس لیےروزہ دار کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان رات کو کم کھائے،اتنا نہ کھائے کہ اس کا نفس موٹا ہو جائے اور وہ گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میںفرمایاگیا ہے کہ بہت سے روزہ دار کو کھانے پینے کے سوا کچھ نہ حاصل ہوگا، کیوں کہ اللہ رب العزت ایسے روزہ دار سے بَری ہے،اس لیے کہ اس کا روزہ صرف کھانے اور پینےکے لیے ہے ، رضائے الٰہی کے حصول کے لیے نہیں ۔
بعض لوگ حلال چیز سے روزہ رکھتے ہیں اور حرام چیز سے افطار کرتے ہیں،حلال کھانے سے روزہ رکھتے ہیں اور غیبت وچغلی کے ذریعے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتے ہیںیاآنکھوں کو نامحرم کی طرف دیکھنے سے نہیں روکتے۔ جس طرح رمضان میں عبادت کرنا غیررمضان میں عبادت کرنے سے مختلف ہے اسی طرح رمضان میں گناہ کرنا غیر رمضان میں گناہ کرنے سے مختلف ہے، اور اِن دونوں کے اجروثواب میں بڑا فرق ہے ،نیزایسا کرنا اپنے نفس پر ظلم کرناہے۔
اللہ تعالیٰ ارشادفرما تا ہے:
تلاوت قرآن
اس عمل کے بعد روزہ داراپنے باقی وقتوںمیں قرآن کریم کی تلاوت کرے اور زیادہ تر قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی کوشش کرے ،کیوں کہ قرآن کریم وہ واحد کتاب ہے کہ بندہ جس قدر اس کی تلاوت کرتاہے اس کی محبت اس کے دل میں اسی قدربیٹھتی جاتی ہے، اس سےمومن اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی اس سے مومن کا دل بوجھل ہو تا ہے۔
حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ رمضان میں ۶۰؍بار قرآن کریم مکمل کیا کرتے تھے ۔
اس کے برعکس آج ہر طرف اس سے دوری پائی جاتی ہے، لوگ قرآن کریم کی تلاوت سے روگردانی کر تے ہیں، بلکہ اپنے وقتوں کو لہو و لعب اور غیر شرعی امور انجام دینے میں گزاردیتے ہیں اور اپنے روزے کو ناقص کرتے ہیں ۔اس لیےروزے دار کو چاہیے کہ وہ روزہ کے ایام میں قرآن کریم کی تلاوت کثرت سےکرے اور اپنے آپ کو اس کی فضیلتوں اور برکتوں سے مالا مال کرے ۔
اہل وعیال کو نصیحت جب روزہ دار افطار کرکے مغرب کی نماز سے فارغ ہو، اور گھر لوٹے تو اپنے اہل وعیال کو اچھی باتوں کی نصیحت کرے،مثلاً:اُنھیں قرآن کریم تلاوت کرنے کی ترغیب دے، رمضان میں جوذکرواذکار کیے جاتے ہیںان کی تلقین کرے، اسی طرح افطار کے بعد جو نعمتیں موجود ہوں اُن کے بارے میں یہ بتائے کہ ان پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہم سب کو اِن پاکیزہ اور عمدہ نعمتوں سے نوازاہے ۔
اسی طرح مغرب کے بعدروزہ داراپنے اہل وعیال کے ساتھ بیٹھ کر دینی گفتگو کرے اور ان سے یہ دریافت کرےکہ بیٹے! تم نے آج کادن کیسے گزارا؟تم نے کتنی بار استغفار کی، اور کتنی بار تم نے اللہ تعالیٰ کویادکیا۔
پھریہ بھی پوچھے کہ بیٹے!تمہا را رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ تمہا را نبی کون ہے؟ اخلاص کا کیا معنی ہے؟ یقین کا کیا مطلب ہے ؟اوراسلام کا کیا معنی ہے ؟اس پر خود بھی عمل کرے،اور دوسروں کوبھی عمل کر نے کی ترغیب دے ۔
لیکن آج حالت اس کے بر عکس ہے، آج انسان ایک توروزہ نہیںرکھتا اوراگر رکھتا بھی ہے تو اُ س کا مقصد صرف دن میں کھانے پینے سے رکنا ہو تا ہے، مگروہ خود منع کی ہوئی چیزوںسے پر ہیزنہیں کرتا ہے،تو اپنے اہل و عیال کو اُن سے پرہیز کرنے کی نصیحت کیاکرے گا۔چنانچہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سرپرست اس کی پابندی کرے اور اپنے اہل وعیال کو اچھی باتوںکا حکم دے اور بری باتوںسے بچنے کی نصیحت کرے ۔ عبادا ت میں خشوع وخضوع کوئی بھی عبادت ہو اگر اس میں خشوع وخضوع نہ ہو تو وہ عبادت بیکا ر ہے، وہ کسی کام کی نہیں۔ روزہ دار اپنی تمام عبادات میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کی کوشش کرے، کیوںکہ خشوع وخضوع سے عبادتوں میں لذت ملتی ہے اور بندے کو فرحت وسرور،پھر جب ایک انسان کی عبادتوں میں خشوع و خضوع پیدا ہوجا تا ہے تواُس سے مندرجہ ذیل کئی فائدے سامنے آتے ہیں: ۱۔ جب بندہ رکوع وسجود کرتا ہے تو اُس کے گناہ زائل ہوجاتے ہیں۔ ۲۔خشوع وخضوع کے اعتبار سے اس کا اجر لکھا جاتا ہے ۔ ۳۔بندے کی نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ہو تی ہے ، اوروہ جو بھی عمل کرتا ہے سمجھ کر کرتا ہے ۔ ۴۔بندہ جب فرض نما ز میں حاضرہوتا ہے ،اچھی طرح وضو کرتا ہے اور اپنےرکوع وسجود میں خشوع وخضوع پیدا کرتا ہے تو یہ نماز اس کے ماقبل کےگناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔ ۵۔نماز میں خشوع وخضوع کرنے والا جب نماز سے فارغ ہو تا ہےتواس سے گناہوں کا بوجھ ہٹالیا جاتاہے جس کی وجہ سے بندہ اپنے اندرفرحت وشادمانی محسوس کرتا ہے۔ خلا صۂ کلام یہ کہ ایک روزہ دار کو چاہیے کہ کہ وہ ان تمام باتوں پر عمل کرے ،اور مکمل رمضان اسی طرح گزارنے کی کوشش کرےجس کا حکم دیاگیا ہے۔
معمولاتِ رمضان
رمضان شریف ایک باعظمت اور مقدس مہینہ ہے، اس مہینے کے دنوں کی عظمت ورفعت عام دنوں سے بڑھ کرہوتی ہے، کیوںکہ ان دنوں میں کثرت سےخیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے اور ہمہ وقت رحمت الٰہی کی بارشیں ہوتی رہتی ہیں،اگر کوئی روزے کو اس کے تقاضے کے مطابق ادا کرتاہے تو اُس کا ہر عمل عبادت لکھا جاتا ہے ۔
رمضان کے مہینے میں روزہ دارکس طرح وقت بسر کرے اور اس کے معمولات کیا ہوں ؟ ذیل میں ان کاایک جائزہ پیش کیا جاتا ہے:
نمازفجر میں سبقت اور اذان سننا
نمازفجرمیں سبقت اوراَذان سننےکی بڑی فضیلتیں اور برکتیں ہیں ،روزہ دار کو اِس میں حریص ہو نا چاہیے اور ان برکتوں اور فضیلتوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ آج زیادہ تر لوگ مسجد کی طرف سبقت نہیں کرتےسوائےاُن ضعیفوں کےجو اپنی زندگی کےآخری ایام میںہوتے ہیں۔ جمعہ کے دن بھی لوگ مسجدوں میںاس وقت آتے ہیں جب خطبہ ہونے میں کچھ لمحہ باقی رہ جا تا ہے ،اورپھر مسجد کے دروازہ پر ہی بیٹھ جاتے ہیں تاکہ جیسے ہی امام خطبہ ختم کرے وہ تیزی سےمسجدمیں داخل ہوںاورنمازسے سلام پھیرتے ہی گھر کی طرف روانہ ہو جائیں،جب کہ مسجد میں پہلے جانے اور مسجد میں نماز کے لیے انتظار کرنے کے بہت سارے فوائدہیں، مثلاً:
۱۔تکبیر تحریمہ کی حفاظت ہو تی ہے۔
۲۔نمازی اذان کا جواب دیتا ہے اور اس کے بعد دعا کرتا ہے۔
۳۔نماز باجماعت کی حفاظت ہو تی ہے ۔
۴۔صف اول میں جگہ ملتی ہےجو برکت کی وجہ ہے۔
۵۔صف میں داہنی جانب کھڑے ہونے کا موقع ملتا ہے،جس کی وجہ سےاللہ اور فرشتے اس پرسلام بھیجتے ہیں۔
۶۔جہری نماز وں(فجر،مغرب،عشا)میں امام کے پیچھے آمین کہنے کاموقعہ ملتا ہے۔
۷۔اذان اور اقا مت کے درمیان نوافل ادا کرنے کا وقت ملتا ہےجو قرب الٰہی کا ذریعہ ہے ۔
۸۔نماز کے لیے جلدی کرنےوالے کواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائےگا۔
۹۔نمازی اذان و اقامت کے درمیان قرآن کریم کی تلاوت اوردعا کرسکتاہے۔
۱۰۔ نماز کے لیے جلدی جانے والے کو وقار و اطمینان اور سکون حاصل ہو تا ہے۔
یہ عمل ہر نماز کے وقت کیا جاسکتاہے لیکن اس کو فجر اور مغرب کے ساتھ اس لیے خاص کیا گیا ہے تا کہ لوگوں کو فجر کے وقت بیدار ہونے اور شام کے وقت تجارت سے جلد فارغ ہو نے کی ترغیب دلائی جائے اور کوئی بھی عمل کیا جائے تو اللہ ہی کے لیے کیا جائے غیر اللہ کے لیے نہ کیا جائے ۔
فجر کے بعد سےطلوع آفتاب تک
نمازفجرسے فارغ ہونے کے بعد سورج نکلنے تک حسب ذیل معمولات پربھی عمل کیا جاسکتاہے،مثلاً:
۱۔صبح کے جو ذکرواذکار ہیں اُن کاورد کرے، کیوںکہ ذکر واذکار سے انسان کا دل اللہ رب العزت کی جانب متوجہ رہتاہے۔
۲۔ قرآن کریم کی تلاوت کرے،اوربہتر یہ ہے کہ ترجمہ والا قرآن کریم تلاوت کرے ،کیوںکہ اس سے قرآن کریم کا ترجمہ بھی یاد ہو گا اور علم میں اضافہ بھی ،نیز روزہ دار کی محبت قرآن کریم سے بڑھتی جائے گی۔
۳۔اس کے بعد یہ پانچ انمول معمولات بھی اپنے اوپر نافذ کرنے کی کوشش کرے ،مثلاً:
مشارطہ :مشارطہ یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس پریہ شرط رکھے کہ تجھے وہی کرنا ہے جو میں کہوں ،اگرمیری بات مانو تو اس کا بدلہ جنت ہے اور اگرمیری بات نہ مانوتواس کا بدلہ جہنم ہے،پھر نفس سے یہ کہے کہ اے نفس!میرا اصل مال عمر ہے ، میرے آلات اعضا و جوارح ہیں اور میری تجارت کا نفع جنت ہے،پس اے نفس! اگرتو استطاعت رکھتا ہے تو میرا اصل مال اور میرے آلات لے لے ،تاکہ مجھے جنت مل جائے ۔
مراقبہ :یعنی نفس کی نگہبانی کرے تاکہ وہ عمل میں کوئی رخنہ نہ ڈال پائے،اورنفس کی نگہبانی ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چھوڑے، اگرکبھی مسجد سے باہر جاناہواور کسی بے پردہ عورت پر نظر پڑ جائے توفوراً نفس سے مجاہدہ کرے ،نگاہیں پھیرلے اور نفس سے یہ کہے کہ کیا میں نے تیرے لیے جنت کی شرط نہیں لگائی ہے ؟
مجاہدہ :یعنی نفس سے جہاد کرے،اور اس پر پورا پورا کنٹرول رکھے تاکہ وہ عبادت وریاضت سے دورنہ کردے، اور جہنم کی طرف نہ لے جائے ۔
محاسبہ :یعنی نفس کا محاسبہ کرےاوریہ دیکھے کہ اس کا عمل صحیح ہے یاغلط۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًاوَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍتَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗ اَمَدًۢا بَعِیْدًاوَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ(۳۰) (آل عمران)معاقبہ :یعنی مباح عمل کے ذریعے نفس کی سرزنش کرے اور دس ہزار مرتبہ استغفار پڑھ کر اس کا تعاقب کرے اور اگر عبادت وریاضت کے درمیان کبھی نیند یاسستی آجائے تو اس کے لیےنفس کامواخذہ کرے ۔
ترجمہ:قیامت کے دن ہر جان حاضر ہوگی،اچھاکام کرنے والی بھی اور بُرا کام کرنےوالی بھی،اوریہ امید کرےگی، کاش! مجھ میں اور اس میں دور کا فاصلہ ہوتا۔اللہ تمھیں اپنے عذاب سے ڈراتا ہے،اوراللہ بندوں پر مہربان ہے۔
غرض کہ روزہ دار اپنے روزے کی اُن تمام باتوں سے حفاظت کرے جن سے شریعت نے روکا ہے۔
بعض لوگ روزہ صرف اس لیے رکھتے ہیں کہ انھیں رات کو زیادہ کھانا ملے گا اور وہ پیٹ بھر کے کھائیں گے ، حالاںکہ اللہ تعالیٰ نے رو زے کا حکم اس لیے دیاہےتاکہ بندہ متقی ہو جائے اور بندہ متقی اسی وقت ہوگاجب وہ اپنے پیٹ کو بھو کا رکھےگا،چنانچہ روزے میں صبح سے شام تک جو کھانے پینے سے رکنے کا حکم دیا گیا ہے وہ اسی حکمت کے تحت ہے، تاکہ بندہ اپنے نفس کو مقہور کرنے کا عادی ہوجائے۔
اس لیےروزہ دار کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان رات کو کم کھائے،اتنا نہ کھائے کہ اس کا نفس موٹا ہو جائے اور وہ گناہ میں مبتلا ہوجائے۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میںفرمایاگیا ہے کہ بہت سے روزہ دار کو کھانے پینے کے سوا کچھ نہ حاصل ہوگا، کیوں کہ اللہ رب العزت ایسے روزہ دار سے بَری ہے،اس لیے کہ اس کا روزہ صرف کھانے اور پینےکے لیے ہے ، رضائے الٰہی کے حصول کے لیے نہیں ۔
بعض لوگ حلال چیز سے روزہ رکھتے ہیں اور حرام چیز سے افطار کرتے ہیں،حلال کھانے سے روزہ رکھتے ہیں اور غیبت وچغلی کے ذریعے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتے ہیںیاآنکھوں کو نامحرم کی طرف دیکھنے سے نہیں روکتے۔ جس طرح رمضان میں عبادت کرنا غیررمضان میں عبادت کرنے سے مختلف ہے اسی طرح رمضان میں گناہ کرنا غیر رمضان میں گناہ کرنے سے مختلف ہے، اور اِن دونوں کے اجروثواب میں بڑا فرق ہے ،نیزایسا کرنا اپنے نفس پر ظلم کرناہے۔
اللہ تعالیٰ ارشادفرما تا ہے:
فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ(۳۶)(توبہ)روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کانام نہیں بلکہ ہر ہر عضو کو حرام چیزوں سے بچانے کا نام ہے۔ روزہ دار اپنے اوقات کو بیہودہ کلام اور لہوو لعب سے دور رکھے اور اگر کوئی اُسے اُن باتوں کی طرف راغب کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اُسے نیک باتوں کی ترغیب دلائے اور اُن بُری باتوں سے پرہیز کرنے کی تلقین کرے جن باتوں سے منع کیا گیاہے،اور ایسے حالات میں نفس سےیہ کہے کہ اللہ تعالیٰ ارشادفرما تا ہے:
ترجمہ:تم اس مہینے میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (۱۸۶) (بقرہ )
ترجمہ:(اے محبوب!) جب تم سے میرے بندے میرے تعلق سے پوچھیں توآپ فرمادیں کہ میں نزدیک ہوں، میں دعاکرنے والے کی دعاقبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعاکرے۔
تلاوت قرآن
اس عمل کے بعد روزہ داراپنے باقی وقتوںمیں قرآن کریم کی تلاوت کرے اور زیادہ تر قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی کوشش کرے ،کیوں کہ قرآن کریم وہ واحد کتاب ہے کہ بندہ جس قدر اس کی تلاوت کرتاہے اس کی محبت اس کے دل میں اسی قدربیٹھتی جاتی ہے، اس سےمومن اُکتاہٹ محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی اس سے مومن کا دل بوجھل ہو تا ہے۔
حضرت امام شافعی علیہ الرحمہ رمضان میں ۶۰؍بار قرآن کریم مکمل کیا کرتے تھے ۔
اس کے برعکس آج ہر طرف اس سے دوری پائی جاتی ہے، لوگ قرآن کریم کی تلاوت سے روگردانی کر تے ہیں، بلکہ اپنے وقتوں کو لہو و لعب اور غیر شرعی امور انجام دینے میں گزاردیتے ہیں اور اپنے روزے کو ناقص کرتے ہیں ۔اس لیےروزے دار کو چاہیے کہ وہ روزہ کے ایام میں قرآن کریم کی تلاوت کثرت سےکرے اور اپنے آپ کو اس کی فضیلتوں اور برکتوں سے مالا مال کرے ۔
اہل وعیال کو نصیحت جب روزہ دار افطار کرکے مغرب کی نماز سے فارغ ہو، اور گھر لوٹے تو اپنے اہل وعیال کو اچھی باتوں کی نصیحت کرے،مثلاً:اُنھیں قرآن کریم تلاوت کرنے کی ترغیب دے، رمضان میں جوذکرواذکار کیے جاتے ہیںان کی تلقین کرے، اسی طرح افطار کے بعد جو نعمتیں موجود ہوں اُن کے بارے میں یہ بتائے کہ ان پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہم سب کو اِن پاکیزہ اور عمدہ نعمتوں سے نوازاہے ۔
اسی طرح مغرب کے بعدروزہ داراپنے اہل وعیال کے ساتھ بیٹھ کر دینی گفتگو کرے اور ان سے یہ دریافت کرےکہ بیٹے! تم نے آج کادن کیسے گزارا؟تم نے کتنی بار استغفار کی، اور کتنی بار تم نے اللہ تعالیٰ کویادکیا۔
پھریہ بھی پوچھے کہ بیٹے!تمہا را رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ تمہا را نبی کون ہے؟ اخلاص کا کیا معنی ہے؟ یقین کا کیا مطلب ہے ؟اوراسلام کا کیا معنی ہے ؟اس پر خود بھی عمل کرے،اور دوسروں کوبھی عمل کر نے کی ترغیب دے ۔
لیکن آج حالت اس کے بر عکس ہے، آج انسان ایک توروزہ نہیںرکھتا اوراگر رکھتا بھی ہے تو اُ س کا مقصد صرف دن میں کھانے پینے سے رکنا ہو تا ہے، مگروہ خود منع کی ہوئی چیزوںسے پر ہیزنہیں کرتا ہے،تو اپنے اہل و عیال کو اُن سے پرہیز کرنے کی نصیحت کیاکرے گا۔چنانچہ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سرپرست اس کی پابندی کرے اور اپنے اہل وعیال کو اچھی باتوںکا حکم دے اور بری باتوںسے بچنے کی نصیحت کرے ۔ عبادا ت میں خشوع وخضوع کوئی بھی عبادت ہو اگر اس میں خشوع وخضوع نہ ہو تو وہ عبادت بیکا ر ہے، وہ کسی کام کی نہیں۔ روزہ دار اپنی تمام عبادات میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کی کوشش کرے، کیوںکہ خشوع وخضوع سے عبادتوں میں لذت ملتی ہے اور بندے کو فرحت وسرور،پھر جب ایک انسان کی عبادتوں میں خشوع و خضوع پیدا ہوجا تا ہے تواُس سے مندرجہ ذیل کئی فائدے سامنے آتے ہیں: ۱۔ جب بندہ رکوع وسجود کرتا ہے تو اُس کے گناہ زائل ہوجاتے ہیں۔ ۲۔خشوع وخضوع کے اعتبار سے اس کا اجر لکھا جاتا ہے ۔ ۳۔بندے کی نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ہو تی ہے ، اوروہ جو بھی عمل کرتا ہے سمجھ کر کرتا ہے ۔ ۴۔بندہ جب فرض نما ز میں حاضرہوتا ہے ،اچھی طرح وضو کرتا ہے اور اپنےرکوع وسجود میں خشوع وخضوع پیدا کرتا ہے تو یہ نماز اس کے ماقبل کےگناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے۔ ۵۔نماز میں خشوع وخضوع کرنے والا جب نماز سے فارغ ہو تا ہےتواس سے گناہوں کا بوجھ ہٹالیا جاتاہے جس کی وجہ سے بندہ اپنے اندرفرحت وشادمانی محسوس کرتا ہے۔ خلا صۂ کلام یہ کہ ایک روزہ دار کو چاہیے کہ کہ وہ ان تمام باتوں پر عمل کرے ،اور مکمل رمضان اسی طرح گزارنے کی کوشش کرےجس کا حکم دیاگیا ہے۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں