Marfat, Zuhd Aur Ibadat

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-July-2015➤ Sheikh Ahmad Zaruq Maliki                              Download_Pdf 


معرفت، زہدا ورعبادت

حضرت شیخ احمد زروق فاسی مالکی (۸۴۶-۸۹۹ھ)اپنے عہدمیںشریعت وطریقت کے امام گزرے ہیں،آپ کی تصنیفات میںعدۃ المریدالصادق اورقواعدالتصوف امتیازی شان رکھتی ہیں۔خاص طورسے ’’قواعد التصوف‘‘ فقہ و تصوف کے باہمی رشتوں کی وضاحت اورتصوف کے اصول وضوابط کے بیان پر بنیادی حیثیت کی حامل ہے۔
 مولاناضیاء الرحمن علیمی (ا ستاذ جامعہ عارفیہ) اس کا ترجمہ کررہے ہیں۔عوام وخواص کے علمی افادے کی غرض سےیہ ترجمہ ترتیب وار پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

۱۰۔قاعدہ
 معرفت ،زہد وعبادت:ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں،اگرراستے الگ ہوںتو اس کے لیے منزل کا الگ ہونا ضروری نہیں بلکہ کبھی کبھی راستے جداگانہ ہوتے ہیں لیکن منزل ایک ہی ہوتی ہے،مثلاًمعرفت،زہدوعبادت یہ سب کے سب کرامت وبزرگی کی شاہراہ سے نکلنے والی قرب حق کی پگڈنڈیاں ہیں اور سب کا آپس میں گہراتعلق ہے۔چنانچہ عارف کے لیے عبادت ضروری ہے ،کیوںکہ اگر عارف اس ذات کی عبادت نہ کرے جس کی اُسے معرفت حاصل ہے تو اس کی اس معرفت کا کوئی فائدہ نہیں،عابد کے لیے زہد و معرفت دونوں ضروری ہے،اس لیے کہ معرفت کے بغیر عبادت کی کوئی حقیقت نہیں،اور عبادت کے لیے فرصت اسی وقت حاصل ہوگی جب کہ انسان ماسوا سے بے رغبت اور بے توجہ ہوگا، یہی حال زاہد کا ہے کہ اس کے لیے بھی عبادت و معرفت دونوںضروری ہے،کیوں کہ معبود کی معرفت کے بغیر زہد اختیار کرنے کا کیامعنی ،یوںہی اگر زہد ہواور عبادت نہ ہو تواس کی بھی کوئی حقیقت نہیں،کیوں کہ زہد اگر عبادت سے خالی ہوتو یہ بھی بے کار ہے۔
البتہ! ہوتا یہ ہے کہ جس پر عبادت کا غلبہ ہوتا ہے وہ عابد کہلاتاہے، جس پر ماسوا سے بے توجہی اور ترک کا غلبہ ہوتا ہے وہ زاہد کہلاتاہے اور جس پر حق تعالیٰ کے افعال و تصرفات میں تفکر وتدبر کا غلبہ ہوتا ہے وہ عارف کے نام سے جاناجاتا ہے،لیکن اصل وحقیقت کے لحاظ سے یہ سب صوفی ہیں۔

۱۱۔قاعدہ
تصوف کا اہل کون؟ ہر شئے کے اہل ہوتے ہیں ،اس کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے ،اوراس کا ایک محل ہوتا ہے،نیز اس کی ایک حقیقت بھی ہوتی ہے۔
تصوف کا اہل وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سچی توجہ رکھنے والا ہو،یا عارف ومحقق ہو یا تصدیق کرنے والا محب ہویا انصاف پسند طالب ہو یا حقائق سے فائدہ اٹھانے والا عالم ہو یا فقہی وسعتوں سے فیض اٹھانے والا فقیہ ہو۔تصوف کا اہل وہ نہیں ہے جو جہالت پر اَڑا رہنے والا ہویا دعوے کرکے ڈینگ مارنے والاہو،تفکروتدبر کا مخالف ہو یا عام کند ذہن انسان ہویا اعراض کرنے والا برائے نام طالب ہو یاجن اکابر کو وہ جانتا ہواُن کی تقلید پر اَڑا رہنے والا ہو۔

 ۱۲۔قاعدہ
 حق تعالیٰ کا علم سب سے افضل کسی چیزکو کبھی ذاتی شرف حاصل ہوتا ہے تو اس کی طلب بھی بالذات کی جاتی ہے،کبھی وہ چیزمقصد کے لیے نفع بخش ہوتی ہےاس بناپر اس کو شرف وبزرگی حاصل ہوتی ہے تو اس کی طلب بھی اسی حیثیت سے کی جاتی ہے،اور کبھی شرف والی کسی چیز سے اس کا تعلق ہوتا ہےاس وجہ سے اس شئےکو مرتبہ حاصل ہوتا ہے اور ایسی چیز کی طلب کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعےجس شرف والی چیز سے اس کا تعلق ہے اس سے ہمارا بھی تعلق ہوجاتاہے۔اسی وجہ سے کہاگیاہے کہ عمل کے بغیرعلم ایک ایسا وسیلہ ہے جس کا کوئی مقصود نہیں،اور علم کے بغیر عمل ایک جرم ہے۔
علم کے ذرائع میں عقل سب سے افضل ذریعہ ہے اور حق تعالیٰ کا علم اور اس کی معرفت تمام علوم میں سب سے زیادہ فضیلت والا ہے،اس لیے کہ یہ علم تمام علوم میں سب سے زیادہ عظمت والاہے،اور جو علم مقصود لذاتہ ہوتا ہے وہی افضل ہوتاہے،کیوںکہ وہ حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہوتا ہے،جیسے ہیبت اور اُنس باللہ وغیرہ کا علم۔
چنانچہ جس شخص کے علم کا نتیجہ عمل کی شکل میں ظاہرنہ ہو وہ علم اس کے لیے وبال جان ہے فائدہ مند نہیں،اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اگر اس علم کا تعلق پورےطورپر عمل سے ہو،تو عمل نہ ہونے کی صورت میں وہ علماکے زمرےسے خارج ہوجائے،اگرچہ اس کا تعلق اصولی چیزوں سے نہ ہو،بلکہ فروع وکمالات سے ہو۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0