Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-July-2015➤
Iftikhar Alam Saeedi Download_Pdf
رمضان میں بندگی کا مشاہدہ
رمضان کا پوارا مہینہ سنتوں سے گھرا ہوا ہے۔اس مہینے میں بندہ اپنی بندگی کا مشاہدہ کرتاہے ،اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہےاوریہی احساس کی شدت اس کو مشاہدے کے مقام پر فائز کردیتی ہے۔اس طور سے کہ وہ رمضان میں نفسانی خواہشات سے پاک ہوتا ہے ،اور تقویٰ و طہارت اختیارکرتاہے، اگرچہ چند ہی دنوں کے لیے سہی ،پھر دن میں روزہ رکھنےاوررات میںقیام کرنے کی وجہ سے بندے کے اخلاق بلند ہوتے ہیں ۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ روزہ بندے کی پوری زندگی کوبدل کررکھ دیتاہے ،اوراس کو کھانے پینے اور شہوت سے روک کر اُس کے اندر ملکوتی صفات پیدا کر دیتا ہے ، لہٰذا بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزے کی نورانیت کی وجہ سے اپنے قلب میں حلاوت محسوس کرے ، لیکن یہ حلاوت ایک خاص مجاہدہ و ریاضت کاتقاضا کرتی ہے،کیوں کہ اس کے بغیر مشاہدے کی لذت و حلاوت ممکن نہیں، اور جو لوگ رمضان کے روزے کی پوری رعایت کرتے ہوئے اس کی پابندی کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل مشاہدے سے سرفراز ہوتے ہیں:
۱۔ توحید کا مشاہدہ
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
۲۔ صبرو شکر کا مشاہدہ
صبر اور شکر دین کے دو حصے ہیں، پھر صبر کی کئی قسمیں ہیں،مثلاً: طاعت پر صبر ، معصیت پر صبر اورمصیبت میں صبر ، اسی طرح شکر کے بھی کئی اقسام ہیں،مثلاً: ہمیشگی کی نعمت پر شکر ، نئی نعمت پر شکر ، اتفاقی نعمت پر شکر ، اسی طرح بلاؤں کے ٹلنے پر شکر ، نیکی کرنے پر شکر ، او ر اس کے علاوہ دیگرنعمتوںپر شکر۔
رمضان کی عظمت و اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ بندہ ہر دن شرفِ بندگی سے مشرف ہو تا ہے، اس لیے کہ وہ دن میں روزہ رکھتا ہے جو صبرکاتقاـضاکرتاہے ، اور صبر طاعت و عبادت کے لیےلازم ہے۔ نیز بندہ اسی وقت معصیت سے بھی صبر کرتا ہے جب وہ روزہ دار ہوتا ہے ، مثلاً:اس کے سامنے کھانا پینا حاضر ہوتاہے اور کھانے پر قادربھی ہوتا ہے،اس کے باوجودوہ کھانے پینے سے خودکوروکتاہےاور صبرسے کام لیتا ہے، پھر اپنی یہ حالت دیکھ کر بندے کو اُن محرو م و معذور لوگو ںکا خیال آتا ہے جو غربت و افلاس کی وجہ سے دو وقت کی روٹی سے بھی محروم رہتے ہیں ،اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اللہ کا احسان مند ہوتاہے،اس کا شکر بجا لاتا ہےاور فضل الٰہی کا حق دار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
۳۔قبض و بسط کا مشاہدہ
جب سالک خوف وامیدکی کیفیات سے ترقی کرتا ہے تو اس پر قبض و بسط کی حالتیں طاری ہونے لگتی ہیں جن کا تعلق حال کے زمانے سے ہوتا ہے، بسط دراصل وارداتِ قلبی کا نام ہے جو غیب سے بندے کے قلب پر وارد ہوتی ہیں اور یہی کیفیات و واردات جب رک جاتی ہیں تو اس حالت کو قبض کہا جاتا ہے۔
۴۔ حسن خلق کا مشاہدہ
بندہ روزے کی حالت میں مختلف طریقے سے اخلاق حسنہ اورحسن سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے،مثلاً:
۱۔روزہ دار کا نفس پرسکون رہتا ہے،اور اس کی طبیعت احترام ِروزہ میں نرم رہتی ہے، گویا وہ مراقبے میں ہوتا ہے۔
۲۔روزہ دارفسق و فجور نہیں کرتااور نظریاتی وعملی طور پر وہ ادب ِالٰہی کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا، بلکہ ہمیشہ ادب کے دائرے میں رہتا ہے۔
۳۔ روزہ دار شور و غل نہیں کرتا، اس لیے کہ روزہ سکون و طمانیت قلب کا نام ہے۔
۴۔روزہ دار نادان یا جاہل نہیں ہوتا ،کیوں کہ جہل دراَصل معصیت کا نام ہے ،اور ہر وہ چیز جس سے اللہ رب العزت کی نافرمانی ہو وہ جہل ہے، اورہر نافرمان جاہل ہے،چوں کہ روزہ دارجاہل نہیں ہوتا،اس لیے وہ رمضان میں نافرمانی نہیں کرتا، اور اگرکبھی نافرمانی کرنے کے آثار ظاہربھی ہوتے ہیں تو وہ یہ کہہ دیتاہے کہ میں روزہ دار ہوں۔
۵۔جب کوئی کسی ر وزےدار کو ستائےیا مارے تو وہ بدلہ نہ لے، بلکہ اسلامی طریقے سےبرأت کا اظہار کردے ، اوربرأت کا اظہار یہ ہے کہ برائی کا بدلہ بھی اچھائی کے ذریعے دیاجائے۔
اس تعلق سے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
۵۔ زہد کا مشاہدہ
اللہ تعالیٰ نے سال میں ایک مہینے کا روزہ فرض کیا ہے ، تاکہ بندہ یہ جان لے کہ دنیاکی قدروقیمت کیا ہے،نیز کھانے پینے اور شہوت کی حقیقت کیا ہے۔
علمائے کرام نےزہد کی چار قسمیں بیان کی ہیں:
پہلازہد فرض ہے، جس کی بجا آوری ہر مسلمان پر لازم ہے ، اور وہ یہ ہے کہ محرمات سے پرہیز کیاجائے ۔
دوسرازہد مستحب ہے، وہ یہ ہےکہ حسب استطاعت مکروہات و فضولیات سے پرہیز کیا جائے۔
تیسرا زہد خواص کا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضاو خوشنودی حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔
اس کی مثال خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ کی ذات تھی کہ یہ لوگ دنیاوی معاملات نبھاتے رہے ، اس کے باوجود اُن کے دلوں میں دنیا کی محبت رائی کے دانے کے برابر بھی نہ تھی۔
چوتھا نفس کا زہد ہے،یہ سب سے مشکل کام ہے، بہت سے زاہدین اس طرف بڑھے ، لیکن ثابت قدم نہ رہ سکے۔
۶۔ ایثار و قربانی کا مشاہدہ
بندہ رمضان میں کثرت سے صدقات و خیرات کرتا ہے،بلکہ آج زکاۃ بھی عموماً رمضان میں ہی نکالی جاتی ہے، اس طرح بندے کا یہ پورامہینہ مکمل طورسے ایثار و قربانی میں گزرتا ہے،اورایثار و قربانی کرنے سے بندےکا نفس حرص و طمع اور لالچ سے پاک رہتا ہے، گویا بندہ ایک اعتبار سے لالچ سے بچنے کے لیے مجاہدےمیں لگا رہتا ہے،اورجس شخص نے دنیا میں اپنے نفس کو لالچ سے بچا لیا وہ کامیاب وکامران ہے ۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
غرض کہ بندگی کا مشاہدہ ان ہی چیزو ں میں پوشیدہ ہےکہ بندہ ہمہ وقت اللہ رب العزت کی وحدانیت ، اس کی ذات و صفات اوراس کی رحمت و مغفرت کی طر ف متوجہ رے، صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارے، مخلوق کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہر کرے، دنیا میں زہدو ورع کی زندگی گزارے، اللہ کی راہ میں ایثار و قربانی پیش کرے اور آخرت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے مقاصد طے کرے ۔ یہ سارے اعمال ایک مومن کواس بات کا احساس دلا دیتے ہیں کہ وہ اللہ کی بندگی کررہا ہے اور اسی کا نام مشاہدۂ بندگی ہے۔ بالخصوص رمضان میں یہ سارے اعمال ایک مومن شعوری یا غیر شعوری طور پر بجالاتا ہے ،اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ ایک مومن کے لیے نعمت عظمیٰ ہے ، اس کی قدر ہر مسلمان کو کرنی چاہیے۔
رمضان میں بندگی کا مشاہدہ
رمضان شریف کا مہینہ ایک مومن کے لیے نعمت عظمیٰ ہے ، اس کی قدر ہر مسلمان کو کرنی چاہیے
رمضان کا پوارا مہینہ سنتوں سے گھرا ہوا ہے۔اس مہینے میں بندہ اپنی بندگی کا مشاہدہ کرتاہے ،اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہےاوریہی احساس کی شدت اس کو مشاہدے کے مقام پر فائز کردیتی ہے۔اس طور سے کہ وہ رمضان میں نفسانی خواہشات سے پاک ہوتا ہے ،اور تقویٰ و طہارت اختیارکرتاہے، اگرچہ چند ہی دنوں کے لیے سہی ،پھر دن میں روزہ رکھنےاوررات میںقیام کرنے کی وجہ سے بندے کے اخلاق بلند ہوتے ہیں ۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ روزہ بندے کی پوری زندگی کوبدل کررکھ دیتاہے ،اوراس کو کھانے پینے اور شہوت سے روک کر اُس کے اندر ملکوتی صفات پیدا کر دیتا ہے ، لہٰذا بندے کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزے کی نورانیت کی وجہ سے اپنے قلب میں حلاوت محسوس کرے ، لیکن یہ حلاوت ایک خاص مجاہدہ و ریاضت کاتقاضا کرتی ہے،کیوں کہ اس کے بغیر مشاہدے کی لذت و حلاوت ممکن نہیں، اور جو لوگ رمضان کے روزے کی پوری رعایت کرتے ہوئے اس کی پابندی کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل مشاہدے سے سرفراز ہوتے ہیں:
۱۔ توحید کا مشاہدہ
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ هُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَ لَاتَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۴) (انعام)بندے کے لیے توحید کامشاہدہ یہی ہے کہ وہ اپنے رب کی عظمت، بے نیازی اور اس کی قدرت کا مشاہدہ ہر لمحہ کرتا رہے۔روزے کی مداومت کی وجہ سے یہ ساری چیزیں رمضان میں مزید قوی ہو جا تی ہیں ،اور بندہ ان دنوں خود کو عاجزو منکسر گردانتا ہے۔ مذکورہ تمام چیزیں توحیداور اس کے مشاہدے میں معاون و مددگار ہوتی ہیں ۔ماہ رمضان میں توحید کا مشاہدہ تمام مشاہدوں میں افضل ہے، تمام منافع سے زیادہ ہے اور بہترین سے بہترین اجرہے۔
ترجمہ:(اے محبوب!)آپ فرمادیںکہ کیا اللہ کے سو ا کسی اور کو دوست بناؤں، وہ اللہ جس نے زمین و آسما ن کو پیدا کیا ،وہ کھلاتاہے ،او رخود کھانے سے پا ک ہے ،آپ فرمادیں کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے میں سرجھکاؤں اور شرک کرنے والو ں میں سے ہر گز نہ ہونا۔
۲۔ صبرو شکر کا مشاہدہ
صبر اور شکر دین کے دو حصے ہیں، پھر صبر کی کئی قسمیں ہیں،مثلاً: طاعت پر صبر ، معصیت پر صبر اورمصیبت میں صبر ، اسی طرح شکر کے بھی کئی اقسام ہیں،مثلاً: ہمیشگی کی نعمت پر شکر ، نئی نعمت پر شکر ، اتفاقی نعمت پر شکر ، اسی طرح بلاؤں کے ٹلنے پر شکر ، نیکی کرنے پر شکر ، او ر اس کے علاوہ دیگرنعمتوںپر شکر۔
رمضان کی عظمت و اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ بندہ ہر دن شرفِ بندگی سے مشرف ہو تا ہے، اس لیے کہ وہ دن میں روزہ رکھتا ہے جو صبرکاتقاـضاکرتاہے ، اور صبر طاعت و عبادت کے لیےلازم ہے۔ نیز بندہ اسی وقت معصیت سے بھی صبر کرتا ہے جب وہ روزہ دار ہوتا ہے ، مثلاً:اس کے سامنے کھانا پینا حاضر ہوتاہے اور کھانے پر قادربھی ہوتا ہے،اس کے باوجودوہ کھانے پینے سے خودکوروکتاہےاور صبرسے کام لیتا ہے، پھر اپنی یہ حالت دیکھ کر بندے کو اُن محرو م و معذور لوگو ںکا خیال آتا ہے جو غربت و افلاس کی وجہ سے دو وقت کی روٹی سے بھی محروم رہتے ہیں ،اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اللہ کا احسان مند ہوتاہے،اس کا شکر بجا لاتا ہےاور فضل الٰہی کا حق دار ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷) (ابراہیم)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
ترجمہ: یاد کرو جب تمہارے رب نے فرما دیا کہ اگر تم احسان مانو گے تو میں تمھیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے۔
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهٗ كُلَّهٗ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهٗ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَہٗ۔(مسلم،باب المومن امرہ کلہ خیر)
ترجمہ:مومن کے معاملات بڑے عجیب ہیں ،اس کے تمام معاملا ت اچھے ہوتے ہیں،اور یہ صرف مومن کی خوبی ہے،اگر اس کو کوئی خوشی حاصل ہو،اوراس پر وہ شکر اداکرے تویہ اس کے لیے خیرہے، اور اگر کبھی وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو ،اس پر صبر کر ے تویہ بھی اس کے لیے خیر ہے۔
۳۔قبض و بسط کا مشاہدہ
جب سالک خوف وامیدکی کیفیات سے ترقی کرتا ہے تو اس پر قبض و بسط کی حالتیں طاری ہونے لگتی ہیں جن کا تعلق حال کے زمانے سے ہوتا ہے، بسط دراصل وارداتِ قلبی کا نام ہے جو غیب سے بندے کے قلب پر وارد ہوتی ہیں اور یہی کیفیات و واردات جب رک جاتی ہیں تو اس حالت کو قبض کہا جاتا ہے۔
۴۔ حسن خلق کا مشاہدہ
بندہ روزے کی حالت میں مختلف طریقے سے اخلاق حسنہ اورحسن سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے،مثلاً:
۱۔روزہ دار کا نفس پرسکون رہتا ہے،اور اس کی طبیعت احترام ِروزہ میں نرم رہتی ہے، گویا وہ مراقبے میں ہوتا ہے۔
۲۔روزہ دارفسق و فجور نہیں کرتااور نظریاتی وعملی طور پر وہ ادب ِالٰہی کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا، بلکہ ہمیشہ ادب کے دائرے میں رہتا ہے۔
۳۔ روزہ دار شور و غل نہیں کرتا، اس لیے کہ روزہ سکون و طمانیت قلب کا نام ہے۔
۴۔روزہ دار نادان یا جاہل نہیں ہوتا ،کیوں کہ جہل دراَصل معصیت کا نام ہے ،اور ہر وہ چیز جس سے اللہ رب العزت کی نافرمانی ہو وہ جہل ہے، اورہر نافرمان جاہل ہے،چوں کہ روزہ دارجاہل نہیں ہوتا،اس لیے وہ رمضان میں نافرمانی نہیں کرتا، اور اگرکبھی نافرمانی کرنے کے آثار ظاہربھی ہوتے ہیں تو وہ یہ کہہ دیتاہے کہ میں روزہ دار ہوں۔
۵۔جب کوئی کسی ر وزےدار کو ستائےیا مارے تو وہ بدلہ نہ لے، بلکہ اسلامی طریقے سےبرأت کا اظہار کردے ، اوربرأت کا اظہار یہ ہے کہ برائی کا بدلہ بھی اچھائی کے ذریعے دیاجائے۔
اس تعلق سے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَ لَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّیِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ(۳۴) (حٰم سجدہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ:نیکی اور بدی برابر نہیں ہے،بُرائی کو بھلائی سے دور کرو،اس لیے کہ ایسا کرنے سے تمہارے اور تمہارے دشمنوں کے درمیان ایسی گہری دوستی ہو جائے گی گویا کبھی دشمنی ہی نہ تھی ۔
وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ، فَلَاَیَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَسْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهٗ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهٗ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ۔ (مسلم،باب فضل الصیام)
یعنی روزہ ڈھال ہے ، جس دن تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تواُس دن وہ جماع نہ کرے،شورشرابہ نہ کرےاور کوئی نادانی نہ کرے، پھراگر کوئی اس سے گالی گلوج کرے یا اس سے لڑائی کرناچاہے تو اُسے کہہ دینا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں۔
۵۔ زہد کا مشاہدہ
اللہ تعالیٰ نے سال میں ایک مہینے کا روزہ فرض کیا ہے ، تاکہ بندہ یہ جان لے کہ دنیاکی قدروقیمت کیا ہے،نیز کھانے پینے اور شہوت کی حقیقت کیا ہے۔
علمائے کرام نےزہد کی چار قسمیں بیان کی ہیں:
پہلازہد فرض ہے، جس کی بجا آوری ہر مسلمان پر لازم ہے ، اور وہ یہ ہے کہ محرمات سے پرہیز کیاجائے ۔
دوسرازہد مستحب ہے، وہ یہ ہےکہ حسب استطاعت مکروہات و فضولیات سے پرہیز کیا جائے۔
تیسرا زہد خواص کا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضاو خوشنودی حاصل کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔
اس کی مثال خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ کی ذات تھی کہ یہ لوگ دنیاوی معاملات نبھاتے رہے ، اس کے باوجود اُن کے دلوں میں دنیا کی محبت رائی کے دانے کے برابر بھی نہ تھی۔
چوتھا نفس کا زہد ہے،یہ سب سے مشکل کام ہے، بہت سے زاہدین اس طرف بڑھے ، لیکن ثابت قدم نہ رہ سکے۔
۶۔ ایثار و قربانی کا مشاہدہ
بندہ رمضان میں کثرت سے صدقات و خیرات کرتا ہے،بلکہ آج زکاۃ بھی عموماً رمضان میں ہی نکالی جاتی ہے، اس طرح بندے کا یہ پورامہینہ مکمل طورسے ایثار و قربانی میں گزرتا ہے،اورایثار و قربانی کرنے سے بندےکا نفس حرص و طمع اور لالچ سے پاک رہتا ہے، گویا بندہ ایک اعتبار سے لالچ سے بچنے کے لیے مجاہدےمیں لگا رہتا ہے،اورجس شخص نے دنیا میں اپنے نفس کو لالچ سے بچا لیا وہ کامیاب وکامران ہے ۔
اللہ رب العزت کاارشاد ہے:ایثار و قربانی کرنے میں بندگی ہے اور جس قدر بندگی میں تسلسل قائم رہتاہے اسی قدر بندےکے اندر ملکوتی صفات پیدا ہوتی ہیں۔رمضان کی برکت سے بندہ یہ ملکوتی صفات حاصل کر لیتا ہے، اگرچہ چند دنوں کے لیے ہی سہی۔ اس سے وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ ایثار و قربانی کی حقیقت کا مشاہدہ کرسکے ، ورنہ انسان کنجوس واقع ہوا ہے۔
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۹) (حشر)
یعنی جو خود کولالچ سے بچالے گیا وہی کامیاب ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا(۱۰۰) (بنی اسرائیل)اسی لیے اللہ رب العزت نے پورےرمضان کو اسی مرض کے خاتمےکے لیے وقف کررکھا ہے،اس کی برکت سے انسان اپنی عادت کے خلاف کام کرتا ہے اور اسی کا نام ایثار ہے۔ایک قابل غوربات یہ بھی ہے کہ ایثار کا تعلق یا تو مخلوق سے ہوگا یا خالق سے،اگر اس کاتعلق مخلوق سے ہے تو اس میںکمال یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو مخلوق کےماتحت کردے، بلفظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سالک مخلوق کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دےلیکن ایک سالک کے لیے یہ بڑا مشکل ہے کہ وہ اپنی خواہش کے سامنے مخلوق کی خواہش کو ترجیح دے،باوجود کہ فلاح اسی میں ہے،اور اگر ایثار کا تعلق خالق سے ہے تو اس میں کما ل یہ ہے کہ سالک اللہ رب العزت کی رضا پر راضی رہے اوراس کی محبت کے سامنے ہرچیزکی محبت کو ہیچ گردانے۔
ترجمہ:(اے محبوب!)آپ فرمایںکہ اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اُنھیں بھی تم اس خوف سے روک رکھتےکہ کہیں خرچ نہ ہوجائیں،کیوں کہ انسان بڑاکنجوس ہے۔
غرض کہ بندگی کا مشاہدہ ان ہی چیزو ں میں پوشیدہ ہےکہ بندہ ہمہ وقت اللہ رب العزت کی وحدانیت ، اس کی ذات و صفات اوراس کی رحمت و مغفرت کی طر ف متوجہ رے، صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارے، مخلوق کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کا مظاہر کرے، دنیا میں زہدو ورع کی زندگی گزارے، اللہ کی راہ میں ایثار و قربانی پیش کرے اور آخرت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے مقاصد طے کرے ۔ یہ سارے اعمال ایک مومن کواس بات کا احساس دلا دیتے ہیں کہ وہ اللہ کی بندگی کررہا ہے اور اسی کا نام مشاہدۂ بندگی ہے۔ بالخصوص رمضان میں یہ سارے اعمال ایک مومن شعوری یا غیر شعوری طور پر بجالاتا ہے ،اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ ایک مومن کے لیے نعمت عظمیٰ ہے ، اس کی قدر ہر مسلمان کو کرنی چاہیے۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں