Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-July-2015➤
Muhammad hashim Quadri Misbahi Download_Pdf
روزہ اور تربیت نفس
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
اس کاایک یہ بھی مفہوم بتایا گیا ہے کہ انسان میں نیکی اور برائی دونوں کرنے کی صلاحیتیں موجود ہیں، اب اس کی مرضی کہ وہ نیکی کو پسند کرتا ہے یا بُرائی کو اختیار کرتا ہے۔ تزکیۂ نفس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
عقلمنداور ہوشیاروہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابومیں رکھے، موت کے بعدکےلیے بھی عمل کرے،اورعاجز وبے بس وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات کا غلام ہو،اوراللہ تعالیٰ سےثواب و مغفرت کی آرزو بھی رکھے۔
روزے کاشرعی مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اورازدواجی تعلقات سے رک جائے،کیوںکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ روزہ دار ایک متعین وقت تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے پرہیز کرکے فرشتوں کی مشابہت کرلے اور اپنے اندرفرماں برداری اور تقویٰ شعاری پیدا کرے ،روزہ قربت الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ،اور اسی روزے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انبیاو مرسلین کو انعامات واکرامات اوراپنے ساتھ ہم کلامی سےبھی نوازاہے۔
احادیث کریمہ میں موجود ہے کہ جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طورپر توریت لینے جاتے رہےروزہ دار رہے، پھرجب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل عطا ہوئی تواُنھوں نے بھی چالیس دن اوررات روزہ رکھااوریہی حال حضور نبی کریم ، خاتم المرسلین حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا، یعنی آپ مسلسل ایک ماہ تک ہر چیزسے بے نیاز ہوکر صرف رضائے الٰہی کے حصول میں مصروف رہے ،تب حضرت جبرئیل کتاب ہدایت لے کر حاضر ہوئے۔
روزے کا مقصد یہ نہیں کہ صرف کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رُکاجائے،بلکہ اس کے ساتھ ہی اپنے اندر طاعت ِ الٰہی او رفرماں برداری کی کیفیت پیدا کرنا بھی مقصود ہے، اگر یہ کیفیت نہیں پیدا ہوتی ہے تو بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ روزہ، روزہ نہیں بلکہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنا ہے اور اپنےآپ کو دھوکا دینا ہے، کیوں کہ اللہ کو ایسے بھوکوں پیاسوں کی ضرورت نہیں۔
مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
روزہ کی حکمتیں
قرآن مجید سے یہ واضح ہوتاہے کہ روزے کے تین بنیادی مقاصد ہیں:
۱۔تقویٰ ،یعنی اللہ تعالیٰ کاخوف رکھنا
۲۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر اس کی عظمت کا اظہارکرنا
۳۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکریہ ادا کرنا
ارشاد ربانی ہے :
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
روزےکا تیسرا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑائے اوراپنی خطاؤںپر معافی طلب کرے ، نیز اللہ کا خوف اس کے دل میں رچ بس جائے۔ماہِ رمضان دعا کی قبولیت کا موسم ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادتیں چھوڑدو، اور روزہ داروں کی دعاؤں پر آمین کہو۔ اورایساکیوں نہ ہوکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے، کسی کے گناہ کتنےہی زیادہ ہوں،جب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرمسار ہوکر گڑگڑا تا ہے تو مولائے رحیم اسے اپنے دامنِ عفو میں چھپا لیتا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
روزے کی اصل
روزے کے شرعی مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان کو بھوک اور پیاس کی حالت میں رکھ کر اُسے صبر و تحمل کا عادی بنایا جائے،تاکہ اگرکوئی انسان کسی انسان کی تحقیر و تذلیل کرے تووہ صبر و تحمل سے کام لےاوراُسے نظر انداز کردے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
تم میں سے جب کوئی روزے سے ہوتو اپنی زبان سے بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شورو ہنگامہ کرے ،اور اگر کوئی اُس سے گالی گلوج کرے یا مرنے مارنے پر آمادہ ہو تو اُس روزہ دار کو سوچنا چاہیے کہ میں تو روزہ دار ہوں،گالی گلوج یا لڑائی کیسےکر سکتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
روزہ رکھنے کا ایک مقصدیہ بھی ہے کہ بندہ اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کرے،اپنےجذبات و خواہشات پرقابو رکھے ،اورخوف الٰہی کے ساتھ اپنے اندر تقویٰ وطہارت پیدا کرے ،کیوں کہ یہی روزے کی اصل ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
صرف کھانا پینا چھوڑدینے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ روزہ دار بیہودہ باتوں اور بُرے کاموں سے بھی پرہیز کرے۔ (سنن کبریٰ ازبیہقی )
اور جب بندے کے اندرتقویٰ وطہارت کی کیفیت پیداہوجائے گی تو ہر عمل مقبول ومحمود ہوگا کیوں کہ یہی عمل قبولیت کی بنیاد ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
چنانچہ اس کی فرماں برداری کی جائےاورنافرمانی سے بہرحال محفوظ رہاجائے،اس کوہمیشہ یادکیا جائے بھلایا نہ جائے اور اس کا شکریہ ادا کیا جائے ناشکری نہ کی جائے، اور روزے کابنیادی مقصدبھی یہی ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے خوف رکھے اور بالخصوص روزے کی حالت میں ہرطرح کی برائیوں سے الگ رہے۔
روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بندے کو ظاہری اور باطنی پاکیز گی حاصل ہو۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد کلامی، غیبت، لعن طعن اور جھوٹ و بہتان سےمکمل طور پر بچنے کاحکم دیا ہے،آپ فرماتے ہیں:
روزہ دار صبح سے شا م تک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتا ہے، جب تک کہ وہ کسی کی غیبت نہ کرے ، کیوںکہ جب وہ کسی کی غیبت کرنے بیٹھتا ہے تو اُس کے روزے میں شگاف پڑ جاتا ہے۔
اس لیے روزے کی حالت میں بطورخاص زبان پر قابو رکھناچاہیے،اگرزبان پرکچھ لائے بھی توصرف اور صرف نیک و جائز باتیں ہی ہوں،مثلاً تلاوت قرآن ، درود شریف کاورد ، نعتوںکی نغمگی،دین کی باتیں وغیرہ۔
ساتھ ہی زیادہ باتیں کرنے ،فضول خرچ کرنے اور سوال سےبھی محفوظ رہے ،کیوںکہ ایسے لوگ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین لوگ نا پسندیدہ ہیں:
۱۔ زیادہ باتیں کرنے والا
۲۔ فضول خرچ کرنے والا
۳۔زیادہ سوال کرنے والا۔
اس کے باوجوداگر کوئی شخص اس مہینے کی برکتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا،نورِہدایت نہیں پاتااوراپنی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لاتاتو قرآن کریم کے الفاظ میں ایسے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں
روزہ اور تربیت نفس
روزہ دارہمیشہ عبادت الٰہی میں رہتاہے،لیکن جب وہ غیبت کرتا ہے تواُس کے روزے میں نقص آجاتاہے
اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے:
وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا(۷) فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا(۸) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(۱۰) (شمس)اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو نیک و بد، حق و باطل اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے کا شعور عطا فرمایا ہے، وہ اچھی اور بُری ہرچیزمیں پوری طرح سےفرق کرسکتا ہے۔
ترجمہ :نفس کی اور اس کو درست کرنے والے کی قسم! جس نےاس کے دل میں نافرمانی اور پارسائی کوڈال دیا،وہ فلاح پا گیاجس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اوروہ نامراد ہوا جس نے اس کو خاکستر کردیا۔
اس کاایک یہ بھی مفہوم بتایا گیا ہے کہ انسان میں نیکی اور برائی دونوں کرنے کی صلاحیتیں موجود ہیں، اب اس کی مرضی کہ وہ نیکی کو پسند کرتا ہے یا بُرائی کو اختیار کرتا ہے۔ تزکیۂ نفس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
عقلمنداور ہوشیاروہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابومیں رکھے، موت کے بعدکےلیے بھی عمل کرے،اورعاجز وبے بس وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات کا غلام ہو،اوراللہ تعالیٰ سےثواب و مغفرت کی آرزو بھی رکھے۔
روزے کاشرعی مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اورازدواجی تعلقات سے رک جائے،کیوںکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ روزہ دار ایک متعین وقت تک کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے پرہیز کرکے فرشتوں کی مشابہت کرلے اور اپنے اندرفرماں برداری اور تقویٰ شعاری پیدا کرے ،روزہ قربت الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے ،اور اسی روزے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انبیاو مرسلین کو انعامات واکرامات اوراپنے ساتھ ہم کلامی سےبھی نوازاہے۔
احادیث کریمہ میں موجود ہے کہ جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طورپر توریت لینے جاتے رہےروزہ دار رہے، پھرجب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل عطا ہوئی تواُنھوں نے بھی چالیس دن اوررات روزہ رکھااوریہی حال حضور نبی کریم ، خاتم المرسلین حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تھا، یعنی آپ مسلسل ایک ماہ تک ہر چیزسے بے نیاز ہوکر صرف رضائے الٰہی کے حصول میں مصروف رہے ،تب حضرت جبرئیل کتاب ہدایت لے کر حاضر ہوئے۔
روزے کا مقصد یہ نہیں کہ صرف کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رُکاجائے،بلکہ اس کے ساتھ ہی اپنے اندر طاعت ِ الٰہی او رفرماں برداری کی کیفیت پیدا کرنا بھی مقصود ہے، اگر یہ کیفیت نہیں پیدا ہوتی ہے تو بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ روزہ، روزہ نہیں بلکہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنا ہے اور اپنےآپ کو دھوکا دینا ہے، کیوں کہ اللہ کو ایسے بھوکوں پیاسوں کی ضرورت نہیں۔
مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالعَمَلَ بِهٖ، فَلَيْسَ لِلهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَّدَعَ طَعَامَهٗ وَشَرَابَهٗ۔ (صحیح بخاری،باب کتاب الصوم)
ترجمہ: جو شخص روزے کی حالت میں بھی جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تواللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ صرف بھوکا اور پیاسارہے۔
روزہ کی حکمتیں
قرآن مجید سے یہ واضح ہوتاہے کہ روزے کے تین بنیادی مقاصد ہیں:
۱۔تقویٰ ،یعنی اللہ تعالیٰ کاخوف رکھنا
۲۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر اس کی عظمت کا اظہارکرنا
۳۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکریہ ادا کرنا
ارشاد ربانی ہے :
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاكُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۸۳) (بقرہ)روزےکادوسرا مقصدیہ ہے کہ بندہ اورقرآن کریم کے درمیان رشتہ مضبوط ہوجائے، کیوں کہ رمضان مبارک کو قرآن کریم سے ایک خصوصی مناسبت اور گہرا تعلق ہے،یہی وہ مبارک مہینہ ہے جس میں انسانی ہدایت کے لیے قرآن کا نزول ہوا۔
ترجمہ:اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیا کے ماننے والوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پر ہیزگار بن جاؤ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَ الْفُرْقَانِ(۱۸۵)(بقرہ)یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں تلاوت کا خصوصی اہتمام فرماتے،اورحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رمضان کی ہر رات حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آتے اور قرآن مجید کا دور کرتے ۔
ترجمہ:یہ رمضان کامہینہ ہے جس میںلوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیےقرآن کریم نازل ہوا،اس میں ہدایت اور فیصلے کی روشن باتیں ہیں۔
روزےکا تیسرا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑائے اوراپنی خطاؤںپر معافی طلب کرے ، نیز اللہ کا خوف اس کے دل میں رچ بس جائے۔ماہِ رمضان دعا کی قبولیت کا موسم ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادتیں چھوڑدو، اور روزہ داروں کی دعاؤں پر آمین کہو۔ اورایساکیوں نہ ہوکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے، کسی کے گناہ کتنےہی زیادہ ہوں،جب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرمسار ہوکر گڑگڑا تا ہے تو مولائے رحیم اسے اپنے دامنِ عفو میں چھپا لیتا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْهِ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ(۹۰) ( ہود)
ترجمہ: اپنے پروردگار سے مغفرت چاہو، اور اس کی طرف متوجہ رہو، یقیناً میرا رب بڑا ہی رحیم محبت فرمانے والا ہے۔
روزے کی اصل
روزے کے شرعی مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان کو بھوک اور پیاس کی حالت میں رکھ کر اُسے صبر و تحمل کا عادی بنایا جائے،تاکہ اگرکوئی انسان کسی انسان کی تحقیر و تذلیل کرے تووہ صبر و تحمل سے کام لےاوراُسے نظر انداز کردے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
تم میں سے جب کوئی روزے سے ہوتو اپنی زبان سے بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شورو ہنگامہ کرے ،اور اگر کوئی اُس سے گالی گلوج کرے یا مرنے مارنے پر آمادہ ہو تو اُس روزہ دار کو سوچنا چاہیے کہ میں تو روزہ دار ہوں،گالی گلوج یا لڑائی کیسےکر سکتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
روزہ رکھنے کا ایک مقصدیہ بھی ہے کہ بندہ اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کرے،اپنےجذبات و خواہشات پرقابو رکھے ،اورخوف الٰہی کے ساتھ اپنے اندر تقویٰ وطہارت پیدا کرے ،کیوں کہ یہی روزے کی اصل ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
صرف کھانا پینا چھوڑدینے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ روزہ دار بیہودہ باتوں اور بُرے کاموں سے بھی پرہیز کرے۔ (سنن کبریٰ ازبیہقی )
اور جب بندے کے اندرتقویٰ وطہارت کی کیفیت پیداہوجائے گی تو ہر عمل مقبول ومحمود ہوگا کیوں کہ یہی عمل قبولیت کی بنیاد ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
اِنَّمَا یَتَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ(۲۷)(مائدہ)مزیددنیاوآخرت میں فضیلت و کامیابی کا معیار بھی تقویٰ کو بنایاگیاہے ، کسی خاندان میں پیدا ہونا ، کسی ملک کا بادشاہ ہونا اور خوبصورت سے خوبصورت ہوناوجہ افتخاروعظمت قرارنہیں دیاگیا۔اسی لیے اللہ رب العزت سے کماحقہ ڈرنے کا حکم ہے۔
ترجمہ: اللہ متقیوں کا ہی عمل قبول فرماتا ہے۔
چنانچہ اس کی فرماں برداری کی جائےاورنافرمانی سے بہرحال محفوظ رہاجائے،اس کوہمیشہ یادکیا جائے بھلایا نہ جائے اور اس کا شکریہ ادا کیا جائے ناشکری نہ کی جائے، اور روزے کابنیادی مقصدبھی یہی ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے خوف رکھے اور بالخصوص روزے کی حالت میں ہرطرح کی برائیوں سے الگ رہے۔
روزے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بندے کو ظاہری اور باطنی پاکیز گی حاصل ہو۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد کلامی، غیبت، لعن طعن اور جھوٹ و بہتان سےمکمل طور پر بچنے کاحکم دیا ہے،آپ فرماتے ہیں:
روزہ دار صبح سے شا م تک اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتا ہے، جب تک کہ وہ کسی کی غیبت نہ کرے ، کیوںکہ جب وہ کسی کی غیبت کرنے بیٹھتا ہے تو اُس کے روزے میں شگاف پڑ جاتا ہے۔
اس لیے روزے کی حالت میں بطورخاص زبان پر قابو رکھناچاہیے،اگرزبان پرکچھ لائے بھی توصرف اور صرف نیک و جائز باتیں ہی ہوں،مثلاً تلاوت قرآن ، درود شریف کاورد ، نعتوںکی نغمگی،دین کی باتیں وغیرہ۔
ساتھ ہی زیادہ باتیں کرنے ،فضول خرچ کرنے اور سوال سےبھی محفوظ رہے ،کیوںکہ ایسے لوگ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین لوگ نا پسندیدہ ہیں:
۱۔ زیادہ باتیں کرنے والا
۲۔ فضول خرچ کرنے والا
۳۔زیادہ سوال کرنے والا۔
اس کے باوجوداگر کوئی شخص اس مہینے کی برکتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا،نورِہدایت نہیں پاتااوراپنی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لاتاتو قرآن کریم کے الفاظ میں ایسے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں
(اِنْ ہُمْ اِلَّاکَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا(۴۴) (فرقان)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں