Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-July-2015➤
Imamuddin Saeedi Download_Pdf
روزہ کےاثرات
یہ بات کسی سے پو شیدہ نہیں کہ انسان کا علم محدود ہے ، اس کی قو ت فکر محدود، اور اس کی عقل بھی محدود،جب کہ خالق کائنات کے احکام و قوانین میں جو حکمتیں اور مصلحتیں ہیں وہ لامحدود ہیں،ان سب کا علم رکھنا ہم انسانوں کے بس میں نہیں۔ایسے ہی روزے کے اندر بھی بے شمار حکمتیں اور فوائد ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جا نتا ہے، ہما ری کو تا ہ عقل کی پہنچ وہاں تک نہیں ہو سکتی اور ہم اس کے مکلف بھی نہیں، ہم بندے ہیں، ہما را کام طاعت و بندگی ہے کہ یہی ہمارے لیے شرف وکمال اور سرمایہ ٔ حیات ہے ۔
ہم اس دنیا میں بطور آزمائش آئے ہیں اور آزمائش کا مطلب مصائب و آلام نہیںبلکہ امتحان ہے ۔گو یا دنیا دارالعمل ہے اورآخرت دارالجزاء، اور ہمیں یہ زندگی اسی لیےدی گئی ہے کہ ہم مختلف امتحانات سے گذریں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
روزہ ایک ایسا عمل ہے جو سراپا اخلاص والا عمل ہے، اس میں ریا کا کچھ دخل نہیں ،اگر کوئی ریاکرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا ، جب کہ دوسرے اعمال میں ریا کا دخل ہوسکتا ہے۔ روزے کی حالت میں اگر آپ نے کمرے کا دروازہ بند کرلیاجہاں کوئی بھی آپ کو دیکھ نہیں سکتا کہ آپ کھارہے ہیں یا نہیں ۔ وہاں آپ کھا سکتے ہیں مگر کھاتے نہیں ،یہ سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے،کیوں کہ وہ ہرچیزکی خبررکھتا ہے،اس لحاظ سے روزہ حقیقت میں سراپا اخلاص والی عبادت ہے ۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جھوٹ، غیبت ،چغلی، حرام مال وغیرہ دوسرے گناہوںسے جن کا نفع ونقصان لوگوں کو بخوبی معلوم ہے ، روکتا ہے تو یہ ایسا حکم ہے جسے عقل تسلیم کرتی ہے۔
لیکن جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندے کی بندگی اور اپنی رضاکے لیے اس کی تسلیم و رضا کا امتحان لیتا ہے تو کھانے پینے سے روک دیتا ہے ،صرف اس لیے کہ اس میں بہت ساری حکمتیں اور فوائد ہیں، جیسے بندوں کی ظاہری اور باطنی اصلاح وتربیت وغیرہ۔
روزہ کے ظاہری اثرات
۱۔ روزہ کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو جانچتاہے ، اب جس کے نزدیک کھانے پینے سے زیادہ اللہ کی رضا اہم ہے وہ روزہ رکھتا ہے اور جس کے نزدیک اللہ کی رضا سے زیادہ کھانا پینا اہم ہے وہ روزہ سے محروم رہتا ہے،گویا روزہ فرماںبردار اور نافرمان بندوں کو ظاہر کرتا ہے، طالب مولیٰ اور طالب نفس کے درمیان فرق کوواضح کرتا ہے ۔
۲۔ یہ ہمارے اندر ایک اچھی عادت پیدا کرنے کی تربیت ہے کہ جس طرح ہم روزے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جائز اور مباح چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے ہی ماہِ رمضان کے بعد سال بھر ہماری یہ عادت باقی رہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف اور حرام چیزیں ہیں ان سے بچتے رہیں،یعنی اس میں تعمیل حکم اور اطاعت شعاری کا مکمل درس ہے۔
۳۔ روزہ انسان کو صبر کا عادی بناتا ہے تاکہ بندہ ناگوار حالات اور دشواریوں میں بھی صبر کا مظاہرہ کرسکے اوربھوک کی حالت بھی ایک دشوار حالت ہے کہ کھانا بالکل سامنے ہے اور بھوک کی شدت بھی ہے مگر نہیں کھا سکتے، یہ اس با ت کا اشارہ ہے کہ سختیاں برداشت کرواور مشقت جھیلنے کی عادت ڈالو۔
۴۔ روزہ بندے کو فقر و عاجزی کی تعلیم بھی دیتا ہے اور اس کے مزاج سے انانیت و تکبر اورفخر ومباہات کو ختم کرتا ہے، اس کے پاس عمدہ کھانا ہو تا ہے مگر وہ اتنا مجبور ہے کہ کھا نہیں سکتا ،اتنا کمزور ہے کہ اس کی ا پنی مرضی کچھ نہیں، وہ کھانا رکھ کر بھی کھانے کے لیے کسی کا محتاج ہے۔
چنانچہ روزے کی حالت میں انسان سراپا فقر کا نمونہ ہوجاتاہے اور یہی فقر اس کے لیے شرف و کمال کی بات ہے ۔
۵۔ روزے میں جب بھوک کی شدت محسوس ہوتی ہے تو اُن لوگوں کو جو آسودہ حال رہتے ہیں اور ہمیشہ اچھا کھاتے پیتے ہیں ان محتاج اور مسکین لوگوں کادرد اوراُن کی پریشانی کا احساس ہوتا ہے جو نہ جانے کتنی راتیں غربت و افلاس کی چھت کے نیچے بغیر کھائے پیے گزار دیتے ہیں۔
بھوک کی تکلیف کیا ہو تی ہےبندہ ر وزےمیں ان کو اچھی طرح محسوس کرتا ہے، تبھی اس کے د ل میں دوسرے انسان کے لیے ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ پیدا ہو تا ہے اور یہی اسلام کا اصل اخلاقی سرمایہ ہے۔
۶۔بندہ جب تک روزے کی حالت میں رہتا ہےتو وہ فرشتوں کے مشابہ ہوتا ہے ،چوںکہ فرشتے کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے پاک ہو تے ہیں ،ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اوراُس کی حمدو ثنا میں مصروف رہتے ہیں۔چنانچہ روزے میں بھی انسان اسی صفت کا حامل ہوتاہے ۔جس طرح فرشتوں کا کوئی بھی لمحہ طاعت وبندگی سے خالی نہیں ہوتا اسی طرح روزہ دار کا بھی کوئی لمحہ طاعت وبندگی سے خالی نہیں ہوتا۔ گو یاانسان روزے کی حالت میں ملکوتی زندگی گزارتا ہے ۔
روزہ کے باطنی اثرات
امام محمدغزالی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ روزے کے تین درجے ہیں:
۱۔ عوام کا روزہ
۲۔ خواص کا روزہ
۳۔ا خص الخواص کا روزہ
عوام کاروزہ یہ کہ کھانے پینے اور ازدواجی تعلق سے باز رہے، یہ سب سے کم درجہ ہے۔ اخص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ بندہ اپنے دل کو غیر اللہ کے خیا ل سے پاک رکھے اور مکمل طور سے خود کو اللہ کے سپرد کردے ۔دنیا وی فکر اگر چہ مباح ہے، مگر یہ بھی روزہ کو باطل کردیتی ہے۔ یہ اعلی ترین درجہ ہے جو انبیاومرسلین اورصدیقین وصالحین کو حاصل ہو تا ہے ۔
خواص کا روزہ یہ ہے کہ انسان صرف کھانا پینا اور ازدواجی عمل نہ چھوڑے،بلکہ اپنے تمام جسمانی اعضا کو ناشائستہ اور ناپسندیدہ حرکتوں سے بچائے اور اس کے لیے چھ چیزوں کا اہتمام ضروری ہے،مثلاً :
پہلی یہ کہ آنکھ کو حرام چیزوں کے دیکھنے سے بچائے، اور ہر اس چیز سے بھی جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کردے ۔ خصوصیت کے ساتھ ایسی چیزوں کی طرف نہ دیکھے جن سے نفسانی خواہشات ابھرتے ہوں ۔
دوسر ی یہ کہ زبا ن سے بیہودہ کلام نہ نکالے اور ہر طرح کےبے فائدہ کلام سے اپنی زبان کو پاک رکھے۔ بعض علمانے غیبت اور جھوٹ کو بھی مفسد ِروزہ بتایا ہے، چاہے وہ عوام کا روزہ ہی کیوں نہ ہو، حدیث میں آیا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عورتیں روزے کی حالت میں پیا س کی شدت سے ہلاکت کے قریب پہنچ گئیں اور روزہ توڑ نے کی اجازت طلب کرنے لگیں، آپ نے ان کے پاس ایک پیالہ بھیجوایااور فرمایا کہ وہ اس میں قے کریں،چنانچہ ہر ایک کے منھ سے خون کے ٹکڑے نکلے،لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
ان دونوں عورتوں نے حلال چیز سے روزہ رکھا اور حرام چیزسے توڑڈالا،کیوں کہ یہ دونوں لوگوں کی غیبت کررہی تھیں ۔
تیسر ی یہ کہ کان کی حفاظت کرے ،یعنی کان سے کو ئی ایسی بات نہ سنے جو بُری ہو،اور حق بھی یہی ہے کہ جو کہنا نہیں چاہیے اُسے سننا بھی نہیں چاہیے ۔
چوتھی یہ کہ ہاتھ پاؤں کو گناہو ں سے محفوظ رکھے،جو روزہ دار اِن اعضا سے برائی کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کو ئی بیمار ہونے سے تو بچے مگر زہر کھا لے ۔
پانچویں یہ کہ افطار کے وقت بہرحال حرام اور مشتبہ چیزوں کے کھانے پینے سے بچے ۔ ثچھٹا یہ کہ افطار کے بعد اس فکر میں رہے کہ روزہ مقبول ہوا، یا نہیں۔ ( تلخیص کیمیائے سعادت اردو ، ص ۱۸۴)
اہل ایمان پر بھوک کے اثرات
بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ میں نے ایک دن رات کا کھانا جمع نہیں کیا اور جب سے میں مسلمان ہوا ،اس وقت سے پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا، اس لیے کہ شکم سیری کو کفر کی کنیت دی جاتی ہے ۔منقول ہے کہ اہل حقیقت نے فرمایا :
شکم سیری نفس میں ایک نہر ہے جہاں شیطان پہنچتا ہے اور بھوک رو ح میں ایک نہر ہے جہا ں فرشتوں کا گذر ہو تا ہے۔بشر بن حارث فرماتے ہیں کہ بھو ک دل میں پاکیزگی پیدا کرتی ہے، خواہشات کو مارتی ہے اور علم کی راہیں کھولتی ہے ۔
حضرت جنید بغدادی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تصوف قیل وقال سے نہیں،بلکہ بھوک اور نفس کی مرغوب چیزوں کو چھوڑکر حاصل کیا ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عالم ملکوت کے دروازے سے لپٹے رہو،یہاں تک کہ وہ تمہارے لیے کھل جائے، لوگوں نے عرض کیا: وہ کیسے ؟
فرمایا کہ ہمیشہ بھوک اور پیاس کو لازم پکڑویہاں تک کہ عالم ملکوت کا دروازہ کھلے اور تم اس میں داخل ہو جاؤ۔ ایک بڑاہی پیارا شعر ہے:
ان تمام باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عام دنوںمیں کم کھانے پینے اور بھوکے رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوںپر خاص فضل فرماتا ہے اورملکوت کے دروازے کھول دیتا ہے توجو بندہ روزے کواللہ تعالیٰ کا حکم مان کر محض رضائے الٰہی کے لیے رمضان کا روزہ رکھے گا اس پررحمت کی برسات کیسے نہ ہوگی اوراس کے لیے جنت کے دورازے کیسے نہ کھلیں گے؟
روزہ کےاثرات
روزہ انسان کو صبر کا عادی بناتا ہے تاکہ بندہ ناگوار حالات اور دشواریوں میں بھی صبر کا مظاہرہ کرسکے
یہ بات کسی سے پو شیدہ نہیں کہ انسان کا علم محدود ہے ، اس کی قو ت فکر محدود، اور اس کی عقل بھی محدود،جب کہ خالق کائنات کے احکام و قوانین میں جو حکمتیں اور مصلحتیں ہیں وہ لامحدود ہیں،ان سب کا علم رکھنا ہم انسانوں کے بس میں نہیں۔ایسے ہی روزے کے اندر بھی بے شمار حکمتیں اور فوائد ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جا نتا ہے، ہما ری کو تا ہ عقل کی پہنچ وہاں تک نہیں ہو سکتی اور ہم اس کے مکلف بھی نہیں، ہم بندے ہیں، ہما را کام طاعت و بندگی ہے کہ یہی ہمارے لیے شرف وکمال اور سرمایہ ٔ حیات ہے ۔
ہم اس دنیا میں بطور آزمائش آئے ہیں اور آزمائش کا مطلب مصائب و آلام نہیںبلکہ امتحان ہے ۔گو یا دنیا دارالعمل ہے اورآخرت دارالجزاء، اور ہمیں یہ زندگی اسی لیےدی گئی ہے کہ ہم مختلف امتحانات سے گذریں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
اَلَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ(۲)( ملک)جب تک ہم دنیا میں ہیں، ہماری بندگی کا امتحان ہے کہ ہمارے اندر اللہ رب العزت کی اطاعت کا جذبہ کتنا ہے، روزہ بھی اسی امتحان کا ایک حصہ ہے جس میں ہمیں کھانے پینے اور شہوات وخواہشات سے روک دیا جاتا ہے جو کہ اصل میں مباح اور جائز ہیں ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے موت اور زندگی بنائی تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے،وہ غالب اور بہت زیادہ بخشنے والا ہے ۔
روزہ ایک ایسا عمل ہے جو سراپا اخلاص والا عمل ہے، اس میں ریا کا کچھ دخل نہیں ،اگر کوئی ریاکرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکتا ، جب کہ دوسرے اعمال میں ریا کا دخل ہوسکتا ہے۔ روزے کی حالت میں اگر آپ نے کمرے کا دروازہ بند کرلیاجہاں کوئی بھی آپ کو دیکھ نہیں سکتا کہ آپ کھارہے ہیں یا نہیں ۔ وہاں آپ کھا سکتے ہیں مگر کھاتے نہیں ،یہ سوچ کر کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے،کیوں کہ وہ ہرچیزکی خبررکھتا ہے،اس لحاظ سے روزہ حقیقت میں سراپا اخلاص والی عبادت ہے ۔
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جھوٹ، غیبت ،چغلی، حرام مال وغیرہ دوسرے گناہوںسے جن کا نفع ونقصان لوگوں کو بخوبی معلوم ہے ، روکتا ہے تو یہ ایسا حکم ہے جسے عقل تسلیم کرتی ہے۔
لیکن جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندے کی بندگی اور اپنی رضاکے لیے اس کی تسلیم و رضا کا امتحان لیتا ہے تو کھانے پینے سے روک دیتا ہے ،صرف اس لیے کہ اس میں بہت ساری حکمتیں اور فوائد ہیں، جیسے بندوں کی ظاہری اور باطنی اصلاح وتربیت وغیرہ۔
روزہ کے ظاہری اثرات
۱۔ روزہ کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو جانچتاہے ، اب جس کے نزدیک کھانے پینے سے زیادہ اللہ کی رضا اہم ہے وہ روزہ رکھتا ہے اور جس کے نزدیک اللہ کی رضا سے زیادہ کھانا پینا اہم ہے وہ روزہ سے محروم رہتا ہے،گویا روزہ فرماںبردار اور نافرمان بندوں کو ظاہر کرتا ہے، طالب مولیٰ اور طالب نفس کے درمیان فرق کوواضح کرتا ہے ۔
۲۔ یہ ہمارے اندر ایک اچھی عادت پیدا کرنے کی تربیت ہے کہ جس طرح ہم روزے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جائز اور مباح چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے ہی ماہِ رمضان کے بعد سال بھر ہماری یہ عادت باقی رہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف اور حرام چیزیں ہیں ان سے بچتے رہیں،یعنی اس میں تعمیل حکم اور اطاعت شعاری کا مکمل درس ہے۔
۳۔ روزہ انسان کو صبر کا عادی بناتا ہے تاکہ بندہ ناگوار حالات اور دشواریوں میں بھی صبر کا مظاہرہ کرسکے اوربھوک کی حالت بھی ایک دشوار حالت ہے کہ کھانا بالکل سامنے ہے اور بھوک کی شدت بھی ہے مگر نہیں کھا سکتے، یہ اس با ت کا اشارہ ہے کہ سختیاں برداشت کرواور مشقت جھیلنے کی عادت ڈالو۔
۴۔ روزہ بندے کو فقر و عاجزی کی تعلیم بھی دیتا ہے اور اس کے مزاج سے انانیت و تکبر اورفخر ومباہات کو ختم کرتا ہے، اس کے پاس عمدہ کھانا ہو تا ہے مگر وہ اتنا مجبور ہے کہ کھا نہیں سکتا ،اتنا کمزور ہے کہ اس کی ا پنی مرضی کچھ نہیں، وہ کھانا رکھ کر بھی کھانے کے لیے کسی کا محتاج ہے۔
چنانچہ روزے کی حالت میں انسان سراپا فقر کا نمونہ ہوجاتاہے اور یہی فقر اس کے لیے شرف و کمال کی بات ہے ۔
۵۔ روزے میں جب بھوک کی شدت محسوس ہوتی ہے تو اُن لوگوں کو جو آسودہ حال رہتے ہیں اور ہمیشہ اچھا کھاتے پیتے ہیں ان محتاج اور مسکین لوگوں کادرد اوراُن کی پریشانی کا احساس ہوتا ہے جو نہ جانے کتنی راتیں غربت و افلاس کی چھت کے نیچے بغیر کھائے پیے گزار دیتے ہیں۔
بھوک کی تکلیف کیا ہو تی ہےبندہ ر وزےمیں ان کو اچھی طرح محسوس کرتا ہے، تبھی اس کے د ل میں دوسرے انسان کے لیے ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ پیدا ہو تا ہے اور یہی اسلام کا اصل اخلاقی سرمایہ ہے۔
۶۔بندہ جب تک روزے کی حالت میں رہتا ہےتو وہ فرشتوں کے مشابہ ہوتا ہے ،چوںکہ فرشتے کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے پاک ہو تے ہیں ،ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اوراُس کی حمدو ثنا میں مصروف رہتے ہیں۔چنانچہ روزے میں بھی انسان اسی صفت کا حامل ہوتاہے ۔جس طرح فرشتوں کا کوئی بھی لمحہ طاعت وبندگی سے خالی نہیں ہوتا اسی طرح روزہ دار کا بھی کوئی لمحہ طاعت وبندگی سے خالی نہیں ہوتا۔ گو یاانسان روزے کی حالت میں ملکوتی زندگی گزارتا ہے ۔
روزہ کے باطنی اثرات
امام محمدغزالی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ روزے کے تین درجے ہیں:
۱۔ عوام کا روزہ
۲۔ خواص کا روزہ
۳۔ا خص الخواص کا روزہ
عوام کاروزہ یہ کہ کھانے پینے اور ازدواجی تعلق سے باز رہے، یہ سب سے کم درجہ ہے۔ اخص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ بندہ اپنے دل کو غیر اللہ کے خیا ل سے پاک رکھے اور مکمل طور سے خود کو اللہ کے سپرد کردے ۔دنیا وی فکر اگر چہ مباح ہے، مگر یہ بھی روزہ کو باطل کردیتی ہے۔ یہ اعلی ترین درجہ ہے جو انبیاومرسلین اورصدیقین وصالحین کو حاصل ہو تا ہے ۔
خواص کا روزہ یہ ہے کہ انسان صرف کھانا پینا اور ازدواجی عمل نہ چھوڑے،بلکہ اپنے تمام جسمانی اعضا کو ناشائستہ اور ناپسندیدہ حرکتوں سے بچائے اور اس کے لیے چھ چیزوں کا اہتمام ضروری ہے،مثلاً :
پہلی یہ کہ آنکھ کو حرام چیزوں کے دیکھنے سے بچائے، اور ہر اس چیز سے بھی جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کردے ۔ خصوصیت کے ساتھ ایسی چیزوں کی طرف نہ دیکھے جن سے نفسانی خواہشات ابھرتے ہوں ۔
دوسر ی یہ کہ زبا ن سے بیہودہ کلام نہ نکالے اور ہر طرح کےبے فائدہ کلام سے اپنی زبان کو پاک رکھے۔ بعض علمانے غیبت اور جھوٹ کو بھی مفسد ِروزہ بتایا ہے، چاہے وہ عوام کا روزہ ہی کیوں نہ ہو، حدیث میں آیا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عورتیں روزے کی حالت میں پیا س کی شدت سے ہلاکت کے قریب پہنچ گئیں اور روزہ توڑ نے کی اجازت طلب کرنے لگیں، آپ نے ان کے پاس ایک پیالہ بھیجوایااور فرمایا کہ وہ اس میں قے کریں،چنانچہ ہر ایک کے منھ سے خون کے ٹکڑے نکلے،لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
ان دونوں عورتوں نے حلال چیز سے روزہ رکھا اور حرام چیزسے توڑڈالا،کیوں کہ یہ دونوں لوگوں کی غیبت کررہی تھیں ۔
تیسر ی یہ کہ کان کی حفاظت کرے ،یعنی کان سے کو ئی ایسی بات نہ سنے جو بُری ہو،اور حق بھی یہی ہے کہ جو کہنا نہیں چاہیے اُسے سننا بھی نہیں چاہیے ۔
چوتھی یہ کہ ہاتھ پاؤں کو گناہو ں سے محفوظ رکھے،جو روزہ دار اِن اعضا سے برائی کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کو ئی بیمار ہونے سے تو بچے مگر زہر کھا لے ۔
پانچویں یہ کہ افطار کے وقت بہرحال حرام اور مشتبہ چیزوں کے کھانے پینے سے بچے ۔ ثچھٹا یہ کہ افطار کے بعد اس فکر میں رہے کہ روزہ مقبول ہوا، یا نہیں۔ ( تلخیص کیمیائے سعادت اردو ، ص ۱۸۴)
اہل ایمان پر بھوک کے اثرات
بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ میں نے ایک دن رات کا کھانا جمع نہیں کیا اور جب سے میں مسلمان ہوا ،اس وقت سے پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا، اس لیے کہ شکم سیری کو کفر کی کنیت دی جاتی ہے ۔منقول ہے کہ اہل حقیقت نے فرمایا :
شکم سیری نفس میں ایک نہر ہے جہاں شیطان پہنچتا ہے اور بھوک رو ح میں ایک نہر ہے جہا ں فرشتوں کا گذر ہو تا ہے۔بشر بن حارث فرماتے ہیں کہ بھو ک دل میں پاکیزگی پیدا کرتی ہے، خواہشات کو مارتی ہے اور علم کی راہیں کھولتی ہے ۔
حضرت جنید بغدادی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تصوف قیل وقال سے نہیں،بلکہ بھوک اور نفس کی مرغوب چیزوں کو چھوڑکر حاصل کیا ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عالم ملکوت کے دروازے سے لپٹے رہو،یہاں تک کہ وہ تمہارے لیے کھل جائے، لوگوں نے عرض کیا: وہ کیسے ؟
فرمایا کہ ہمیشہ بھوک اور پیاس کو لازم پکڑویہاں تک کہ عالم ملکوت کا دروازہ کھلے اور تم اس میں داخل ہو جاؤ۔ ایک بڑاہی پیارا شعر ہے:
اگر لذت ترک لذت بدانی
دگر لذت نفس لذت نخوانی
یعنی اگرکوئی خواہشات کی لذتوں کو چھوڑنے کی لذت جان لے تو پھراس کے لیے نفس کی لذت، لذت نہیں رہ جاتی۔ ( تلخیص از سبع سنابل اردو ،ص۲۴۰ ۲۴۳-)ان تمام باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عام دنوںمیں کم کھانے پینے اور بھوکے رہنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوںپر خاص فضل فرماتا ہے اورملکوت کے دروازے کھول دیتا ہے توجو بندہ روزے کواللہ تعالیٰ کا حکم مان کر محض رضائے الٰہی کے لیے رمضان کا روزہ رکھے گا اس پررحمت کی برسات کیسے نہ ہوگی اوراس کے لیے جنت کے دورازے کیسے نہ کھلیں گے؟
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں