Khizr-e-rah Monthly ➤
khizr-e-rah-June-2015➤
ابو عبدالرحمٰن محمد بن حسین سلمی Download_Pdf
سادات صوفیااورتصوف
مالداروں سے میل جول
۸ ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
صبروقناعت
۹ ۔حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اے ابن آدم! تھوڑے پرتم قناعت نہیں کرتے اور زیادہ سے تمہارا دل نہیں بھرتا ۔
اے ابن آدم!جب تم خیرو عافیت اور اطمینان قلب کے ساتھ صبح کرو اور تمہارے پاس اس دن کا کھانا موجود ہوتو کل کے لیے فکرنہ کرو،کیوں کہ دنیا ہلاک ہونے والی ہے ۔
دعویٰ اوردلیل
۱۰ ۔ حضرت حارث بن مالک رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ وہ ایک بارنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھ سےدریافت فرمایا:
غورکرلو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟کیوں کہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے،تو بتاؤ کہ تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ـ؟
حضرت حارثہ نے عرض کیا کہ میرا دل دنیا سے بیزار ہوگیا ہے ، ایسا لگتا ہےکہ میں عرش الٰہی کوواضح طورپر دیکھ رہا ہوں،اہل جنت کو آپس میں ایک دوسرےسے ملاقاتیں کرتے اور اہل دوزخ کوشور مچاتےدیکھ رہا ہوں۔
یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اے حارثہ !
واقعی تم نے حقیقت ایمان کوپالیا اسی پر ثابت قدم رہو۔آپ نےیہی کلام تین مرتبہ فرمایا۔
ظاہرو باطن
۱۱۔حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ذکر ،شکراور صبر
۱۲ ۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
شکر کرنے والا دل
ذکر سے تر رہنے والی زبان
مصیبتوں پر صبر کرنے والی جان
اللہ تعالیٰ کی کفالت پر اعتمادوتوکل۔
۱۳ ۔ حضرت عمران بن حصین ر ضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:
دنیا کی مثال
۱۴۔حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ ایک بارحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک چٹائی پر آرام فرما ہیں جس کا نشان آپ کے پہلو مبارک میں ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر نے عرض کیا :
یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم )کاش کہ آپ اس سے نرم بستر لے لیتے ۔
اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فقر اور فقرا سے محبت
۱۵ ۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسکینوں سے محبت کرو، کیوں کہ میں نےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعاسنی ہے:
فضول باتوں سے پرہیز
۱۶ ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مصیبتوں کو چھپانا
۱۷ ۔حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایمان پراستقامت
۱۸ ۔حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم) آپ مجھے اسلام کے بارے میں کو ئی ایسی بات بتا دیں کہ آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ پوچھوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بوسیدہ کپڑے کا استعمال
۱۹ ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو کمر پر مینڈھےکی کھال کاپٹکا باندھ کر آتے ہوئے دیکھ کر فرمایا:
اولیاوابدال
۲۰۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سادات صوفیااورتصوف
سب سے زیادہ عذاب اس شخص پر ہوگا جو یہ ظاہرکرے کہ اس کے اندرخیر ہے حالاں کہ اس کے اندر کوئی خیر نہیں
امام ابو عبد الرحمن محمد بن حسین سلمی جہاں بہت بڑے صوفی تھے وہیں ایک عظیم محدث بھی تھے ۔آپ کی ولادت سنہ۳۳۰ ہجری میں ہوئی،جب کہ وفات سنہ۴۱۲ہجری میں ۔آپ کو بیک وقت تفسیر ،حدیث،سیر وتاریخ اور تصوف میں یدطولی حاصل تھا،آپ نے چند نمایاں اور مایۂ ناز کتابیں بھی یادگار چھوڑی ہیں،ان میں سے ایک کتاب ’’الاربعون فی التصوف ‘‘ہے۔
یہ سادات صوفیا اور تصوف کے موضوع پر ایک مفید کتاب ہے ،اس کی تخریج محترم ڈاکٹر کمال حوت نے کی ہے جب کہ اس کا ترجمہ مولانا اصغر علی مصباحی استاذ جامعہ عارفیہ ،سیدسراواں ،الہ آبادنے کیا ہے۔(ادارہ)
مالداروں سے میل جول
۸ ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إنْ أرَدْتِ اللُّحُوْقَ بِی فَلْیَکْفِیْکِ مِنَ الدُّنْیَا بِقَدْرِ زَادِ الرَّاکِبِ وَإیَّاکِ وَمُخَالَطَۃَ الأغْنِیَاءِ۔ترجمہ:(اے عائشہ!) اگر جنت میں میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو دنیا سے اتناہی توشہ اختیارکرو جتنا کہ ایک مسافر اختیار کرتا ہے،اور بالخصوص مالداروں سے میل جول نہ رکھو۔
صبروقناعت
۹ ۔حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ابْنَ آدَمَ عِنْدَکَ مَایَکْفِیْکَ وَأنْتَ تَطْلُبُ مَایُطْغِیْکَ، ابْنَ آدَمَ لَا بِقَلِيْلٍ تَقْنَعُ , وَلَا مِنْ كَثِيْرٍ تَشْبَعُ ابْنَ آدَمَ إِذَا أَصْبَحْتَ مُعَافًى فِي جِسْمِكَ آمِنًا فِي سِرْبِكَ وَعِنْدَكَ قُوتُ يَوْمِكَ فَعَلَى الدُّنْيَا الْعَفَاءُ۔ترجمہ:اے ابن آدم! تمہارے پاس اتنی چیزیں موجود ہوتی ہیںجو تمہارے لیے کافی ہوں پھر بھی تم وہ چیزیں طلب کرتے ہو جو تمھیں سر کشی پر آمادہ کردے ۔
اے ابن آدم! تھوڑے پرتم قناعت نہیں کرتے اور زیادہ سے تمہارا دل نہیں بھرتا ۔
اے ابن آدم!جب تم خیرو عافیت اور اطمینان قلب کے ساتھ صبح کرو اور تمہارے پاس اس دن کا کھانا موجود ہوتو کل کے لیے فکرنہ کرو،کیوں کہ دنیا ہلاک ہونے والی ہے ۔
دعویٰ اوردلیل
۱۰ ۔ حضرت حارث بن مالک رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ وہ ایک بارنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمجھ سےدریافت فرمایا:
كَيْفَ أَصْبَحْتَ يَا حَارِثَةُ؟قَالَ: أَصْبَحْتُ مُؤْمِنًا حَقًّا،قَالَ:انْظُرْ مَا تَقُولُ إِنَّ لِكُلُّ حَقٍّ حَقِيقَةً،فَمَا حَقِيقَةُ إِيمَانِكَ؟قَالَ: قَدْعَزَفْتُ نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا، فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلٰى عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا،وَكَأَنِّي أَنْظُرإِلٰى أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُوْنَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلٰى أَهْلِ النَّارِ يَتَصَاغَوْنَ،فَقَالَ: يَاحَارِثَةُ! عَرَفْتَ فَالْزَمْ، قَالَهَا ثَلَاثًا۔ترجمہ:اے حارثہ !تم نےصبح کس حالت میں کی ؟ حضرت حارثہ نے عرض کیا کہ میں نےحقیقت ایمان کے ساتھ صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حارثہ!
غورکرلو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟کیوں کہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے،تو بتاؤ کہ تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ـ؟
حضرت حارثہ نے عرض کیا کہ میرا دل دنیا سے بیزار ہوگیا ہے ، ایسا لگتا ہےکہ میں عرش الٰہی کوواضح طورپر دیکھ رہا ہوں،اہل جنت کو آپس میں ایک دوسرےسے ملاقاتیں کرتے اور اہل دوزخ کوشور مچاتےدیکھ رہا ہوں۔
یہ سن کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اے حارثہ !
واقعی تم نے حقیقت ایمان کوپالیا اسی پر ثابت قدم رہو۔آپ نےیہی کلام تین مرتبہ فرمایا۔
ظاہرو باطن
۱۱۔حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أشَدُّالنَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقَیَامَۃِ مَنْ یُّرَي النَّاسَ أنَّ فِیْہِ خَیْرًا وَلَاخَیْرًافِیْہِ۔ترجمہ:قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ عذاب اس شخص کو ہوگا جو یہ ظاہرکرے کہ اس کے اندرخیر ہے حالاں کہ اس کے اندر خیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔
ذکر ،شکراور صبر
۱۲ ۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
أرْبَعٌ مَنْ أُعْطِیْہِنَّ فَقَدْ أُعْطِیَ خَیْرَالدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، قَلْبًاشَاکِرًا،وَلِسَانًا ذَاکِرًا،وَنَفْسًا عَلَی الْبَلَاءِ صَابِرًا، وَثِقَۃً بِمَاتَکَفَّلَ اللہُ۔ترجمہ:جسےیہ چار چیزیں مل گئیں اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی :
شکر کرنے والا دل
ذکر سے تر رہنے والی زبان
مصیبتوں پر صبر کرنے والی جان
اللہ تعالیٰ کی کفالت پر اعتمادوتوکل۔
۱۳ ۔ حضرت عمران بن حصین ر ضی اللہ عنہ کابیان ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:
مَنِ انْقَطَعَ إلَی اللہِ کَفَاہُ اللہُ کُلَّ مؤوْنَتِہٖ وَرَزَقَہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ،وَمَنِ انْقَطَعَ إلَی الدُّنْیَا وَکَلَہُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ إلَیْہَا۔ترجمہ:جو ہرچیز سے منقطع ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام ضروریات پوری فرمادیتاہے ، اور اُسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کی طرف اس کاوہم و گمان بھی نہیں جاسکتا ۔ لیکن جو اللہ سے منھ موڑکردنیا سے لولگاتاہےتو اللہ تعالیٰ اس کی تمام ضروریات خود دنیاکے سپرد فرمادیتا ہے ۔
دنیا کی مثال
۱۴۔حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ ایک بارحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک چٹائی پر آرام فرما ہیں جس کا نشان آپ کے پہلو مبارک میں ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر نے عرض کیا :
یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم )کاش کہ آپ اس سے نرم بستر لے لیتے ۔
اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَالِیَ وَللدُّنْیَاأوْ مَاللدُّنْیَا وَمَالِی إنَّمَا مَثَلِی وَمَثَلُ الدُّنْیَاکَرَاکِبٍ فِی یَوْمٍ صَائِفٍ حَتّٰی أتَی شَجَرَۃً فَاسْتَظَلَّ فِی ظِلِّہَا سَاعَۃً ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا۔ترجمہ:مجھے دنیا سے کیا سروکار !میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے جوگرمی کے دنوں میں سفر کرے یہاں تک کہ وہ کسی درخت کے پاس پہنچے تو کچھ دیر اس کے سایہ میں آرام کرلے ،پھراپنی منزل کے لیے اٹھ کھڑاہو ،اوراس سایہ کو چھوڑ کر چل دے۔
فقر اور فقرا سے محبت
۱۵ ۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسکینوں سے محبت کرو، کیوں کہ میں نےاللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعاسنی ہے:
اَللّٰہُمَّ أحْیِنِی مِسْکِیْنًا وَأمِتْنِی مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْنِی فِی زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنَ۔ترجمہ: یااللہ! مجھے مسکین بناکر زندہ رکھ اور مجھے مسکین ہی کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کے ساتھ ہی میرا حشرفرما ۔
فضول باتوں سے پرہیز
۱۶ ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مِنْ حُسْنِ إ سْلَامِ الْمَرْءِتَرْکُہٗ مَالَایَعْنِیْہِ۔ترجمہ:سب سے بہتر مسلمان وہ ہے جو فضول باتوں کو چھوڑ دے۔
مصیبتوں کو چھپانا
۱۷ ۔حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کابیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ مِنْ کُنُوْزِ البِرِّ کِتْمَانَ الْمصَائبِ۔ترجمہ:بھلائی کے خزانوں میں سےایک مصیبتوں کو چھپانابھی ہے۔
ایمان پراستقامت
۱۸ ۔حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ وسلم) آپ مجھے اسلام کے بارے میں کو ئی ایسی بات بتا دیں کہ آپ کے بعد میں کسی سے کچھ نہ پوچھوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قُلْ آمَنْتُ بِاللہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ۔ترجمہ:یہ کہو کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لایااور اسی پر ثابت قدم رہو۔
بوسیدہ کپڑے کا استعمال
۱۹ ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو کمر پر مینڈھےکی کھال کاپٹکا باندھ کر آتے ہوئے دیکھ کر فرمایا:
أنْظُرُوْاإلٰی ہٰذا الَّذِی نَوَّرَ اللہُ قَلْبَہٗ لَقَدْ رأیْتُہٗ بَیْنَ أبَوَیْنِ یَغْذُوَانِہٖ بِأطْیَبِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَرَأیْتُ عَلَیْہِ حُلَّۃً شِرَاؤَہَا أوْ شُرِیَتْ بِمِائتَی دِرْہَمٍ فَدَعَاہُ حُبُّ اللہِ وَ حُبُّ رَسُوْلِہٖ إلٰی مَا تَرَوْنَ۔ترجمہ:مصعب کودیکھوکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو منور کر دیا ہے ،کیوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ جب اس کے والدین با حیات تھے تب یہ لذیذ کھانا کھاتا،عمدہ مشروب پیتااور دو سو درہم کا پوشاک پہنتاتھالیکن آج اللہ اور اس کے رسول کی محبت نے اسے اس حالت تک پہنچا دیا ہے کہ اس کی کمرمیں مینڈھے کی کھال کا پٹکاپڑا ہواہے ۔
اولیاوابدال
۲۰۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بُدَلَاءُأمَّتِیْ أرْبَعُوْنَ رَجُلًا اِثْنَانِ وَعِشْرُوْنَ بِالشَّامِ وَ ثَمَانِیَّۃَ عَشَرَ بِالْعِرَاقِ کُلَّمَا مَاتَ مِنْہُمْ وَاحِدٌ أبْدَلَ اللہُ مَکَانَہٗ اٰخَرَ، إذَا جَاءَ الْأمْرُ قَبِضُوْا۔ترجمہ:میری امت میں چالیس ابدال ہیں،ان میں سے بائیس ابدال شام میں ہیں اور اٹھارہ ابدال عراق میں ۔ جب بھی ان میں کوئی ایک وفات پاتاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا ابدال متعین فرمادیتا ہے ،پھر جب اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں