Shabe Qadr Fazail o Mamulaat

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-July-2015Ziyaurrahman Alimi                              Download_Pdf 


شب قدر :فضائل و معمولات

رمضان کے آخری عشرے میںحضورخودبھی شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادتوں کے لیےبیدار کرتے

شب قدر کےفضائل
سورۂ قدر میں اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی عظمتوں کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمادیاہےکہ شب قدر ہزارمہینوں سے افضل ہے،وہ ایسی بابرکت اور سراپاسلامتی والی رات ہے کہ اس میں حضرت جبرئیل امین کی قیادت میں فرشتوں کی ایک جماعت روئے زمین پر اترتی ہے اور فجر کے وقت تک سلامتی کی دعائیں کرتی رہتی ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
إِن هَذَا الشَّهْرَقَدْحَضَرَكُمْ وَفِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِّنْ ألْفِ شَهَرٍمَنْ حَرَمَهَافَقَدْحَرَمَ الْخَيْرَ كُلَّهٗ وَلَا يَحْرُمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُوْمٌ۔
 ترجمہ:رمضان کا یہ مہینہ تمہارے پاس آچکاہے،اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس رات کی برکتوں سے محروم رہ گیاوہ ہرخیرسے محروم رہ گیا،اور اس رات کی خیروبرکت سے محروم انسان ہی فیض نہیں حاصل کرپائے گا۔ (سنن ابن ماجہ ،کتاب الصیام)

شب قدر کب؟
 اب سوال یہ ہے کہ جب شب قدر اتنی برکتوں اور سعادتوں والی رات ہے تو آخر وہ رات رمضان کی کس تاریخ میں ہے،اس سلسلے میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتانے کے لیے نکلے کہ شب قدر کس تاریخ میں ہے،لیکن دو مسلمان آپس میں لڑپڑے،چنانچہ آپ نے فرمایا:
إنِّي خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكَمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ،وَإِنَّهٗ تَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَرُفِعَتْ وَعَسٰى أَنْ يَّكُوْنَ خَيْرًا لَكُمْ،فَالْتَمِسُوهَافِي التِّسْعِ وَالسَّبْعِ وَالْخَمْسِ۔ (سنن کبریٰ،باب التماس لیلۃ القدر)
ترجمہ:میں تم لوگوں کو شب قدرکی تاریخ کے بارے میں بتانے کے لیے نکلاتھالیکن فلاں فلاں لوگ آپس میں لڑپڑے تواُس کی وجہ سےتاریخ کا تعین اٹھالیاگیااور ممکن ہے کہ یہی تمہارے لیے بہتر ہو، اب شب قدر کو اُنتیس ،ستائیس اور پچیسویں شب میں تلاش کرو۔
اس حدیث سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ شب قدر متعین طورپر کس تاریخ میںہے اس کا علم اٹھالیاگیاہے،اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اب شب قدر کو رمضان کی انتیسویں،ستائیسویں اورپچیسویں شب میں تلاش کیا جائے۔
شب قدر کی متعین تاریخ کا علم اٹھالیے جانے کے بعد اب اسے کس تاریخ میں تلاش کیاجائے،اس سلسلے میں مختلف روایتیں آئیں ہیں،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِفِی الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ۔(بخاری،باب تحری لیلۃ القدر)
یعنی شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔
 ایک دوسری روایت ہے:
تَحَرَّوْا لَيْلَةَ القَدْرِ فِي الوِتْرِ، مِنَ العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔(بخاری،باب تحری لیلۃ القدر)
ترجمہ:شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
 پہلی حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومیت کے ساتھ رمضان کے آخری عشرےمیں شب قدر کو تلاش کرنے کا حکم فرمایاہے، جب کہ دوسری حدیث میں خصوصیت کے ساتھ آخری عشرےکی طاق راتوں میں تلاش کرنے کے لیے کہا ہے،بعض احادیث میں طاق راتوں میں سےکچھ متعین راتوں کی تخصیص کی گئی ہے، چنانچہ گزشتہ احادیث میں سے پہلی حدیث میں اُنتیس،ستائیس اور پچیسویں شب کی تخصیص کی گئی ہے،جب کہ بعض دوسری حدیث میں اکیسویں شب کا بھی ذکر آیاہے۔
علماوفقہا کا بھی شب قدر کی تعیین کے سلسلے میں اختلاف ہے ،لیکن بعض صحابہ مثلاً حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تعیین کے ساتھ اس بات کے قائل ہیں کہ شب قدر ستائیسویں شب میں ہے۔یہی اکثر علما کا مذہب اور بعض علما کا قول ہے کہ زیادہ امید یہی ہے اور یہی بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر ستائیسویں شب میں ہے۔
حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں حضرت معاویہ،ابن عمر،ابن عباس اور دوسرے اصحاب ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ شب قدر ستائیسویں رات میں ہے،یہی اسلاف کی ایک جماعت کا مذہب ہے۔یہی امام احمد کا مذہب ہےاوریہی امام ابوحنیفہ سے مروی ہے۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر زیرآیت لیلۃ القدرخیر...)
 چنانچہ اس سلسلے میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:
وَاللهِ!إِنِّي لَأَعْلَمُ أَيُّ لَيْلَةٍ هِيَ، هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَمَرَنَا بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقِيَامِهَا، هِيَ لَيْلَةُ صَبِيحَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ۔(مسلم، باب الترغیب فی قیام رمضان)
ترجمہ:واللہ!مجھ کو معلوم ہے کہ شب قدر کون سی تاریخ میں ہے،یہ وہی رات ہےجس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قیام کا حکم دیا ہے، وہ ستائیسویں رات ہے۔

نعمت شب قدر کاتقاضا
شب قدر کی مختلف علامتیں بھی بیان کی گئی ہیں لیکن ان میں سے اکثر علامتیں شب قدر کے گزرجانے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں اور ان تمام علامتوں کا تعلق کشف سے ہے،جنھیں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں میںسے جس پر چاہتاہے کھول دیتا ہے،اس لیے شب قدر جیسی بڑی نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے حصول میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کیا جائے اور اس بات کی پوری کوشش کی جائے کہ کسی بھی طرح وہ رات ہم سے چھوٹنے نہ پائے،چنانچہ احتیاط اسی میں ہے کہ پورے آخری عشرے میں شب قدر کو تلاش کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے اوراگر شامت نفس کی بناپریہ ممکن نہ ہوسکے تو آخری عشرے کی طاق راتوں کو تو کسی بھی طرح ضائع نہ ہونے دیا جائے اوراگر محرومی کی بناپر یہ بھی ممکن نہ ہوتو کم ازکم پچیس، ستائیس اور انتیسویں شب کا ضرور اہتمام کیاجائے اور اگر ہمارے نفس کاہم پر کچھ زیادہ ہی غلبہ ہوتو آخری عشرے کی جو بھی رات میسر آجائے ، اسی رات میں عبادتوں کا اہتمام کرلیا جائے،کیا معلوم کہ وہی رات شب قدر ہو،کیوں کہ شب قدر کے سلسلے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہ ہے کہ وہ اکیسویں شب ہے،اور ایک قول یہ ہے کہ اکیسویں،یاتئیسویں شب ہے، امام مزنی اور امام ابوبکر محمدبن اسحاق بن خزیمہ فرماتے ہیں کہ شب قدر آخری عشرہ کی راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے اور حضرت ا بن مسعود کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی پورے سال رات میں عبادت کرے تو وہ شب قدر کو پالےگا۔ ( مسلم،باب الترغیب فی قیام رمضان )
حضرت ابن مسعودکےاس قول سے یہ اشارہ ملتاہے کہ گویاشب قدر ماہِ رمضان کے علاوہ سال بھر کسی بھی شب میں ہوسکتی ہے،اس لیےسال بھر نہ سہی کم از کم رمضان کے آخری عشرے میں جوراتیں عبادت کے لیے میسر آجائیںہم اُسے نہ گنوائیں،کیا معلوم کہ انھیں راتوں میں کوئی شب قدر ہو،اور ستائیسویں شب کوتوبہرحال کسی بھی طرح ضائع نہ ہونے دیں کہ  اکثر علما کا میلان اسی طرف ہے ۔

اہتمام شب قدر اور سنت نبوی
 یہ کم ہمتی کی بات ہے کہ جس شب قدر کی اتنی عظمت ہو اور جس کو اس کی عظمت کی بناپر مبہم رکھا گیا ہو اس کو تلاش کرنے کے لیےصرف ایک رات کو متعین کرکے خوش ہولیاجائے اور صرف اسی ایک رات میں تھوڑی بہت عبادت کرکے یہ گمان کرلیا جائے کہ ہم نے شب قدر کو پالیاہے۔
لہٰذاضروری ہے کہ شب قدر کی تلاش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کیا تھی اسے معلوم کیا جائے ۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ العَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ، وَأَحْيَا لَيْلَهُ، وَأَيْقَظَ أَهْلَهٗ۔(بخاری،باب العمل فی العشر الاواخر)
ترجمہ:جب رمضان کا آخری عشرہ آجاتاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لیے اپنی کمر کس لیتے،شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی عبادتوں کے لیےبیدار کرتے۔
اسی شب قدر کو پانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کا اہتمام فرماتے ، چنانچہ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں:
 كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي العَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَيَقُولُ: تَحَرَّوْا لَيْلَةَ القَدْرِ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ۔ (بخاری،باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر)
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرے میں شب قدر کوتلاش کرو۔
 اسوۂ رسول کا تقاضا یہی ہے کہ شب قدر کو رمضان کے پورے آخری عشرہ میں تلاش کیا جائے اور اس کے لیے اپنے آپ کودنیاکی تمام مشغولیات سے علاحدہ کرکے عبادتوں کے لیے کمر کس لیاجائے اور اس میں کسی قسم کی کاہلی نہ کی جائے، یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورآپ کے اقوال کو نظر اندازکرکے بعض روایات کی بناپر صرف ستائیسویں شب کو شب قدر سمجھ کر عبادت کی جائے۔

 شب قدرکی تیاری
 اسلاف کا طریقہ تھاکہ ممکنہ شب قدرکی تیاری کرتے اور اس میں کچھ خاص اہتمام فرماتے، چنانچہ حضرت ثابت بنانی اس رات سب سے عمدہ کپڑا پہنتے، خوشبو لگاتے اور مسجد کے اندر خوشبو سلگاتے۔ حضرت تمیم داری کے پاس ایک جوڑا کپڑا تھاجسے انھوں نے ایک ہزار درہم میں خریدا تھا،اُسے ممکنہ تاریخوںمیں پہنتے،یوں ہی جب رمضان کی چوبیسویں شب آتی تو حضرت انس بن مالک غسل کرتے، خوشبو لگاتے، خاص جبہ پاجامہ اور چادر استعمال کرتے اور جب وہ رات ختم ہوجاتی تو پھر اُسے اگلے سال اسی تاریخ میں پہنتے۔ (لطائف المعارف لابن رجب،المجلس الرابع)

معمولات شب قدر
اب ہم ذیل میں ان بہترین اعمال کاذکرکرتے ہیں جن کو انجام دے کر ہم آخری عشرے میں شب قدر کو بہتر انداز میں تلاش کرسکتے ہیں:

۱۔ممنوع باتوں سے گریز :ویسے تو ہمیشہ ہی ان باتوں سے بچنا چاہیےجو شریعت میں ممنوع ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ آخری عشرے کی راتوںمیںتمام شرعاً ممنوع باتوں سے مکمل پرہیز کیاجائے،کیوںکہ جب تک ممنوع باتوں سے گریز نہیں ہوگا اعمال صالحہ کی توفیق نہیں ہوگی اور ان کی نورانیت ظاہر نہیں ہوگی۔ایسانہ ہوکہ یہ مقدس راتیں گلیوںاور سڑکوںپر بائک دوڑانے،شورشرابہ کرنے،کیرم و بیڈمنٹن کھیلنے ،سیر و تفریح اوردوسرے بیہودہ کاموں میں گزر جائیں۔

 ۲۔اعتکاف: شب قدر کی تلاش کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آخری عشرے میں سارے دنیوی کاموںسے الگ ہوکراعتکاف کا اہتمام کیاجائے، جیساکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل گزرچکاہے،جب ہم اپنے آپ کو آخری عشرے میں اعتکاف کے ذریعے شب قدر کی تلاش کے لیے وقف کردیں گے اور مسجد میں ہمیشہ رہ کر اس کی عبادتوں میں لگے ہوںگےتو ضرور ہم شب قد رجیسی عظیم رات کو پالیں گے۔

۳۔دعا: شب قدر کی تلاش کے لیے ان راتوں میں سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دعا کی جائے، خاص کر وہ دعا جو حضرت عائشہ صدیقہ سےمروی کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:یارسول اللہ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ شب قدرکی رات کون سی ہے تو میں اس رات کیا دعا کروں؟ آپ نے فرمایاکہ یہ دعا کرو:
 اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔(ترمذی،کتاب الدعوات)
ترجمہ:یا اللہ!تو بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور معافی کو محبوب رکھنے والا ہے،لہٰذاتو مجھے معاف فرمادے۔
۴۔نوافل:شب قدر میں ایک بہترین عمل یہ بھی ہے کہ اس رات میںخاص طورسے نوافل ادا کیے جائیں،کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ۔(بخاری،کتاب فضل لیلۃ القدر)
ترجمہ:جو بھی شخص شب قدرمیں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے گا ،اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
 ۵۔تلاوت:اس مقدس رات میں کثرت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے،اس کی دوصورتیں ہیں:ایک تو یہ کہ نمازمیں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائےاورسنت کے مطابق آیت رحمت پر اللہ کی رحمت طلب کی جائے اور آیات عذاب پر اس کے عذاب سے پناہ مانگی جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک رکعت میں قرآن کریم مکمل کرلیتےتھے ،کیوں کہ رمضان تو قرآن کا مہینہ ہے،اوردوسری صورت یہ ہے کہ نماز کے علاوہ بھی کثرت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کی جائے۔

۶۔گریہ وزاری:اس رات میں کثرت سے اللہ کی بارگاہ میں گریہ وزاری کی جائے ،کیوںکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
لَا يَلِجُ النَّارَمَنْ بَكٰى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ۔ (ابن ماجہ،کتاب التوبہ والانابۃ)
یعنی اللہ کے خوف سے رونے والاجہنم میں نہیں جائےگا۔
خاص طورسے قرآن کریم کی تلاوت کرکے رویا جائے، کیوں کہ ہمارے اسلاف کی تلاوت لفظی نہیں ہوتی تھی،بلکہ قرآن کریم کے معانی میں غوروفکر کرتے تھے،چنانچہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاکہ میرے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کرو،میں نے عرض کیا :یارسول اللہ!میں آپ کے سامنے تلاوت کروں جب کہ قرآن کریم آپ پر نازل کیاگیاہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں دوسرے سےقرآن سننا چاہتاہوں،چنانچہ میں نے آپ کے سامنے سورۂ نسا کی تلاوت کی،اور جب اس آیت کریمہ پر پہنچاکہ
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰی هٰؤُلَآءِ شَهِیْدًا(۴۱)
 (پھر اس دن کیاحال ہوگا جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں گے اور ہم آپ کو ان سب پر گواہ بناکرلائیں گے)توآپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ (بخاری،باب فکیف اذا...)
۷۔اجتماعی ذکر الٰہی:اکیلے ذکرکرنا بھی اچھی بات ہے، لیکن بزرگوں کی صحبت میں یا اپنے نیک ساتھیوں کی صحبت میں ایسی باتیں سننا جن سے سننے والوں کے دلوں میں ایمانی حرارت پیدا ہوجائےتنہاذکر کرنے سے افضل ہے،اس لیے شب قدر میں ایسی مجلسیں تلاش کرکے اس میں شرکت کی جائے یا ایسی مجالس کا انعقاد کیا جائے۔کیوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہےکہ جب کوئی جماعت کسی مسجد میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت اور اس کے مذاکرے کے لیے جمع ہوتی ہے تو اُس پر سکینہ نازل ہوتاہے،رحمت الٰہی اُس کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، فرشتے اس کو اپنے حلقے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے قرب میں رہنے والوں میں اس کاذکر فرماتا ہے۔ (ابوداؤد،باب فی ثواب قرء القرآن )

 ۸۔کثرت استغفار:ویسے تو ہمیشہ توبہ واستغفار کرنا چاہیے لیکن برکت والی راتوں میں خصوصیت کے ساتھ اپنے گناہوں سے معافی مانگنی چاہیے ،کیوں کہ مبارک راتوں میں رحمت الٰہی جوش میں ہوتی ہے،ویسے بھی رات کے آخری پہر اور پھر شب قدر کے آخری پہر میں استغفار بہت ہی محبوب عمل ہے۔
اللہ تعالیٰ نیکوں کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸)(ذاریات)
ترجمہ:یہ نیک بندے صبح کے وقت استغفارکرتے ہیں۔
اور حدیث شریف میں ہے کہ رات کے آخری تیسرے پہر میں رب تعالیٰ نزول اجلال فرماتاہے اور فرماتاہے:
 هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِيَهٗ ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهٗ۔ (معجم طبرانی،نافع بن جبیر بن مطعم)
ترجمہ:ہے کوئی سوال کرنے والا جسےمیں عطاکروں، ہے کوئی مغفر ت طلب کرنے والا جسے میں بخش دوں۔
چنانچہ اب ہماری دینی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم شب قدر کی تلاش صحیح طریقےپرکریں تاکہ شب قدر کی برکات اپنے دامن میں سمیٹ سکیں۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0