Tabarruk Quran o Sunnat Ki Roshni Mein

Khizr-e-rah Monthlykhizr-e-rah-June-2015Ziyaurrahman Alimi                                    Download_Pdf 


تبرک :قرآن وسنت کی روشنی میں

وصال کے بعد بھی آثارِنبوی سے برکت حاصل کرنا اور برکت کی نیت سے آثارِنبوی کومحفوظ رکھنا جائزہے

۶۔حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک چادر لے کر حاضر ہوئیں اورانھوں نے عرض کیا:یارسول اللہ!
 میں یہ آپ کوپیش کررہی ہوں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت تھی، لہٰذا آپ نے اسے قبول کرلیا،جب اس چادر کو ایک صحابی نے دیکھاتوانھوں نے عرض کیا:یارسول اللہ!کتنی اچھی چادرہے،یہ آپ مجھے عطاکردیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ٹھیک ہے۔
 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو صحابہ نے اس صحابی کوملامت کی کہ حضور سے یہ چادر مانگ کر تم نے اچھانہیں کیا، کیوں کہ حضور کوتوخوداس کی حاجت تھی ،اس پر انھوں نے جواب دیا :
رَجْوْتُ بَرَکَتَہَا حِیْنَ لَبِسَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَلِّی أُکَفِّنَ فِیْہَا۔(بخاری،کتاب الادب)
ترجمہ:چوں کہ حضورنے اس جبے کو جب پہن لیاہے، اس لیے مجھے اس سےبرکت کی امید ہے ۔میری خواہش ہے کہ مجھ کو اس کا کفن دیاجائے۔
 اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجرعسقلانی فرماتے ہیں:اس حدیث میں صالحین کے آثار سے برکت حاصل کرنے کاثبوت ہے۔ (فتح الباری)
۷۔جنگ یرموک میں حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کی ٹوپی گم ہوگئی تو آپ نے اس کو تلاش کرنے کا حکم دیالیکن وہ ٹوپی نہیں ملی،پھر لوگوں نے تلاش کیا تو وہ مل گئی، دیکھاتو وہ ایک پرانی ٹوپی تھی، پھرحضرت خالد بن ولید نے فرمایا:
إعْتَمَرَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَحَلَقَ رَأسَہٗ وَابْتَدَرَ النَّاسُ جَوَانِبَ شَعْرِہٖ فَسَبَقْتُہُمْ إلٰی نَاصِیَتِہٖ فَجَعَلْتُہَا فِی ہٰذِہِ الْقَلَنْسُوَۃِ فَلَمْ أشْہَدْ قِتَالًا وَّہِیَ مَعِیْ إلَّارُزِقْتُ النَّصْرَ۔(مستدرک حاکم،ذکر مناقب خالد بن ولید)
 ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو اپنے سر کے بال منڈوائے، لوگ آپ کے مبارک بال حاصل کرنے کے لیے آپ کے سر کے مختلف حصوں کی طرف تیزی سے بڑھے تو میں آپ کی پیشانی کے بال حاصل کرنے میں سب پر سبقت لے گیا،پھراس بال کو میں نے اس ٹوپی میں ڈال دیا،تو اس بال مبارک کے صدقے جس جنگ میں بھی میں نے شرکت کی مجھے فتح وکامرانی عطا ہوئی ۔
۸۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ صحیح بخاری میں صلح حدیبیہ کے قصے کے بیان میں قریش کے نمائندے عروہ ابن مسعود کی آمد کا ذکرکرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ثُمَّ أنَّ عُرْوَۃَ جَعَلَ یَرْمُقُ اَصْحَابَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِعَیْنِہٖ فَوَاللہِ مَاتَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللہِ نُخَامَۃً إلَّا وَقَعَتْ فِی کَفِّ رَجُلٍ مِّنْہُمْ،فَدَلَکَ بِہَا وَجْہَہٗ وَجِلْدَہٗ وَإذَا أمَرَہُمْ ابْتَدَرُوْا أمْرَہٗ وَإذَاتَوَضَّأ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وَ ضُوْ ء ِہٖ۔ (بخاری،باب الشروط والمصالحہ)
ترجمہ:پھر عروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو بغور دیکھنے لگے تو اللہ کی قسم !جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناک یامنھ سے کوئی چیز پھینکتے تو وہ کسی صحابی کی ہتھیلی میں پڑتی اور وہ اسے چہرے اورجسم پر مل لیتے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو حکم دیتے تو وہ آپ کے حکم کی اطاعت کرتے اور جب وضو فرماتے تو آپ کے وضو کے پانی کو حاصل کرنے کے لیے مرمٹتے۔
 حضرت میمون بن مہران سے مروی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تو فرمایا:
کُنْتُ أوَضَّیُٔ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ قَمِیْصَہٗ وَکَسَائَیْہِ فَرَفَعْتُہٗ وَخبَأتُ قَلَامَۃَ أظْفَارِہٖ،فَإذَامِتُّ فَألْبِسُوْنِی الْقَمِیْصَ عَلٰی جِلْدِی وَاجْعَلُوْا الْقَلَامَۃَ مَسَحُوْقَۃً فِی عَیْنِی فَعَسَی اللہُ أن یَّرْحَمَنِی بِبَرَکَتِہَا۔ (تاریخ الطبری،والبلاذری فی انساب الاشراف)
 ترجمہ:میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وضوکرارہا تھا،توآپ نے اپنی قمیص اتاری اور اپنے دونوں لباس اتارے، چنانچہ میں نےاس کو اٹھالیااور آپ کے ناخن کے تراشوں کو حفاظت سے رکھ لیا،چنانچہ جب میں مرجاؤں تو مجھے وہی قمیص پہنادینااور ناخن کے تراشوں کو پیس کر میری آنکھ میں ڈال دینا،مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تبرکات کی برکت سے مجھ پر رحم فرمائےگا۔
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ صحابی رسول حضرت شداد بن اوس کے تذکرے میں نقل کرتے ہیں:
وَکَانَتِ النَّعْلُ زَوْجًا خَلَّفَہَا شَدَّادُ عِنْدَوَلَدِہٖ فَصَارَتْ إلٰی مُحَمَّدٍ بْنِ شَدَّادَ، فَلَمَّا أن رَأتْ أخْتُہٗ خِزْرَجُ مَانَزَلَ بِہٖ وَبأہْلِہٖ جَاءَتْ فَأخَذَتْ فَرَدَ النَّعْلَیْنِ وَقَالَتْ یَا أخِیْ!لَیْسَ لَکَ نَسَلٌ وَقَدْرَزَقْتُ وَلَدًا،وَہٰذِہٖ مَکْرُمَۃُ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أحِبُّ أن تُشْرِکَ فِیْہَا وَلَدِیْ، فَأخَذَتْھَا مِنْہُ۔ (سیر أعلام النبلاء،جزو:۲،الصحابۃ،شداد بن اؤس)
 ترجمہ:حضرت شداد بن اوس نے ایک جوڑے جوتے اپنے بیٹے کے پاس چھوڑے تھے،چنانچہ وہ محمدبن شداد بن اوس کے پاس رہے، پھر جب ان کی بہن خزرج نےمحمد بن شداد اور ان کے اہل وعیال پرجو مصیبت آئی تھی ،ان کو دیکھا تو وہ آئیں اور ایک جوتالے لیا اور بولیںکہ اے میرے بھائی!تمہاری کوئی اولاد نہیں ہے۔مجھے ایک بیٹا عطاہواہے اور یہ جوتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافضل وعطاہے، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ تم میرے بیٹے کو بھی اس نعمت میں شریک کرلو ،چنانچہ اُنھوں نے محمدبن شداد سے ایک جوتا لے لیا۔
گزشتہ صفحات میں بیان کی ہوئی اکثر احادیث سے پتا چلتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد بھی آپ کے آثار سے برکت حاصل کرنا اور اس نیت سے اسے محفوظ کرکے رکھنا جائزہے۔
۹۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب کسی کو کوئی تکلیف ہوتی یا کوئی پھوڑا یازخم ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمین پراپنی انگلی اس طرح رکھتے(راوی حدیث حضرت سفیان نےاپنی انگلی زمین پر رکھی اور پھر اٹھاکر دکھائی۔)پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے :
بِإسْمِ اللہِ تُرْبَۃُ أرْضِنَا بِرَیْقَۃِ بَعْضِنَا لَیُشْفیٰ بِہٖ سَقِیْمُنَابِإذْنِ رَبِّنَا۔(بخاری،کتاب الطب،باب رقیۃ النبی)
ترجمہ:اللہ کے نام سے،ہماری زمین (مدینہ)کی مٹی اورایک دوسرے کے لعاب سے ہمارے رب کی اجازت سے ہمارے بیماروں کو شفا ملتی ہے۔
۱۰۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے معراج کے بیان میں مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مقام پرکہاکہ یہاں اترکر نماز ادا کیجیے،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتر کر نماز اداکی، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
أتَدْرِی أیْنَ صَلَّیْتَ؟ صَلَّیْتَ بِبَیْتِ اللَّحْمِ حَیْثُ وُلِدَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ ۔ (سنن نسائی،کتاب الصلاۃ)
ترجمہ:آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز اداکی ہے؟آپ نے حضرت عیسیٰ کی جائے ولادت بیت اللحم میں نماز ادا کی ہے۔
 مذکورہ بالا دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نسبتوں کی بناپر کچھ خاص مقامات بھی برکت والے ہوجاتے ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنابھی جائز ہے۔
ابھی تک جواحادیث ذکرکی گئی ہیں ان سے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آثار سے تبرک کاثبوت ملتا ہے وہیں شارحین حدیث کے اقوال کی روشنی میں عام صالحین اوران کے آثار سے برکت حاصل کرنے کا بھی جواز ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ذیل میں ایک ایسی حدیث پیش کی جارہی ہے جس سے صراحتاً عام نیک لوگوں سے برکت حاصل کرنے کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔
۱۱۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
وَکَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْعَثُ إلٰی الْمَطاہِرِ فَیُؤ تٰی بِالْمَاءِ فَیَشْرِبُہٗ یَرْجُوْ بَرَکَۃَ أیْدِیْ الْمُسْلِمِیْنَ۔(طبرانی معجم الاوسط،باب من اسمہ احمد)
ترجمہ:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کوبھیج کر عام لوگوں کے برتن میں پانی منگاتے اور مسلمانوں کے ہاتھوں کی برکت حاصل ہونے کی امید سے وہ پانی نوش فرماتے۔
اس حدیث کو ہیثمی نے’’مجمع الزوائد‘‘ میں نقل کرکے فرمایا کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرک فرمانے کے باوجود اگر کوئی اللہ کے عام نیک بندوں سے برکت حاصل کرنے کو منع کرتا ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روگردانی کرنے والا اورآپ کے طریقے کی مخالفت کرنے والا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث و آثارِ صحابہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آثار سے خصوصاً اور عام صالحین اور ان کے آثار سے عموماً برکت حاصل کرنا اوراس کی تعظیم کرنا بلاشبہ جائز ومستحب ہے اور اس میں کسی قسم کے شرک کاشائبہ بھی نہیں پایاجاتااور اگرایسا ہوتا تو خوداللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس سے منع فرماتے نہ کہ خود تبرک کرکے اس کے جواز واستحباب کی دلیلیں فراہم کرتے۔

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0